تحریک انصاف کی ناکامی

بدقسمتی سے دونوں نے پارلیمنٹ کو عضو معطل بنا دیا ہے اور اپنی لڑائیاں سڑکوں پر لڑ رہے ہیں

جنرل ایوب خان کا دور 'جنرل ضیاء کا منحوس دور اقتدار اور جنرل مشرف کی آمریت 'ان تینوں ادوار میں سے میاں نواز شریف جنرل ضیاء کے دور میں برسر اقتدار رہے 'جنرل مشرف کے دور میں کچھ سختی اور پھر 'سرور پیلس میںسعودی شاہی مہمان نوازی میں وقت گزارا 'عمران خان نے ایوب خان اور ضیاء الحق کا دور لندن کے کلبوں اور کرکٹ کے میدانوں میں لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا 'جنرل مشرف کے دور میں ان کے مشیر اور ریفرنڈم میں ان کے حامی رہے'انھوں نے آمریت کی سختیاں نہیں دیکھیں۔ میں نے بحیثیت طالبعلم اور ایک سیاسی ورکر ایوب خان کے دور سے لے کر جنرل مشرف کے دور تک تقریباً 10سال جیلوں میں گزارے یا مفرور رہا 'سب سے زیادہ تکالیف اور قید و بند کی صعوبتیں ' جنرل ضیاء الحق کے دور میں برداشت کیں 'یہ قربانیاں صرف میں نے نہیں بلکہ پاکستان کے ہزاروں سیاسی کارکنوں نے دی ہیں'یہ تکالیف اور قربانیاں جمہوری نظام کے لیے تھیں۔

افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ باوجود اتنی قربانیوں کے ملک میںجمہوریت ابھی تک مکمل طور پر نہ پنپ سکی'آج بھی سول ادارے غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ میں ہیں۔ ہمارے قائدین نے اداروں کی تشکیل 'نظام انصاف اور نظام حکومت کی اصلاح میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی 'وزیر اعظم اور حزب اختلاف جن مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں ' اس کی بنیاد پارلیمنٹ ہے ۔

بدقسمتی سے دونوں نے پارلیمنٹ کو عضو معطل بنا دیا ہے اور اپنی لڑائیاں سڑکوں پر لڑ رہے ہیں'وزیر اعظم تو پارلیمنٹ میں آنا شاید اپنی توہین سمجھتے ہیں لیکن عمران خان نے بھی آج تک پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا نہیں کیا ۔اگر اس ملک میں ادارے ہوتے' تو اسلام آباد بند کرنے کے بجائے کرپشن کا مسئلہ اداروں کے ذریعے خود بخود حل ہوجاتا 'اب بھی وقت ہے کہ اپنی لڑائیاں اور اختلافات جمہوری عمل کے ذریعے حل کیے جائیں'اس نظام کی حفاظت کرنی چائیے'ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا'ہم جیسے سیاسی ورکروں کو پتہ ہے کہ آمریت کیا ہوتی ہے 'خدا اس عذاب سے قوم کو بچائیے 'جو لیڈر آمریت کی حمایت کرے گا عوام انھیں مسترد کردیں گے۔

اب ذرا ذکر ہو جائے عمران کے اسلام آباد لاک ڈاؤن کے انیٹی کلائمکس کا 'اس تحریک کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں عوام کی کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی مشیر اطلاعات'جناب مشتاق غنی کا بیان ٹی وی پر نشر ہوا کہ جب حضرو یا برہان کے مقام پر ہمارے اوپر آنسو گیس استعمال ہوئی اور ہم نے ساری رات کھیتوں میں گزاری' تو آس پاس کے دیہات کی مقامی آبادی نے ہمیں پانی تک نہ پوچھا۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے سب کو مخالف بنالیا 'ان کا نعرہ ہے کہ '' اگر کوئی میرے ساتھ نہیں تو وہ میرا مخالف ہے'' ۔ وہ میاں صاحب کے تو دشمن ہیں لیکن قائد حزب اختلاف خورشید شاہ'جیسے نرم گفتار آدمی کو بھی نہیں بخشا اور کبھی ان کو ڈبل شاہ کہا اور کبھی نواز شریف کا زرخرید 'ملک کے کسی بھی لیڈر کو وہ اورا ن کے کارکن معاف نہیں کرتے' معلوم نہیں یہ کون سا لہجہ ہے ؟

ایک ایسی پارٹی جو سال میں تین بار تنظیم توڑتی اور بناتی ہو'گروپ بندی کا شکار ہو اور کارکن جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے تھک چکے ہوں 'ان سے زیادہ کی توقع رکھنا بھی جائز نہیں'پنجاب حکومت نے ہمیشہ عمران خان کے جلسوں کے فول پروف انتظامات کیے ہیں'یہاں تک کہ جاتی عمرہ میں نواز شریف کے گھر کے سامنے' جلسے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کیے 'جس پر شہباز شریف کی حکومت داد کی مستحق ہے۔عمران خان اور شیخ رشید نے جب اسلام آباد پہنچ کر حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا تو پھر سختی تو ہونی تھی۔ عمران خان نے دو دفعہ پورے ملک میں احتجاج کی کال دی لیکن کہیں پتا بھی نہیں ہلا ۔

پرویز خٹک نے اسلام آباد جانے سے قبل مانکی شریف اور پھر صوابی انٹر چینج پر انتہائی جارحانہ انداز میں مرکز کو للکارا اور کہا کہ ''میں بنی گالہ جاکر عمران خان کو رہا کراؤں گا 'میں پختون ہوں اور دیکھوں گا کہ مجھے کون روکتا ہے''ان کی باتیں ایک وزیر اعلی کی شان کے خلاف تھیں'انھوں نے اس نان ایشو کو پنجابی پختون کا مسئلہ بنانے کی کو شش کی 'حالانکہ لاکھوںپختون اسلام آباد 'راولپنڈی اور پنجاب کے دیگر شہروں میں عزت و احترام سے اپنا کاروبار یا مزدوری کررہے ہیں'ان کی تقریر سے ایسا لگتا تھا کہ احمد شاہ بابا یا محمود غزنوی قبر سے اٹھ کر ہندوستان پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔


ایک دوست کا یہ تجزیہ ہے کہ' ا س تلخ اور دھمکی آمیز لہجے میںتقریر کا مطلب تھا کہ 'مجھے روک لو' ورنہ میرے ارادے ٹھیک نہیں ہیں'ان کے ہمراہ'وزراء اور ممبران اسمبلی کے علاوہ ' وادی پشاور کے پانچ چھ اضلاع سے صرف تین چار ہزار افراد تھے'ڈیرہ اسماعیل خان کے ہیرو تو چند ساتھیوں اور نوکروں کے ہمراہ اسلام آباد کی سڑکوں پر دوڑتے پھر رہے تھے اور ہزارہ کے رہنماء صوابی انٹر چینج پر اکیلے آئے تھے ۔

سندھ اور بلوچستان کا تو ذکر کیا پنجاب نے بھی انتہائی مایوس کیا حالانکہ 2011کے بعد عمران خان کی ساری توجہ کا مرکز پنجاب ہی ہے 'پنجاب کی عدم شرکت حیران کن تھی 'اگر چہ یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے کہ' پنجاب حکومت نے ان کارکنوں کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے تھے' لیکن کسی فرد یا مجمع نے وہاں سے اسلام آباد آنے کی کوئی کو شش بھی تو نہیں کی 'نہ ہی پنجاب کے شہروں میں احتجاج کی کوئی خبر آئی۔

چند پیدل افراد ہی اسلام آباد کی طرف آرہے تھے 'بعد میں ان کا بھی پتہ نہیں لگا۔پارٹی کے اہم رہنماؤں کا تعلق پنجاب سے ہے 'یہ سارے رہنماء تو اپنے علاقوں سے عوام کو نکالنے کے بجائے بنی گالہ میں بیٹھے رہے 'جہانگیر ترین'شاہ محمود قریشی 'چوہدری سرور اور علیم خان وغیرہ سب بنی گالہ کے مہمان تھے'آخر ان کے علاقوں سے کارکنوں کو کون نکال کر لاتا ۔شاہ محمود قریشی کے حکم پر توکارکنوں کے علاوہ ہزاروں مرید بھی آسکتے تھے 'جہانگیر ترین کے صرف کارخانوں اور فارموں کے مزدور ہی کافی تھے۔

سندھ اور بلوچستان سے کسی نے بھی دلچسپی نہیں دکھائی 'کراچی کے لیڈرعمران اسماعیل اور عارف علوی بھی بنی گالہ میں بیٹھے رہے اور بلوچستان کے صدر یار محمد رند بھی اکیلے ہی تھے 'سارا ڈرامہ صرف ٹی وی چینلوں پر چل رہا تھا۔ اسلام آباد'راولپنڈی 'ٹیکسلا 'چکوال اور مری سے تحریک انصاف نے اسمبلی کی نشستیں بھی جیتی ہیں اور کافی ووٹ بھی لیے ہیں'ان لوگوں نے تو منہ ہی موڑ لیا تھا 'یہاں تک کہ بنی گالہ کی حفاظت کے لیے 'ایک صوبائی وزیر 'سوات سے کچھ کارکنوں کو لایا تھا ' جو پانچ چھ راتیں کھلے آسمان تلے پڑے رہے 'آخر تک یہی پختون ہی بنی گالہ میں مقیم رہے۔

مقامی یا پنجاب کا کوئی فرد بھی نزدیک نہیں آیا 'اگر اسد عمر 'غلام سرور خان اور دیگر رہنماء کوشش کرتے تو اسلام آباد میں چند ہزار لوگ جمع کرنا مشکل نہیں تھا ۔سارا ہنگامہ ٹی وی چینلوں ' بنی گالہ کی سڑکوں اور آخری دن صوابی موٹر وے پر رہا 'باقی پاکستان میں زندگی معمول کے مطابق رہی ۔لگتا ہے کہ پارٹی کے تمام رہنما ؤں کو اس فیصلے سے اختلاف تھا 'وہ صرف خان صاحب کی ضد کے آگے سر ہلا رہے تھے 'لوگوں کو لانے میں ناکامی سے تحریک انصاف کی دیگر کمزوریوں کے ساتھ تنظیمی کمزوریاں اور آپس کے اختلافات بھی ظاہر ہو گئے'شکر ہے سپریم کورٹ نے بھرم رکھ لیا ورنہ 2نومبر کو نہ جانے خان صاحب کیا کرتے؟ان کا رویہ بھی عجیب ہے ۔

جب ان کے گھر کے پاس کارکن پولیس کا سامنا کر رہے تھے 'وہ نیچے نہیں آئے۔ہر گھنٹے بعد کپڑے تبدیل کرکے ٹی وی کیمرے کے سامنے کھڑے ہو جاتے 'حالانکہ انھیں کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کے درمیان ہو نا چائیے تھا ۔امید ہے خان صاحب نے اس تحریک سے کافی سبق سیکھا ہوگا اور آیندہ سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھائیں گے۔اس تحریک کے سیاسی اثرات پر آیندہ ۔
Load Next Story