زبانی جمع خرچ سے ہاکی کا مقدر نہیں سنور سکتا عملی اقدامات کئے بغیر بات نہیں بنے گی
جیت کی صورت میں اس طرح کا جشن منایا جاتا ہے جیسے ہم نے اولمپکس یا ورلڈ کپ جیت لیا ہے
KARACHI:
محمد اخلاق سابق ہاکی اولمپیئن ہیں، بارسلونا اولمپکس 1992میں برانز میڈل جیتنے والی قومی ٹیم کا حصہ بھی رہے، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما سمیت متعدد انٹرنیشنل ٹیموں کی کوچنگ کے ساتھ بنگلہ دیش میں 2010 میں شیڈول ساف گیمز میں بھارتی ٹیم کو زیر کر کے طلائی تمغہ جیتنے والی قومی ٹیم کے کوچ بھی تھے، بات بڑی منطق اور دلیل کے ساتھ کرتے ہیں، چند روز قبل سوشل میڈیا پر ان کی ایک پوسٹ پڑھی جس میں تحریر تھا کہ ایشین چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد بھارتی ٹیم اسی ماہ آسٹریلیا کا دورہ کرے گی جبکہ ایشیائی ٹائٹل گنوانے والی پاکستانی ٹیم کدھر جائے گی۔
محمد اخلاق کی اس پوسٹ پر غور کیا تو ہاکی کا منظر نامہ کسی کھلی ہوئی کتاب کی طرح میری آنکھوں کے سامنے آ گیا، ابھی چند برس پہلے ہی کی بات ہے جب بھارتی ہاکی ٹیم ناکامیوں اور مایوسیوں کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی، اولمپکس سمیت عالمی ایونٹس کے دروازے اس کیلئے ایک ایک کر کے بند ہو رہے تھے لیکن بلو شرٹس نے تاریکیوں کے گھپ اندھیروں کا مستقل مسافر بننے کی بجائے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور نہ صرف ورلڈ کپ اور اولمپکس کا دوبارہ حصہ بنی بلکہ رواں برس ہونے والے ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل کھیلنے میں بھی کامیاب رہی۔
بھارتی ٹیم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یکم نومبر کو ملائیشیا کے شہر کوآنٹن میں ختم ہونے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں نہ صرف پاکستانی ٹیم کو پہلے راؤنڈ میں زیر کیا بلکہ فائنل میں بھی گرین شرٹس کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا، بھارتی ٹیم ایشیائی ٹائٹل جیتنے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھ رہی اور اسی ماہ آسٹریلیا بھی جائے گی جبکہ ایشین ٹائٹل گنوانے والی پاکستانی ٹیم کے بارے تاحال کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ اس کی اگلی منزل کون سی ہوگی، اب تک کے شیڈول کے مطابق پاکستان کی آئندہ برس اپریل میں ملائشیا میں شیڈول سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ سے قبل کوئی انٹرنیشنل اسائنمنٹ نہیں ہے، قارئین کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کیونکہ اذلان شاہ ٹورنامنٹ ایف آئی ایچ کا ایونٹ نہیں ہے اس لئے اس کا حصہ بننے یا فائنل جیت جانے کی صورت میں بھی پاکستانی ٹیم کی عالمی رینکنگ میں بہتری کی کوئی صورت موجود نہیں۔
جب نیتوں میں کھوٹ ہو اور کھیل کی کم اور اپنی خدمت زیادہ کرنا مقصود ہوتو وہ ابابیل کے لشکر اور بدر کے فرشتے کہاں سے آئیںگے، شائقین ہاکی یہ کیسے بھول سکتے ہیں جب گرین شرٹس نہ صرف ورلڈ کپ2014ء کھیلنے سے محروم رہے بلکہ تاریخ میں پہلی بار اولمپکس میں بھی ایکشن میں دکھائی نہ دے سکے، ایف آئی ایچ کی طرف سے چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کی دعوت دی گئی لیکن ارباب اختیار نے ہار جانے کے خوف سے میگا ایونٹ میں ٹیم کو بجھوانے سے ہی انکار کر دیا۔آج صورت حال یہ ہے کہ 3 بار کی اولمپکس اور 4 مرتبہ کی عالمی چیمپئن ایف آئی ایچ کی ورلڈ رینکنگ میں تاریخ کے نچلے ترین درجے یعنی 13ویں پوزیشن پر ہے،کیا یہ ہمارے قومی کھیل کے ساتھ کھلم کھلا مذاق نہیں ہے۔
ارباب اختیار سے سوال ہے کہ کہاں گئے وہ دن جب دنیا کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، جب 1994ء کے ورلڈ کپ میں قومی کھلاڑیوں کے غیر معمولی کھیل کو دیکھ کر گورے عش عش کر اٹھے تھے اور کپتان شہباز احمد سینئر کو روک روک کر بڑے فخریہ انداز میں کہتے تھے'' یو آر جینیئس، یو آر لیجنڈآف ہاکی'' کہاں گئے وہ منیر ڈار، رشید جونیئر، اصلاح الدین صدیقی، شہناز شیخ، اختر رسول چوہدری، حسن سردار، منظور سینئر اور منظور جونیئر جن کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا، کہاں گئے وہ دن جب اولمپکس، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی یا دنیا کے بڑے سے بڑے ایونٹ کا پاکستان کے بغیر ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اب پاکستانی ٹیم ان مقابلوں میں دور دور تک ایکشن میں نظر نہیں آتی۔
آج ملائیشیا، کینیڈا، چین یا جاپان کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے بھی طرح طرح کے وسوسے جنم لیتے ہیں کہ کہیں ہار کا منہ ہی دیکھنا نہ پڑ جائے، جیت کی صورت میں اس طرح کا جشن منایا جاتا ہے جیسے ہم نے اولمپکس یا ورلڈ کپ جیت لیا ہے یا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے، پاکستانی ٹیم ایشین چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل ہارتی ہیں تو ہمارے ٹیم منیجر بڑی ڈھٹائی سے بیان دیتے ہیں کہ خامیاں دور، ہاکی کا سنہری دورجلد واپس آئے گا، حنیف خان بلاشبہ ہاکی کے بڑے کھلاڑی رہے ہیں لیکن ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے اس طرح کے بلندوبانگ دعوے سنتے سنتے شائقین کے کان پک گئے ہیں اور وہ یہ جان چکے ہیں کہ عہدیداروں کے اس طرح کے بیانات کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
ہماری ٹیمیں جب بھی انٹرنیشنل ایونٹس میں شکستوں سے دو چار ہوتی ہیں تو کوچز اور ٹیم منیجرز کی طرف سے وہی رٹا رٹایا سبق سننے کو ملتا ہے، تیاری کا زیادہ وقت نہیں مل سکا، ایونٹ میں ٹیم نے عمدہ کھیل پیش کیا، صرف ایک میچ ہارنے کی وجہ سے فیصلہ کن مرحلے تک رسائی حاصل نہ کر سکے، ہمارے پاس بال کا قبضہ 70 سے75 فیصد تک رہا، ہم نے اتنے گول کئے جبکہ ہمارے خلاف اتنے گول ہوئے، ہمارے کھلاڑیوں کے پاس کھیلنے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، پورے ملک میں گنی چنی آسٹروٹرف ہیں جبکہ ہالینڈ ، جرمنی سمیت دنیا کے وہ ممالک جو پاکستان سے بھی کئی گنا چھوٹے ہیں ان کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں آسٹروٹرف موجود ہیں۔
فیڈریشنز تو دور کی بات ان ملکوں کے کلبوں کے پاس بھی فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوتی جبکہ ہمارے مالی معاملات کی صورت حال یہ رہتی ہے کہ بسا اوقات پی ایچ ایف کے پاس چائے تک کے پیسے نہیں ہوتے ، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا اور غور کیا کہ جب فیڈریشن کا خزانہ خالی ہوتا ہے تو اسے بھرنے کے لئے حکومت کے آگے ہی کیوں جھولی پھیلائی جاتی ہے، عہدیدار خود سے سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، زیادہ نہیں تو کم از کم مارکیٹنگ کا شعبہ ہی بنا لیں تاکہ بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سرمایہ ہی آتا رہے، ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ اگر پاکستان بیس بال فیڈریشن، فٹبال فیڈریشن،سکواش ایسوسی ایشن یا کھیلوں اور تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اکٹھے کر سکتی ہیں تو ہاکی فیڈریشن ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔
راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے پی ایچ ایف کو فنڈز ملتے ہیں تو شاہ خرچیوں کی انتہا کر دی جاتی ہے، نیوٹرل مقام پر ٹیموں کے ٹریننگ کیمپس لگائے جاتے ہیں، انٹرنیشنل ایونٹس کی آڑ میں فیڈریشن عہدیداروں، ان کی فیملیز، دوستوں یاروں کے دنیا بھر کے سیر سپاٹے شروع ہو جاتے ہیں، ٹی اے ڈے اے کی مد میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپوں کی دیہاڑیاں لگتی ہیں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرنے، لگژری گاڑیوں میں پھرنے اور مختلف اقسام کے کھانے کھانے کو الگ سے ملتے ہیں، عہدیداروں کو مستعفی ہو کر یا برطرف کر کے جب گھر بھیجا جاتا ہے تو ان شاہ خرچیوں کے نتیجہ میں فیڈریشن کروڑوں روپے کی مقروض ہو چکی ہوتی ہے،خزانہ خالی ہوتے ہی پی ایچ ایف کسی ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے، ہیڈ آفس کو دن دیہاڑے ہی تالے لگا دیئے جاتے ہیں۔
صدر اور سیکرٹری کئی کئی دنوں کے بعد فیڈریشن کا رخ کرتے ہیں، جونہی حکومت کی طرف سے فنڈز ملنے کی دوبارہ نوید ملتی ہے تو ہاکی نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور کی دوبارہ رونقیں بحال ہو جاتی ہیں،سابق اولمپئنز، انٹرنیشنل کھلاڑیوں سمیت نئے نئے چہروں فیڈریشن میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں، عہدوں کے حصول کے لئے فیڈریشن عہدیداروں کو پرانی یاری دوستیوں کی یاد دلائی جاتی ہے، اپنی طرف سے ہر طرح کی وفاداری کا یقین دلایا جاتا ہے، ماضی کے حریف حلیف بن جاتے ہیں، پریس کانفرنسز میں قومی کھیل کو اس کا تابناک ماضی واپس دلانے کے بلندوبانگ دعوے شروع ہو جاتے ہیں۔
کھیل کی بہتری کی آڑ میں نت نئے منصوبے ترتیب دیئے جاتے ہیں جس کی آڑ میں فیڈریشن کے خزانے پر کاری ضرب لگائی جاتی ہے، راقم قومی کھیل کے ساتھ کھیلا جانے والا کھلواڑ گزشتہ16 برسوں سے دیکھ رہا ہے، ان برسوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میںکوئی بہتری دیکھی، نہ ہی کوئی سٹار کھلاڑی بنتے دیکھا اور نہ ہی ورلڈ کپ، اولمپکس میں گرین شرٹس کو میڈلز کی دوڑ میں شامل ہوتے دیکھا، البتہ اتنافرق ضرور پڑا ہے کہ پی ایچ ایف میں آنے والوں کے حالات بدلتے ضرور دیکھے ہیں، ان کے بینک بیلنس میںاضافہ، گھروں میں خوشحالی اور جائیدادوں میں اضافہ ضرور دیکھا ہے۔
بلاشبہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ صدر بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں، ان کی نیک نیتی اور ایمانداری پر بھی کسی کوکوئی شک نہیں ہے، سیکرٹری شہباز احمد سینئر کی ہاکی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں تاہم عہدیداروں کی اگلی صفوں میں موجود ان کے قریبی ساتھی ان کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں، جناب صدر ارسطو نے سکندر اعظم کو ایتھنز سے رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ کہ یاد رکھنا کبھی کسی بے وقوف، مفاد پرست اور ناکام شخص کو اپنا مشیر نہ بنانا اور آپ کے مشیروں کی کابینہ میں تو اسے مفاد پرستوں کی کمی نہیں، جناب صدر اور سیکرٹری صاحب ہاکی شائقین آپ کو پی ایچ ایف کے کامیاب عہدیداروں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، کامیابی کی نئی منزلوں اور نئی راہوں کے حصول کے لئے آپ کو اپنے کان اور آنکھیں دونوں کھلے رکھنا ہوں گے۔
محمد اخلاق سابق ہاکی اولمپیئن ہیں، بارسلونا اولمپکس 1992میں برانز میڈل جیتنے والی قومی ٹیم کا حصہ بھی رہے، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما سمیت متعدد انٹرنیشنل ٹیموں کی کوچنگ کے ساتھ بنگلہ دیش میں 2010 میں شیڈول ساف گیمز میں بھارتی ٹیم کو زیر کر کے طلائی تمغہ جیتنے والی قومی ٹیم کے کوچ بھی تھے، بات بڑی منطق اور دلیل کے ساتھ کرتے ہیں، چند روز قبل سوشل میڈیا پر ان کی ایک پوسٹ پڑھی جس میں تحریر تھا کہ ایشین چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد بھارتی ٹیم اسی ماہ آسٹریلیا کا دورہ کرے گی جبکہ ایشیائی ٹائٹل گنوانے والی پاکستانی ٹیم کدھر جائے گی۔
محمد اخلاق کی اس پوسٹ پر غور کیا تو ہاکی کا منظر نامہ کسی کھلی ہوئی کتاب کی طرح میری آنکھوں کے سامنے آ گیا، ابھی چند برس پہلے ہی کی بات ہے جب بھارتی ہاکی ٹیم ناکامیوں اور مایوسیوں کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی، اولمپکس سمیت عالمی ایونٹس کے دروازے اس کیلئے ایک ایک کر کے بند ہو رہے تھے لیکن بلو شرٹس نے تاریکیوں کے گھپ اندھیروں کا مستقل مسافر بننے کی بجائے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا اور نہ صرف ورلڈ کپ اور اولمپکس کا دوبارہ حصہ بنی بلکہ رواں برس ہونے والے ایف آئی ایچ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل کھیلنے میں بھی کامیاب رہی۔
بھارتی ٹیم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یکم نومبر کو ملائیشیا کے شہر کوآنٹن میں ختم ہونے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں نہ صرف پاکستانی ٹیم کو پہلے راؤنڈ میں زیر کیا بلکہ فائنل میں بھی گرین شرٹس کو ہرا کر ٹائٹل اپنے نام کیا، بھارتی ٹیم ایشیائی ٹائٹل جیتنے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھ رہی اور اسی ماہ آسٹریلیا بھی جائے گی جبکہ ایشین ٹائٹل گنوانے والی پاکستانی ٹیم کے بارے تاحال کسی کو کچھ اندازہ نہیں کہ اس کی اگلی منزل کون سی ہوگی، اب تک کے شیڈول کے مطابق پاکستان کی آئندہ برس اپریل میں ملائشیا میں شیڈول سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ سے قبل کوئی انٹرنیشنل اسائنمنٹ نہیں ہے، قارئین کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کیونکہ اذلان شاہ ٹورنامنٹ ایف آئی ایچ کا ایونٹ نہیں ہے اس لئے اس کا حصہ بننے یا فائنل جیت جانے کی صورت میں بھی پاکستانی ٹیم کی عالمی رینکنگ میں بہتری کی کوئی صورت موجود نہیں۔
جب نیتوں میں کھوٹ ہو اور کھیل کی کم اور اپنی خدمت زیادہ کرنا مقصود ہوتو وہ ابابیل کے لشکر اور بدر کے فرشتے کہاں سے آئیںگے، شائقین ہاکی یہ کیسے بھول سکتے ہیں جب گرین شرٹس نہ صرف ورلڈ کپ2014ء کھیلنے سے محروم رہے بلکہ تاریخ میں پہلی بار اولمپکس میں بھی ایکشن میں دکھائی نہ دے سکے، ایف آئی ایچ کی طرف سے چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کی دعوت دی گئی لیکن ارباب اختیار نے ہار جانے کے خوف سے میگا ایونٹ میں ٹیم کو بجھوانے سے ہی انکار کر دیا۔آج صورت حال یہ ہے کہ 3 بار کی اولمپکس اور 4 مرتبہ کی عالمی چیمپئن ایف آئی ایچ کی ورلڈ رینکنگ میں تاریخ کے نچلے ترین درجے یعنی 13ویں پوزیشن پر ہے،کیا یہ ہمارے قومی کھیل کے ساتھ کھلم کھلا مذاق نہیں ہے۔
ارباب اختیار سے سوال ہے کہ کہاں گئے وہ دن جب دنیا کہتی تھی کہ اگر ہاکی سیکھنی ہے تو پاکستان جاؤ، جب 1994ء کے ورلڈ کپ میں قومی کھلاڑیوں کے غیر معمولی کھیل کو دیکھ کر گورے عش عش کر اٹھے تھے اور کپتان شہباز احمد سینئر کو روک روک کر بڑے فخریہ انداز میں کہتے تھے'' یو آر جینیئس، یو آر لیجنڈآف ہاکی'' کہاں گئے وہ منیر ڈار، رشید جونیئر، اصلاح الدین صدیقی، شہناز شیخ، اختر رسول چوہدری، حسن سردار، منظور سینئر اور منظور جونیئر جن کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا، کہاں گئے وہ دن جب اولمپکس، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی یا دنیا کے بڑے سے بڑے ایونٹ کا پاکستان کے بغیر ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اب پاکستانی ٹیم ان مقابلوں میں دور دور تک ایکشن میں نظر نہیں آتی۔
آج ملائیشیا، کینیڈا، چین یا جاپان کے ساتھ میدان میں اترتے ہوئے بھی طرح طرح کے وسوسے جنم لیتے ہیں کہ کہیں ہار کا منہ ہی دیکھنا نہ پڑ جائے، جیت کی صورت میں اس طرح کا جشن منایا جاتا ہے جیسے ہم نے اولمپکس یا ورلڈ کپ جیت لیا ہے یا کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے، پاکستانی ٹیم ایشین چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل ہارتی ہیں تو ہمارے ٹیم منیجر بڑی ڈھٹائی سے بیان دیتے ہیں کہ خامیاں دور، ہاکی کا سنہری دورجلد واپس آئے گا، حنیف خان بلاشبہ ہاکی کے بڑے کھلاڑی رہے ہیں لیکن ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے اس طرح کے بلندوبانگ دعوے سنتے سنتے شائقین کے کان پک گئے ہیں اور وہ یہ جان چکے ہیں کہ عہدیداروں کے اس طرح کے بیانات کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
ہماری ٹیمیں جب بھی انٹرنیشنل ایونٹس میں شکستوں سے دو چار ہوتی ہیں تو کوچز اور ٹیم منیجرز کی طرف سے وہی رٹا رٹایا سبق سننے کو ملتا ہے، تیاری کا زیادہ وقت نہیں مل سکا، ایونٹ میں ٹیم نے عمدہ کھیل پیش کیا، صرف ایک میچ ہارنے کی وجہ سے فیصلہ کن مرحلے تک رسائی حاصل نہ کر سکے، ہمارے پاس بال کا قبضہ 70 سے75 فیصد تک رہا، ہم نے اتنے گول کئے جبکہ ہمارے خلاف اتنے گول ہوئے، ہمارے کھلاڑیوں کے پاس کھیلنے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، پورے ملک میں گنی چنی آسٹروٹرف ہیں جبکہ ہالینڈ ، جرمنی سمیت دنیا کے وہ ممالک جو پاکستان سے بھی کئی گنا چھوٹے ہیں ان کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں آسٹروٹرف موجود ہیں۔
فیڈریشنز تو دور کی بات ان ملکوں کے کلبوں کے پاس بھی فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہوتی جبکہ ہمارے مالی معاملات کی صورت حال یہ رہتی ہے کہ بسا اوقات پی ایچ ایف کے پاس چائے تک کے پیسے نہیں ہوتے ، یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن کبھی کسی نے سوچا اور غور کیا کہ جب فیڈریشن کا خزانہ خالی ہوتا ہے تو اسے بھرنے کے لئے حکومت کے آگے ہی کیوں جھولی پھیلائی جاتی ہے، عہدیدار خود سے سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، زیادہ نہیں تو کم از کم مارکیٹنگ کا شعبہ ہی بنا لیں تاکہ بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سرمایہ ہی آتا رہے، ارباب اقتدار سے سوال ہے کہ اگر پاکستان بیس بال فیڈریشن، فٹبال فیڈریشن،سکواش ایسوسی ایشن یا کھیلوں اور تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز اکٹھے کر سکتی ہیں تو ہاکی فیڈریشن ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔
راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حکومت کی طرف سے پی ایچ ایف کو فنڈز ملتے ہیں تو شاہ خرچیوں کی انتہا کر دی جاتی ہے، نیوٹرل مقام پر ٹیموں کے ٹریننگ کیمپس لگائے جاتے ہیں، انٹرنیشنل ایونٹس کی آڑ میں فیڈریشن عہدیداروں، ان کی فیملیز، دوستوں یاروں کے دنیا بھر کے سیر سپاٹے شروع ہو جاتے ہیں، ٹی اے ڈے اے کی مد میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں روپوں کی دیہاڑیاں لگتی ہیں، بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرنے، لگژری گاڑیوں میں پھرنے اور مختلف اقسام کے کھانے کھانے کو الگ سے ملتے ہیں، عہدیداروں کو مستعفی ہو کر یا برطرف کر کے جب گھر بھیجا جاتا ہے تو ان شاہ خرچیوں کے نتیجہ میں فیڈریشن کروڑوں روپے کی مقروض ہو چکی ہوتی ہے،خزانہ خالی ہوتے ہی پی ایچ ایف کسی ویرانے کا منظر پیش کرتا ہے، ہیڈ آفس کو دن دیہاڑے ہی تالے لگا دیئے جاتے ہیں۔
صدر اور سیکرٹری کئی کئی دنوں کے بعد فیڈریشن کا رخ کرتے ہیں، جونہی حکومت کی طرف سے فنڈز ملنے کی دوبارہ نوید ملتی ہے تو ہاکی نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور کی دوبارہ رونقیں بحال ہو جاتی ہیں،سابق اولمپئنز، انٹرنیشنل کھلاڑیوں سمیت نئے نئے چہروں فیڈریشن میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں، عہدوں کے حصول کے لئے فیڈریشن عہدیداروں کو پرانی یاری دوستیوں کی یاد دلائی جاتی ہے، اپنی طرف سے ہر طرح کی وفاداری کا یقین دلایا جاتا ہے، ماضی کے حریف حلیف بن جاتے ہیں، پریس کانفرنسز میں قومی کھیل کو اس کا تابناک ماضی واپس دلانے کے بلندوبانگ دعوے شروع ہو جاتے ہیں۔
کھیل کی بہتری کی آڑ میں نت نئے منصوبے ترتیب دیئے جاتے ہیں جس کی آڑ میں فیڈریشن کے خزانے پر کاری ضرب لگائی جاتی ہے، راقم قومی کھیل کے ساتھ کھیلا جانے والا کھلواڑ گزشتہ16 برسوں سے دیکھ رہا ہے، ان برسوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میںکوئی بہتری دیکھی، نہ ہی کوئی سٹار کھلاڑی بنتے دیکھا اور نہ ہی ورلڈ کپ، اولمپکس میں گرین شرٹس کو میڈلز کی دوڑ میں شامل ہوتے دیکھا، البتہ اتنافرق ضرور پڑا ہے کہ پی ایچ ایف میں آنے والوں کے حالات بدلتے ضرور دیکھے ہیں، ان کے بینک بیلنس میںاضافہ، گھروں میں خوشحالی اور جائیدادوں میں اضافہ ضرور دیکھا ہے۔
بلاشبہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے موجودہ صدر بریگیڈیئر(ر) خالد سجاد کھوکھر خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں، ان کی نیک نیتی اور ایمانداری پر بھی کسی کوکوئی شک نہیں ہے، سیکرٹری شہباز احمد سینئر کی ہاکی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں تاہم عہدیداروں کی اگلی صفوں میں موجود ان کے قریبی ساتھی ان کے لئے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں، جناب صدر ارسطو نے سکندر اعظم کو ایتھنز سے رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ کہ یاد رکھنا کبھی کسی بے وقوف، مفاد پرست اور ناکام شخص کو اپنا مشیر نہ بنانا اور آپ کے مشیروں کی کابینہ میں تو اسے مفاد پرستوں کی کمی نہیں، جناب صدر اور سیکرٹری صاحب ہاکی شائقین آپ کو پی ایچ ایف کے کامیاب عہدیداروں کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، کامیابی کی نئی منزلوں اور نئی راہوں کے حصول کے لئے آپ کو اپنے کان اور آنکھیں دونوں کھلے رکھنا ہوں گے۔