بھارتی ہٹ دھرمی سارک ممالک کی ترقی میں بڑی رکاوٹ
جنوبی ایشیا دنیا کی آبادی کا 23 فیصد مگر جی ڈی پی صرف 9.75 کیوں؟
بلندو بالاپہاڑوں' چٹیل میدانوں ' بہتے ہوئے دریاؤں' لہلہاتے کھیتوں' لق ودق صحراؤں 'ہری بھری وادیوں' سرسبزو شاداب باغات اوردیو مالائی حیثیت کے حامل گلیشیرز کی سرزمین جنوب ایشیاء۔ قدرت کی فیاضیوں سے مالا مال قطعہ ارض ہے۔
قدرتی وسائل ہوں یاانسانی وسائل' موسموں کی قوس قضاء ہوکہ تہذیبوں کا تنوع' جنوبی ایشیاء کاخطہ اپنے اندرتمام تر رعنائیوں اورخصوصیات کے جواہر سمیٹے ہوئے ہے۔ جن سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے علاقے کے ممالک میں اس خیال کو فروغ حاصل ہوا کہ ایک دوسرے کے تعاون سے ان ظاہری اورپوشیدہ خزانوں کو بروئے کارلاکر اپنی پسماندگی اور محرومی کو ناصرف دورکیاجاسکتا ہے۔ بلکہ خطے کے بہتر مستقبل کے لئے باہمی مربوط کوششوں کے ذریعے ترقی کے تمام ثمرات کو علاقے کی عوام تک پہنچایاجاسکتا ہے۔
اس سوچ کو حقیقت کا روپ دینے کے سلسلے کی ابتداء اگست 1983ء میں نیودہلی میں پاکستان 'بھارت 'بنگلہ دیش' سری لنکا' نیپال' بھوٹان اورمالدیپ کے وزراء خارجہ کی منعقدہ پہلی میٹنگ میں ساوتھ ایشین ریجنل کارپوریشن (سارک ) ڈیکلریشن اختیارکرتے ہوئے انٹی گریڈڈ پروگرام آف ایکشن کے آغاز سے ہوئی جس میں ابتدائی طور پر زراعت 'دیہی ترقی' ٹیلی کمیونیکیشن 'موسمیات' صحت اور آبادی کے شعبوں کو منتحب کیا گیا۔ بعدازاں 7 تا8 دسمبر 1985ء کو ڈھاکہ بنگلہ دیش میں منعقدہ سارک ممالک کے سربراہان کی پہلی کانفرنس میں سارک کے قیام کا باقاعدہ چارٹر منظور ہوا اور یوں پاکستان' بھارت بنگلہ دیش' سری لنکا' نیپال' بھوٹان اورمالدیپ پر مشتمل ایک نئی تنظیم سارک کے نام سے معرض وجودمیں آئی۔ اور 3 اپریل 2007 کو 14 ویں سارک سربراہان کانفرنس میں افغانستان کا سارک تنظیم کے آٹھویں باقاعدہ رکن بننے کا اعلان کیا گیا۔ جس کی منظوری 13 ویں سارک سربراہان کانفرنس منعقدہ ڈھاکہ نومبر 2005ء میں دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ آسٹریلیا، چین، یورپی یونین، ایران، جاپان، جمہوریہ کوریا، موریطیس، میانمار اور امریکہ کوآبزرور کے طور پر افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں میں شمولیت کے لئے مدعو کیا جاتا ہے جس کا آغاز 14 ویں سارک کانفرنس سے کیا گیا۔
8 دسمبر 1985ء سے قائم اس تنظیم کے جہاں بہت سے مقاصد ہیں وہیں ان میں سے ایک بنیادی محرک ''خطہ کی سماجی ومعاشی ترقی اورثقافتی نشوونما کے عمل کوتقویت دینا اورخطے کی عوام کو باوقار زندگی بسرکرنے کے یکساں مواقع میسرکرنا ہیں تاکہ وہ اپنی تمام ترصلاحیتوں کا اظہارکر سکیں اور انہیں اپنے ملک اورخطے کی ترقی کے لئے بروئے کارلائیں''۔ لیکن 30 سال کاعرصہ گزر جانے کے باوجود سارک تنظیم اپنے ان مقاصد میں وہ پیش رفت حاصل نہ کر سکی جو اسے حاصل کرنا چاہیے تھی۔
انڈیا کے نام نہاد اختلافات کے روڑے اوردوسرے ممالک پر فوقیت کی روش، تنظیم کو روز اول سے اپنے زیر اثر کرنے کی کوششوں اورسارک کی تاریخ میں دو بار سارک اجلاس ملتوی کروانے کے انڈین عمل نے تنظیم کی تمام تر توانائیوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے جس سے تنظیم کا امیج ایک روایتی فورم کی صورت میں علاقے کے عوام اور بین الاقوامی برادری پر واضح ہونا شروع ہوگیا۔ ڈھاکہ بنگلہ دیش میںمنعقدہ پہلی اورکھٹمنڈو نیپال میں ہونے والی اٹھارویں سارک سربراہ کانفرنس میں فیصلے تو بہت ہوئے لیکن ان پر عملدرآمد میں کافی تشنگی رہی اس کے باعث جنوب ایشیاء کا سماجی اور معاشی منظر نامے میں بہتری کے وہ آثار پیدا نہ ہو سکے جو دنیا کے دوسرے ممالک نے حاصل کئے۔
1986ء سے2016ء تک سارک ممالک کے وزراء کی37 میٹنگز16 مختلف شعبہ جات میںہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے 42 سیشنز اور پروگرامینگ کمیٹی کے 52 سیشنز ہو چکے ہیں۔ اور سارک ممالک میں 1989ء سے2007ء تک مختلف عنوانات کے تحت ہم14 برس اور1991 سے اب تک تین عشرے بھی منا چکے ہیں لیکن ان میٹنگز، سیشنز، سالوں اور عشروں کو منانے کے باوجود خطے کے سماجی اور معاشی شعبے میں پیش رفت کے پہیئے کو ہم اتناتیز نہ کر پائے جس کی امید جنوب ایشیاء کا ہر باشندہ اپنی حکومتوں سے باندھے ہوئے ہے۔
جنوب ایشیاء کے ممالک میں مقیم دنیا کی 23.72 فیصد آبادی جس کی تعداد اقوام متحدہ کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2015 رویژن کے مطابق 2015 ء کے اختتام تک ایک ارب 74 کروڑ 38 لاکھ سے زائد تھی۔ ہر سارک سربراہ کانفرنس میں باہمی تعاون کے حقیقی روپ کو دیکھنے کے منتظر ہیں تاکہ ان کے مسائل حل ہو ں اوروہ بہتر زندگی بسرکر سکیں لیکن افسوس خطے کے ایک بڑے ملک بھارت کی سیاست عوامی مسائل کی بجائے غلبہ ( جس میںمعاشی' سیاسی' جغرافیائی اورفوجی پہلونمایاں ہیں )کے حصول کی تگ ودومیں مصروف ہے جس کے باعث علاقے کے ممالک انسانی ترقی کے معیارات کے نچلے درجوں پر موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یواین ڈی پی کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ2015 میں 188ممالک میںانسانی ترقی کے حوالے سے بنائی گئی عالمی درجہ بندی میں جنوب ایشیاء کے ممالک73ویں درجہ سے لے کر 171ویں درجہ کے درمیان میں موجودہیں۔ جو ملک اس فہرست میں جتنا نیچے جاتا جائے گا وہاں انسانی ترقی کی صورتحال اتنی ہی غیراطمینان بخش ہوتی جاتی ہے۔ انسانی ترقی کے حوالے سے مرتب شدہ اس عالمی درجہ بندی میں سری لنکا 73 ویں نمبر پر ہے جبکہ مالدیپ 104' انڈیا 130ویں ' بھوٹان 132 ویں ' بنگلہ دیش142 ویں ' نیپال145ویں، پاکستان 146ویں اور افغانستان171 ویں نمبر پر ہے۔
انسانی ترقی کے ان کم تردرجات کی کئی وجوہات میں سے ایک بھارت کے اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے کے جنون اور دوسرے ممالک میں مداخلت کرنے کی روش کے باعث دیگر ممالک کو اپنی داخلی اور خارجی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے وسائل کے ایک نمایاںحصہ کو دفاع کے شعبے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔
بین الاقوامی امن کے لئے کام کرنے والے ا نٹرنیشنل تھنک ٹینک ''سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ''کے مذکورہ سال کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق2006ء میں جنوبی ایشیاء ( افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال، پاکستان اور سری لنکا) کے فوجی اخراجات کی مالیت30 ارب83 کروڑ ڈالر تھی جوکہ2015ء تک بڑھ کر65 ارب 76 کروڑڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ یوں 10سال کے عرصہ میں جنوبی ایشیاء میں فوجی اخراجات کی مد میں 113فیصد اضافہ ہوا۔
2015ء کے مارکیٹ ایکسچینج ریٹ فارمولے کے تحت دنیامیں فو جی اخراجات کی مد میں خرچہ کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں انڈیا چھٹے نمبر پر ہے ۔ اور بھارت کی2015ء کے دوران فوجی اخراجات کی مالیت51 ارب 25 کروڑ ڈالر تھی جومذکورہ سال جنوب ایشیاء میں ہونے والے کل فوجی اخراجات کا78 فیصد ہے۔ اس طرح کے کثیر خرچے کابراہ راست اثر خطے کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات پر بھی پڑتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز 2016ء کے مطابق سارک ممالک اپنی جی ڈی پی کامجموعی طورپر2.4 فیصد دفاع کے شعبے پرخرچ کرتے ہیں۔ دفاعی شعبے میں اس نوعیت کے اخراجات خطے میں کشیدگی کی ایک علامت کے طور پر جہاں جنوبی ایشیاء کی معاشی اور سماجی ترقی کو متاثر کر رہے ہیں وہیں خطہ میں بیرونی سرمایہ کاری کے عمل میں بھی خلل کا موجب بن رہے ہیں۔
بیرونی سرمایہ کاروں کے نزدیک خطے میں موجود بعض ایسے مسائل جن میں کشمیر کامسئلہ سب سے اہم ہے کسی بھی وقت خطے کی پرامن فضاء کو متاثر کر سکتا ہے جس کی وجہ سے انہیں جنوب ایشیاء میں اپنے سرمائے کامستقبل بہت اچھے مواقعوں کی موجودگی کے باوجود محفوظ نظر نہیں آرہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ2015ء میں پوری دنیا میں 1762155 ملین ڈالر کی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ہوئی جبکہ مذکورہ سال جنوب ایشیاء میںاس کی مالیت صرف 48434 ملین ڈالر رہی جو پوری دنیامیں ہونے والی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا2.74 فیصد تھا۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی ورلڈ انویسٹمنٹ رپورٹ 2016 ء کے یہ اعدادوشمار اس صورتحال کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ خطہ میں بیرونی سرمایہ کاری کی صورتحال کیا ہے۔ خطے میں بھارت کے پیدا کردہ نام نہاد اختلافات جہاںبیرونی سرمایہ کاری کے فروغ میں رکاوٹ کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں وہیں خطے کے سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری میں محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اور مقامی سرمایہ کار خطے سے باہر سرمایہ کاری کی طرف بھی راغب ہو رہے ہیں۔
اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2015ء میں جنوب ایشیاء سے بیرونی دنیا میں کی گئی سرمایہ کاری کی مالیت 7623 ملین ڈالر تھی۔ جبکہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی رپورٹ ڈیویلپمنٹ آف کیپیٹل مارکیٹس ان ممبر کنٹریز آف سارک کے اعدادوشمار کے مطابق 2012ء میں جنوب ایشیاء کے ممالک کی سٹاک مارکیٹوں کی مارکیٹ ویلیو کی مجموعی مالیت1346523ملین ڈالر تھی۔ جبکہ ورلڈ فیڈریشنز آف ایکسچینج کے مطابق 2015ء میں دنیا کی سٹاک مارکیٹوں میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن کی مجموعی مالیت67 ٹریلین ڈالرتھی۔
یوں جنوب ایشیاء کی سٹاک مارکیٹوں میںمارکیٹ کپیٹلائزیشن کا تناسب دنیا کی مارکیٹ کی مجموعی مالیت کااعشاریہ 2 فیصد ہے۔ سرمایہ کاری کی اس صورتحال کے باعث خطے میں روزگار کی نوعیت بھی کافی متاثر ہو رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز2016 کی رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیاء کی لیبرفورس کا4 فیصد بے روزگار ہے جبکہ77 فیصد برسر روزگار افراد کا روزگار غیر یقینی کیفیت کاشکار ہے اور بھارت میں تو یہ شرح 81 فیصد تک ہے۔
اس کے علاوہ خطے میں موجود سیاحتی دلکشی کے بے شمار مواقعوں کے باوجود ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کے مطابق2015 میں عالمی سیاحوں کا 1.5 فیصد حصہ یعنی ایک کروڑ 83 لاکھ بین الاقوامی سیلانیوں نے جنوب ایشیاء کا رخ کیا۔ جس سے خطے کو صرف 31.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے جو سیاحت کی حاصل ہونے والی عالمی آمدن کا محض 2.5 فیصد ہے۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے خطے میںغربت کے سائے قدرے گہرے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت خطے میں غربت نے36 کروڑ 20 لاکھ افرادکو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
جو عالمی مجموعی غریب آبادی کا 36.8 فیصد ہے یہ سب سہارن افریقہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا تناسب ہے۔ جبکہ عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2016 ء کے مطابق جنوب ایشیاء کے ممالک کے22 فیصدعوام کی روزانہ آمدن 1.90 امریکی ڈالرسے کم ہے۔ اس غریب آبادی کا سب سے زیادہ تناسب بنگلہ دیش میں ہے جہاں44 فیصدآبادی ایک عشاریہ نوے امریکی ڈالر سے بھی کم آمدن پر زندگی کے دن کاٹ رہی ہے۔
بنگلہ دیش جس کی معیشت ماضی قریب میں مثالی حیثیت کی حامل تھی اب بھارت کی ہمنوائی اور اسے خوش کرنے والی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ 21 فیصد غریب عوام کے ساتھ بھارت دوسرے نمبر پر اور 15 فیصدغریب آبادی کے ساتھ نیپال تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی8 مالدیپ کی 6 جبکہ سری لنکا اوربھوٹان کی 2 فیصدآبادی غربت کی بین الاقوامی لائن ( 1.90 امریکی ڈالر) سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
اس غربت کی ایک وجہ سارک ممالک کی باہمی تجارت کی صورتحال بھی ہے جس کے باعث آٹھوں ممالک میں موجود صنعت کو افزائش کے وہ مواقع میسرنہیں آ پا رہے جو کہ دنیا کے دیگر خطوں میں موجود ممالک کے اتحادوں کو آپس میں حاصل ہیں۔ پونے دو ارب جنوب ایشیاء کی آبادی پر مشتمل منڈی سے سارک کے ممالک آپس میں ہی فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اس کی وجہ آپس کے اختلافات کو حل کرنے کے حوالے سے خطے کے ممالک (خاص کر بھارت کا رویہ) کے مابین سنجیدہ کوششوںکا فقدان ہے۔
2014ء تک کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق سارک ممالک کی گلوبل ٹریڈ کی مجموعی مالیت 898618 ملین ڈالر رہی جس میں سے صرف 41292 ملین ڈالر کی تجارت سارک ممالک نے باہمی طور پر کی جوکہ سارک ممالک کی گلوبل ٹریڈ (درآمدات و برآمدات کی مالیت)کا صرف 4.5 فیصد ہے۔
سارک ممالک کی معاشی صورت حال کا جائزہ اگر ہم ممالک کے جی ڈی پی کی مالیت کے پس منظر میں لیں تو اقوم متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2015ء کے مطابق2013ء میں جنوب ایشیاء کے ممالک کے جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 9305.80 ارب ڈالر تھی۔ جبکہ مذکورہ سال دنیا کے جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 97140.40 ارب ڈالر تھی یوں جنوب ایشیاء کے جی ڈی پی کاتناسب گلوبل جی ڈی پی کا 9.75 فیصد ہے۔ جبکہ جنوب ایشیاء کی آبادی دنیا کی آبادی کا23.72 فیصد ہے۔ اور اُس کا دنیا کے جی ڈی پی میں حصہ صرف 9.75 فیصد ایک فکر انگیز پہلو ہے۔
ورلڈ بینک کی ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز رپورٹ2016ء کے مطابق جنوب ایشیاء کے ممالک کے جی این آئی کی مجموعی مالیت 2014ء کے دوران 9118.90 ارب ڈالر رہی جبکہ مذکورہ سال دنیا کی جی این آئی کی مجموعی مالیت 108477.10 ارب ڈالر تھی ۔ یوں جنوب ایشیاء کے ممالک کا تناسب گلوبل جی این آئی میں8.40 فیصد بنا۔ جبکہ جنوب ایشیاء ممالک کی فی کس جی این آئی 5298 امریکی ڈالر ہے۔
اس تمام تر صورتحال کی موجودگی میں خطے کے ارباب اختیار نے ملکی اورکسی حد تک ذاتی آسائشوں کے حصول کے لئے بیرونی قرضہ جات کا ایک ایسا بوجھ خطے کے عوام کے کندھوں پر ڈال دیا ہے جس کا اٹھانا ان کے لئے محال ہوتا جا رہا ہے اور وسائل کا ایک بڑا حصہ ان مہنگے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں جنوب ایشیاء کے بجٹ میں سے ہرسال کٹ جاتا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق2014ء تک جنوب ایشیاء کے ممالک پر بیرونی قرضوں کی مالیت613379 ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور اس میں اضافہ کا عمل جاری ہے۔ بدعنوانی کے ناسور کی وجہ سے عوام کی فلاح کے نام پر حاصل کئے گئے ان قرضوں کی اکثریت ذاتی اکاؤنٹس اورتجوریوں کی نذر ہوئی جس کے باعث ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے خطے کے چند ممالک کودنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا۔
ایک طرف تنازعات اوردوسری طرف قرضوں کے بوجھ نے جنوب ایشیاء کی جہاں معاشی صورتحال کو متاثر کیا وہیں بدعنوانی نے سونے پہ سہاگہ کا کام انجام دیتے ہوئے جنوب ایشیاء میںانسانی ترقی کے لئے وسائل کی دستیابی کو پنپنے نہیںدیاجس سے خطہ کاسماجی شعبہ بری طرح محرومی کاشکارہوا۔
تعلیم جوکسی بھی قوم کی ترقی میں زینے کاکام کرتی ہے خطے میں ابھی خود زینوں کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016 ء کے مطابق جنوب ایشیاء کے ممالک میں 15سال اور اس سے زائد عمر کی آبادی میں خواندگی کی شرح 68 فیصد ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح 82 فیصد سے بھی کم ہے۔ اور خطے میں اسکولوں سے باہر ناخواندہ بالغ اور بچوں کی تعداد 38 کروڑ88 لاکھ سے زائد ہے جو عالمی تعداد کا 47.50 فیصد ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ بھارت کے ناخواندہ افراد کا جم غفیر ہے۔کیونکہ اس وقت بھارت میں دنیا کی سب سے زیادہ ناخواندہ آبادی موجود ہے۔
تعلیم کے شعبے کی یہ حالت اپنی جگہ خود ایک لمحہ فکریہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے کی کسمپرسی بھی توجہ طلب پہلو ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2016 ء کے مطابق جنوب ایشیاء میں پیدا ہونے و الے 18 لاکھ 70 ہزار بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے قبل ہی زندگی کی ڈورتوڑ بیٹھتے ہیں جو سب سہارن افریقہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اور دنیا میں ہونے والی پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کا 31 فیصد ہے۔ اور اس سنگین صورتحال کی بنیادی وجہ بھی بھارت ہی ہے کیونکہ خطے میں فوت ہونے والے ان نونہالوںکے 64 فیصد کا تعلق اکیلے بھارت سے ہی ہے۔
بچوں کی اموات کی یہ صورت حال ارباب اختیارکے سوچ کے دریچے کھولنے کا باعث تو ہو گی ہی لیکن چند اور پہلوؤں سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ ایف اے او کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی فوڈ ان سکیورٹی ان دی ورلڈ 2015 ء کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک کی15.7فیصدآبادی غذائی کمی کاشکار ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کی مجموعی آبادی کا 12.9فیصد کم خوراکی کا شکار ہے۔ بچوںمیںغذائی کمی کی صورتحال تو اس سے بھی تشویشناک ہے۔
جنوب ایشیاء کے پانچ سال سے کم عمر 30 فیصد بچے کم وزنی کا شکار ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ شرح ہے جس کی ایک وجہ توغربت کے باعث مناسب غذاکی عدم دستیابی ہے تو دوسری وجہ ماؤں کی اپنی صحت ہے جس کی وجہ سے دوران حمل بچوں کی نشوونما صحیح طور پر نہیں ہو پاتی اور وہ دنیا میں آنے کے بعد کمزوری اورکم وزنی کاشکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین میں خون کی کمی ان کی اپنی زندگیوں اورصحت کے لئے بھی خطرے کا باعث بنتی ہے۔ جنوب ایشیا میں خواتین کی تولیدی صحت کی سنگینی ان اعداد وشمار سے مزید عیاں ہوتی ہے۔
یونیسیف کے مطابق جنوب ایشیاء میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات182 فی لاکھ ہے۔ ماؤںکی صحت اور صحت کے شعبے میں دستیاب سہولیات کی کمی اور ان سے استفادہ اٹھانے کے سلسلے میں حیل و حجت کی روش کے باعث پیدا ہونے والی اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جنوب ایشیاء میں زچگی کے صرف 49 فیصدکیسز تربیت یافتہ عملہ کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ جبکہ خطے میں موجود فزیشنز کی تعداد6.8 فی دس ہزار افراد ہے جو سب سہارن افریقہ کے بعد دوسرا سب سے کم تر تناسب ہے۔
خطے میں محرومیوں اور پسماندگیوں کے بڑھتے ہوئے سایوں کے چند ایک اور منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک خطے کے باصلاحیت افرادکا دنیا کے دوسرے ممالک کی طرف نقل مکانی کا رجحان ہے۔ جس کے باعث جنوب ایشیاء کا برین ان کے اپنے ممالک سے ڈرین ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق2014 میں سارک کے پانچ ممالک افغانستان، سری لنکا' انڈیا' پاکستان اور بنگلہ دیش سے113797درخواستیں قانونی طور پر44 صنعتی ممالک میں پناہ (Asylum Applications) حاصل کرنے کے لئے جمع کروائی گئیں ۔ جو کہ اس عرصے میں کل جمع شدہ درخواستوں کا13.53 فیصد ہے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق 2014ء کے دوران سب سے زیادہ درخواستیں دینے والے ممالک کے شہریوں کی درجہ بندی میں افغانستان تیسرے، پاکستان چھٹے، بنگلہ دیش 17ویں، بھارت 22 ویں اور سری لنکا 31 ویں نمبر پر تھا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو قانونی طور پر نقل مکانی کے خواہش مند ہیں جبکہ نجانے جنوب ایشیاء کے کتنے ہی با صلاحیت افراد غیرقانونی طور پرصنعتی ممالک میں داخل ہونا چاہتے ہوں گے اور ایسے ہی افراد انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھنے کے بعد اپنی تمام جمع پونجی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ ان کا مستقبل یا تو موت کی آغوش ہوتی ہے یا پھرکسی ملک کی جیل کی کال کوٹھری۔
جنوب ایشیاء کے خطے کی اس تمام تر پسماندگی کے باعث اقوام متحدہ کی جانب سے مقررکردہ میلنیئم ڈیویلپمنٹ گولز( غربت اور فاقہ کشی میںکمی'یونیورسل پرائمری تعلیم کاحصول' صنفی برابری اور خواتین کو اختیارات کی تفویض' بچوں کی اموات کو کم کرنا' ماؤں کی صحت کو بہتر بنانا' ایڈز' ایچ آئی وی ملیریا اوردیگر بیماریوں پرقابو پانا'ماحول میں بہتری لانا اور ترقی کے لئے عالمی اتحاد کی تشکیل )کو بھی ہم بہتر طور پر حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے باہمی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں بالغ نظری اور سنجیدگی کامظاہرہ کریں تاکہ خطے کے عوام کی محرومیوں کا نہ صرف ازالہ کیا جا سکے بلکہ سارک تنظیم کے قیام کے مقصد( خطہ کی سماجی و معاشی ترقی اور ثقافتی نشوونما کے عمل کو تقویت دینا اور خطے کی عوام کو باوقار زندگی بسر کرنے کے یکساں مواقع میسر کرنا تاکہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کا احساس کر سکیں اور انہیں اپنے ملک اور خطے کی ترقی کے لئے بروئے کار لائیں ) کو حقیقی معنوں میں عملی جامعہ پہنایا جا سکے۔
اس سلسلے میں 19ویں سارک کانفرنس سے اس عمل کاباقاعدہ اورسنجیدہ آغاز ہو جاناچاہیے تھا۔کہ ہم نے اپنے مسائل خود مل کر ہی حل کرنے ہیں تاکہ خطے کی عوام کے لئے ترقی و خوشحالی کے دروازے کھول سکیں جو انہیں باہمی اتحاد اور یگانگت کی ایک مالا میں پرو دیں۔ لیکن بھارت کا رویہ اکثر ہر اُس کوشش کو سبو تاز کر تا ہے جو باہمی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا موقع فراہم کرے اوراس کا تازہ شکار19 ویں سارک سربراہ کانفرنس بنی جو 9 اور 10 نومبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونا تھی۔
قدرتی وسائل ہوں یاانسانی وسائل' موسموں کی قوس قضاء ہوکہ تہذیبوں کا تنوع' جنوبی ایشیاء کاخطہ اپنے اندرتمام تر رعنائیوں اورخصوصیات کے جواہر سمیٹے ہوئے ہے۔ جن سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے علاقے کے ممالک میں اس خیال کو فروغ حاصل ہوا کہ ایک دوسرے کے تعاون سے ان ظاہری اورپوشیدہ خزانوں کو بروئے کارلاکر اپنی پسماندگی اور محرومی کو ناصرف دورکیاجاسکتا ہے۔ بلکہ خطے کے بہتر مستقبل کے لئے باہمی مربوط کوششوں کے ذریعے ترقی کے تمام ثمرات کو علاقے کی عوام تک پہنچایاجاسکتا ہے۔
اس سوچ کو حقیقت کا روپ دینے کے سلسلے کی ابتداء اگست 1983ء میں نیودہلی میں پاکستان 'بھارت 'بنگلہ دیش' سری لنکا' نیپال' بھوٹان اورمالدیپ کے وزراء خارجہ کی منعقدہ پہلی میٹنگ میں ساوتھ ایشین ریجنل کارپوریشن (سارک ) ڈیکلریشن اختیارکرتے ہوئے انٹی گریڈڈ پروگرام آف ایکشن کے آغاز سے ہوئی جس میں ابتدائی طور پر زراعت 'دیہی ترقی' ٹیلی کمیونیکیشن 'موسمیات' صحت اور آبادی کے شعبوں کو منتحب کیا گیا۔ بعدازاں 7 تا8 دسمبر 1985ء کو ڈھاکہ بنگلہ دیش میں منعقدہ سارک ممالک کے سربراہان کی پہلی کانفرنس میں سارک کے قیام کا باقاعدہ چارٹر منظور ہوا اور یوں پاکستان' بھارت بنگلہ دیش' سری لنکا' نیپال' بھوٹان اورمالدیپ پر مشتمل ایک نئی تنظیم سارک کے نام سے معرض وجودمیں آئی۔ اور 3 اپریل 2007 کو 14 ویں سارک سربراہان کانفرنس میں افغانستان کا سارک تنظیم کے آٹھویں باقاعدہ رکن بننے کا اعلان کیا گیا۔ جس کی منظوری 13 ویں سارک سربراہان کانفرنس منعقدہ ڈھاکہ نومبر 2005ء میں دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ آسٹریلیا، چین، یورپی یونین، ایران، جاپان، جمہوریہ کوریا، موریطیس، میانمار اور امریکہ کوآبزرور کے طور پر افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں میں شمولیت کے لئے مدعو کیا جاتا ہے جس کا آغاز 14 ویں سارک کانفرنس سے کیا گیا۔
8 دسمبر 1985ء سے قائم اس تنظیم کے جہاں بہت سے مقاصد ہیں وہیں ان میں سے ایک بنیادی محرک ''خطہ کی سماجی ومعاشی ترقی اورثقافتی نشوونما کے عمل کوتقویت دینا اورخطے کی عوام کو باوقار زندگی بسرکرنے کے یکساں مواقع میسرکرنا ہیں تاکہ وہ اپنی تمام ترصلاحیتوں کا اظہارکر سکیں اور انہیں اپنے ملک اورخطے کی ترقی کے لئے بروئے کارلائیں''۔ لیکن 30 سال کاعرصہ گزر جانے کے باوجود سارک تنظیم اپنے ان مقاصد میں وہ پیش رفت حاصل نہ کر سکی جو اسے حاصل کرنا چاہیے تھی۔
انڈیا کے نام نہاد اختلافات کے روڑے اوردوسرے ممالک پر فوقیت کی روش، تنظیم کو روز اول سے اپنے زیر اثر کرنے کی کوششوں اورسارک کی تاریخ میں دو بار سارک اجلاس ملتوی کروانے کے انڈین عمل نے تنظیم کی تمام تر توانائیوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے جس سے تنظیم کا امیج ایک روایتی فورم کی صورت میں علاقے کے عوام اور بین الاقوامی برادری پر واضح ہونا شروع ہوگیا۔ ڈھاکہ بنگلہ دیش میںمنعقدہ پہلی اورکھٹمنڈو نیپال میں ہونے والی اٹھارویں سارک سربراہ کانفرنس میں فیصلے تو بہت ہوئے لیکن ان پر عملدرآمد میں کافی تشنگی رہی اس کے باعث جنوب ایشیاء کا سماجی اور معاشی منظر نامے میں بہتری کے وہ آثار پیدا نہ ہو سکے جو دنیا کے دوسرے ممالک نے حاصل کئے۔
1986ء سے2016ء تک سارک ممالک کے وزراء کی37 میٹنگز16 مختلف شعبہ جات میںہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹینڈنگ کمیٹی کے 42 سیشنز اور پروگرامینگ کمیٹی کے 52 سیشنز ہو چکے ہیں۔ اور سارک ممالک میں 1989ء سے2007ء تک مختلف عنوانات کے تحت ہم14 برس اور1991 سے اب تک تین عشرے بھی منا چکے ہیں لیکن ان میٹنگز، سیشنز، سالوں اور عشروں کو منانے کے باوجود خطے کے سماجی اور معاشی شعبے میں پیش رفت کے پہیئے کو ہم اتناتیز نہ کر پائے جس کی امید جنوب ایشیاء کا ہر باشندہ اپنی حکومتوں سے باندھے ہوئے ہے۔
جنوب ایشیاء کے ممالک میں مقیم دنیا کی 23.72 فیصد آبادی جس کی تعداد اقوام متحدہ کی ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2015 رویژن کے مطابق 2015 ء کے اختتام تک ایک ارب 74 کروڑ 38 لاکھ سے زائد تھی۔ ہر سارک سربراہ کانفرنس میں باہمی تعاون کے حقیقی روپ کو دیکھنے کے منتظر ہیں تاکہ ان کے مسائل حل ہو ں اوروہ بہتر زندگی بسرکر سکیں لیکن افسوس خطے کے ایک بڑے ملک بھارت کی سیاست عوامی مسائل کی بجائے غلبہ ( جس میںمعاشی' سیاسی' جغرافیائی اورفوجی پہلونمایاں ہیں )کے حصول کی تگ ودومیں مصروف ہے جس کے باعث علاقے کے ممالک انسانی ترقی کے معیارات کے نچلے درجوں پر موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یواین ڈی پی کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ2015 میں 188ممالک میںانسانی ترقی کے حوالے سے بنائی گئی عالمی درجہ بندی میں جنوب ایشیاء کے ممالک73ویں درجہ سے لے کر 171ویں درجہ کے درمیان میں موجودہیں۔ جو ملک اس فہرست میں جتنا نیچے جاتا جائے گا وہاں انسانی ترقی کی صورتحال اتنی ہی غیراطمینان بخش ہوتی جاتی ہے۔ انسانی ترقی کے حوالے سے مرتب شدہ اس عالمی درجہ بندی میں سری لنکا 73 ویں نمبر پر ہے جبکہ مالدیپ 104' انڈیا 130ویں ' بھوٹان 132 ویں ' بنگلہ دیش142 ویں ' نیپال145ویں، پاکستان 146ویں اور افغانستان171 ویں نمبر پر ہے۔
انسانی ترقی کے ان کم تردرجات کی کئی وجوہات میں سے ایک بھارت کے اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے کے جنون اور دوسرے ممالک میں مداخلت کرنے کی روش کے باعث دیگر ممالک کو اپنی داخلی اور خارجی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے وسائل کے ایک نمایاںحصہ کو دفاع کے شعبے پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔
بین الاقوامی امن کے لئے کام کرنے والے ا نٹرنیشنل تھنک ٹینک ''سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ''کے مذکورہ سال کے ایکسچینج ریٹ کے مطابق2006ء میں جنوبی ایشیاء ( افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا، نیپال، پاکستان اور سری لنکا) کے فوجی اخراجات کی مالیت30 ارب83 کروڑ ڈالر تھی جوکہ2015ء تک بڑھ کر65 ارب 76 کروڑڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ یوں 10سال کے عرصہ میں جنوبی ایشیاء میں فوجی اخراجات کی مد میں 113فیصد اضافہ ہوا۔
2015ء کے مارکیٹ ایکسچینج ریٹ فارمولے کے تحت دنیامیں فو جی اخراجات کی مد میں خرچہ کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں انڈیا چھٹے نمبر پر ہے ۔ اور بھارت کی2015ء کے دوران فوجی اخراجات کی مالیت51 ارب 25 کروڑ ڈالر تھی جومذکورہ سال جنوب ایشیاء میں ہونے والے کل فوجی اخراجات کا78 فیصد ہے۔ اس طرح کے کثیر خرچے کابراہ راست اثر خطے کے دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات پر بھی پڑتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز 2016ء کے مطابق سارک ممالک اپنی جی ڈی پی کامجموعی طورپر2.4 فیصد دفاع کے شعبے پرخرچ کرتے ہیں۔ دفاعی شعبے میں اس نوعیت کے اخراجات خطے میں کشیدگی کی ایک علامت کے طور پر جہاں جنوبی ایشیاء کی معاشی اور سماجی ترقی کو متاثر کر رہے ہیں وہیں خطہ میں بیرونی سرمایہ کاری کے عمل میں بھی خلل کا موجب بن رہے ہیں۔
بیرونی سرمایہ کاروں کے نزدیک خطے میں موجود بعض ایسے مسائل جن میں کشمیر کامسئلہ سب سے اہم ہے کسی بھی وقت خطے کی پرامن فضاء کو متاثر کر سکتا ہے جس کی وجہ سے انہیں جنوب ایشیاء میں اپنے سرمائے کامستقبل بہت اچھے مواقعوں کی موجودگی کے باوجود محفوظ نظر نہیں آرہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ2015ء میں پوری دنیا میں 1762155 ملین ڈالر کی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ہوئی جبکہ مذکورہ سال جنوب ایشیاء میںاس کی مالیت صرف 48434 ملین ڈالر رہی جو پوری دنیامیں ہونے والی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کا2.74 فیصد تھا۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی ورلڈ انویسٹمنٹ رپورٹ 2016 ء کے یہ اعدادوشمار اس صورتحال کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ خطہ میں بیرونی سرمایہ کاری کی صورتحال کیا ہے۔ خطے میں بھارت کے پیدا کردہ نام نہاد اختلافات جہاںبیرونی سرمایہ کاری کے فروغ میں رکاوٹ کا پیش خیمہ ثابت ہو رہے ہیں وہیں خطے کے سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری میں محتاط رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اور مقامی سرمایہ کار خطے سے باہر سرمایہ کاری کی طرف بھی راغب ہو رہے ہیں۔
اعدادوشمار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2015ء میں جنوب ایشیاء سے بیرونی دنیا میں کی گئی سرمایہ کاری کی مالیت 7623 ملین ڈالر تھی۔ جبکہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کی رپورٹ ڈیویلپمنٹ آف کیپیٹل مارکیٹس ان ممبر کنٹریز آف سارک کے اعدادوشمار کے مطابق 2012ء میں جنوب ایشیاء کے ممالک کی سٹاک مارکیٹوں کی مارکیٹ ویلیو کی مجموعی مالیت1346523ملین ڈالر تھی۔ جبکہ ورلڈ فیڈریشنز آف ایکسچینج کے مطابق 2015ء میں دنیا کی سٹاک مارکیٹوں میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن کی مجموعی مالیت67 ٹریلین ڈالرتھی۔
یوں جنوب ایشیاء کی سٹاک مارکیٹوں میںمارکیٹ کپیٹلائزیشن کا تناسب دنیا کی مارکیٹ کی مجموعی مالیت کااعشاریہ 2 فیصد ہے۔ سرمایہ کاری کی اس صورتحال کے باعث خطے میں روزگار کی نوعیت بھی کافی متاثر ہو رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز2016 کی رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیاء کی لیبرفورس کا4 فیصد بے روزگار ہے جبکہ77 فیصد برسر روزگار افراد کا روزگار غیر یقینی کیفیت کاشکار ہے اور بھارت میں تو یہ شرح 81 فیصد تک ہے۔
اس کے علاوہ خطے میں موجود سیاحتی دلکشی کے بے شمار مواقعوں کے باوجود ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کے مطابق2015 میں عالمی سیاحوں کا 1.5 فیصد حصہ یعنی ایک کروڑ 83 لاکھ بین الاقوامی سیلانیوں نے جنوب ایشیاء کا رخ کیا۔ جس سے خطے کو صرف 31.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے جو سیاحت کی حاصل ہونے والی عالمی آمدن کا محض 2.5 فیصد ہے۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے خطے میںغربت کے سائے قدرے گہرے ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت خطے میں غربت نے36 کروڑ 20 لاکھ افرادکو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
جو عالمی مجموعی غریب آبادی کا 36.8 فیصد ہے یہ سب سہارن افریقہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا تناسب ہے۔ جبکہ عالمی ادارہ اطفال کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2016 ء کے مطابق جنوب ایشیاء کے ممالک کے22 فیصدعوام کی روزانہ آمدن 1.90 امریکی ڈالرسے کم ہے۔ اس غریب آبادی کا سب سے زیادہ تناسب بنگلہ دیش میں ہے جہاں44 فیصدآبادی ایک عشاریہ نوے امریکی ڈالر سے بھی کم آمدن پر زندگی کے دن کاٹ رہی ہے۔
بنگلہ دیش جس کی معیشت ماضی قریب میں مثالی حیثیت کی حامل تھی اب بھارت کی ہمنوائی اور اسے خوش کرنے والی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ 21 فیصد غریب عوام کے ساتھ بھارت دوسرے نمبر پر اور 15 فیصدغریب آبادی کے ساتھ نیپال تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی8 مالدیپ کی 6 جبکہ سری لنکا اوربھوٹان کی 2 فیصدآبادی غربت کی بین الاقوامی لائن ( 1.90 امریکی ڈالر) سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
اس غربت کی ایک وجہ سارک ممالک کی باہمی تجارت کی صورتحال بھی ہے جس کے باعث آٹھوں ممالک میں موجود صنعت کو افزائش کے وہ مواقع میسرنہیں آ پا رہے جو کہ دنیا کے دیگر خطوں میں موجود ممالک کے اتحادوں کو آپس میں حاصل ہیں۔ پونے دو ارب جنوب ایشیاء کی آبادی پر مشتمل منڈی سے سارک کے ممالک آپس میں ہی فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اس کی وجہ آپس کے اختلافات کو حل کرنے کے حوالے سے خطے کے ممالک (خاص کر بھارت کا رویہ) کے مابین سنجیدہ کوششوںکا فقدان ہے۔
2014ء تک کے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق سارک ممالک کی گلوبل ٹریڈ کی مجموعی مالیت 898618 ملین ڈالر رہی جس میں سے صرف 41292 ملین ڈالر کی تجارت سارک ممالک نے باہمی طور پر کی جوکہ سارک ممالک کی گلوبل ٹریڈ (درآمدات و برآمدات کی مالیت)کا صرف 4.5 فیصد ہے۔
سارک ممالک کی معاشی صورت حال کا جائزہ اگر ہم ممالک کے جی ڈی پی کی مالیت کے پس منظر میں لیں تو اقوم متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2015ء کے مطابق2013ء میں جنوب ایشیاء کے ممالک کے جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 9305.80 ارب ڈالر تھی۔ جبکہ مذکورہ سال دنیا کے جی ڈی پی کی مجموعی مالیت 97140.40 ارب ڈالر تھی یوں جنوب ایشیاء کے جی ڈی پی کاتناسب گلوبل جی ڈی پی کا 9.75 فیصد ہے۔ جبکہ جنوب ایشیاء کی آبادی دنیا کی آبادی کا23.72 فیصد ہے۔ اور اُس کا دنیا کے جی ڈی پی میں حصہ صرف 9.75 فیصد ایک فکر انگیز پہلو ہے۔
ورلڈ بینک کی ورلڈ ڈیویلپمنٹ انڈیکیٹرز رپورٹ2016ء کے مطابق جنوب ایشیاء کے ممالک کے جی این آئی کی مجموعی مالیت 2014ء کے دوران 9118.90 ارب ڈالر رہی جبکہ مذکورہ سال دنیا کی جی این آئی کی مجموعی مالیت 108477.10 ارب ڈالر تھی ۔ یوں جنوب ایشیاء کے ممالک کا تناسب گلوبل جی این آئی میں8.40 فیصد بنا۔ جبکہ جنوب ایشیاء ممالک کی فی کس جی این آئی 5298 امریکی ڈالر ہے۔
اس تمام تر صورتحال کی موجودگی میں خطے کے ارباب اختیار نے ملکی اورکسی حد تک ذاتی آسائشوں کے حصول کے لئے بیرونی قرضہ جات کا ایک ایسا بوجھ خطے کے عوام کے کندھوں پر ڈال دیا ہے جس کا اٹھانا ان کے لئے محال ہوتا جا رہا ہے اور وسائل کا ایک بڑا حصہ ان مہنگے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں جنوب ایشیاء کے بجٹ میں سے ہرسال کٹ جاتا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق2014ء تک جنوب ایشیاء کے ممالک پر بیرونی قرضوں کی مالیت613379 ملین ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور اس میں اضافہ کا عمل جاری ہے۔ بدعنوانی کے ناسور کی وجہ سے عوام کی فلاح کے نام پر حاصل کئے گئے ان قرضوں کی اکثریت ذاتی اکاؤنٹس اورتجوریوں کی نذر ہوئی جس کے باعث ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے خطے کے چند ممالک کودنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا۔
ایک طرف تنازعات اوردوسری طرف قرضوں کے بوجھ نے جنوب ایشیاء کی جہاں معاشی صورتحال کو متاثر کیا وہیں بدعنوانی نے سونے پہ سہاگہ کا کام انجام دیتے ہوئے جنوب ایشیاء میںانسانی ترقی کے لئے وسائل کی دستیابی کو پنپنے نہیںدیاجس سے خطہ کاسماجی شعبہ بری طرح محرومی کاشکارہوا۔
تعلیم جوکسی بھی قوم کی ترقی میں زینے کاکام کرتی ہے خطے میں ابھی خود زینوں کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ یونیسکو کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016 ء کے مطابق جنوب ایشیاء کے ممالک میں 15سال اور اس سے زائد عمر کی آبادی میں خواندگی کی شرح 68 فیصد ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح 82 فیصد سے بھی کم ہے۔ اور خطے میں اسکولوں سے باہر ناخواندہ بالغ اور بچوں کی تعداد 38 کروڑ88 لاکھ سے زائد ہے جو عالمی تعداد کا 47.50 فیصد ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ بھارت کے ناخواندہ افراد کا جم غفیر ہے۔کیونکہ اس وقت بھارت میں دنیا کی سب سے زیادہ ناخواندہ آبادی موجود ہے۔
تعلیم کے شعبے کی یہ حالت اپنی جگہ خود ایک لمحہ فکریہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے کی کسمپرسی بھی توجہ طلب پہلو ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرنز 2016 ء کے مطابق جنوب ایشیاء میں پیدا ہونے و الے 18 لاکھ 70 ہزار بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے قبل ہی زندگی کی ڈورتوڑ بیٹھتے ہیں جو سب سہارن افریقہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ اور دنیا میں ہونے والی پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کا 31 فیصد ہے۔ اور اس سنگین صورتحال کی بنیادی وجہ بھی بھارت ہی ہے کیونکہ خطے میں فوت ہونے والے ان نونہالوںکے 64 فیصد کا تعلق اکیلے بھارت سے ہی ہے۔
بچوں کی اموات کی یہ صورت حال ارباب اختیارکے سوچ کے دریچے کھولنے کا باعث تو ہو گی ہی لیکن چند اور پہلوؤں سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ ایف اے او کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی فوڈ ان سکیورٹی ان دی ورلڈ 2015 ء کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک کی15.7فیصدآبادی غذائی کمی کاشکار ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کی مجموعی آبادی کا 12.9فیصد کم خوراکی کا شکار ہے۔ بچوںمیںغذائی کمی کی صورتحال تو اس سے بھی تشویشناک ہے۔
جنوب ایشیاء کے پانچ سال سے کم عمر 30 فیصد بچے کم وزنی کا شکار ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ شرح ہے جس کی ایک وجہ توغربت کے باعث مناسب غذاکی عدم دستیابی ہے تو دوسری وجہ ماؤں کی اپنی صحت ہے جس کی وجہ سے دوران حمل بچوں کی نشوونما صحیح طور پر نہیں ہو پاتی اور وہ دنیا میں آنے کے بعد کمزوری اورکم وزنی کاشکار رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حاملہ خواتین میں خون کی کمی ان کی اپنی زندگیوں اورصحت کے لئے بھی خطرے کا باعث بنتی ہے۔ جنوب ایشیا میں خواتین کی تولیدی صحت کی سنگینی ان اعداد وشمار سے مزید عیاں ہوتی ہے۔
یونیسیف کے مطابق جنوب ایشیاء میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات182 فی لاکھ ہے۔ ماؤںکی صحت اور صحت کے شعبے میں دستیاب سہولیات کی کمی اور ان سے استفادہ اٹھانے کے سلسلے میں حیل و حجت کی روش کے باعث پیدا ہونے والی اس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جنوب ایشیاء میں زچگی کے صرف 49 فیصدکیسز تربیت یافتہ عملہ کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ جبکہ خطے میں موجود فزیشنز کی تعداد6.8 فی دس ہزار افراد ہے جو سب سہارن افریقہ کے بعد دوسرا سب سے کم تر تناسب ہے۔
خطے میں محرومیوں اور پسماندگیوں کے بڑھتے ہوئے سایوں کے چند ایک اور منفی پہلو بھی سامنے آئے ہیں جن میں سے ایک خطے کے باصلاحیت افرادکا دنیا کے دوسرے ممالک کی طرف نقل مکانی کا رجحان ہے۔ جس کے باعث جنوب ایشیاء کا برین ان کے اپنے ممالک سے ڈرین ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق2014 میں سارک کے پانچ ممالک افغانستان، سری لنکا' انڈیا' پاکستان اور بنگلہ دیش سے113797درخواستیں قانونی طور پر44 صنعتی ممالک میں پناہ (Asylum Applications) حاصل کرنے کے لئے جمع کروائی گئیں ۔ جو کہ اس عرصے میں کل جمع شدہ درخواستوں کا13.53 فیصد ہے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق 2014ء کے دوران سب سے زیادہ درخواستیں دینے والے ممالک کے شہریوں کی درجہ بندی میں افغانستان تیسرے، پاکستان چھٹے، بنگلہ دیش 17ویں، بھارت 22 ویں اور سری لنکا 31 ویں نمبر پر تھا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو قانونی طور پر نقل مکانی کے خواہش مند ہیں جبکہ نجانے جنوب ایشیاء کے کتنے ہی با صلاحیت افراد غیرقانونی طور پرصنعتی ممالک میں داخل ہونا چاہتے ہوں گے اور ایسے ہی افراد انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھنے کے بعد اپنی تمام جمع پونجی سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ ان کا مستقبل یا تو موت کی آغوش ہوتی ہے یا پھرکسی ملک کی جیل کی کال کوٹھری۔
جنوب ایشیاء کے خطے کی اس تمام تر پسماندگی کے باعث اقوام متحدہ کی جانب سے مقررکردہ میلنیئم ڈیویلپمنٹ گولز( غربت اور فاقہ کشی میںکمی'یونیورسل پرائمری تعلیم کاحصول' صنفی برابری اور خواتین کو اختیارات کی تفویض' بچوں کی اموات کو کم کرنا' ماؤں کی صحت کو بہتر بنانا' ایڈز' ایچ آئی وی ملیریا اوردیگر بیماریوں پرقابو پانا'ماحول میں بہتری لانا اور ترقی کے لئے عالمی اتحاد کی تشکیل )کو بھی ہم بہتر طور پر حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن اب وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے باہمی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں بالغ نظری اور سنجیدگی کامظاہرہ کریں تاکہ خطے کے عوام کی محرومیوں کا نہ صرف ازالہ کیا جا سکے بلکہ سارک تنظیم کے قیام کے مقصد( خطہ کی سماجی و معاشی ترقی اور ثقافتی نشوونما کے عمل کو تقویت دینا اور خطے کی عوام کو باوقار زندگی بسر کرنے کے یکساں مواقع میسر کرنا تاکہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کا احساس کر سکیں اور انہیں اپنے ملک اور خطے کی ترقی کے لئے بروئے کار لائیں ) کو حقیقی معنوں میں عملی جامعہ پہنایا جا سکے۔
اس سلسلے میں 19ویں سارک کانفرنس سے اس عمل کاباقاعدہ اورسنجیدہ آغاز ہو جاناچاہیے تھا۔کہ ہم نے اپنے مسائل خود مل کر ہی حل کرنے ہیں تاکہ خطے کی عوام کے لئے ترقی و خوشحالی کے دروازے کھول سکیں جو انہیں باہمی اتحاد اور یگانگت کی ایک مالا میں پرو دیں۔ لیکن بھارت کا رویہ اکثر ہر اُس کوشش کو سبو تاز کر تا ہے جو باہمی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا موقع فراہم کرے اوراس کا تازہ شکار19 ویں سارک سربراہ کانفرنس بنی جو 9 اور 10 نومبر کو اسلام آباد میں منعقد ہونا تھی۔