’’ اقبال سے متاثر ہونا میرے لیے بالکل فطری تھا‘‘
انھوں نے اردو شاعری کو ایسا انداز عطا کیا جس سے وہ بالکل ناآشنا تھی
س: آپ کو اقبال کی کس حیثیت میں عظمت نظر آتی ہے؟
ج: میرے نزدیک اقبال کی عظمت اس بات میں ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ شاعر بلند ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شاعری کو غیر سنجیدہ سمجھا جاتا ہے وہ اس لیے ہے کہ ہم نے ابھی تک شاعر کو وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ مستحق ہے۔ تاریخ میں کئی فلسفی ایسے گزرے ہیں کہ اب انہیں کوئی جانتا بھی نہیں، لیکن اقبال اس لیے زندہ ہے کہ ان گنت لوگ ان کا کلام پڑھتے ہیں اور اس سے حرارت اور زندگی حاصل کرتے ہیں۔
س: آپ کو اقبال کی شاعری کا کون سا پہلو سب سے اہم نظر آتا ہے۔
ج: اقبال کی شاعری کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں ہمیں منطقی ربط اور فطری ارتقاء اور ایک نظام فکر نظر آتا ہے۔ موضوع، جذبے اور فکر کے اعتبار سے ان کی شاعری منزل بہ منزل آگے بڑھتی نظر آتی ہے اور کہیں تسلسل ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ جذبے کے اعتبار سے ان کی شاعری کا آغاز ان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ یہ نقطہ وطن کی حدود سے بڑھتا ہوا عالم اسلام کی وسعتوں میں ابھرتا نظر آتا ہے اور آخر میں یہ جذبہ انسان اور کائنات کے تعلق کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ ہئیت و اسلوب کے اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شروع میں وہ داغ اور غالب کے زیر اثر شاعری میں روایتی تشبیہوں اور استعاروں سے کام لیتے ہیں، لیکن جوں جوں آگے بڑھتے ہیں، وہ پٹی پٹائی تشبیہوں اور استعاروں کو چھوڑتے جاتے ہیں۔
کہیں کہیں پرانی تشبیہوں میں نیا مفہوم بھرتے ہیں، لیکن اکثر و بیشتر وہ اپنے جذبے کو غیر مرصع اسلوب میں ادا کرجاتے ہیں۔ انہیں یہ احساس تھا کہ غیر مرصع اسلوب ذرا کم دلکش ہوتا ہے۔ اس احساس کے نتیجے میں انہوں نے اردو شاعری کو ایک ایسا انداز عطا کیا جس سے اردو پہلے بالکل ناآشنا تھی۔ وہ لفظوں کی صوتی لہروں سے شعر میں ایسی نغمگی پیدا کردیتے ہیں کہ کان اس نغمگی کو بار بار سننے کے لیے بیتاب ہوجاتے ہیں اور زبان انہیں بے ساختہ دہراتی ہے۔ نغمگی اور موسیقی اور شعریت کے اعتبار سے ''بال جبریل'' اقبال کا شاہکار ہے۔
موضوع کے اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شروع شروع میں اقبال کے موضوعات بے شمار تھے اور ان میں کوئی ربط نہیں تھا۔ بانگ درا کے دو حصے موضوعات کے اعتبار سے بہت متنوع ہیں لیکن فکری ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کے موضوعات سمٹنے لگے اور وہ سمٹ سمٹا کر صرف ایک موضوع میں مدغم ہوگئے۔ اور یہ موضوع ''انسان'' ہے۔
اقبال انسان کو اس لیے سب سے عظیم سمجھتے تھے کہ یہ ننھی جان، بے شمار مزاحمتوں کے باوجود اس چیلنج کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جس بوجھ کو اٹھانے کی فرشتوں کو بھی ہمت نہیں ہوئی۔ اقبال کے نزدیک فرد اس عظمت کو عشق کی قوت سے حاصل کرسکتا ہے۔ عشق تمام قوتوں کا منبع ہے۔ اس منبع سے عمل اور جدوجہد کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ فرد جب عظمت کی ایک منزل تک پہنچتا ہے تو اسے خوشی ہوتی ہے لیکن دوسرے ہی لمحے تشنگی کا احساس شدت اختیار کرجاتا ہے۔ وہ فرد ایک نئی بے تابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کوشش ناتمام فرد کو منجمد نہیں ہونے دیتی۔
س: اقبال کا عشق کن محرکات کا مرہون منت ہے؟
ج: کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایمان اور عقیدہ ان میں سب سے زیادہ مضبوط محرک ہیں۔
س: فیض صاحب! کیا آپ اقبال کی شاعری سے متاثر ہوئے ہیں؟
ج: کیوں نہیں، اقبال سے متاثر ہونا میرے لیے بالکل فطری تھا۔ میں سب سے زیادہ ان کی اس فکر سے متاثر ہوا ہوں کہ انسان اپنے اندر بے پناہ قوتیں رکھتا ہے اور تمام عظمتیں اسی کے لیے ہیں۔ اقبال کے اسلوب سے میں نے بہت کچھ لینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے یہ اقبال ہی سے سیکھا ہے کہ فن ریاضت چاہتا ہے، ریاضت کے بغیر شعر میں نغمگی اور موسیقی اور تاثیر پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال کی زندگی کے مطالعے ہی سے میں نے یہ جانا کہ شاعری ہمہ وقتی انہماک، توجہ اورریاضت کا تقاضا کرتی ہے۔
س: ''فیض صاحب، آپ اقبال سے کئی بار ملے ہوں گے، آپ نے ان ملاقاتوں سے کیا تاثر لیا؟''
ج: ''جی ہاں، میں اقبال سے کئی بار ملا ہوں۔ اکثر ڈاکٹر تاثیر، چراغ حسن حسرت اور صوفی تبسم کی صحبت میں انہیں دیکھا ہے۔ ان محفلوں میں اکثر لطیفے سنائے جاتے تھے اور کبھی کبھار کوئی سنجیدہ بات بھی کرلیتے تھے۔ لطائف بہت اور پر معنی ہوتے تھے۔ ایک دو لطیفے مجھے ابھی تک یاد ہیں۔
ایک دفعہ اقبال کے ایک بے تکلف دوست طویل عرصے کے بعد انہیں ملنے آئے۔ اقبال نے پوچھا کہ اس دفعہ اتنی دیر کے بعد کیوں آئے۔ ان کے دوست نے بے ساختہ کہا: وقت تو تھا فرصت نہیں تھی۔
اقبال نے ہمیں اپنے دوست کے متعلق ایک اور لطیفہ سنایا۔ ان کے دوست کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر جملے کو دوبار ادا کرتے تھے۔ اقبال نے ان سے سنجیدہ لہجے میں کہا:
تمہاری آدمی زندگی تو بالکل ضائع ہوگئی۔''
دوست نے حیرت سے پوچھا:
''وہ کیوں؟''
اقبال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
''تم ایک کام کو دو دفعہ کرتے ہو۔''
س: ''کیا ہم ملک اور قوم کی تعمیر و اصلاح میں اقبال کے کلام سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں؟''
ج: کیوں نہیں، ہم اقبال کے کلام کے ان حصوں کو عام کرسکتے ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان میں کون سے اوصاف ہونے چاہئیں اور کن برائیوں سے بچنا چاہیے۔ اقبال فرد میں جرأت، حق شناسی، ایمان کی پختگی اور مخالف ماحول سے نبرد آزما ہونے کا عزم ابھرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں بے ہمتی، نفس پرستی اور دولت کی پرستش سے سخت نفرت تھی۔ ہم اگر موجودہ دور میں اس احساس کی شمع کو فروزاں رکھ سکیں، تو ہمارے قدم ارتقاء کی منزلوں کی طرف بڑھتے رہیں گے۔n
الطاف حسن قریشی (اردو ڈائجسٹ۔ اپریل 1964ء)
''اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اس کے آئندہ ارتقاء میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کردیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قانون شریعت کا نفاذ اور ارتقا اس سرزمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ''سوشل ڈیما کریسی'' کو کسی مناسب شکل میں، جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کرلینا ''انقلاب'' نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔''
قائداعظم محمد علی جناح کے نام خط سے اقتباس
ج: میرے نزدیک اقبال کی عظمت اس بات میں ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر تھے۔ شاعر بلند ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں شاعری کو غیر سنجیدہ سمجھا جاتا ہے وہ اس لیے ہے کہ ہم نے ابھی تک شاعر کو وہ مقام نہیں دیا جس کا وہ مستحق ہے۔ تاریخ میں کئی فلسفی ایسے گزرے ہیں کہ اب انہیں کوئی جانتا بھی نہیں، لیکن اقبال اس لیے زندہ ہے کہ ان گنت لوگ ان کا کلام پڑھتے ہیں اور اس سے حرارت اور زندگی حاصل کرتے ہیں۔
س: آپ کو اقبال کی شاعری کا کون سا پہلو سب سے اہم نظر آتا ہے۔
ج: اقبال کی شاعری کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں ہمیں منطقی ربط اور فطری ارتقاء اور ایک نظام فکر نظر آتا ہے۔ موضوع، جذبے اور فکر کے اعتبار سے ان کی شاعری منزل بہ منزل آگے بڑھتی نظر آتی ہے اور کہیں تسلسل ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ جذبے کے اعتبار سے ان کی شاعری کا آغاز ان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ یہ نقطہ وطن کی حدود سے بڑھتا ہوا عالم اسلام کی وسعتوں میں ابھرتا نظر آتا ہے اور آخر میں یہ جذبہ انسان اور کائنات کے تعلق کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ ہئیت و اسلوب کے اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شروع میں وہ داغ اور غالب کے زیر اثر شاعری میں روایتی تشبیہوں اور استعاروں سے کام لیتے ہیں، لیکن جوں جوں آگے بڑھتے ہیں، وہ پٹی پٹائی تشبیہوں اور استعاروں کو چھوڑتے جاتے ہیں۔
کہیں کہیں پرانی تشبیہوں میں نیا مفہوم بھرتے ہیں، لیکن اکثر و بیشتر وہ اپنے جذبے کو غیر مرصع اسلوب میں ادا کرجاتے ہیں۔ انہیں یہ احساس تھا کہ غیر مرصع اسلوب ذرا کم دلکش ہوتا ہے۔ اس احساس کے نتیجے میں انہوں نے اردو شاعری کو ایک ایسا انداز عطا کیا جس سے اردو پہلے بالکل ناآشنا تھی۔ وہ لفظوں کی صوتی لہروں سے شعر میں ایسی نغمگی پیدا کردیتے ہیں کہ کان اس نغمگی کو بار بار سننے کے لیے بیتاب ہوجاتے ہیں اور زبان انہیں بے ساختہ دہراتی ہے۔ نغمگی اور موسیقی اور شعریت کے اعتبار سے ''بال جبریل'' اقبال کا شاہکار ہے۔
موضوع کے اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شروع شروع میں اقبال کے موضوعات بے شمار تھے اور ان میں کوئی ربط نہیں تھا۔ بانگ درا کے دو حصے موضوعات کے اعتبار سے بہت متنوع ہیں لیکن فکری ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری کے موضوعات سمٹنے لگے اور وہ سمٹ سمٹا کر صرف ایک موضوع میں مدغم ہوگئے۔ اور یہ موضوع ''انسان'' ہے۔
اقبال انسان کو اس لیے سب سے عظیم سمجھتے تھے کہ یہ ننھی جان، بے شمار مزاحمتوں کے باوجود اس چیلنج کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے جس بوجھ کو اٹھانے کی فرشتوں کو بھی ہمت نہیں ہوئی۔ اقبال کے نزدیک فرد اس عظمت کو عشق کی قوت سے حاصل کرسکتا ہے۔ عشق تمام قوتوں کا منبع ہے۔ اس منبع سے عمل اور جدوجہد کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ فرد جب عظمت کی ایک منزل تک پہنچتا ہے تو اسے خوشی ہوتی ہے لیکن دوسرے ہی لمحے تشنگی کا احساس شدت اختیار کرجاتا ہے۔ وہ فرد ایک نئی بے تابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کوشش ناتمام فرد کو منجمد نہیں ہونے دیتی۔
س: اقبال کا عشق کن محرکات کا مرہون منت ہے؟
ج: کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ لیکن ایمان اور عقیدہ ان میں سب سے زیادہ مضبوط محرک ہیں۔
س: فیض صاحب! کیا آپ اقبال کی شاعری سے متاثر ہوئے ہیں؟
ج: کیوں نہیں، اقبال سے متاثر ہونا میرے لیے بالکل فطری تھا۔ میں سب سے زیادہ ان کی اس فکر سے متاثر ہوا ہوں کہ انسان اپنے اندر بے پناہ قوتیں رکھتا ہے اور تمام عظمتیں اسی کے لیے ہیں۔ اقبال کے اسلوب سے میں نے بہت کچھ لینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے یہ اقبال ہی سے سیکھا ہے کہ فن ریاضت چاہتا ہے، ریاضت کے بغیر شعر میں نغمگی اور موسیقی اور تاثیر پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال کی زندگی کے مطالعے ہی سے میں نے یہ جانا کہ شاعری ہمہ وقتی انہماک، توجہ اورریاضت کا تقاضا کرتی ہے۔
س: ''فیض صاحب، آپ اقبال سے کئی بار ملے ہوں گے، آپ نے ان ملاقاتوں سے کیا تاثر لیا؟''
ج: ''جی ہاں، میں اقبال سے کئی بار ملا ہوں۔ اکثر ڈاکٹر تاثیر، چراغ حسن حسرت اور صوفی تبسم کی صحبت میں انہیں دیکھا ہے۔ ان محفلوں میں اکثر لطیفے سنائے جاتے تھے اور کبھی کبھار کوئی سنجیدہ بات بھی کرلیتے تھے۔ لطائف بہت اور پر معنی ہوتے تھے۔ ایک دو لطیفے مجھے ابھی تک یاد ہیں۔
ایک دفعہ اقبال کے ایک بے تکلف دوست طویل عرصے کے بعد انہیں ملنے آئے۔ اقبال نے پوچھا کہ اس دفعہ اتنی دیر کے بعد کیوں آئے۔ ان کے دوست نے بے ساختہ کہا: وقت تو تھا فرصت نہیں تھی۔
اقبال نے ہمیں اپنے دوست کے متعلق ایک اور لطیفہ سنایا۔ ان کے دوست کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر جملے کو دوبار ادا کرتے تھے۔ اقبال نے ان سے سنجیدہ لہجے میں کہا:
تمہاری آدمی زندگی تو بالکل ضائع ہوگئی۔''
دوست نے حیرت سے پوچھا:
''وہ کیوں؟''
اقبال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
''تم ایک کام کو دو دفعہ کرتے ہو۔''
س: ''کیا ہم ملک اور قوم کی تعمیر و اصلاح میں اقبال کے کلام سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں؟''
ج: کیوں نہیں، ہم اقبال کے کلام کے ان حصوں کو عام کرسکتے ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان میں کون سے اوصاف ہونے چاہئیں اور کن برائیوں سے بچنا چاہیے۔ اقبال فرد میں جرأت، حق شناسی، ایمان کی پختگی اور مخالف ماحول سے نبرد آزما ہونے کا عزم ابھرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں بے ہمتی، نفس پرستی اور دولت کی پرستش سے سخت نفرت تھی۔ ہم اگر موجودہ دور میں اس احساس کی شمع کو فروزاں رکھ سکیں، تو ہمارے قدم ارتقاء کی منزلوں کی طرف بڑھتے رہیں گے۔n
الطاف حسن قریشی (اردو ڈائجسٹ۔ اپریل 1964ء)
''اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اس کے آئندہ ارتقاء میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کردیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قانون شریعت کا نفاذ اور ارتقا اس سرزمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ''سوشل ڈیما کریسی'' کو کسی مناسب شکل میں، جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کرلینا ''انقلاب'' نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔''
قائداعظم محمد علی جناح کے نام خط سے اقتباس