صیغہ واحد متکلم
آزادیء اظہار کی گراں قدر نعمت کے حصول کے باوجود ہمارے ہاں تحریر کسی گھر کی مالکن نہیں بن سکی۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں تحریر اپنا اثر کھو چکی ہے۔ یہ سانحہ صرف اور صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی رُونما ہوا ہے۔دنیا بھر میں کمپیوٹر کے معجزات نے اپنا لوہا منوانے کے باوجود تحریر کی کرامات کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اُسے نکھارا بھی ہے، دنیا بھر میں کتابیں اُسی طرح چھپ رہی ہیں جسیے پہلے چھپا کرتی تھیں۔ ہر شعبہ زندگی کا دانشور اُسی طرح معزز ہے جسیے پہلے ہوا کرتا تھا، اس کی تحریر یں آج بھی اُسی طرح نیتجہ خیز ہیں جیسے پہلے ہوا کرتی تھیں۔ انٹرنیٹ نے اپنی کرامات کی الگ پہچان منوانے کے باوجود تحریر کی وقعت اور اہمیت کو کم نہیں بلکہ اور زیادہ مستحکم کیا ہے۔ دنیا بھرمیں نیٹ نے تحریر کو مضبوط کیا ہے، کمزور نہیں۔ تحریر کا اثر صر ف پاکستان میںماند پڑا ہے اور یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے۔
آج کا پڑھا لکھا انسان کمپیوٹر کے اسی ڈبے کے ذریعے دنیا بھر کی تحریروں کو کھنگال لیتا ہے تاکہ اپنے دل و دماغ کو روشن اور تروتازہ رکھ سکے۔ تحریر سے یہی مفید اور پائیدار تعلق اسے حالات و واقعات کے اُتار چڑھا ؤ سے وابستہ رکھتا ہے اس کے تعلقات کو بامعنی با مقصد اور مفید بناتا ہے، انھی تحریروں کا مطالعہ اس کی شخصیت کو پہچان عطا کرتا ہے۔ وہ پہچان جو فرد کی پہچان سے بڑھ کر افراد کی پہچان بن جاتی ہے جو آگے بڑھ کر معاشرتی پہچان اور معاشرتی پہچان کے بعد علاقائی پہچان کا روپ دھار کر بلا آخر قومی پہچان بن جاتی ہے۔ ہماری تحریر کی سبھی اقسام نے بلعموم فرد کی پہچان پر ہی توجہ مرکوز رکھی ہے اور ناک سے آگے دیکھنے کو اپنی تو ہین سمجھاہے۔
ہماری تحریریں بے جان ہیں کیونکہ سانس نہیں لے پارہیں۔ ہمارے اخبارات کے کالم طرح طرح سے مزین ہونے کے باوجود ہمارے اندر کی غلاظتوں کو ختم کرنے کے بجائے انھیں مزید اُجاگر کرنے کا باعث بنتی جارہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تحریر بے توقیر ہوچکی ہے۔ بے توقیر اس لیے ہو چکی ہے کہ ہر لکھنے والاصرف اور صرف دوسروں کے بارے میں لکھ رہا ہے، اپنے بارے میں قطعاً نہیں لکھ رہا کیونکہ اپنے اند ر کی گندگی اور غلاظت کسی کو نظر نہیں آتی۔ دوسروں کی گندگیاں، زبان درازیاں اور زباں بندیاں ، مجرمانہ زیادتیاں اور غفلتیں ، گالم گلوچ ، ناانصافیاں اور اقرباپروریاں ، دو رنگیاں اور دھوکا بازیاں، نافرمانیاں اور بدسلوکیاں ہٹ دھرمیاں اور بے شرمیاں سراسر جھوٹ، تکبر ، نخوّت ، حسد ، فرعونیت ، شہوت پرستی اور خود پسندی، بیماری ، کنجر پنا اور مکمل جہالت وغیرہ سبھی کچھ دوسروں کے اندر تلاش کرنے کی صلاحتیوں اور کمال فن سے مالا مال یہ تحریریں اب بے توقیر ہوچکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹکے سیربکنے کے باوجودیہ تحریریں گلی کے نکڑ پر کھڑے چھیڑ چھاڑ کرنے والے کسی ایک آوارہ نوجوان تک کو راہ راست پر نہیں لاسکیں۔
تحریروں سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے، تحریر یں انقلابات برپا کرتی آئی ہیں، تحریریں بوڑھوں کو جوان کردیتی ہیں ۔ اگر لکھنے والا باکردار ہو اور کسی عظیم مقصد کے پیش نظر لکھے۔ ایسے لکھاریوں سے توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے جن کی نظر لوگوں کے عیب ڈھونڈنے میں ہی مصروف رہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادیء اظہار کی گراں قدر نعمت کے حصول کے باوجود ہمارے ہاں تحریر کسی گھر کی مالکن نہیں بن سکی کیونکہ اس نے بہت سارے بستروں کی سیر کرلی ہے اور کسی ایک بستر تک محدود رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ہماری تحریر کی اسی بے بسی اور کسمپرسی نے ہمیں نہ گھر کا چھوڑا ہے اور نا ہی گھاٹ کا۔
آدمی کو یا گھر کا ہونا چاہیے یا گھاٹ کا کیونکہ جب تک آدمی کی پہچان نہیں ہوگی، اسے کوئی نہیں اپنائے گا، یہی وجہ ہے کہ ہم انفرادی اجتماعی، معاشرتی ، قومی بلکہ ہر سطح پر اکیلے ہوگئے ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اکیلا صرف قبر میں رہ سکتا ہے۔ ہمارے ساتھ کوئی بھی کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ہمارے ساتھ تعلق رکھ کر نہ کو ئی دوست فخر کر سکتا ہے اور نا ہی کوئی دشمن۔ دوست اس لیے فخر نہیں کرسکتاکیونکہ ہم ہر دوست کے لیے وبال جان بن چکے ہیں، دشمن اس لیے فخر نہیں کر سکتا کہ ہمیں دشمنی کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔
ہماری تحریر یں ہمارے گمانوں کی عکاس ہیں ۔ ہم اپنے اپنے گمانوں کے پیچھے جس تیزی کے ساتھ بھاگ رہے ہیں، اُسی تیزی کے ساتھ حقیقتوں کے ادارک سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک اندھا جب رفع حاجت کے لیے بھرے چوک میں پورے اعتماد کے ساتھ اس خیال سے بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا تو کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہمارے گمان ہمیں خود پر آفرین اور اوروںپر لعن طعن کرنے کا سبق ہی سکھاتے ہیں ۔ شاید اسی لیے قرآن نے گمانو ں کے پیچھے بھاگنے سے منع فرمایاہے لیکن جس ملک میں مکان کی قیمت کارخانے کی قیمت سے زیادہ ہو جائے اور سیاسی ٹاک شو تفریحی پروگراموں کی نسبت زیادہ ذوق وشوق سے دیکھے جائیں تو ایسی صورت حالات پر بین کرنے والو ں پر بھی صرف ہنسی ہی آسکتی ہے۔ ان تمام باتوں کی ہمیں سزا مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے جھوٹ بے نقاب کرنے میں اس انہماک کے ساتھ مصر وف ہیں کہ اپنے سچ کو آشکار کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں کو اسقدر اُجاگر کرتے ہیں کہ اپنی طاقت منوانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔آخر ایسا کیوں ہے؟
ایسا صرف اس لیے ہے کہ ہم صرف ساتھ والے گھر کے ماہر ہیں، اس خصوصی مہارت نے ہمیں اپنے گھر سے مکمل طور پر بے خبر کر رکھا ہے ۔ ہمارے گھر کے اندر کیا کیا گل کھل رہے ہیں، اس کی ہمیں قطعاً فکر نہیں کیونکہ ہماری ساری توجہ پڑوسی کے گھر میں تانکا جھانکی پر مرکوز ہے۔ ہم بلکل بھول گئے ہیں کہ اگر ہم اپنی دو آنکھوں سے دوسروں کو ٹھیک ٹھیک نشانے پر دیکھ سکتے ہیں تو ہزاروں آنکھیں ہمارا محاسبہ بھی کیے رہتی ہیں اور شاید ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں جانتی ہیں۔ جب تک ہم دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے اندر جھانکنے کی کوشیش نہیں کریں گے تب تک اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے، ظاہر ہے بدفعلیوں پر اترانا کسی کو بھی باعزت نہیں بنا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر شلوار پہنے گردن اکڑ ا کر چلنے کے بجائے اگر سر جھکا کر چلنا سیکھ لیں تو ہماری سمجھ کی صلاحتیں بڑھ سکتی ہیں جس سے ہمارا انتشار ہمارے اتحاد میں بدل جائے گا۔
ہماری بے بسی ہمار ی قوت میں بدل جائے گی، ہماری کمزوری ہماری طاقت اور ہمارے اندر پوشیدہ تانباک جذبے ہمارا مضبوط ترین اردہ بن جائے گا۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہوگا جب ہم خدا کو سب کا رب العٰلمین سمجھنا شروع کریں گے، اﷲ صرف مسلمانوں کا نہیں سب کا ہے، اﷲ صرف مسلمانو ں کے لیے بارش نہیں برساتا، صرف مسلمانوں کے لیے اناج نہیں اُگاتا، سورج کی روشنی اور گرمی سب پر ڈالتا ہے،چاند کی ٹھنڈی شعاعیں سب پر پڑتی ہیں، موسموں کااتارچڑھائو سبھی کے لیے ہوتا ہے، اس میں مسلمانوں کا کو ئی استحقاق نہیں ہے۔ کیونکہ سارے انسان آدم کی اولاد اور اُسی رب العٰا لمین کی مخلوق ہیں جس کی مخلوق ہونے پر مسلمان فخر کرتا ہے، بالکل اسی طرح سارے انسان چاہے مسلمان ہوں یا غیر امتّی اس نبی ؐ آخر کے سائے تلے رہتے ہیں جو رحمت العٰلمین ہے جس طرح رب العٰلمین کی سلطنت سے باہر نہیں نکلا جاسکتا بالکل اسی طرح رحمت العالمین کی رحمت کے سائے تلے سے بھی باہر نہیں نکلا جاسکتا کیونکہ جہاں جہاں تک سلطنت خداوندی پھیلی ہوئی ہے وہاں وہاں تک اُس کی رحمت سایہ فگن ہے، وہ اس کے لیے بھی رحمت ہے جو اسے صرف مسلمانوں کا نبی مانتا ہے۔ وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے جو اسے مانتے ہیں اور ان کے لیے جو جھٹلاتے ہیں۔ وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے جو نیک ہیں اور ان کے لیے بھی جو گناہ گار ہیں۔
وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے جو اس پر درود بھیجتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو اس کے گستاخ ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ اُسی رحمت العالمین کے ماننے والے اُسی رحمت العالمین کے لیے جب غصے میں آئیں تو اُسی رحمت العالمین کو رحمت العالمین ماننے والوں کو قتل کریں، ان کی جائیدادیںاور املاک جلادیں، ان پر گولیا ں اور ڈنڈے برسائیں، اُسی رحمت العالمین کے رب العالمین کے نام پر بننے والے ملک کے سارے نظام کو تتر بتر کر دیں۔کیا رحمت العالمین کو مشرقین اور مغربین کے لیے رحمت العالمین ماننے والوں کے ساتھ اس قدر ظلم اور زیادتی گستاخی نہیں ہے؟ایسے سوالوں کا جواب صرف اسی صورت ممکن ہے جب تحریر کا رخ اپنے احتساب کی طرف ہوجائے اور دوسروں کی غلطیوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں پر غور کرنا شروع کردے۔اسی پس منظر کے تحت میں نے صیغہ واحد متکلم کے عنوان سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔
ان کالموں کے ذریعے ان موضوعات پر بات ہوگی جن کا تعلق میری ذات سے ہوگا، دوسروں کی ذات سے نہیں، جن کا محور میری سوچ ہوگی، دوسروں کی نہیں، جن کے اثرات میری ذات پر ہوں گے دوسروں پر نہیں، جن سے مجھے عروج حاصل ہوگا اوروں کو نہیں جن سے میں بے عزت گردانا جائوں گا، دوسرے نہیں جن کی وجہ سے مجھے گالیاں پڑیں گی، دوسروں کو نہیں غرضکہ جو کچھ بھی ہوگا میرے ساتھ ہوگا ،کسی اور کے ساتھ نہیں کیونکہ ان موضوعات کا تعلق صرف اور صرف میری ذات سے ہوگا ، اگر میں ٹھیک ہو گیا تو میرے ارد گرد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اگرمیں ٹھیک نہ ہوا توکچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ دعا کریںکہ میں ٹھیک ہو جائوں ۔خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین
آج کا پڑھا لکھا انسان کمپیوٹر کے اسی ڈبے کے ذریعے دنیا بھر کی تحریروں کو کھنگال لیتا ہے تاکہ اپنے دل و دماغ کو روشن اور تروتازہ رکھ سکے۔ تحریر سے یہی مفید اور پائیدار تعلق اسے حالات و واقعات کے اُتار چڑھا ؤ سے وابستہ رکھتا ہے اس کے تعلقات کو بامعنی با مقصد اور مفید بناتا ہے، انھی تحریروں کا مطالعہ اس کی شخصیت کو پہچان عطا کرتا ہے۔ وہ پہچان جو فرد کی پہچان سے بڑھ کر افراد کی پہچان بن جاتی ہے جو آگے بڑھ کر معاشرتی پہچان اور معاشرتی پہچان کے بعد علاقائی پہچان کا روپ دھار کر بلا آخر قومی پہچان بن جاتی ہے۔ ہماری تحریر کی سبھی اقسام نے بلعموم فرد کی پہچان پر ہی توجہ مرکوز رکھی ہے اور ناک سے آگے دیکھنے کو اپنی تو ہین سمجھاہے۔
ہماری تحریریں بے جان ہیں کیونکہ سانس نہیں لے پارہیں۔ ہمارے اخبارات کے کالم طرح طرح سے مزین ہونے کے باوجود ہمارے اندر کی غلاظتوں کو ختم کرنے کے بجائے انھیں مزید اُجاگر کرنے کا باعث بنتی جارہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تحریر بے توقیر ہوچکی ہے۔ بے توقیر اس لیے ہو چکی ہے کہ ہر لکھنے والاصرف اور صرف دوسروں کے بارے میں لکھ رہا ہے، اپنے بارے میں قطعاً نہیں لکھ رہا کیونکہ اپنے اند ر کی گندگی اور غلاظت کسی کو نظر نہیں آتی۔ دوسروں کی گندگیاں، زبان درازیاں اور زباں بندیاں ، مجرمانہ زیادتیاں اور غفلتیں ، گالم گلوچ ، ناانصافیاں اور اقرباپروریاں ، دو رنگیاں اور دھوکا بازیاں، نافرمانیاں اور بدسلوکیاں ہٹ دھرمیاں اور بے شرمیاں سراسر جھوٹ، تکبر ، نخوّت ، حسد ، فرعونیت ، شہوت پرستی اور خود پسندی، بیماری ، کنجر پنا اور مکمل جہالت وغیرہ سبھی کچھ دوسروں کے اندر تلاش کرنے کی صلاحتیوں اور کمال فن سے مالا مال یہ تحریریں اب بے توقیر ہوچکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹکے سیربکنے کے باوجودیہ تحریریں گلی کے نکڑ پر کھڑے چھیڑ چھاڑ کرنے والے کسی ایک آوارہ نوجوان تک کو راہ راست پر نہیں لاسکیں۔
تحریروں سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے، تحریر یں انقلابات برپا کرتی آئی ہیں، تحریریں بوڑھوں کو جوان کردیتی ہیں ۔ اگر لکھنے والا باکردار ہو اور کسی عظیم مقصد کے پیش نظر لکھے۔ ایسے لکھاریوں سے توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے جن کی نظر لوگوں کے عیب ڈھونڈنے میں ہی مصروف رہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادیء اظہار کی گراں قدر نعمت کے حصول کے باوجود ہمارے ہاں تحریر کسی گھر کی مالکن نہیں بن سکی کیونکہ اس نے بہت سارے بستروں کی سیر کرلی ہے اور کسی ایک بستر تک محدود رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ہماری تحریر کی اسی بے بسی اور کسمپرسی نے ہمیں نہ گھر کا چھوڑا ہے اور نا ہی گھاٹ کا۔
آدمی کو یا گھر کا ہونا چاہیے یا گھاٹ کا کیونکہ جب تک آدمی کی پہچان نہیں ہوگی، اسے کوئی نہیں اپنائے گا، یہی وجہ ہے کہ ہم انفرادی اجتماعی، معاشرتی ، قومی بلکہ ہر سطح پر اکیلے ہوگئے ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اکیلا صرف قبر میں رہ سکتا ہے۔ ہمارے ساتھ کوئی بھی کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ہمارے ساتھ تعلق رکھ کر نہ کو ئی دوست فخر کر سکتا ہے اور نا ہی کوئی دشمن۔ دوست اس لیے فخر نہیں کرسکتاکیونکہ ہم ہر دوست کے لیے وبال جان بن چکے ہیں، دشمن اس لیے فخر نہیں کر سکتا کہ ہمیں دشمنی کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔
ہماری تحریر یں ہمارے گمانوں کی عکاس ہیں ۔ ہم اپنے اپنے گمانوں کے پیچھے جس تیزی کے ساتھ بھاگ رہے ہیں، اُسی تیزی کے ساتھ حقیقتوں کے ادارک سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک اندھا جب رفع حاجت کے لیے بھرے چوک میں پورے اعتماد کے ساتھ اس خیال سے بیٹھ جائے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا تو کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ہمارے گمان ہمیں خود پر آفرین اور اوروںپر لعن طعن کرنے کا سبق ہی سکھاتے ہیں ۔ شاید اسی لیے قرآن نے گمانو ں کے پیچھے بھاگنے سے منع فرمایاہے لیکن جس ملک میں مکان کی قیمت کارخانے کی قیمت سے زیادہ ہو جائے اور سیاسی ٹاک شو تفریحی پروگراموں کی نسبت زیادہ ذوق وشوق سے دیکھے جائیں تو ایسی صورت حالات پر بین کرنے والو ں پر بھی صرف ہنسی ہی آسکتی ہے۔ ان تمام باتوں کی ہمیں سزا مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے جھوٹ بے نقاب کرنے میں اس انہماک کے ساتھ مصر وف ہیں کہ اپنے سچ کو آشکار کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں کو اسقدر اُجاگر کرتے ہیں کہ اپنی طاقت منوانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔آخر ایسا کیوں ہے؟
ایسا صرف اس لیے ہے کہ ہم صرف ساتھ والے گھر کے ماہر ہیں، اس خصوصی مہارت نے ہمیں اپنے گھر سے مکمل طور پر بے خبر کر رکھا ہے ۔ ہمارے گھر کے اندر کیا کیا گل کھل رہے ہیں، اس کی ہمیں قطعاً فکر نہیں کیونکہ ہماری ساری توجہ پڑوسی کے گھر میں تانکا جھانکی پر مرکوز ہے۔ ہم بلکل بھول گئے ہیں کہ اگر ہم اپنی دو آنکھوں سے دوسروں کو ٹھیک ٹھیک نشانے پر دیکھ سکتے ہیں تو ہزاروں آنکھیں ہمارا محاسبہ بھی کیے رہتی ہیں اور شاید ہم سے زیادہ ہمارے بارے میں جانتی ہیں۔ جب تک ہم دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے اندر جھانکنے کی کوشیش نہیں کریں گے تب تک اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے، ظاہر ہے بدفعلیوں پر اترانا کسی کو بھی باعزت نہیں بنا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر شلوار پہنے گردن اکڑ ا کر چلنے کے بجائے اگر سر جھکا کر چلنا سیکھ لیں تو ہماری سمجھ کی صلاحتیں بڑھ سکتی ہیں جس سے ہمارا انتشار ہمارے اتحاد میں بدل جائے گا۔
ہماری بے بسی ہمار ی قوت میں بدل جائے گی، ہماری کمزوری ہماری طاقت اور ہمارے اندر پوشیدہ تانباک جذبے ہمارا مضبوط ترین اردہ بن جائے گا۔ ایسا صرف اسی صورت میں ہوگا جب ہم خدا کو سب کا رب العٰلمین سمجھنا شروع کریں گے، اﷲ صرف مسلمانوں کا نہیں سب کا ہے، اﷲ صرف مسلمانو ں کے لیے بارش نہیں برساتا، صرف مسلمانوں کے لیے اناج نہیں اُگاتا، سورج کی روشنی اور گرمی سب پر ڈالتا ہے،چاند کی ٹھنڈی شعاعیں سب پر پڑتی ہیں، موسموں کااتارچڑھائو سبھی کے لیے ہوتا ہے، اس میں مسلمانوں کا کو ئی استحقاق نہیں ہے۔ کیونکہ سارے انسان آدم کی اولاد اور اُسی رب العٰا لمین کی مخلوق ہیں جس کی مخلوق ہونے پر مسلمان فخر کرتا ہے، بالکل اسی طرح سارے انسان چاہے مسلمان ہوں یا غیر امتّی اس نبی ؐ آخر کے سائے تلے رہتے ہیں جو رحمت العٰلمین ہے جس طرح رب العٰلمین کی سلطنت سے باہر نہیں نکلا جاسکتا بالکل اسی طرح رحمت العالمین کی رحمت کے سائے تلے سے بھی باہر نہیں نکلا جاسکتا کیونکہ جہاں جہاں تک سلطنت خداوندی پھیلی ہوئی ہے وہاں وہاں تک اُس کی رحمت سایہ فگن ہے، وہ اس کے لیے بھی رحمت ہے جو اسے صرف مسلمانوں کا نبی مانتا ہے۔ وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے جو اسے مانتے ہیں اور ان کے لیے جو جھٹلاتے ہیں۔ وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے جو نیک ہیں اور ان کے لیے بھی جو گناہ گار ہیں۔
وہ ان کے لیے بھی رحمت ہے جو اس پر درود بھیجتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو اس کے گستاخ ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ اُسی رحمت العالمین کے ماننے والے اُسی رحمت العالمین کے لیے جب غصے میں آئیں تو اُسی رحمت العالمین کو رحمت العالمین ماننے والوں کو قتل کریں، ان کی جائیدادیںاور املاک جلادیں، ان پر گولیا ں اور ڈنڈے برسائیں، اُسی رحمت العالمین کے رب العالمین کے نام پر بننے والے ملک کے سارے نظام کو تتر بتر کر دیں۔کیا رحمت العالمین کو مشرقین اور مغربین کے لیے رحمت العالمین ماننے والوں کے ساتھ اس قدر ظلم اور زیادتی گستاخی نہیں ہے؟ایسے سوالوں کا جواب صرف اسی صورت ممکن ہے جب تحریر کا رخ اپنے احتساب کی طرف ہوجائے اور دوسروں کی غلطیوں کا محاسبہ کرنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں پر غور کرنا شروع کردے۔اسی پس منظر کے تحت میں نے صیغہ واحد متکلم کے عنوان سے کالم لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔
ان کالموں کے ذریعے ان موضوعات پر بات ہوگی جن کا تعلق میری ذات سے ہوگا، دوسروں کی ذات سے نہیں، جن کا محور میری سوچ ہوگی، دوسروں کی نہیں، جن کے اثرات میری ذات پر ہوں گے دوسروں پر نہیں، جن سے مجھے عروج حاصل ہوگا اوروں کو نہیں جن سے میں بے عزت گردانا جائوں گا، دوسرے نہیں جن کی وجہ سے مجھے گالیاں پڑیں گی، دوسروں کو نہیں غرضکہ جو کچھ بھی ہوگا میرے ساتھ ہوگا ،کسی اور کے ساتھ نہیں کیونکہ ان موضوعات کا تعلق صرف اور صرف میری ذات سے ہوگا ، اگر میں ٹھیک ہو گیا تو میرے ارد گرد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اگرمیں ٹھیک نہ ہوا توکچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ دعا کریںکہ میں ٹھیک ہو جائوں ۔خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو ۔ آمین