کتنا اچھا ہوتا اگر زہر کا پیالہ دمیقراط پی لیتا

ابن بے طوطا صرف ہماری دریافت ہے اور اس کا آدھا ادھورا سفر نامہ بھی صرف ہمارے پاس ہے

barq@email.com

اکثر لوگوں کو صرف ایک قبیلہ ''طے'' کا پتہ ہے، وہ جو عرب میں تھا اور حاتم طائی کا اس سے تعلق تھا لیکن دنیا میں کچھ دوسرے مقامات پر کچھ اور بھی ''قبیلہ طے'' ہوئے ہیں۔ ایک قبیلہ ط تو وہ مراکش کے شہر ''طنجہ'' سے تعلق رکھتا تھا جس میں دو بڑے سیاح ابن باطوطہ اور ابن بے طوطا ہو گزرے ہیں۔

یہ آخری یعنی ابن بے طوطا صرف ہماری دریافت ہے اور اس کا آدھا ادھورا سفر نامہ بھی صرف ہمارے پاس ہے، لیکن اس وقت ہم طنجہ کے باطوطے اور بے طوطے کا ذکر نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک اور قبیلہ ''ط'' کا ذکر مقصود ہے، اس تیسرے قبیلہ ''ط'' کا تعلق یونان سے تھا اور اس کے ہر رکن کے نام میں ''ط'' ضرور شامل ہوتا تھا جیسے بقراط، سقراط، افلاطون، ارسطو، کرسطو، مرسطو، اوطرسطو وغیرہ لیکن اس فہرست میں ہم نے اس طائی کو شامل نہیں کیا ہے جس کے نام میں ''ط'' کے ساتھ ساتھ ''ق'' بھی ہے جو یونانی ناموں کا جز و لانیفک ہوتا ہے کیونکہ اس طائی کا ہم نے الگ سے ذکر کرنا تھا کیونکہ اس بے چارے کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔

یہ ''دمیقراط'' تھا جو بقراط اور سقراط کے بیچ بیچ میں کہیں ہوتا تھا اسی لیے نہ تو زہر کا پیالہ پی کر چھٹکارا حاصل کر سکا اور نہ طب کے ذریعے دوسروں کو چھٹکارا دے پایا، اس احمق نے وراثت میں دو چیزیں چھوڑی تھیں، ایک آتو A-tom یعنی وہ آخری ذرہ یا جزو لاینجزی جو ناقابل تقسیم تھا اور جسے آج کل ایٹم کہا جاتا ہے، دوسری چیز کو دیما قراطی یا آج کل ڈیما کریسی کہا جاتا ہے اور ہم آج یہ رونا رو کر دمی قراط کو نذر کریں گے کہ جدید دنیا نے ان کی ان ''نشانیوں'' کی کیا کیا کتنی کتنی اور کیسے کیسے مٹی پلید کی ہوئی ہے، بے چارا دمی قراط ، مردہ بدست زندہ اور زندہ بھی وہ جو کسی کام سے شرمندہ نہیں ہوتا ہے، خاص بزرگوں کی لاشوں کا تو ایسا تیاپانچہ کرتا ہے کہ اگر وہ بزرگ خود بھی دیکھ لیں تو پہچان نہ سکیں بلکہ پوچھنے لگیں کہ کون ہے یہ بدنصیب بدبخت اور بدانجام ...

اس رنگ سے آج اس نے اٹھائی اسد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کر غمناک ہو گئے

دمی قراط کے ناقابل تقسیم ایٹم کو جس طرح انسان نے تقسیم کر دیا ہے اور جس طرح استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ ہیروشیما اور ناگا ساکی میں دنیا دیکھ چکی ہے لیکن ہمارا ایٹم سے کچھ لینا دینا نہیں کہ یہ بہت ہی اونچے لیول کی باتیں ہیں، ہمارا تعلق اگر اس سے کچھ ہو سکتا ہے کہ ایک دن اگر کسی کے ''دماغ'' کا ایٹم پھٹا تو ہمارا ''حصہ'' بھی ہمیں آرام سے مل جائے اور ہمیں اس ''دانت'' کے درد سے نجات مل جائے گی جسے زندگی کہتے ہیں صرف دانت ہی کیا یہ ''ایٹم'' نامی دوا کہتے ہیں کہ اس پوری انسانیت نامی مرض کا بھی شافی علاج ہے جو عرصہ دراز سے اس دنیا کو لاحق ہے،

یک الف بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمئی بزم ہے بس رقص شررہونے تک

ہاں البتہ دمیقراط کا جو دوسرا تحفہ ہمیں ترکے میں ملا ہے، اس سے ہمیں لینا دینا ہے بلکہ بہت ہی لینا دینا ہے ویسے تو دمیقراط نے جس ڈیمو کریسی کا نظریہ پیش کیا تھا ،کاش یہ نظریہ پیش کرنے سے پہلے اس کے اندر کے سارے ایٹم پھٹ جاتے تو آج ہم آرام سے کسی بادشاہ کی ملکیت ہوتے اور وہ ہمارے ساتھ وہی کرتا جو لوگ اپنی ملکیت سے کرتے ہیں، کم از کم جمہوریت میں کرائے یا اجارے والی چیز تو نہ بن چکے ہوتے، بعد میں آنے والوں نے ڈیمو کریسی کے لیے جو تشریحات تیار کیں ان میں سب سے مشہور تشریح یہ ہے کہ عوام پر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کے لیے ، عوام کے اس پہاڑے میں عوام کو اتنا بے تحاشا اور رف استعمال کیا گیا کہ بے چارے عوام کثرت استعمال سے گھس گھس ختم ہی ہوئے۔

دل ہوا کش مکش چارہ زحمت میں ''عوام''

مٹ گیا گھسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا

ٹنکو جیا نے عشق کا منجن بھی اتنا نہیں گھسا ہو گا ، ایسا لگتا ہے جیسے ڈیمو کریسی ایک ریسیپی ہو جس میں عوام کا بھرتہ، عوام کا قورمہ، عوام کا رائتہ، کوفتہ سب ایک ساتھ بنایا گیا ہو، ٹی وی پر پکوان بنانے والی اکثر خواتین و حضرات کو آپ نے دیکھا ہو گا کہ جس چیز کے نام سے ''پکوان'' ہوتا ہے وہ اس میں پہلے تو ہوتا نہیں اگر ہوتا بھی ہے تو تقریباً نمک کے برابر ۔ مثلاً عوام کے ذریعے عوام پر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کی حکومت عوام پر، مطلب یہ کہ جمہوریت ایک ایسی چارپائی ہے کہ جس طرف بھی سر کر کے لیٹئے مرکزی مقام بیچ میں ہی رہے گا، جمہوریت کے اس بے مثل و بے مثال حد درجہ باکمال اور آل اینڈ آل نسخے یا کلیے کو دیکھ کر بے ساختہ مرشد کا ایک شعر زبان پر آجاتا ہے کہ

اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہو پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

جب چٹ بھی عوام پٹ بھی، عوام بیچ میں بھی عوام کنارے پر بھی عوام اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے سب ہی عوام ۔ تو پھر یہ جو الیکشن کے وقت اچانک کروڑوں روپے والے آجاتے ہیں، یہ کہاں فٹ ہوتے ہیں، ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک پارٹی کیا بیچتی ہیں اور بزرگوں شہیدوں اور غازیوں کے مزار اور ان کے مجاورین کیا لینے اور کیا دینے آجاتے ہیں کیونکہ خود انھی کا کہنا بلکہ برتاؤ بھی چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ وہ ''عوام'' نہیں ہیں، نہ ہی عوام سے ان کا کوئی جائز یا ناجائز رشتہ ہوتا ہے،

سبزہ و گل کہاں سے آتے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

ہونہہ عوام پر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ۔ یہ جمہوریت سے کوئی پوچھے کہ وہ عوام کہاں چلے جاتے ہیں اور خواص ہی کیوں حکومت پر مسلط رہتے ہیں، جمہوریت کے اس بابرکت نظام میں ''کوئی عوام'' ویلج کونسل کا انتخاب بھی جیت کر دکھائے، ایک شخص نے بتایا کہ ہمارے گھر کا نظام بالکل جمہوری ہے، میری بیوی صدر ہے، بڑا بیٹا وزیر خارجہ ہے، ساس وزیر جنگ ہے، بڑی بیٹی وزیر خوراک ہے چھوٹی وزیر داخلہ ہے۔ میں تو ''عوام'' ہوں۔

بے چارا دمیقراط اگر اسے پتہ ہوتا کہ میرے ترکے کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا تو سقراط کے ہاتھ کو جھٹک کر زہر کا پیالہ خود غٹا غٹ پی جاتا یا اگر اب وہ زندہ ہو کر پاکستان آجائے تو ایک چیخ کے ساتھ اپنا گریباں دامن تک چاک کر کے سر پر خاک ڈال کر اور منہ پر راکھ مل کر اور توبہ توبہ کر کے دشت و بیاناں کو نکل جائے، رہے بے چارے عوام تو وہ عوام پر عوام کی حکومت عوام کے ذریعے جاری رکھیں، کتنا اچھا ہوتا اگر زہر کا پیالہ سقراط کے بجائے دمیقراط کو پلایا جاتا

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا
Load Next Story