گڈانی کے شہید مزدوروں کو سلام
شپ بریکنگ کا بھرپور کام ہوتا ہے تو 25000 مزدور کام کرتے ہیں مگر اس وقت 12 سے 13 ہزار مزدور کام کر رہے ہیں۔
ویسے توگزشتہ چند دنوں میں ہمارے ملک اور پڑوس میں کئی بڑے سانحات رونما ہوئے۔ ایک ہی روز میں پاکستان میں ٹرینوں کے تین حادثات ہوئے جس کے نتیجے میں 22 مسافر جان سے جاتے رہے، قذافی ٹاؤن کراچی میں دو ٹرینوں کے ٹکراؤ سے 22 افراد جاں بحق ہوئے۔ چین میں ایک کان میں کوئلہ نکالتے ہوئے دھماکے سے 17 مزدور ہلاک ہوئے اور سب سے افسوس ناک اور دردناک واقعہ گڈانی شپ یارڈ میں جہاز میں آگ لگنے سے ہوا۔
چشم دید گواہوں کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ جہازکے اندر2 سے 3 سو مزدورکام کر رہے تھے۔ جن میں کسی کا ورکنگ کارڈ نہیں بنا تھا اور ان میں سے کسی کی بھی لاش نہیں ملی۔ جس طرح کی آگ لگی تھی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید ان کی ہڈیاں بھی نہ ملیں، حادثہ تو حادثہ ہی ہوتا ہے اور موت تو موت ہی ہوتی ہے، کسی طرح کی کیوں نہ ہو لیکن جہاز کی تہہ میں کام کرتے ہوئے سیکڑوں مزدور جہاں تیل بھی ہو اور کیمیکل بھی اور دھماکے سے آگ لگ جائے پھر ٹنوں وزن کے ٹکڑے میزائل کی طرح آس پاس میں میلوں دور جا گریں تو کیا منظر ہو گا، یہ بات سمجھنا دشوار نہیں۔
آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ شپ بریکینگ یارڈ میں قیامت صغرا مچی ہوئی تھی، دوسری طرف موت کا منظر! اتناکرب ناک، بھیانک اور دل دہلا دینے والا نہیں ہوتا جتنا جہاز میں ہوا۔ اس لیے کہ آگ کے شعلوں میں مزدوروں کو جھلس کر شہید ہونے کے علاوہ اور کوئی بھاگنے کا راستہ نہ ملا ۔ کہاں بھاگتے، ہر طرف سمندر کا غرق کر دینے والا پانی۔ چند مزدور جو جہاز سے چھلانگ لگا کر باہر کودے وہ جہاز کے اوپر والاے حصے میں کام کر رہے تھے۔ ان بچنے والے زخمی مزدوروں کا کہنا ہے کہ دو سے تین سو مزدورجہاز کے اندر کام کر رہے تھے۔ اس وقت دنیا میں تین شپ یارڈ ہیں جہاں سب سے زیادہ جہازوں کو توڑنے کا کام کیا جاتا ہے۔ ایک ہندوستان، دوسرا چٹاگانگ بنگلہ دیش اور تیسرا گڈانی پاکستان۔
گڈانی ضلع لسبیلہ بلوچستان میں واقع ہے۔ یہاں جب شپ بریکنگ کا بھرپور کام ہوتا ہے تو 25000 مزدور کام کرتے ہیں مگر اس وقت 12 سے 13 ہزار مزدور کام کر رہے ہیں۔ یہاں ٹھیکیداری کا غلامانہ نظام رائج ہے۔ ٹھیکیدار ارب پتی ہیں۔ بعض ٹھیکیداروں کے پاس اپنے یارڈز ہیں۔ یہاں کے مزدور عالمی لیبر قوانین اور تمام سہولتوں سے محروم ہیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ شپ یارڈ جہازوں کو توڑنے کا ہی صرف قبرستان نہیں بلکہ مزدوروں کا بھی قبرستان بنا ہوا ہے۔ یہ پاکستان کا ایسا صنعتی علاقہ ہے جہاں ملک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور مکمل طور پر شپ بریکنگ مالکان کی حکمرانی ہے۔
ورکرز سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، پنشن اور یونین سازی سمیت اجتماعی سوداکاری کے حق سے محروم ہیں۔ اس حادثے سے دو روز قبل شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے شپ یارڈ کے مزدوروں نے کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کیا تھا۔ ان مظاہرین سے مزدور رہنما ناصرمنصور، رفیق بلوچ اور بشیر احمد محمودانی نے کہا تھا کہ 2009ء میں ہانگ کانگ میں منعقدہ کنونشن کے فیصلوں پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔
اگر اس پر عمل ہو جاتا کہ مزدوروں کی رجسٹریشن ہوتی بنیادی حقوق اور سہولتوں پر عمل ہوتا تو شاید یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ 1960ء سے یہاں شپ بریکنگ ہو رہی ہے۔ مگر کوئی یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ تین بار مزدوروں نے یونین بنانے کی کوششیں کیں لیکن مالکان اور ٹھیکیداروں نے لیبر ڈپارٹمنٹ کو بھاری رشوت دے کر رجسٹریشن نہیں ہونے دی۔ یہاں کی ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ٹھیکیداروں کے غلبے میں ہے۔ مالکان اور ٹھیکیداروں نے مل کر ایک نام نہاد کاسہ لیس یونین تشکیل دے رکھی ہے جس کا 56 سال سے کوئی الیکشن ہوا ہے اور نہ کوئی ریفرنڈم۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ صرف سات منٹ کے لیے آئے اور مزدوروں سے ملاقات بھی نہیں کی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا بھی یہی حال تھا۔ ہاں مگر ایدھی ٹرسٹ والے فیصل ایدھی کی رہنمائی میں چوتھے روز تک ان کے 150 ورکرز 50 ایمبولینسوں کے ساتھ رواں دواں رہے۔ وہ زخمی مزدوروں کو دن رات بھاگ بھاگ کر اسپتال میں پہنچاتے رہے ہیں اور زخمیوں کے اہل خانہ کو 20/20 ہزار روپے دے رہے تھے رات کو فیصل ایدھی گڈانی کی مسجد میں ہی تھوڑی آنکھیں جھپکا کر سو لیتے ہیں۔ ہاں مگر جہاز رانی کے وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصورکے پی ٹی کے ایڈمرل شفقت سے فون پر رابطہ کرایا۔ جس کے نتیجے میں نیوی کے شعبے نے ہیلی کاپٹر سے فوم پھینکے اور پانی برسایا، بعد میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھیجیں۔
ہرچند کہ یہ ایک مثبت قدم تھا مگر حادثے کے اعتبار سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھا۔ ملک کی 70 فیصد صنعتیں کراچی اور حب میں ہیں جب کہ یہاں مزدوروں کے تحفظات اور سہولیات کے لیے کوئی معقول اور ضروری مشینری نہیں ہے۔ جہاز رانی اور شپ بریکنگ کے سلسلے میں دنیا میں دو کنونشن باسل کنونشن اور ہانگ کانگ کنونشن منعقد ہوئے۔ باسل میں ماحولیات پر زیادہ زور تھا جب کہ ہانگ کانگ کنونشن میں جگہ، حالات، مزدوروں کا تحفظ، سہولیات اور لیبر قوانین پر عملدرآمد پر تھا۔ اس کنونشن میں پاکستان کا نمایندہ بھی شریک تھا۔
ہندوستان میں کنونشن کے فیصلوں پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے، حادثات میں کمی آئی ہے۔ شپ بریکنگ کے شعبے سے مالکان اور ٹھیکیدار اربوں روپے کما رہے ہیں اور حکومت بھی ان سے بھاری ٹیکس لیتی ہے، یہ ایک منافع بخش ادارہ ہے جب کہ مزدور بے یارومددگار ہیں۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ مزدوروں کی رجسٹریشن نہ کرنا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن میں 11 ستمبر 2013ء میں جب آگ لگائی گئی تھی تو اس وقت وہاں کا بھی کوئی مزدور رجسٹرڈ نہیں تھا۔ راتوں رات کیمپ لگا کر مزدوروں کے ناموں سے ان کی رجسٹریشن کروائی گئی تھی، اگر اس سے بھی سبق حاصل کر لیتے تو شاید یہ حادثہ نہ ہوتا۔
جہاز توڑنے کا عالمی مسلمہ طریقہ کار یہ ہے کہ پمپ مشین کے ذریعے پہلے تیل نکالا جاتا ہے، کیمیکل کی صفائی ہوتی ہے۔ انسپکشن ہوتی ہے اور مزدوروں کو سیفٹی پوشاک مہیا کی جاتی ہیں اس کے بعد شپ بریکنگ ہوتی ہے۔ یہاں تو مزدور غلام ہیں۔ البتہ حادثہ ہو جانے کے بعد حکومت حرکت میں آتی ہے مگر یہ کام اگر پہلے سے کر لیے جاتے تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ جیسا کہ چیئرمین شپ بریکنگ اونرز ایسوسی ایشن دیوان رضوان کو معطل کر دیا گیا جس جہاز میں آگ لگی ہوئی ہے اور جو کہ شپ کے مالکان کے رہنما بھی ہیں گرفتاری سے بچنے کے لیے خفیہ مقام میں چھپے ہوئے ہیں۔
چشم دید گواہوں کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ جہازکے اندر2 سے 3 سو مزدورکام کر رہے تھے۔ جن میں کسی کا ورکنگ کارڈ نہیں بنا تھا اور ان میں سے کسی کی بھی لاش نہیں ملی۔ جس طرح کی آگ لگی تھی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شاید ان کی ہڈیاں بھی نہ ملیں، حادثہ تو حادثہ ہی ہوتا ہے اور موت تو موت ہی ہوتی ہے، کسی طرح کی کیوں نہ ہو لیکن جہاز کی تہہ میں کام کرتے ہوئے سیکڑوں مزدور جہاں تیل بھی ہو اور کیمیکل بھی اور دھماکے سے آگ لگ جائے پھر ٹنوں وزن کے ٹکڑے میزائل کی طرح آس پاس میں میلوں دور جا گریں تو کیا منظر ہو گا، یہ بات سمجھنا دشوار نہیں۔
آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ شپ بریکینگ یارڈ میں قیامت صغرا مچی ہوئی تھی، دوسری طرف موت کا منظر! اتناکرب ناک، بھیانک اور دل دہلا دینے والا نہیں ہوتا جتنا جہاز میں ہوا۔ اس لیے کہ آگ کے شعلوں میں مزدوروں کو جھلس کر شہید ہونے کے علاوہ اور کوئی بھاگنے کا راستہ نہ ملا ۔ کہاں بھاگتے، ہر طرف سمندر کا غرق کر دینے والا پانی۔ چند مزدور جو جہاز سے چھلانگ لگا کر باہر کودے وہ جہاز کے اوپر والاے حصے میں کام کر رہے تھے۔ ان بچنے والے زخمی مزدوروں کا کہنا ہے کہ دو سے تین سو مزدورجہاز کے اندر کام کر رہے تھے۔ اس وقت دنیا میں تین شپ یارڈ ہیں جہاں سب سے زیادہ جہازوں کو توڑنے کا کام کیا جاتا ہے۔ ایک ہندوستان، دوسرا چٹاگانگ بنگلہ دیش اور تیسرا گڈانی پاکستان۔
گڈانی ضلع لسبیلہ بلوچستان میں واقع ہے۔ یہاں جب شپ بریکنگ کا بھرپور کام ہوتا ہے تو 25000 مزدور کام کرتے ہیں مگر اس وقت 12 سے 13 ہزار مزدور کام کر رہے ہیں۔ یہاں ٹھیکیداری کا غلامانہ نظام رائج ہے۔ ٹھیکیدار ارب پتی ہیں۔ بعض ٹھیکیداروں کے پاس اپنے یارڈز ہیں۔ یہاں کے مزدور عالمی لیبر قوانین اور تمام سہولتوں سے محروم ہیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ شپ یارڈ جہازوں کو توڑنے کا ہی صرف قبرستان نہیں بلکہ مزدوروں کا بھی قبرستان بنا ہوا ہے۔ یہ پاکستان کا ایسا صنعتی علاقہ ہے جہاں ملک کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا اور مکمل طور پر شپ بریکنگ مالکان کی حکمرانی ہے۔
ورکرز سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، پنشن اور یونین سازی سمیت اجتماعی سوداکاری کے حق سے محروم ہیں۔ اس حادثے سے دو روز قبل شپ بریکنگ ورکرز یونین گڈانی اور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے شپ یارڈ کے مزدوروں نے کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کیا تھا۔ ان مظاہرین سے مزدور رہنما ناصرمنصور، رفیق بلوچ اور بشیر احمد محمودانی نے کہا تھا کہ 2009ء میں ہانگ کانگ میں منعقدہ کنونشن کے فیصلوں پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔
اگر اس پر عمل ہو جاتا کہ مزدوروں کی رجسٹریشن ہوتی بنیادی حقوق اور سہولتوں پر عمل ہوتا تو شاید یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔ 1960ء سے یہاں شپ بریکنگ ہو رہی ہے۔ مگر کوئی یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ تین بار مزدوروں نے یونین بنانے کی کوششیں کیں لیکن مالکان اور ٹھیکیداروں نے لیبر ڈپارٹمنٹ کو بھاری رشوت دے کر رجسٹریشن نہیں ہونے دی۔ یہاں کی ٹرانسپورٹ کا نظام بھی ٹھیکیداروں کے غلبے میں ہے۔ مالکان اور ٹھیکیداروں نے مل کر ایک نام نہاد کاسہ لیس یونین تشکیل دے رکھی ہے جس کا 56 سال سے کوئی الیکشن ہوا ہے اور نہ کوئی ریفرنڈم۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ صرف سات منٹ کے لیے آئے اور مزدوروں سے ملاقات بھی نہیں کی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا بھی یہی حال تھا۔ ہاں مگر ایدھی ٹرسٹ والے فیصل ایدھی کی رہنمائی میں چوتھے روز تک ان کے 150 ورکرز 50 ایمبولینسوں کے ساتھ رواں دواں رہے۔ وہ زخمی مزدوروں کو دن رات بھاگ بھاگ کر اسپتال میں پہنچاتے رہے ہیں اور زخمیوں کے اہل خانہ کو 20/20 ہزار روپے دے رہے تھے رات کو فیصل ایدھی گڈانی کی مسجد میں ہی تھوڑی آنکھیں جھپکا کر سو لیتے ہیں۔ ہاں مگر جہاز رانی کے وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصورکے پی ٹی کے ایڈمرل شفقت سے فون پر رابطہ کرایا۔ جس کے نتیجے میں نیوی کے شعبے نے ہیلی کاپٹر سے فوم پھینکے اور پانی برسایا، بعد میں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھیجیں۔
ہرچند کہ یہ ایک مثبت قدم تھا مگر حادثے کے اعتبار سے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھا۔ ملک کی 70 فیصد صنعتیں کراچی اور حب میں ہیں جب کہ یہاں مزدوروں کے تحفظات اور سہولیات کے لیے کوئی معقول اور ضروری مشینری نہیں ہے۔ جہاز رانی اور شپ بریکنگ کے سلسلے میں دنیا میں دو کنونشن باسل کنونشن اور ہانگ کانگ کنونشن منعقد ہوئے۔ باسل میں ماحولیات پر زیادہ زور تھا جب کہ ہانگ کانگ کنونشن میں جگہ، حالات، مزدوروں کا تحفظ، سہولیات اور لیبر قوانین پر عملدرآمد پر تھا۔ اس کنونشن میں پاکستان کا نمایندہ بھی شریک تھا۔
ہندوستان میں کنونشن کے فیصلوں پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے، حادثات میں کمی آئی ہے۔ شپ بریکنگ کے شعبے سے مالکان اور ٹھیکیدار اربوں روپے کما رہے ہیں اور حکومت بھی ان سے بھاری ٹیکس لیتی ہے، یہ ایک منافع بخش ادارہ ہے جب کہ مزدور بے یارومددگار ہیں۔ یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ مزدوروں کی رجسٹریشن نہ کرنا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن میں 11 ستمبر 2013ء میں جب آگ لگائی گئی تھی تو اس وقت وہاں کا بھی کوئی مزدور رجسٹرڈ نہیں تھا۔ راتوں رات کیمپ لگا کر مزدوروں کے ناموں سے ان کی رجسٹریشن کروائی گئی تھی، اگر اس سے بھی سبق حاصل کر لیتے تو شاید یہ حادثہ نہ ہوتا۔
جہاز توڑنے کا عالمی مسلمہ طریقہ کار یہ ہے کہ پمپ مشین کے ذریعے پہلے تیل نکالا جاتا ہے، کیمیکل کی صفائی ہوتی ہے۔ انسپکشن ہوتی ہے اور مزدوروں کو سیفٹی پوشاک مہیا کی جاتی ہیں اس کے بعد شپ بریکنگ ہوتی ہے۔ یہاں تو مزدور غلام ہیں۔ البتہ حادثہ ہو جانے کے بعد حکومت حرکت میں آتی ہے مگر یہ کام اگر پہلے سے کر لیے جاتے تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ جیسا کہ چیئرمین شپ بریکنگ اونرز ایسوسی ایشن دیوان رضوان کو معطل کر دیا گیا جس جہاز میں آگ لگی ہوئی ہے اور جو کہ شپ کے مالکان کے رہنما بھی ہیں گرفتاری سے بچنے کے لیے خفیہ مقام میں چھپے ہوئے ہیں۔