پاکستان کے خلاف بدنام زمانہ تنظیموں ’را‘ اور ’داعش‘ کا گٹھ جوڑ

بھارت میں ’’جیمز بانڈ‘‘ کہلانے والے اجیت دوال نے غیرملکی جنگجوؤں کو ساتھ ملا لیا تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کی جا سکے

پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق مشیر قومی سلامتی بن کر اجیت دوال نے افغانستان کے کئی خفیہ دورے کیے۔ فوٹو: فائل

24 اکتوبر کی رات AK-47(کلاشنکوف) رائفلوں سے مسلح اور خودکش جیکٹیں پہنے تین دہشت گرد کوئٹہ میں واقع پولیس تربیتی مرکز میں داخل ہوئے اور دیوانہ وار فائرنگ کرنے لگے۔ اس کی زد میں آکر 62 سے زائد پولیس کیڈٹ شہید ہوگئے جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔یہ ایک نہایت بزدلانہ حملہ تھا جو نہتے کیڈٹوں پر کیا گیا۔

بعدازاں آئی جی فرنٹیرکور، میجر جنرل شیرافگن نے انکشاف کیا کہ تینوں دہشت گرد افغانستان میں بیٹھے اپنے لیڈروں سے احکامات لے رہے تھے۔ ان میں سے دو تاجک تھے اور ایک افغان! پاکستانی سکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تینوں دہشت گرد ہلاک کرڈالے۔ ان کا تعلق داعش (ISIS) سے تھا۔ جب کہ لشکر جھنگوی العالمی نے انھیں حملہ کرنے کی سہولت و مدد فراہم کی تھی۔

اس طرح بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی، را پاکستان پر ایک اور وار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ حملہ بھارتی حکومت کے اس مذموم خفیہ پلان کا حصہ ہے جس کی مدد سے وہ بلوچستان کو پاکستان سے خاکم بدہن علیحدہ کرنا چاہتی ہے ۔ اب ایسے حملوں میں شدت آئے گی کیونکہ سپرپاور امریکا بھی اس صوبے میں پاک چین اقتصادی راہداری کو عمل میں ڈھلتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ منصوبہ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اس کا اثرورسوخ کم کر دے گا۔



را پچھلے اڑتالیس برس سے بلوچستان میں سرگرم عمل علیحدگی پسند جنگجو بلوچ تنظیموں کو عسکری و مالی امداد دے رہی ہے۔ گو یہ تنظیمیں اب تک بلوچستان میں قبولیت عامہ نہیں پاسکیں۔ واقعہ نائن الیون کے بعد علاقے میں ایک نئی تبدیلی نے جنم لیا، یہ کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت کی شمولیت نے مختلف مذہبی گروہوں کو ناراض کر دیا۔ یہ گروہ پھر جنگجو تنظیموں میں ڈھل کر پاکستانی حکومت اور قوم پر حملے کرنے لگے۔ ان تنظیموں میں القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان نمایاں تھیں۔ جب ان تنظیموں کے قائدین مارے گئے، تو مختلف کارکنوں نے اپنی جنگجو تنظیمیںبنالیں۔

دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس مقولے پر عمل کرتے ہوئے را نے پاکستان دشمن تنظیموں سے رابطہ کیا اور انہیں اسلحہ و رقم فراہم کرنے لگی۔ یہ یقینی ہے کہ شروع میں را ایجنٹ مسلمان بن کر ان تنظیموں میں شامل ہوئے۔ یہ ایجنٹ پاکستان پر لعن و طعن کرنے میں طاق تھے، چناں چہ جلد قائدینِ تنظیم کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

یوں بھارتی سرمائے اور اسلحے کے بل پر پاکستان دشمن جنگجو تنظیمیں طاقتور ہوتی گئیں۔ پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں را اور دیگر پاکستان مخالف تنظیموں نے تربیتی کیمپ قائم کررکھے ہیں۔ وہاں نہ صرف کارکنوں کو عسکری تربیت دی جاتی ہے بلکہ خودکش حملہ آور بھی وہیں تیار ہوتے ہیں۔

2014ء میں قوم پرست ہندو بھارت میں برسراقتدار آگئے۔ یہ ہندو بھارت کو علاقائی سپرپاور بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم پاکستان خطے میں بھارتی حکومت کی چودھراہٹ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اسی لیے مودی حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر اتنا کمزور کردیا جائے کہ وہ آخر کار بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔



نئے وزیراعظم نریندرمودی نے ایک شاطر و عیار انٹیلی جنس افسر، اجیت دوال کو اپنا مشیر برائے قومی سلامتی مقرر کیا۔ آج یہ شخص مودی کے بعد بھارت کا دوسرا طاقت ور ترین شخص بن چکا۔ اجیت دوال دوستوں کو لڑوانے اور ان میں پھوٹ ڈلوانے کا ماہر ہے۔ اسی حکمت عملی کے ذریعے اجیت نے مقبوضہ کشمیر میں سرگرم عمل مجاہدین کو آپس میں دست و گریباں کردیا تھا اور یوں تحریک آزادی کشمیر کو سخت نقصان پہنچایا۔

اجیت دوال نے معاملات سنبھالتے ہی پاکستان پر جارحانہ حملوں کا آغاز کردیا۔ وہ یوں کہ اب پاکستان دشمن تنظیموں کو پہلے سے زیادہ سرمایہ اور اسلحہ ملنے لگا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ جون 2014ء سے جدید ترین اسلحہ لیے جنگجو اہم پاکستانی سرکاری تنصیبات پر حملے کرنے لگے۔ مثلاً 8 جون کو کراچی ہوائی اڈے پر حملہ، 15 اگست کو کوئٹہ ایئربیس نشانہ بنی، 6 ستمبر کو پاک بحریہ کی بیس پر حملہ ہوا۔ 2 نومبر کو واہگہ بارڈر پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ 16 دسمبر کو پشاور کا آرمی سکول نشانہ بنا۔ آخرالذکر واقعے کے بعد پاکستان میں چھپے بیٹھے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج وسیع پیمانے پر کارروائیاں کرنے لگی۔

پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق مشیر قومی سلامتی بن کر اجیت دوال نے افغانستان کے کئی خفیہ دورے کیے۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں موجود سبھی پاکستان دشمن تنظیموں کے لیڈروں سے ملاقات کی جاسکے۔وہ انھیں متحد کرنا چاہتا تھا۔ انہی دوروں سے اس پر افشا ہوا کہ عراق و شام کی جنگجو تنظیم، داعش بھی افغانستان میں پر پھیلا رہی ہے۔

اجیت دوال پھر نئی دہلی میں شام کے سفیر سے ملا۔ (واضح رہے، شام اور بھارت کے عرصہ دراز سے قریبی تعلقات ہیں)۔ اجیت نے شامی سفیر سے داعش کے قائدین کی تفصیل مانگ لی۔ بظاہر مقصد یہ تھا کہ بھارت داعش کو ختم کرنے کے لیے شامی حکومت کی مدد کرسکے۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ قائدین داعش کی ساری معلومات جان کر اجیت دوال ان سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔




جب ساری معلومات اکھٹی ہو چکیں تو اجیت دوال نے شام اور عراق کے خفیہ دورے کیے۔ وہاں وہ قائدینِ داعش سے ملنے میں کامیاب رہا۔پاکستان،ایران اور افغانستان جیسے اہم اسلامی خطے میں قدم جمانے اور اثرورسوخ بڑھانے کی خاطر داعش والوں نے را کی عسکری و مالی مدد قبول کرلی۔

اجیت دوال کا پلان یہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں اور داعش کو ملا کر افغانستان میں ایک طاقتور پاکستان دشمن اتحاد وجود میں لایا جائے۔ تاہم افغان طالبان اس پلان کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ افغان طالبان اپنے علاقوں میں داعش کی موجودگی نہیں چاہتے، انہیں ڈر ہے کہ یوں افغانستان میں ان کا اثرورسوخ کم ہوجائے گا۔ چناں چہ کئی علاقوں میں افغان طالبان اور داعش کے کارکنوں کے مابین جھڑپیں ہونے لگیں جو اب تک جاری ہیں۔

بھارت افغانستان میں پاکستان دشمن تنظیموں کے علاوہ داعش کی بھی حمایت کررہا ہے کیونکہ خصوصاً آخری طاقت افغان طالبان سے نبردآزما ہے۔ وجہ یہ کہ بھارت کو علم ہے، اگر افغان طالبان برسراقتدار آگئے، تو وہ بھارت کو منہ بھی نہیں لگائیں گے۔ اسی لیے وہ افغان حکومت کو کھلے عام اسلحہ اور ڈالر دیتا ہے تاکہ افغان طالبان کا قلع قمع ہوسکے۔ جبکہ پوشیدہ طور پر پاکستان دشمن تنظیموں اور داعش کی بھی ہر ممکن مدد کی جارہی ہے۔

دہشت گردوں کی آمد

فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث پاکستانی تنظیم،لشکر جھنگوی کئی بم حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں ملوث ہے۔ 2015ء میں اس تنظیم کے قائدین پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق بعدازاں تنظیم کے بقیہ لیڈر افغانستان فرار ہوگئے۔ انہوں نے وہاں داعش کے تعاون سے ایک نئی جنگجو تنظیم، لشکر جھنگوی العالمی کی بنیاد رکھی۔

یہ تنظیم دیگر پاکستان دشمن تنظیموں کے ساتھ مل کر وطن عزیز میں سرکاری تنصیبات اور اقلیتی اقوام پر بم حملے یا خودکش حملے کرتی ہے۔ افغانستان ان سبھی تنظیموں کی پناہ گاہ بن چکا۔ یہی نہیں، را اور افغان خفیہ ایجنسی، این ڈی ایس ان کے دامے درمے سخنے مدد کرتی ہیں تاکہ وہ سہولت و آرام سے پاکستان دشمن سرگرمیاں انجام دے سکیں۔

یاد رہے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر دو سو سے زائد مقامات پر آمدورفت ممکن ہے۔ ان میں سے صرف ''18'' پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کا کڑا پہرا ہے۔ جبکہ نو دیگر دخول راستوں میں بھی پاکستانی چوکیاں قائم ہیں۔ بقیہ راستوں سے کوئی بھی آزادانہ افغانستان سے پاکستان آسکتا ہے۔ پاکستانی حکومت کے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں کہ وہ تمام ''انٹری پوائنٹس'' میں کڑا پہرا لگا سکے۔ تاہم سرحد پار سے دہشت گردی روکنے کے لیے اب حکومت کو مناسب انتظام کرنا ہوگا تاکہ خصوصاً بلوچستان خوفناک المناک واقعات سے بچ سکے جن میں قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔



کوئٹہ کے پولیس تربیتی مرکز پر حملہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ عیاں کرتا ہے، داعش پاکستان میں قدم جمانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ وہ اس خطے میں بیشتر جنگجو تنظیموں کی سرپرست، القاعدہ کی جگہ لینا چاہتی ہے جسے وہ ''اسلامی ریاست خراسان''کا نام دے چکی۔ قائدینِ داعش بہ لحاظ آبادی دنیا کے دوسرے بڑے اسلامی ملک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل داعش نے افغانستان سے درجن بھر دہشت گرد پاکستان بھجوائے۔ ان دہشت گردوں کو افغان ضلع ننگرہار کے مقام کوٹ پر گوریلا جنگ لڑنے کی تربیت دی گئی تھی۔

ننگرہار صوبے میں افغان طالبان کا زور ہے تاہم پچھلے سال دو اضلاع (سپین غر اور اچین) میں دو کمانڈر، بختیار اور عبدالخالق داعش سے جاملے اور ان کے را سے بھی روابط قائم ہوگئے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی نے پھر کوئٹہ کے پولیس تربیتی مرکز پر دھاوا بولنے کی خاطر بختیار اور عبدالخالق کے جنگجوؤں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انہیں بھاری رقم دی گئی۔

پاکستان آنے والے دہشت گردوں میں تاجک، ازبک اور افغان باشندے شامل تھے۔انہیں ننگرہار میں قیام پذیر داعش کے شامی لیڈر، ابودجنہ نے عسکری تربیت دی اور گوریلا جنگ لڑنے کے اسرار و رموز سکھائے۔ یہ دہشت گرد خیبر اور کرم ایجنسی کے راستوں سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ تب پاکستان دشمن تنظیموں مثلاً تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی، جماعت الاحرار وغیرہ کے قائدین نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا۔ بعدازاں بعض دہشت گرد بلوچستان اور کچھ کراچی بھجوا دیئے گئے۔

بلوچستان میں درج بالا چاروں پاکستان دشمن تنظیمیں سرگرم ہیں۔ پنجگور، پشین، کلی حسنی (مستونگ) اور کوئٹہ میں ان کے مرکز قائم ہیں جہاں نئے دہشت گردوں کو حملوں کی خاطر تیار کیا جاتا ہے۔ لشکر جھنگوی العالمی کا مقامی کمانڈر، ضیاء اللہ المعروف بہ نواز نئے ریکروٹ لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق دنیا بھر میں خلافت قائم کرنے کی دعویدار' داعش کے کارکن جعلی ویزوں پر افغانستان یا ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ پھر مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوان تلاش کرتے اور ان کی برین واشنگ کرکے انہیں داعش میں شامل کرلیتے ہیں۔ یہ نوجوان پھر اندرون و بیرون پاکستان دہشت گردانہ کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں۔

یاد رہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے ہر صوبے میں ایپکس کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ تمام انٹیلی جنسی ایجنسیاں ان کمیٹیوں کی ارکان ہیں۔ فروری 2016ء میں بلوچستان ایپکس کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہوا تھا۔ اس میں ایپکس کمیٹی کی تحقیقی رپورٹ پیش ہوئی جس نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں چھ ہزار سے زائد دہشت گرد سرگرم ہیں۔ ان کا تعلق مختلف مذہبی و علیحدگی پسند پاکستان دشمن تنظیموں سے تھا۔ ایپکس کمیٹی نے سفارش کی کہ تمام دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ تاہم صوبائی حکومت دہشت گردوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں کرسکی۔

بلوچستان پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے منصوبے کی مخالف قوتیں اب بلوچستان میں شورش و بدامنی چاہتی ہیں تاکہ پاکستان میں خوشحالی و ترقی لانے والا یہ منصوبہ کم از کم سست روی کا شکار ہوجائے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کو چاہیے کہ وہ بہترین لائحہ عمل تشکیل دے کر دشمن قوتوں کا مقابلہ کریں اور ان کے دانت کھٹے کردیں۔

سکیورٹی فورسز اگر پاکستان اور افغانستان میں سرگرم دشمن قوتوں کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اجیت دوال کے پلان بھی دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ وہ پھر ان قوتوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو کمزور نہیں کرسکے گا۔ وطن عزیز میں جاری را کی سرگرمیاں بھی دم توڑ جائیں گی۔ انشاء اللہ سکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائیوں سے یہ منزل حاصل ہو سکے گی۔ ایک روشن اور سنہرا مستقبل پاکستان کا منتظر ہے۔
Load Next Story