ایک بار پھر ذکر لاہور
ملکہ نور جہاں ان دنوں لاہور آتیں تو ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ اپنے جاہ و جمال کو کسی پردے میں چھپا سکتیں
پتہ نہیں وہ کون سا لاہور تھا جس پر ملکہ عالم فدا ہو گئی تھیں اور اس میں جگہ پانے کے لیے اپنے شہرہ آفاق حسن کو قربان کرنے پر تیار ہو گئی تھیں جس پر شہنشاہ ہند بھی جان نثار کر چکا تھا ۔ اگر ملکہ نور جہاں ان دنوں لاہور آتیں تو ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ اپنے جاہ و جمال کو کسی پردے میں چھپا سکتیں۔ لاہور کی فضا میں سوائے خطرناک اور کربناک دھند کے اور کچھ نہ تھا اور پورا شہر دور دور تک منہ سر لپیٹے جان بچا رہا تھا۔ ایک انتہائی ناگوار دھند اس کے ناک اور منہ میں جگہ پانے کی فکر میں تھی جیسے ملکہ عالم کے حسن پر مرمٹنے کے لیے اور کوئی نہ تھا۔
ایک باذوق بادشاہ بھی کافی نہ تھا جو اس کے حسن پر ہندوستان جیسی سلطنت فدا کر چکا تھا۔ دو ڈھائی گھونٹ شراب اور نور جہاں کے چہرے کی ایک جھلک اس کی زندگی کا اثاثہ بن گئی تھی جس کا اس نے بڑے پر لطف انداز میں اظہار کیا تھا اور اپنے اس عشق کو اپنی تحریر میں زندہ جاوید کر گیا تھا، اس کی بادشاہت کو سوائے اپنے کسی جانشین کے کوئی خطرہ نہ تھا بس چند گھونٹ مئے گلگوں کے ہی کافی تھے۔ لاہور کے ایک معروف شرابی نے یہ سن کر کہا تھا کہ کاش ایسا ایک گھونٹ میری قسمت میں بھی ہوتا اورمیں اس کی مدح و ثناء میں دفتر سیاہ کر دیتا۔ بہر حال یہ سب اپنی اپنی قسمت ہے اور ایک بادشاہ کی قسمت سب سے الگ ہوتی ہے۔
رعایا دعا گو ہو سکتی ہے اور بس یا پھر خدا جس کو حسن عطا کر دے اور بادشاہ کی نگاہیں اسے قبول کر لیں تو وہ ملکہ عالم کہلاتی ہے اور لاہور شہر کو جان سے زیادہ پسند کرتی ہے۔ اتنا کہ اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتی ہے اور اسے ایک اور جنت سمجھتی ہے۔ لاہور کے وصف میں نور جہاں کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں جو آپ مجھ سے کئی بار سن چکے ہیں۔ میں اب صرف اس کا ترجمہ پیش کروں گا کہ لاہور کو ہم نے جان دے کر خریدا ہے جان دی ہے اور ایک دوسری جنت خرید لی ہے۔
معلوم نہیں اس وقت لاہور کیا تھا کم از کم لاہور کا جھومر دریائے راوی اس کے ماتھے پر لہراتا ہو گا جو آج خشک ہو چکا ہے اور لاہوری اس سوکھی کشتیوں کو دیکھتے رہتے ہیں جو اس کے ٹوٹے پھوٹے کناروں پر ہوا کے جھونکوں سے ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ان کے ملاح اپنی خشک آنکھوں سے پانی کی تلاش میں بھٹکتی ان کشتیوں کا نظارہ کرتے ہیں اور اپنی قسمت پر رنج کھاتے ہیں۔
راوی جو کبھی لاہور تھا اور جس کے نام سے یہ شہر پہچانا جاتا تھابالآخر ایک نوحہ خواں بن کر رہ گیا۔ راوی کے ایک پردیسی عاشق پطرس بخاری نے نیو یارک سے لاہور کے راوین صوفی غلام مصطفے تبسم کے نام ایک خط میں لکھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے لیکن راوی کا یہ کئی سمندر پار عاشق تب زندہ تو تھا لیکن آخری دموں پر۔ جواب ملا کون سا راوی۔ اس جواب میں آج کے راوی کی پوری حالت بیان کر دی گئی یعنی وہ راوی جس کی یاد میں تو شاید کوئی آہیں بھرتا ہو گا لیکن وہ راوی خود اتنا ناتواں ہو چکا کہ اب اس کی کروٹ بھی اس کا کوئی مداح بھرتا ہو گا۔ وقت کا بے رحم دیوتا خدا جانے کتنے راوی پی گیا اور کتنے راوی خشک ہو گئے۔
بس اب ان دریاؤں کے نشان باقی رہ گئے ہیں۔ لاہور کی شاہی مسجد کے مینار کسی راوی میں اپنا عکس تلاش کرتے رہ جاتے ہیں اور شاہی مسجد کسی پانی میں ڈوب ڈوب کر باہر نکلتی ہے۔ یہ سب قدرت کے کرشمے ہیں۔ کہیں دریا بہتے تھے اب وہاں خشک ریت ہے اور کہیں صرف خشک ریت تھی کہ اب وہاں پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں۔ دنیا اسی طرح بدلتی ہے اور مورخوں کو حیران کرتی رہتی ہے۔ یہی لاہور جو آج اپنے پانیوں پر ڈولتی کشتیوں کے لیے ترس گیا ہے اب یہاں لاہوری پکنک منانے بھی کم ہی جاتے ہیں کہ اس میں وہ پانی نہیں جو ان کی کشتیوں کو کہیں سے کہیں لے جاتا تھا اور ان کشتیوں میں سوار قہقہہ بار چہروں سے پانی کو رنگین کر دیتا تھا۔
شاید یہی وہ زندہ لاہور تھا جس کی مدح میں ملکہ عالم نور جہاں نے چند یاد گار شعر لکھے تھے اور اس لاہور کے ساتھ اپنے شاہی عشق کو استوار کیا تھا
لاہور را بجاں برابر خریدہ ایم
جاں دارہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
کہ لاہور کو ہم نے اپنی جان کے عوض خریدا ہے۔ جان دی ہے اور اس کے بدلے ایک جنت خرید کی ہے۔ اب وہ لاہور بھی گیا اور اس کے خریدار باقی رہ گئے، ہمارے جیسے لاہور کے مسافر جو اس شہر کے حسن و جمال کو اس کی عمارتوں اور منظروں سے دیکھتے ہیں اور پرانے لاہوریوں سے سنتے ہیں کہ یہ شہر کیسا تھا اس کا حسن و جمال کس عروج پر تھا اس لیے تو ایک ملکہ نے اس شہر کو خریدنے کے لیے جان دینے پر آمادگی کر لی تھی کیونکہ وہ اس شہر کی صورت میں ایک نئی جنت پانا چاہتی تھی۔ وہ خود اس شہر پر اس قدر فدا ہوئی کہ بے کسی کے عالم میں ہی سہی اس شہر کے ایک گوشے میں سو گئی۔ یہ کہتے ہوئے کہ
بر مزار ما غریباں نے چراغے نیگلے
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے
میرے مزار پر جو ایک بے کس کا مزار ہے نہ کوئی چراغ جلتا ہے نہ کوئی پھول کھلتا ہے نہ ہی کسی پروانے کا پر جلتا ہے اور نہ ہی کسی بلبل کی آواز سنائی دیتی ہے۔
ایک باذوق بادشاہ بھی کافی نہ تھا جو اس کے حسن پر ہندوستان جیسی سلطنت فدا کر چکا تھا۔ دو ڈھائی گھونٹ شراب اور نور جہاں کے چہرے کی ایک جھلک اس کی زندگی کا اثاثہ بن گئی تھی جس کا اس نے بڑے پر لطف انداز میں اظہار کیا تھا اور اپنے اس عشق کو اپنی تحریر میں زندہ جاوید کر گیا تھا، اس کی بادشاہت کو سوائے اپنے کسی جانشین کے کوئی خطرہ نہ تھا بس چند گھونٹ مئے گلگوں کے ہی کافی تھے۔ لاہور کے ایک معروف شرابی نے یہ سن کر کہا تھا کہ کاش ایسا ایک گھونٹ میری قسمت میں بھی ہوتا اورمیں اس کی مدح و ثناء میں دفتر سیاہ کر دیتا۔ بہر حال یہ سب اپنی اپنی قسمت ہے اور ایک بادشاہ کی قسمت سب سے الگ ہوتی ہے۔
رعایا دعا گو ہو سکتی ہے اور بس یا پھر خدا جس کو حسن عطا کر دے اور بادشاہ کی نگاہیں اسے قبول کر لیں تو وہ ملکہ عالم کہلاتی ہے اور لاہور شہر کو جان سے زیادہ پسند کرتی ہے۔ اتنا کہ اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتی ہے اور اسے ایک اور جنت سمجھتی ہے۔ لاہور کے وصف میں نور جہاں کا ایک اور شعر ملاحظہ کریں جو آپ مجھ سے کئی بار سن چکے ہیں۔ میں اب صرف اس کا ترجمہ پیش کروں گا کہ لاہور کو ہم نے جان دے کر خریدا ہے جان دی ہے اور ایک دوسری جنت خرید لی ہے۔
معلوم نہیں اس وقت لاہور کیا تھا کم از کم لاہور کا جھومر دریائے راوی اس کے ماتھے پر لہراتا ہو گا جو آج خشک ہو چکا ہے اور لاہوری اس سوکھی کشتیوں کو دیکھتے رہتے ہیں جو اس کے ٹوٹے پھوٹے کناروں پر ہوا کے جھونکوں سے ایک دوسرے سے ٹکراتی رہتی ہیں اور ان کے ملاح اپنی خشک آنکھوں سے پانی کی تلاش میں بھٹکتی ان کشتیوں کا نظارہ کرتے ہیں اور اپنی قسمت پر رنج کھاتے ہیں۔
راوی جو کبھی لاہور تھا اور جس کے نام سے یہ شہر پہچانا جاتا تھابالآخر ایک نوحہ خواں بن کر رہ گیا۔ راوی کے ایک پردیسی عاشق پطرس بخاری نے نیو یارک سے لاہور کے راوین صوفی غلام مصطفے تبسم کے نام ایک خط میں لکھا کہ کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے لیکن راوی کا یہ کئی سمندر پار عاشق تب زندہ تو تھا لیکن آخری دموں پر۔ جواب ملا کون سا راوی۔ اس جواب میں آج کے راوی کی پوری حالت بیان کر دی گئی یعنی وہ راوی جس کی یاد میں تو شاید کوئی آہیں بھرتا ہو گا لیکن وہ راوی خود اتنا ناتواں ہو چکا کہ اب اس کی کروٹ بھی اس کا کوئی مداح بھرتا ہو گا۔ وقت کا بے رحم دیوتا خدا جانے کتنے راوی پی گیا اور کتنے راوی خشک ہو گئے۔
بس اب ان دریاؤں کے نشان باقی رہ گئے ہیں۔ لاہور کی شاہی مسجد کے مینار کسی راوی میں اپنا عکس تلاش کرتے رہ جاتے ہیں اور شاہی مسجد کسی پانی میں ڈوب ڈوب کر باہر نکلتی ہے۔ یہ سب قدرت کے کرشمے ہیں۔ کہیں دریا بہتے تھے اب وہاں خشک ریت ہے اور کہیں صرف خشک ریت تھی کہ اب وہاں پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں۔ دنیا اسی طرح بدلتی ہے اور مورخوں کو حیران کرتی رہتی ہے۔ یہی لاہور جو آج اپنے پانیوں پر ڈولتی کشتیوں کے لیے ترس گیا ہے اب یہاں لاہوری پکنک منانے بھی کم ہی جاتے ہیں کہ اس میں وہ پانی نہیں جو ان کی کشتیوں کو کہیں سے کہیں لے جاتا تھا اور ان کشتیوں میں سوار قہقہہ بار چہروں سے پانی کو رنگین کر دیتا تھا۔
شاید یہی وہ زندہ لاہور تھا جس کی مدح میں ملکہ عالم نور جہاں نے چند یاد گار شعر لکھے تھے اور اس لاہور کے ساتھ اپنے شاہی عشق کو استوار کیا تھا
لاہور را بجاں برابر خریدہ ایم
جاں دارہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم
کہ لاہور کو ہم نے اپنی جان کے عوض خریدا ہے۔ جان دی ہے اور اس کے بدلے ایک جنت خرید کی ہے۔ اب وہ لاہور بھی گیا اور اس کے خریدار باقی رہ گئے، ہمارے جیسے لاہور کے مسافر جو اس شہر کے حسن و جمال کو اس کی عمارتوں اور منظروں سے دیکھتے ہیں اور پرانے لاہوریوں سے سنتے ہیں کہ یہ شہر کیسا تھا اس کا حسن و جمال کس عروج پر تھا اس لیے تو ایک ملکہ نے اس شہر کو خریدنے کے لیے جان دینے پر آمادگی کر لی تھی کیونکہ وہ اس شہر کی صورت میں ایک نئی جنت پانا چاہتی تھی۔ وہ خود اس شہر پر اس قدر فدا ہوئی کہ بے کسی کے عالم میں ہی سہی اس شہر کے ایک گوشے میں سو گئی۔ یہ کہتے ہوئے کہ
بر مزار ما غریباں نے چراغے نیگلے
نے پر پروانہ سوزد نے صدائے بلبلے
میرے مزار پر جو ایک بے کس کا مزار ہے نہ کوئی چراغ جلتا ہے نہ کوئی پھول کھلتا ہے نہ ہی کسی پروانے کا پر جلتا ہے اور نہ ہی کسی بلبل کی آواز سنائی دیتی ہے۔