کراچی جوڑیا بازارکی کہانی دوسرا اور آخری حصہ
فخر ماتری روڈ جس کا پرانا نام نیونہام روڈ تھا اور چھاگلا اسٹریٹ پر جہاں آلو اور پیازکی منڈی ہوا کرتی تھی
فخر ماتری روڈ جس کا پرانا نام نیونہام روڈ تھا اور چھاگلا اسٹریٹ پر جہاں آلو اور پیازکی منڈی ہوا کرتی تھی اب گارمنٹس کی دکانیں اوردفاتر ہیں۔ میریٹ روڈ اورکاسو روڈ پر پلاسٹک کی ہول سیل مارکیٹ ہے، جہاں بچوں کے کھلونے اوردیگرسامان ملتا ہے۔کھوڑی گارڈن روڈ پر ہارڈوئیر کی بڑی مارکیٹ ہے۔ ابراہیم جی اسٹریٹ ( نزد ، سٹی کورٹ ) پر چاولوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔ کچھی گلی نمبر ایک پرچینی،کیمیکل،گڑ اور پلاسٹک کی مارکیٹ ہے۔کھوڑی گارڈن جس کا نیا نام فلسطین اسٹریٹ ہے ۔ پلاسٹک کے برتنوں کی دکانیں ہیں۔
چھانٹی لین،نزد میرٹ روڈ پرچاکلیٹ اورچپس کی مارکیٹ کے علاوہ غیر ملکی اشیا،کاسمیٹکس، شمپو، صابن،گرو سری سمیت دیگر مصنوعات کی بڑی مارکیٹ بھی واقع ہے ۔ لٹ پٹ روڈ نزد نپئیر روڈ پرکپڑے کی ہول سیل مارکیٹ ہے ۔ منگا رام اسٹریٹ پر پلاسٹک کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔عبداللہ اسٹریٹ اور جہانگیر اسٹریٹ پر لوہے کے برتن اورکراکری کی دکانیں ہیں ۔ غریب آباد روڈ، کندن اسٹریٹ اور نواب مہابت خانجی روڈ پر پاکستان کی سب سے بڑی کھجورمارکیٹ ہے جہاں تین سال کی ملکی ضروریات کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔
حضرت طلٰحہ اسٹریٹ جس کا پرانا نام بھاگ ناری ہے ، حضرت سعد بن ابی وقاص اسٹریٹ جس کا پرانا نام رتن اسٹریٹ ہے اور وارثی روڈ پر برتنوں کی ہول سیل کی دکانیں ہیں ۔غلام شاہ لین جہاں چمڑے کی اشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، یہاں پنساری کی بھی بہت پرانی دکانیں موجود ہیں۔غلام حسین روڈ پر پاکستان کی بڑی کھوئے کی منڈی ہے ۔ محمد شاہ روڈ یعنی چھالیہ گلی میں پان اورچھالیہ کی بڑی منڈی ہے۔جونا مارکیٹ میں کپڑے اور لیدرکی ہول سیل کی دکانیں ہیں ۔ لوگوں کو ضروریات زندگی کی تمام اشیا یہاں سے سستے داموں مل جاتی ہیں ۔اس لیے دکانداروں کے علاوہ دیگر شہری بھی خریداری کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔
دن کے وقت گلیوں میں خریداروں کا رش رہتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں موٹر سائیکل ، رکشوں ، گدھا گاڑیوں اور دیگر سامان لوڈ کرنے والی گاڑیوں کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام رہتا ہے ۔ یہاں سامان کی ترسیل کے لیے ہتھ گاڑی کا استعمال بھی بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ہزاروں کی تعداد میں غریب عوام اپنی روزی روٹی کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ یہاں پر مزدور طبقے میں ہر برادری اور نسل کے لوگ آپ کو نظرآئیں گے لیکن سب سے زیادہ تعداد لیاری کے لوگ یہاں محنت مزدوری کرتے نظرآتے ہیں ۔ جوڑیا بازار اوراطراف میں پولیس کی چوکیاں تو قائم ہیں لیکن ان میں اہلکار نظر نہیں آتے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن کی وجہ سے حالات میں بہتری آئی ہے تاہم لوگ آج بھی خوف کا شکار ہیں ۔
جوڑیا بازار میں قدیمی عمارتیں بھی ہیں ۔ جوڑیا بازار کے ساتھ ہی شیعہ اثنا عشری کی قدیمی امام بار گاہ ہے جسے قدیمی امام بارگاہ کہتے ہیں ۔ یہ امام بارگاہ 1836ء میں قائم کی گئی اور اس کے موجودہ متولی سید اعجاز شاہ ہیں ۔ یہاں حضرت نورشاہ غازی کا مزار بھی ہے جو اچھی قبرکے نام سے مشہور ہے ۔ 80 سالہ بزرگ ثناء اللہ کا خاندان کئی سالوں سے اس مزار پر خدمت گزاری کرتے چلے آرہے ہیں ۔ان کے دادا کے دادا بھی اس مزارکے متولی تھے ۔ پہلے یہ قبرکچی تھی ۔کچھ عرصے پہلے یہاں کے لوگوں نے مزارکی پختہ عمارت تعمیرکرائی ۔
بزرگوں سے روایت ہے کہ حضرت نور شاہ غازی محمد بن قاسم کے ساتھ یا ان سے کچھ عرصے بعد عراق سے یہاں آئے تھے ۔ حضرت نور شاہ غازی کے مزارکے قریب ہی ہندوؤں کی ایک پرانی عبادت گاہ ہے جسے ماتا دیوی کا مندرکہتے ہیں ۔ یہ مندر 1885ء میں برہم کشتریہ پنچایت نے تعمیرکرایا تھا ۔ ہر بدھ کی شام سیکڑوں کی تعداد میں ہندو مرد وخواتین یہاں پوجا کے لیے جمع ہوتے ہیں اور اتوار کو یہاں بچوں کو ہندودھرم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ برتن بازار پاکستان بننے سے پہلے رہائشی علاقہ تھا اور یہاں کم دکانیں تھیں ۔ یہاں زیادہ تر ہندوکاروبارکرتے تھے، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ کاروباری ہوگیا ۔ موجودہ وقت میں یہاں تین سو سے زائد دکانیں ہیں ۔ پہلے یہاں پیتل اورتانبے کے برتنوں کا کاروبار ہوتا تھا اب زیادہ تر اسٹیل کے برتن جوکہ گوجرانوالہ سے آتے ہیں جب کہ کراکری چائنا سے آتی ہے اور پلاسٹک کے برتن کراچی شہر میں ہی بنتے ہیں ۔ یہاں اندرون سندھ اور بلوچستان کے لوگ بھی خریداری کرنے آتے ہیں ۔ واضح رہے کہ اولڈ سٹی ایریا سب سے ریونیو دیتا ہے لیکن سرکاری سطح پر یہاں سہولتوں کا فقدان نظر آتا ہے جیسے کہ یہ علاقہ لاوارث ہے ۔
پان منڈی 1952ء سے قائم ہے یہاں دو سو کے قریب ہول سیل کی دکانیں ہیں زیادہ تر پان سیلون ، ڈھاکہ اور بنکاک سے آتا ہے ، جب کہ گھارو اورملیر سے بھی پان آتا ہے ۔ ملیر اورگھارو کا پان 50روپے سے لے کر 250روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے ۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ جب کہ سب سے زیادہ سانچی بنگلہ دیش کا ہے جو 15سو سے 16سو روپے فی کلو تک فروخت ہوتا ہے ۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ صرافہ بازارقیام پاکستان سے پہلے سے قائم ہے ۔ پہلے یہاں درزی اوربیکری کی دکانیں بھی تھیں، اس وقت یہاں زیادہ تر تاجر ہندو تھے جو پاکستان بننے کے بعد یہاں سے چلے گئے ۔ اب یہاں ہر قومیت کے لوگ سونے کے کاروبار سے وابستہ ہیں ۔ پہلے سونے کا کام ہاتھ سے ہوتا تھا اور سونے کا وزن کرنے کے لیے 1958ء میں سرکاری سطح پر ایک کانٹا بنایا گیا تھا جو 1995ء میں ختم ہوگیا ۔
اب مشینیں آگئی ہیں جس کی وجہ سے بہت سے کاریگر بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ درمیان میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے کاروبار بہت متاثر ہوا تھا ۔ لوٹ مار اور بھتے کی وجہ سے دکاندار شہرکی دیگر مار کیٹوں میں منتقل ہوگئے ۔ لیاقت آباد ، حیدری ، صدر،کلفٹن اور محمود آباد سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں زیادہ تر یہیں سے جانے والے تاجرکاروبارکررہے ہیں ۔کھجور مارکیٹ ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے یہ مارکیٹ قیام پاکستان کے وقت ہی سے قائم ہے ۔اس مارکیٹ میں ایران ، عراق اور سکھر سے کھجوریں آتی ہیں ۔
ایرانی کھجور اب پہلے سے مہنگی ہوگئی ہے کیوں کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں ختم ہونے کے بعد دیگر ممالک کو بر آمد ات شروع ہوگئی ہے اسی لیے جو کھجور پچھلے سال 5سے6ہزار روپے من میں فروخت ہوتی رہی تھی اب 10ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ قیمت بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال بارش کی وجہ سے سکھر میں کھجورکی فصل کافی حد تک خراب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئیں ۔ کھجورکی اصل کھپت تو رمضان المبارک میں ہوتی ہے لیکن ہماری ملکی فصل رمضان المبارک کے بعد آتی ہے اور الزام دکانداروں پر لگا دیا جاتا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔ جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ ہول سیل کا کاروبار کرنے والوں کو جس قیمت پر کھجور ملتی ہے وہ اس میں تھوڑا منافع رکھ کر آگے فروخت کر دیتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ جوڑیا بازار کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے ۔ ٹیکس ادا کرنے کے باجود یہاں کے تاجروں کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے ۔ یہاں کا کاروبار 75فیصد کم ہوگیا ہے ۔ یہاں کے تاجروں اور دکانداروں سے کہا گیا تھا کہ انھیں شہر سے باہر مارکیٹ بنا کر دی جائے گی لیکن اس اسکیم پر خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے ۔ تاجروں نے حکومت سے 50ایکڑ زمین کا مطالبہ کیا تھا لیکن انھیں 20ایکڑ زمین دی جارہی تھی ۔ اتنی زمین ان کے لیے ناکافی ہے ۔ جوڑیا بازار میں بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے ۔ سیوریج کا نظام بھی تباہ حال ہے ۔اکثرگٹروں کا پانی سڑکوں پر بہتا رہتا ہے جس کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جگہ جگہ گندا پانی جمع ہے۔ ناقص صفائی کی وجہ سے گندگی کے ڈھیر نظرآتے ہیں ۔ جوڑیا بازارکے بنیادی مسائل حل طلب ہیں۔
چھانٹی لین،نزد میرٹ روڈ پرچاکلیٹ اورچپس کی مارکیٹ کے علاوہ غیر ملکی اشیا،کاسمیٹکس، شمپو، صابن،گرو سری سمیت دیگر مصنوعات کی بڑی مارکیٹ بھی واقع ہے ۔ لٹ پٹ روڈ نزد نپئیر روڈ پرکپڑے کی ہول سیل مارکیٹ ہے ۔ منگا رام اسٹریٹ پر پلاسٹک کی بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔عبداللہ اسٹریٹ اور جہانگیر اسٹریٹ پر لوہے کے برتن اورکراکری کی دکانیں ہیں ۔ غریب آباد روڈ، کندن اسٹریٹ اور نواب مہابت خانجی روڈ پر پاکستان کی سب سے بڑی کھجورمارکیٹ ہے جہاں تین سال کی ملکی ضروریات کا ذخیرہ موجود رہتا ہے۔
حضرت طلٰحہ اسٹریٹ جس کا پرانا نام بھاگ ناری ہے ، حضرت سعد بن ابی وقاص اسٹریٹ جس کا پرانا نام رتن اسٹریٹ ہے اور وارثی روڈ پر برتنوں کی ہول سیل کی دکانیں ہیں ۔غلام شاہ لین جہاں چمڑے کی اشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، یہاں پنساری کی بھی بہت پرانی دکانیں موجود ہیں۔غلام حسین روڈ پر پاکستان کی بڑی کھوئے کی منڈی ہے ۔ محمد شاہ روڈ یعنی چھالیہ گلی میں پان اورچھالیہ کی بڑی منڈی ہے۔جونا مارکیٹ میں کپڑے اور لیدرکی ہول سیل کی دکانیں ہیں ۔ لوگوں کو ضروریات زندگی کی تمام اشیا یہاں سے سستے داموں مل جاتی ہیں ۔اس لیے دکانداروں کے علاوہ دیگر شہری بھی خریداری کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔
دن کے وقت گلیوں میں خریداروں کا رش رہتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں میں موٹر سائیکل ، رکشوں ، گدھا گاڑیوں اور دیگر سامان لوڈ کرنے والی گاڑیوں کی وجہ سے اکثر ٹریفک جام رہتا ہے ۔ یہاں سامان کی ترسیل کے لیے ہتھ گاڑی کا استعمال بھی بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔ہزاروں کی تعداد میں غریب عوام اپنی روزی روٹی کے لیے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ یہاں پر مزدور طبقے میں ہر برادری اور نسل کے لوگ آپ کو نظرآئیں گے لیکن سب سے زیادہ تعداد لیاری کے لوگ یہاں محنت مزدوری کرتے نظرآتے ہیں ۔ جوڑیا بازار اوراطراف میں پولیس کی چوکیاں تو قائم ہیں لیکن ان میں اہلکار نظر نہیں آتے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ کراچی آپریشن کی وجہ سے حالات میں بہتری آئی ہے تاہم لوگ آج بھی خوف کا شکار ہیں ۔
جوڑیا بازار میں قدیمی عمارتیں بھی ہیں ۔ جوڑیا بازار کے ساتھ ہی شیعہ اثنا عشری کی قدیمی امام بار گاہ ہے جسے قدیمی امام بارگاہ کہتے ہیں ۔ یہ امام بارگاہ 1836ء میں قائم کی گئی اور اس کے موجودہ متولی سید اعجاز شاہ ہیں ۔ یہاں حضرت نورشاہ غازی کا مزار بھی ہے جو اچھی قبرکے نام سے مشہور ہے ۔ 80 سالہ بزرگ ثناء اللہ کا خاندان کئی سالوں سے اس مزار پر خدمت گزاری کرتے چلے آرہے ہیں ۔ان کے دادا کے دادا بھی اس مزارکے متولی تھے ۔ پہلے یہ قبرکچی تھی ۔کچھ عرصے پہلے یہاں کے لوگوں نے مزارکی پختہ عمارت تعمیرکرائی ۔
بزرگوں سے روایت ہے کہ حضرت نور شاہ غازی محمد بن قاسم کے ساتھ یا ان سے کچھ عرصے بعد عراق سے یہاں آئے تھے ۔ حضرت نور شاہ غازی کے مزارکے قریب ہی ہندوؤں کی ایک پرانی عبادت گاہ ہے جسے ماتا دیوی کا مندرکہتے ہیں ۔ یہ مندر 1885ء میں برہم کشتریہ پنچایت نے تعمیرکرایا تھا ۔ ہر بدھ کی شام سیکڑوں کی تعداد میں ہندو مرد وخواتین یہاں پوجا کے لیے جمع ہوتے ہیں اور اتوار کو یہاں بچوں کو ہندودھرم کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ برتن بازار پاکستان بننے سے پہلے رہائشی علاقہ تھا اور یہاں کم دکانیں تھیں ۔ یہاں زیادہ تر ہندوکاروبارکرتے تھے، بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ کاروباری ہوگیا ۔ موجودہ وقت میں یہاں تین سو سے زائد دکانیں ہیں ۔ پہلے یہاں پیتل اورتانبے کے برتنوں کا کاروبار ہوتا تھا اب زیادہ تر اسٹیل کے برتن جوکہ گوجرانوالہ سے آتے ہیں جب کہ کراکری چائنا سے آتی ہے اور پلاسٹک کے برتن کراچی شہر میں ہی بنتے ہیں ۔ یہاں اندرون سندھ اور بلوچستان کے لوگ بھی خریداری کرنے آتے ہیں ۔ واضح رہے کہ اولڈ سٹی ایریا سب سے ریونیو دیتا ہے لیکن سرکاری سطح پر یہاں سہولتوں کا فقدان نظر آتا ہے جیسے کہ یہ علاقہ لاوارث ہے ۔
پان منڈی 1952ء سے قائم ہے یہاں دو سو کے قریب ہول سیل کی دکانیں ہیں زیادہ تر پان سیلون ، ڈھاکہ اور بنکاک سے آتا ہے ، جب کہ گھارو اورملیر سے بھی پان آتا ہے ۔ ملیر اورگھارو کا پان 50روپے سے لے کر 250روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے ۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ جب کہ سب سے زیادہ سانچی بنگلہ دیش کا ہے جو 15سو سے 16سو روپے فی کلو تک فروخت ہوتا ہے ۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ صرافہ بازارقیام پاکستان سے پہلے سے قائم ہے ۔ پہلے یہاں درزی اوربیکری کی دکانیں بھی تھیں، اس وقت یہاں زیادہ تر تاجر ہندو تھے جو پاکستان بننے کے بعد یہاں سے چلے گئے ۔ اب یہاں ہر قومیت کے لوگ سونے کے کاروبار سے وابستہ ہیں ۔ پہلے سونے کا کام ہاتھ سے ہوتا تھا اور سونے کا وزن کرنے کے لیے 1958ء میں سرکاری سطح پر ایک کانٹا بنایا گیا تھا جو 1995ء میں ختم ہوگیا ۔
اب مشینیں آگئی ہیں جس کی وجہ سے بہت سے کاریگر بے روزگار ہوگئے ہیں ۔ درمیان میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے کاروبار بہت متاثر ہوا تھا ۔ لوٹ مار اور بھتے کی وجہ سے دکاندار شہرکی دیگر مار کیٹوں میں منتقل ہوگئے ۔ لیاقت آباد ، حیدری ، صدر،کلفٹن اور محمود آباد سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں زیادہ تر یہیں سے جانے والے تاجرکاروبارکررہے ہیں ۔کھجور مارکیٹ ملک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے یہ مارکیٹ قیام پاکستان کے وقت ہی سے قائم ہے ۔اس مارکیٹ میں ایران ، عراق اور سکھر سے کھجوریں آتی ہیں ۔
ایرانی کھجور اب پہلے سے مہنگی ہوگئی ہے کیوں کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں ختم ہونے کے بعد دیگر ممالک کو بر آمد ات شروع ہوگئی ہے اسی لیے جو کھجور پچھلے سال 5سے6ہزار روپے من میں فروخت ہوتی رہی تھی اب 10ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ قیمت بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال بارش کی وجہ سے سکھر میں کھجورکی فصل کافی حد تک خراب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئیں ۔ کھجورکی اصل کھپت تو رمضان المبارک میں ہوتی ہے لیکن ہماری ملکی فصل رمضان المبارک کے بعد آتی ہے اور الزام دکانداروں پر لگا دیا جاتا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں ۔ جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ ہول سیل کا کاروبار کرنے والوں کو جس قیمت پر کھجور ملتی ہے وہ اس میں تھوڑا منافع رکھ کر آگے فروخت کر دیتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ جوڑیا بازار کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے یہاں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے ۔ ٹیکس ادا کرنے کے باجود یہاں کے تاجروں کو مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا ہے ۔ یہاں کا کاروبار 75فیصد کم ہوگیا ہے ۔ یہاں کے تاجروں اور دکانداروں سے کہا گیا تھا کہ انھیں شہر سے باہر مارکیٹ بنا کر دی جائے گی لیکن اس اسکیم پر خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے ۔ تاجروں نے حکومت سے 50ایکڑ زمین کا مطالبہ کیا تھا لیکن انھیں 20ایکڑ زمین دی جارہی تھی ۔ اتنی زمین ان کے لیے ناکافی ہے ۔ جوڑیا بازار میں بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے ۔ سیوریج کا نظام بھی تباہ حال ہے ۔اکثرگٹروں کا پانی سڑکوں پر بہتا رہتا ہے جس کی وجہ سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جگہ جگہ گندا پانی جمع ہے۔ ناقص صفائی کی وجہ سے گندگی کے ڈھیر نظرآتے ہیں ۔ جوڑیا بازارکے بنیادی مسائل حل طلب ہیں۔