رام سنگھ آزاد

مائیکل اوڈائرلاہورکے گورنرہاؤس کے لان میں بیٹھا کافی پی رہاتھا

raomanzarhayat@gmail.com

مائیکل اوڈائرلاہورکے گورنرہاؤس کے لان میں بیٹھا کافی پی رہاتھا۔ملازمین ملازم ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ یہ تمام ملازم مقامی تھے۔ان میں ہندو،سکھ اورمسلمان سب شامل تھے۔1919ء میں پنجاب کاگورنرآج کے نمائشی عہدے کی طرح نہیں بلکہ ہندوستان کے مضبوط ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔برطانوی راج عروج پر تھا اور او ڈائر کا رعب دبدبہ کسی شہنشاہ سے کم نہیں تھا۔ اس وقت گورنر کو لیفٹیننٹ گورنرکہا جاتا تھا۔ گورنرپورے پنجاب کا مالک تھا۔ وہ پنجاب جوآج کئی حصوں میں تقسیم ہوکرناقابل شناخت ہوچکاہے۔

گورنرکے ذہن میں صرف ایک پریشانی تھی۔ امرتسر میں خفیہ پولیس کی رپورٹوں کے مطابق مقامی بغاوت کا خطرہ تھا۔اوڈائرکے ذہن میں صرف ایک منصوبہ تھا۔کسی قسم کی بغاوت یاانتشارکوطاقت کے ذریعے کچل کرختم کرنا۔ برصغیرانگریزوں کی جاگیر تھی۔ مسلمان،ہندو،سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے کالی چمڑی والے لوگ غلام یا محکوم تھے۔

آج کے پاکستان میں اس محکومیت کاتصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔یہ اوربات ہے کہ ذہنی طورپرہم آج بھی غلام ہیں۔فکری غلام۔کسی قسم کی آزادسوچ سے سیکڑوں نوری سال دور۔امرتسرمیں سیف الدین کچلو اور دیگرآزادی کے خواب دیکھنے والے لوگ پولیس کی حراست میں تھے۔ گرفتاریوں کے خلاف 13اپریل 1919ء کوجلیانوالہ باغ امرتسرمیں ایک احتجاجی اجتماع منعقدکیاگیا۔گورنرنے صرف ایک فیصلہ کرنا تھا کہ نہتے لوگوںکوکیسے منتشر کیا جائے۔اس کے نزدیک یہ تمام لوگ کیڑے مکوڑے تھے اور ان کا انجام بھی ایساہی ہوناچاہیے تھا۔

گورنرنے حکم دیاکہ امرتسر میں موقعہ پرموجودکرنل ریجلیڈ ڈائرکو جلسہ پربے دریغ فائرنگ کرے۔ جلیانوالہ باغ میں قیامت برپاہوگئی۔نہتے لوگوں پراس طرح فائرنگ کی گئی کہ پورے باغ میں صرف انسانی لاشیں ہی لاشیں تھیں۔گورنرکے حکم کے مطابق کالی چمڑی والوں کوسبق سکھادیاگیا۔اس میں مسلمان، ہندو اور سکھ تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزارسے بارہ سوکے قریب نہتے لوگ فائرنگ سے لقمہ اَجل بن گئے۔ برطانوی حکومت کاشکنجہ اس قدر مضبوط تھاکہ گورنراوڈائرنے کچھ دنوں بعدانھی افسروں کے ساتھ فتح کے جام لنڈھائے۔ مگر لیفٹیننٹ گورنرسوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ جلیانوالہ باغ میں ایک ایساشخص بھی موجود تھا جوزندہ بچ گیاہے اوراس سے ظلم کابدلہ لے پائیگا۔اس انقلابی آدمی کانام تھا،رام سنگھ آزاد!

رام سنگھ ایک انتہائی عام ساانسان تھا۔ امرتسر شہر میں تصویریں بنانے کی ایک معمولی سی دکان چلاتا تھا۔ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والایہ شخص سمجھتاتھاکہ گورنر مائیکل اوڈائرنے برصغیرکے انسانوں کے خون کی ناحق ہولی کھیلی ہے اوراس سے ہرقیمت پربدلہ لیناچاہیے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ ایک زمینی خدانظرآنے والے طاقتورشخص کو ایک عام ساآدمی سبق سکھا دیگا۔

مگر رام سنگھ ایک عام ساآدمی ہرگزہرگزنہیں تھا۔ دل میں انتقام کی آگ اس درجہ بھڑک رہی تھی کہ راتوں کومسلسل جاگتا رہتاتھا۔اپنے ہم وطنوں کے قتل عام کاکیونکر انتقام لے۔جنرل مائیکل اوڈائربڑے اعزاز کے ساتھ ریٹائرڈ ہوکرواپس برطانیہ چلاگیا۔برطانوی حکومت نے اس کی خدمات کے عوض "سر"کے خطاب سے نوازا۔اب وہ صرف مائیکل اوڈائرنہیں تھا۔بلکہ اسکاپورانام سرمائیکل اوڈائرتھا۔رام سنگھ اپنی مصوری کی دکان پر بیٹھا سارادن سوچتارہتاتھاکہ کیاکرے۔دکان کے باہر اپنا پورا نام لکھا ہواتھا،رام سنگھ آزاد۔یہ ایک منفردسانام تھا۔جس میں تمام مذاہب کے لیے احترام اورعقیدت شامل تھی۔

خیررام سنگھ نے سوچنے کے بعدفیصلہ کرلیاکہ اس نے کیاکرناہے۔ خاموشی سے برطانیہ چلاگیا۔دخانی جہاز میں سفرکرنے کے بعدجب لندن پہنچاتواس کے پاس زندگی گزارنے کے لیے کوئی رقم نہیں تھی۔نوکری کی ضرورت تھی۔مختلف جگہ پرنوکریاں کرتارہا۔چھوٹی موٹی نوکری۔ کبھی مزدوری کبھی فاقہ کشی۔

کچھ عرصے کے بعدآزادکوپتہ چلاکہ جنرل سراوڈائر کو ایک ذاتی ملازم کی ضرورت ہے۔انٹرویوکے لیے سابقہ گورنر کے گھرچلاگیا۔انٹرویولیاگیااور صاحب بہادرکاخدمت گزار بنادیاگیا۔یہ ایک عجیب ساتعلق تھا۔ آزاداپنے دشمن کانوکرتھا۔اس کی پوری زندگی کا مقصد صرف ایک تھاکہ اس ظالم گورے کوجہنم واصل کرے جس نے برصغیرمیں ہزاروں مظلوموں کاناحق خون بہانے کاحکم دیاتھا۔ایک غلام کی طرح اوڈائرکی خدمت کرتاتھا۔آہستہ آہستہ جنرل اوڈائر اپنے اس خدمتی نوکر کی خدمت گزاری سے کافی متاثرہوا۔


جہاں بھی جاتا، رام سنگھ اپنے مالک کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ ایک دن اوڈائر نے شکارکاپروگرام بنایا۔رام سنگھ اس کے ہمراہ تھا۔کام تھا کہ بندوق میں کارتوس بھربھرکراپنے مالک کو دیتا جائے۔جیسے ہی مالک بندوق اس کے حوالے کرتاتھا،کمال مہارت سے نئے کارتوس ڈال کربندوق اوڈائرکے حوالے کر دیتاتھا۔کارتوس سے بھری بندوق اس کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔دوسری بندوق سے جنرل فائر کرتا تھا اورپھرخالی بندوق رام سنگھ کے حوالے کردیتاتھا۔ایک مقام پرسابقہ گورنررام سنگھ کی بندوق کی مکمل زدمیں آگیا۔

چاہتاتوبھری بندوق سے اپنے مالک کو اُڑا کر رکھ سکتا تھا۔ مگر اس نے بھرپورموقعہ ہونے کے باوجودبھی ایسی حرکت نہیں کی۔قتل نہ کرنے کی صرف ایک وجہ تھی کہ اس واقعہ کے بعدکوئی بھی انگریزبرصغیرکے کسی شخص پراعتمادنہیں کریگا۔بلکہ ہزاروں لوگ جویوکے میں محنت مزدوری کررہے ہیں،تمام کے تمام بے روزگار ہوجائینگے۔رام سنگھ نے اپناغصہ مکمل طور پر قابو میں رکھا اورمالک کوآرام سے گھرلے آیا۔چنددن بعداس نے جنرل اوڈائرکی ملازت چھوڑدی۔اب وہ کسی بھی چاکری سے مکمل آزادہوچکاتھا۔

تیرہ مارچ1940ء کواسے معلوم ہواکہ جنرل اوڈائرکیکسٹن ہال میں ایک تقریب میں حصہ لے گا۔ انتہائی پُروقارتقریب ایسٹ انڈیاایسوسی ایشن اورسینٹرل ایشین سوسائٹی کے زیراہتمام منعقدکی جارہی تھی۔ برطانوی وزراء، ممبران پارلیمنٹ اوردیگراکابرین نے آنا تھا۔ مقامی وزراء کی شمولیت کی بدولت سیکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی تھی۔ ہر آنے والے شخص کی بھرپور تلاشی لی جاتی تھی۔

رام سنگھ کی بھی مکمل تلاشی لی گئی۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ مغربی لباس میں ملبوس یہ سکھ نوجوان اپنے ساتھ ایک کتاب لیے پھر رہا ہے جس میں پستول ہے۔رام سنگھ انتہائی تسلی اوراطمینان سے ڈائس کے قریب جاکربیٹھ گیا۔ جب سابقہ گورنرکودعوت کلام دی گئی اوروہ اُٹھ کرڈائس کی جانب آرہاتھا۔رام سنگھ آزادنے انتہائی اطمینان سے بھراہوا پستول نکالا۔ چار سے پانچ فائر کیے۔

جس میں سے دوفائرجنرل اوڈائر کے سینے میں لگے۔ اور ایک لمحہ میں دم توڑگیا۔فائرکرنے کے بعد آزادآرام سے سے وہیں کھڑاہوگیا۔ فرارہونے کی کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی۔بلکہ تسلی سے مسکراتا رہا۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں ہزاروں لوگوں کے ناحق خون کابدلہ چکا نے کااطمینان شامل تھا۔آزادکوبرطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا۔مقدمہ چلایا گیا اور جسٹس ایٹکنسن (Atkinson)نے موت کی سزا سنائی۔ مقدمہ کی کاروائی انتہائی حیرت انگیز تھی۔رام سنگھ برطانوی عدالت کے سامنے قہقہے لگاتا تھا۔ انکامذاق اُڑاتاتھا۔اس نے کسی بھی الہامی کتاب پرحلف لینے سے انکارکردیا۔آپ حیران ہونگے کہ اس نے عدالتی حلف"ہیروارث شاہ"پرلیا۔

عدالت میں بیان دیاکہ اسے جنرل اوڈائرسے نفرت تھی۔نفرت کامستحق اس لیے تھاکہ اس نے برصغیرکے لوگوں میں آزادی کے جذبہ کوکچلنے کی کوشش کی تھی۔نتیجہ میں اس ظالم کوبھی کچل دیناچاہیے تھا۔آزادکے بقول اس نے انتقامی جذبہ کواکیس سال تک پالاہے۔خوشی ہے کہ اپنافرض اداکردیاہے۔رام سنگھ نے مزیدکہاکہ موت سے کسی قسم کاخوف نہیں ہے۔

اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے جان دے رہاہے۔انگریزوں کے ظلم نے مقامی لوگوں کی روٹی کا محتاج بناڈالاہے۔اس نے یہ قتل کرکے صرف ایک موثر احتجاج کیاہے۔اگراسے سزائے موت بھی ہوگئی تو برصغیر کے لوگوں کوآزادی دلوانے کے لیے اس سے خوبصورت موت کوئی اورہوہی نہیں سکتی۔جس وقت رام سنگھ کی سزائے موت پرعملدرامد کیا گیا،وہ مکمل طورپربے خوف تھا۔سکون سے چلتا ہوا پھانسی گھاٹ پہنچا۔انتہائی باوقارطریقے سے سیڑھیاں عبورکیں۔خوداپنے گلے میں پھانسی کا پھندا پہنا اور انتہائی اطمینان سے آخری سفرپرروانہ ہوگیا۔

رام سنگھ آزادکانام ہمارے ملک میں کوئی بھی نہیں جانتا۔کوئی اگرجانتابھی ہے تونام لیتے ہوئے خوف کا شکار ہوجاتاہے۔وجہ صرف یہ ہے تعصب نے ہماری آنکھوں پر وہ پٹی باندھ دی ہے کہ ہمیں دیگر مذاہب کے لوگ صرف دشمن دکھائی دیتے ہیں۔تعصب کا اندھیرہ اب برصغیرکے دونوں ملکوں میں امن کی امید کو ختم کررہاہے۔دونوں ممالک، ایک دوسرے کوبرباد کرنا اپنی قومی سلامتی کامرکزی نکتہ بتاتے ہیں۔نفرت اس درجہ زیادہ ہے کہ کوئی معقول بات سننے کے لیے تیارہی نہیں ہے۔ ہم انداہ ہی نہیں کرسکتے کہ حقیقت میں غلامی کا دور کس درجہ بدترین اورذلت آمیز ہوتا ہے۔

دونوں ممالک اب آزادہیں مگرایک دوسرے کی آزادی کے درپے ہیں۔ہیروارث شاہ پرعدالتی حلف اٹھانے والا بہادر شخص اب قصہ پارینہ بن چکاہے۔اس جری انسان نے برصغیر کے لوگوں کو آزادی دلوانے کے لیے پھانسی کے پھندے کو پھولوں کے ہارکی طرح پہن لیا۔اس طرح کے بہادرلوگوں نے انگریزکوباورکروادیاکہ برصغیرانکی جاگیرنہیں ہے۔مگرآج اس دلیرنوجوان کانام تک کوئی نہیں لیتا۔اس کے کارنامہ کے ذکرکرناتواب ناممکن سانظر آتا ہے۔ جلیانوالہ باغ میں تمام مذاہب کے لوگ مارے گئے مگراسکابدلہ صرف ایک شخص نے لیااوراسکانام تھارام سنگھ آزاد۔ لگتا ہے کہ اس عظیم شخص کی غیرمتعصب قربانی ہمارے تعصب بھرے رویوں کے پھانسی گھاٹ پررائیگاں چلی گئی!
Load Next Story