امریکی صدارتی انتخابات
اخلاقی بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ کم از کم درجن بھر خواتین نے ٹرمپ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے
اینٹی اسٹیبلشمنٹ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات میں بہت زیادہ جوش و خروش بھر دیا ہے۔ ری پبلکن ٹرمپ کے مد مقابل ڈیمو کریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن ہیں جو دو مرتبہ امریکا کی خاتون اول اور ایک مرتبہ وزیر خارجہ رہ چکی ہیں گویا وہ گزشتہ 30 سال سے امریکی سیاست میں نمایاں ہیں اور تین ابتدائی ڈیبیٹس میں بھی ہیلری کی کارکردگی بہتر رہی۔
ٹرمپ کی ایک اعتبار سے ریگن کے ساتھ مماثلت ہے کیونکہ اس نے بھی اپنی ٹیکس ریٹرنز کا انکشاف نہیں کیا جب کہ ارب پتی بزنس مین کا تصور رکھنے کے باوجود اس نے تین مرتبہ اپنے دیوالیہ ہو جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس نے دو عشرے تک سرکاری ٹیکس ہی ادا نہیں کیا اور یوں ٹیکس قوانین کے سقم سے کما حقہ استفادہ کیا تاہم اب کانگریس نے ٹیکس قوانین کے اس سقم کو پر کر دیا ہے تا کہ کوئی اور ان کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ تو اس کی مالی کرپشن کی تصویر ہے۔
دوسری طرف اس کی اخلاقی بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ کم از کم درجن بھر خواتین نے ٹرمپ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے تاہم ٹرمپ کے حامیوں نے اس الزام کو میڈیا کی مخالفانہ مہم قرار دے کر سرے سے مسترد کر دیا اور کہا یہ کردار کشی کی مہم کلنٹن کیمپ کا کیا دھرا ہے جب کہ ری پبلکن پارٹی کے شدید حامیوں کا کہنا ہے کہ بھلے ٹرمپ پر تمام الزامات درست ہی کیوں نہ ہوں ووٹ اسی کو دیں گے کیونکہ اول تووہ ری پبلکن پارٹی کا امیدوار ہے دوسرا یہ کہ وہ ہلیری کو وہائٹ ہاؤس جانے سے ہر صورت روکنا چاہتے ہیں۔
سفید فام ووٹروں کی اکثریت ٹرمپ کے ساتھ ہی ہے جب کہ ہلیری کو عورتوں کے ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔ سیاہ فاموں اور اقلیتوں کے ووٹ بھی ہلیری کی طرف ہیں لیکن کلنٹن کیمپ کو تشویش ہے کہ سیاہ فام ووٹر اتنی تعداد میں باہر نہیں نکلے جتنے ان کی امید تھی۔ ٹرمپ کے ساتھ نیابت کے لیے پنس ہے جب کہ ہلیری کی نیابت کم کین کرے گا۔ گزشتہ دس روز میں دونوں کے مابین مقابلہ بہت سخت ہو گیا ہے۔
ری پبلکن پارٹی کی طرف سے مقرر کردہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کونے نے کانگریس کی آٹھ کمپنیوں کے چیئرمینوں کو خطوط لکھے ہیں جن میں ہلیری کی متنازعہ ای میلز پر توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اور ان کی تحقیقات تک ہلیری کو انتخابی عمل سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے حالانکہ کئی ماہ قبل ایف بی آئی نے ہلیری کو کلیئر کر دیا تھا۔ ہلیری کی ایک معتمد ہما عابدین ہے جس کا سابق شوہر انتھونی وائز جو کانگریس کا سابق رکن ہے اس پر جنسی نوعیت کی ای میلز بھیجنے کا الزام ہے اور اسی بنا پر ہما عابدین نے اس سے طلاق لے لی۔
اس کی شادی کو 15 سال ہو چکے تھے۔ ٹرمپ کیمپ نے فوراً ہما عابدین پر پاکستانی کنکشن کا الزام لگا دیا۔ حالانکہ وہ پاکستانی نژاد نہیں بلکہ بھارتی نژاد ہے جب کہ دوسری طرف ٹرمپ پر روسی کنکشن کا الزام ہے ۔ ایف بی آئی نے ہلیری کی درخواست پر دوبارہ اس کو تمام الزامات سے بری الزمہ قرار دیدیا ہے۔ ریاست فلوریڈا میں مسلمانوںکے ووٹ ہلیری کو مل گئے ہیں۔
نیشنل ریویو نامی جریدے میں ڈیوڈ فرنچ نے لکھا ہے کہ لنکن کی پارٹی تباہی سے دو چار ہو گئی ہے کیونکہ پرائمری وٹروں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے قدیمی نظریہ رکھنے والے کو ووٹ دیے ہیں جس سے کہ نسلی تفرقے کو ہوا ملی ہے اور اب امریکی عوام ملک و قوم کے مستقبل کے بارے میں ابہام کا شکار ہو گئے ہیں۔ امریکا خوف کا زیادہ شکا ہو کیا ہے اور اس کی بین الاقوامیت میں زوال آ گیا ہے اور اندرون ملک سیاسی تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔
ایک سال قبل ری پبلکن پارٹی کے ووٹر جو ٹرمپ پر غور کرنے پر ہی تیار نہیں تھے۔ اب اسے ووٹ دینے کی قطار میں لگ گئے ہیں۔ گرینڈ اولڈ پارٹی(جی او پی) داخلی طور پر خانہ جنگی کا شکار نظر آنے لگی ہے۔
اگر ٹرمپ کو 270 الیکٹورل ووٹ مل جائیں تو ہلیری کی شکست لازمی ہے حالانکہ ابتدائی تجزیے میں ہلیری کی پوزیشن اوباما کی 2012 والی پوزیشن سے بہتر تھی ائریزونا' اوہاؤ، فلوریڈا میں ٹرمپ ہلیری کے بہت نزدیک ہے۔ ٹرمپ کے لیے ایک بری خبر یہ ہے کہ ووٹر صدر کے لیے براہ راست ووٹ نہیں دیتے بلکہ الیکٹورل کالج کے ووٹ اسے ملتے ہیں۔
فی الوقت 538 الیکٹورل ہیں 435 ری پریزنٹو ہیں اور 100سینیٹرز ہیں جب کہ ڈسٹرکٹ کو لمبیا سے 3 اضافی الیکٹورل ہوتے ہیں آخری تجربے کے مطابق ٹرمپ ہلیر ی کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں بلکہ ڈیمو کریٹس کی خصوصی ریاست مشی گن میں بھی اس کی پوزیشن بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے انتخابی دھاندلی کے الزامات بھی عائد کرنا شروع کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ اگر نتیجہ اس کے خلاف آیا تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے اور اس کے حامی باقاعدہ احتجاج کریں گے۔ مسلح عسکریت پسند بھی ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں ہلیری کو آخری وقت تک اپنا پورا زور لگانا ہو گا۔
ٹرمپ کی ایک اعتبار سے ریگن کے ساتھ مماثلت ہے کیونکہ اس نے بھی اپنی ٹیکس ریٹرنز کا انکشاف نہیں کیا جب کہ ارب پتی بزنس مین کا تصور رکھنے کے باوجود اس نے تین مرتبہ اپنے دیوالیہ ہو جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس نے دو عشرے تک سرکاری ٹیکس ہی ادا نہیں کیا اور یوں ٹیکس قوانین کے سقم سے کما حقہ استفادہ کیا تاہم اب کانگریس نے ٹیکس قوانین کے اس سقم کو پر کر دیا ہے تا کہ کوئی اور ان کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ تو اس کی مالی کرپشن کی تصویر ہے۔
دوسری طرف اس کی اخلاقی بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ کم از کم درجن بھر خواتین نے ٹرمپ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے تاہم ٹرمپ کے حامیوں نے اس الزام کو میڈیا کی مخالفانہ مہم قرار دے کر سرے سے مسترد کر دیا اور کہا یہ کردار کشی کی مہم کلنٹن کیمپ کا کیا دھرا ہے جب کہ ری پبلکن پارٹی کے شدید حامیوں کا کہنا ہے کہ بھلے ٹرمپ پر تمام الزامات درست ہی کیوں نہ ہوں ووٹ اسی کو دیں گے کیونکہ اول تووہ ری پبلکن پارٹی کا امیدوار ہے دوسرا یہ کہ وہ ہلیری کو وہائٹ ہاؤس جانے سے ہر صورت روکنا چاہتے ہیں۔
سفید فام ووٹروں کی اکثریت ٹرمپ کے ساتھ ہی ہے جب کہ ہلیری کو عورتوں کے ووٹوں کی اکثریت حاصل ہے۔ سیاہ فاموں اور اقلیتوں کے ووٹ بھی ہلیری کی طرف ہیں لیکن کلنٹن کیمپ کو تشویش ہے کہ سیاہ فام ووٹر اتنی تعداد میں باہر نہیں نکلے جتنے ان کی امید تھی۔ ٹرمپ کے ساتھ نیابت کے لیے پنس ہے جب کہ ہلیری کی نیابت کم کین کرے گا۔ گزشتہ دس روز میں دونوں کے مابین مقابلہ بہت سخت ہو گیا ہے۔
ری پبلکن پارٹی کی طرف سے مقرر کردہ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کونے نے کانگریس کی آٹھ کمپنیوں کے چیئرمینوں کو خطوط لکھے ہیں جن میں ہلیری کی متنازعہ ای میلز پر توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اور ان کی تحقیقات تک ہلیری کو انتخابی عمل سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے حالانکہ کئی ماہ قبل ایف بی آئی نے ہلیری کو کلیئر کر دیا تھا۔ ہلیری کی ایک معتمد ہما عابدین ہے جس کا سابق شوہر انتھونی وائز جو کانگریس کا سابق رکن ہے اس پر جنسی نوعیت کی ای میلز بھیجنے کا الزام ہے اور اسی بنا پر ہما عابدین نے اس سے طلاق لے لی۔
اس کی شادی کو 15 سال ہو چکے تھے۔ ٹرمپ کیمپ نے فوراً ہما عابدین پر پاکستانی کنکشن کا الزام لگا دیا۔ حالانکہ وہ پاکستانی نژاد نہیں بلکہ بھارتی نژاد ہے جب کہ دوسری طرف ٹرمپ پر روسی کنکشن کا الزام ہے ۔ ایف بی آئی نے ہلیری کی درخواست پر دوبارہ اس کو تمام الزامات سے بری الزمہ قرار دیدیا ہے۔ ریاست فلوریڈا میں مسلمانوںکے ووٹ ہلیری کو مل گئے ہیں۔
نیشنل ریویو نامی جریدے میں ڈیوڈ فرنچ نے لکھا ہے کہ لنکن کی پارٹی تباہی سے دو چار ہو گئی ہے کیونکہ پرائمری وٹروں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے قدیمی نظریہ رکھنے والے کو ووٹ دیے ہیں جس سے کہ نسلی تفرقے کو ہوا ملی ہے اور اب امریکی عوام ملک و قوم کے مستقبل کے بارے میں ابہام کا شکار ہو گئے ہیں۔ امریکا خوف کا زیادہ شکا ہو کیا ہے اور اس کی بین الاقوامیت میں زوال آ گیا ہے اور اندرون ملک سیاسی تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔
ایک سال قبل ری پبلکن پارٹی کے ووٹر جو ٹرمپ پر غور کرنے پر ہی تیار نہیں تھے۔ اب اسے ووٹ دینے کی قطار میں لگ گئے ہیں۔ گرینڈ اولڈ پارٹی(جی او پی) داخلی طور پر خانہ جنگی کا شکار نظر آنے لگی ہے۔
اگر ٹرمپ کو 270 الیکٹورل ووٹ مل جائیں تو ہلیری کی شکست لازمی ہے حالانکہ ابتدائی تجزیے میں ہلیری کی پوزیشن اوباما کی 2012 والی پوزیشن سے بہتر تھی ائریزونا' اوہاؤ، فلوریڈا میں ٹرمپ ہلیری کے بہت نزدیک ہے۔ ٹرمپ کے لیے ایک بری خبر یہ ہے کہ ووٹر صدر کے لیے براہ راست ووٹ نہیں دیتے بلکہ الیکٹورل کالج کے ووٹ اسے ملتے ہیں۔
فی الوقت 538 الیکٹورل ہیں 435 ری پریزنٹو ہیں اور 100سینیٹرز ہیں جب کہ ڈسٹرکٹ کو لمبیا سے 3 اضافی الیکٹورل ہوتے ہیں آخری تجربے کے مطابق ٹرمپ ہلیر ی کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں بلکہ ڈیمو کریٹس کی خصوصی ریاست مشی گن میں بھی اس کی پوزیشن بہتر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے انتخابی دھاندلی کے الزامات بھی عائد کرنا شروع کر دیے ہیں اور کہا ہے کہ اگر نتیجہ اس کے خلاف آیا تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے اور اس کے حامی باقاعدہ احتجاج کریں گے۔ مسلح عسکریت پسند بھی ٹرمپ کی حمایت کرتے ہیں ہلیری کو آخری وقت تک اپنا پورا زور لگانا ہو گا۔