کراچی میں مردم شماری نہ ہوسکی نئی حلقہ بندی الیکشن کمیشن کیلئے مسئلہ بن گئی
وفاقی حکومت مردم شماری کیلیے تیار نہیں،سندھ،بلوچستان،خیبرپختونخوااورفاٹامیں امن وامان کوبہانہ بناکرتاخیرکی جارہی ہے
خانہ شماری کا مرحلہ مکمل ہوئے ایک سال سے زائد عرصہ گذر چکا ہے تاہم وفاقی حکومت مردم شماری کرانے کیلیے تیار نہیں ہے اور سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں امن وامان کی خراب صورتحال کو بنیاد بناتے ہوئے تاخیری حربے اختیارکررہی ہے۔
مردم شماری نہ ہونے کے باعث ملک بھر میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کا کام بھی التوا کا شکار ہے جبکہ آئندہ انتخابات اگلے سال منعقد کیے جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری کاکام4 سال سے تاخیر کا شکار ہے، شماریات بیورو کے مطابق اگر وفاقی حکومت ہدایت دے تو 3 ماہ میں مردم شماری کا کام مکمل کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں خانہ شماری کا کام اپریل2011 میں مکمل کیا گیا، منصوبہ بندی کے تحت مردم شماری کا کام ستمبر2011 میں کیا جانا تھا۔
تاہم وفاقی حکومت نے کراچی، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں امن وامان کی خراب صورتحال اور اندرون سندھ اور دیگر علاقوں میں سیلاب سے بے گھر ہونیوالے افراد کو جواز بناتے ہوئے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔ واضح رہے کہ خانہ شماری کے دوران بیشتر کام کرلیا جاتا ہے اور ورک لوڈ کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اوراس بنیاد پر مردم شماری کا فیلڈ ورک صرف 16 روز میں مکمل کرلیا جاتا ہے جبکہ بقیہ شماریات کا کام اسٹاف دفاتر میں بیٹھ کر بہ آسانی کرسکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی ادارۂ شماریات ڈویژن نے خانہ شماری کا ڈیٹا بھی نامعلوم وجوہ پر منجمد کردیا ہے۔ مردم شماری کی بنیاد پر ٹائون پلاننگ، این ایف سی ایوارڈ، قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں، وفاقی نوکریوں میں صوبوںکا کوٹا اور غیرملکی امداد کی تقسیم کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق مردم شماری ہر 10 سال بعد ہونی چاہیے۔ 91ء میں مردم شماری میں تاخیر کی وجہ صوبہ پنجاب کے تحفظات تھے، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں 2 بار خانہ شماری کرائی گئی تاہم پنجاب نے سندھ کے خانہ شماری کے نتائج مسترد کردیے۔
پنجاب کا موقف تھا کہ سندھ کی آبادی زیادہ دکھانے کیلیے دھاندلی کی جارہی ہے جبکہ سندھ کے قوم پرستوں اور نمائندوں کا موقف تھا کہ سندھ میں آبادی کے تناسب سے قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کے باعث مردم شماری میں تاخیر برتی جارہی ہے، اس تنازعے کے باعث 7 سال تک مردم شماری کا کام تعطل کا شکار رہا۔98ء میں مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 18لاکھ ظاہر کی گئی تاہم 20 لاکھ کو افغانی، برمی اور بنگالی وغیرہغیرقانونی تارکین وطن قرار دیدیا گیا اور مردم شماری میں کراچی کی اصل آبادی 98لاکھ شمار کی گئی۔ کراچی کے نمائندوں نے اس پر شدید اعتراض اٹھایا تاہم نوکر شاہی نے اسے مسترد کردیا۔
اس مردم شماری کے ذریعے 2002 میں ملک بھر میں نئی قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حد بندیاں کی گئیں، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر معاملات طے کیے گئے۔ اگر چہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر کراچی میں چند مقامات پر حلقہ بندیوں میں ردوبدل کی منصوبہ بندی کررہا ہے تاہم یہ کام 98ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کیا جارہا ہے جس پر اہم ترین جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو شدید تحفظات ہیں۔ شماریات کے ماہرین نے کہا کہ اگر 98ء کی طرح فوج کی معاونت حاصل کرلی جائے تو اس بار بھی عام انتخابات سے قبل مردم شماری کا کام بحسن وخوبی پورا کیاجاسکتا ہے اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاںبھی تشکیل دی جاسکتی ہیں۔
مردم شماری نہ ہونے کے باعث ملک بھر میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کا کام بھی التوا کا شکار ہے جبکہ آئندہ انتخابات اگلے سال منعقد کیے جائیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری کاکام4 سال سے تاخیر کا شکار ہے، شماریات بیورو کے مطابق اگر وفاقی حکومت ہدایت دے تو 3 ماہ میں مردم شماری کا کام مکمل کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں خانہ شماری کا کام اپریل2011 میں مکمل کیا گیا، منصوبہ بندی کے تحت مردم شماری کا کام ستمبر2011 میں کیا جانا تھا۔
تاہم وفاقی حکومت نے کراچی، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں امن وامان کی خراب صورتحال اور اندرون سندھ اور دیگر علاقوں میں سیلاب سے بے گھر ہونیوالے افراد کو جواز بناتے ہوئے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔ واضح رہے کہ خانہ شماری کے دوران بیشتر کام کرلیا جاتا ہے اور ورک لوڈ کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے اوراس بنیاد پر مردم شماری کا فیلڈ ورک صرف 16 روز میں مکمل کرلیا جاتا ہے جبکہ بقیہ شماریات کا کام اسٹاف دفاتر میں بیٹھ کر بہ آسانی کرسکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی ادارۂ شماریات ڈویژن نے خانہ شماری کا ڈیٹا بھی نامعلوم وجوہ پر منجمد کردیا ہے۔ مردم شماری کی بنیاد پر ٹائون پلاننگ، این ایف سی ایوارڈ، قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں، وفاقی نوکریوں میں صوبوںکا کوٹا اور غیرملکی امداد کی تقسیم کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق مردم شماری ہر 10 سال بعد ہونی چاہیے۔ 91ء میں مردم شماری میں تاخیر کی وجہ صوبہ پنجاب کے تحفظات تھے، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں 2 بار خانہ شماری کرائی گئی تاہم پنجاب نے سندھ کے خانہ شماری کے نتائج مسترد کردیے۔
پنجاب کا موقف تھا کہ سندھ کی آبادی زیادہ دکھانے کیلیے دھاندلی کی جارہی ہے جبکہ سندھ کے قوم پرستوں اور نمائندوں کا موقف تھا کہ سندھ میں آبادی کے تناسب سے قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کے باعث مردم شماری میں تاخیر برتی جارہی ہے، اس تنازعے کے باعث 7 سال تک مردم شماری کا کام تعطل کا شکار رہا۔98ء میں مردم شماری میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 18لاکھ ظاہر کی گئی تاہم 20 لاکھ کو افغانی، برمی اور بنگالی وغیرہغیرقانونی تارکین وطن قرار دیدیا گیا اور مردم شماری میں کراچی کی اصل آبادی 98لاکھ شمار کی گئی۔ کراچی کے نمائندوں نے اس پر شدید اعتراض اٹھایا تاہم نوکر شاہی نے اسے مسترد کردیا۔
اس مردم شماری کے ذریعے 2002 میں ملک بھر میں نئی قومی وصوبائی اسمبلیوں کی حد بندیاں کی گئیں، این ایف سی ایوارڈ اور دیگر معاملات طے کیے گئے۔ اگر چہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایت پر کراچی میں چند مقامات پر حلقہ بندیوں میں ردوبدل کی منصوبہ بندی کررہا ہے تاہم یہ کام 98ء کی مردم شماری کی بنیاد پر کیا جارہا ہے جس پر اہم ترین جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو شدید تحفظات ہیں۔ شماریات کے ماہرین نے کہا کہ اگر 98ء کی طرح فوج کی معاونت حاصل کرلی جائے تو اس بار بھی عام انتخابات سے قبل مردم شماری کا کام بحسن وخوبی پورا کیاجاسکتا ہے اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاںبھی تشکیل دی جاسکتی ہیں۔