زندگی کا ایک انداز

عزت کی زندگی یہی ہے کہ حالات اور قدرت نے جو کچھ دے دیا ہے اس کو آباد رکھا جائے

Abdulqhasan@hotmail.com

اور کوئی وجہ تو دکھائی نہیں دیتی سوائے اس کے کہ میں لاہور کی ہلکی سی سردی سے ناراض ہو کر گاؤں چلا گیا دو تین دنوں کے لیے لیکن میری عقل ماری گئی کہ لاہور کے ٹھنڈے موسم سے بھاگ کر میں اپنے پہاڑی گاؤں میں چلا گیا جہاں اگرچہ ابھی سردی نہیں آئی تھی اور میرے گاؤں میں جھانکتا ہوا محرم دیو کا پہاڑ بھی کچھ گرم ہی تھا لیکن یہ اسی آب و ہوا والا علاقہ تھا جو سردی کے استقبال کے لیے تیاری کر رہا تھا۔

کمبل بکسوں سے نکال کر جاتی دھوپ میں سکھائے جا رہے تھے چار پائیوں پر یا قریب کی جھاڑی پر ان کو تازہ ہوا اور دھوپ میں پھیلایا جا رہا تھا اور انھیں آنے والی سردی میں بستروں اور گھروں کے لیے تیار کیا جا رہا تھا وہ دن بالکل قریب تھے جب یہ کمبل راتوں کو بستروں پر بچھائے جائیں گے اور گاؤں کے لوگ انھیں سردی سے بچنے کے لیے اچھی طرح اوڑھ لیں گے اور اس طرح وہ سرد ہواؤں سے بچ کر سردیوں کا موسم گزار لیں گے اور اس دوران اپنی روٹی روز گار کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔

ہمارے سرد دیہات میں کوئی لمحہ ضایع نہیں کیا جا سکتا کہ یہ موسم یا پھر کوئی سا بھی موسم ہو وہ اپنے ساتھیوں سے کسی نہ کسی سرگرمی کا مطالبہ کرتا ہے اور یہاں اس سرد علاقے میں کوئی جنون ایسا نہیں گزرتا جو صرف گریبان چاک کرنے تک محدود ہو۔ سرسبز کھیت اپنی زندگی سرگرم رکھتے ہیں اور ان کھیتوں کے مزدور اور کاشتکار ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہو پاتے۔ کسی بھی قسم کے موسم سے بے نیاز ہو کر زندگی یہاں جاگتی رہتی ہے۔ سردی ہو یا گرمی ہر موسم عمل کے میدان کا ہوتا ہے اور ایک کاشتکار اس میدان عمل کا مزدور ہوتا ہے جو اس مزدوری میں دن رات مصروف رہتا ہے اور مستقبل کے خوابوں میں کھویا ہوا۔ یہاں کی زندگی انھی خوابوں کی زندگی ہے جو موسم کے بھی محتاج نہیں ہوتے ہیں اور اپنی ہمت سے سال کے بارہ مہینے گزار لیتے ہیں۔


یہی بارہ مہینے یعنی ایک سال ان کے لیے سال بھر کی روزی اور زندگی کا سامان کرتا ہے اور ایک دیہاتی کسی ماہانہ تنخواہ پر نہیں اسی زمینی رزق پر جیتا اور خوش رہتا ہے۔ یہ زندگی اسے باپ دادا سے ورثے میں ملی ہے زمین کی طرح اور روزی کے دوسرے سازو سامان کی طرح۔ یہ سب اگر سال بھر باقاعدگی کے ساتھ میسر رہے اور اپنے کاشتکار کی محنت کی داد دیتا رہے تو پھر اس کے علاوہ اور کیا چاہیے۔ زندگی کا یہی انداز اور پیار کسی کاشتکار کو ورثے میں ملتا ہے۔ جائیداد کی طرح بزرگوں کی دعاؤں کے ساتھ۔ یہ دعائیں اسے زندہ رکھتی ہیں اور ان دعاؤں سے آباد زمین اس کی زندگی کو پر لطف بنا دیتی ہے۔

زندگی کا یہ دیہی انداز یہاں کے باشندوں کو بہت عزیز ہے اور وہ اس کو باپ دادا کی میراث سمجھتے ہیں جو ان کو کوئی آجر نہیں خدا عطا کرتا ہے اور یہ سب اس کی وراثت ہے جو عمر بھر اس کے خاندان اور اس کے ساتھ رہتی ہے اور اسے ایک باعزت زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے اس میراث کی عزت اس کا پہلا فرض ہوتا ہے اس کی حفاظت اور اس کو زندہ و تابندہ رکھنا اس کا فرض ہوتا ہے۔ ہماری دیہاتی زندگی میں سب سے قابل شرم بات اس میراث یعنی زمین کی فروخت ہوتی ہے۔ زمین فروخت کرنے والے اور اس کی فروخت پر زندگی بسر کرنے والا ایک ناپسندیدہ کاشتکار ہوتا ہے جو گویا اپنی میراث کو بیچ کھاتا ہے اور خود کچھ نہیں کرتا۔

قدرت نے اپنے حساب میں میراث میں جو کچھ دے دیا ہے وہ بہرحال اتنا ہوتا ہے کہ اگر اس کی حفاظت کی جائے اور اس کی کاشت پر توجہ دی جائے تو وہ زندگی بھر کی روٹی دے دیتا ہے اور ایک کاشتکار کو اور کیا چاہیے۔ ہماری دیہی زندگی میں اب تک میراث کی فروخت سے زیادہ معیوب بات اور کوئی نہیں سمجھی جاتی۔ اسے گھر کی خاندان کی عزت سمجھا جاتا ہے۔ اور جب تک یہ مالک کے پاس رہتی ہے اس کی عزت برقرار رہتی ہے۔

یہی وہ میراث ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے اور اسی کے نام سے اس کے باپ دادا کی شناخت ہوتی ہے اگر کسی کو اپنی زمین یا جائداد بیچنے کی عادت پڑ جائے تو وہ اس کو فقر و فاقہ سے دو چار کر دیتی ہے کہ روزی کا یہی وہ خاندانی اور باعزت ذریعہ ہے جو روٹی کا ذریعہ بھی بنتا ہے اور معاشرتی عزت کا بھی۔ انسان اپنی اسی تھوڑی بہت جائداد کے ساتھ زندہ رہتا ہے عزت کی زندگی بسر کرتا ہے اور خدا نہ کرے حالات ناساز گار ہوں تو وہ اس جائداد کی مدد لے سکتا ہے کیونکہ یہ اس کی آباؤ اجداد کی طرف سے کسی کو میراث میں ملتی ہے۔ بہر کیف عزت کی زندگی یہی ہے کہ حالات اور قدرت نے جو کچھ دے دیا ہے اس کو آباد رکھا جائے اور اسی سے عزت حاصل کی جائے۔ یہ وہ عزت ہے جو کوئی چھین نہیں سکتا یہ ورثے میں ملتی ہے خدا ہم سب کو اس کی حفاظت کے قابل بنا دے۔
Load Next Story