یہ سخی لوگ

گزشتہ دنوں ہر طرف ایک ایسی دھند چھا گئی جس کا پہلے سے کوئی نام نہیں تھا

Abdulqhasan@hotmail.com

آنکھوں اور بینائی کا یہ بیمار آنکھوں کا کون سا مرض ہے جس سے واقف نہیں ہے لیکن کئی ایسے نئے امراض سامنے آ جاتے ہیں جو پرانی بیماریوں کا ساتھ نہیں دیتے اور ان کے نئے نام بھی عجیب سے لگتے ہیں۔ دنیا جس قدر ترقی کر رہی ہے اسی قدر نام بھی بدل رہے ہیں اور امراض بھی نئے انداز اور نئے اسٹائل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ بہرکیف بیماری کیسی بھی ہو اس کا نام کوئی رکھا جائے اس کا علاج تو کرانا ہی ہوتا ہے اور وہ بھی جدید میڈیکل سائنس کی مدد سے کہ جس نے نام دیا ہے وہی دوا بھی دے گا۔

گزشتہ دنوں ہر طرف ایک ایسی دھند چھا گئی جس کا پہلے سے کوئی نام نہیں تھا۔ اس کے علاج بھی نکل آئے اور شفا بھی ملنے لگی۔ مریض پہلے پریشان اور پھر مطمئن دکھائی دینے لگے۔ موثر علاج مریض کو مطمئن کر دیتا ہے لیکن یہ دھند جس کا ایک نیا نام بعد میں سننے میں آیا ہر آنکھ والے کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھی۔ ایسی ڈراؤنی دھند پہلے نہیں دیکھی گئی اس لیے آنکھوں والے ڈر گئے۔ میں آنکھوں کا پرانا مریض ہوں پہلے تو میں خان عبدالولی خان کے مشورے سے علاج کیا کرتا تھا کیونکہ وہ میرے ہم مرض تھے اور ان کا مرض بھی بڑھتا گھٹتا رہتا تھا۔

وہ باوسیلہ آدمی تھے اس لیے اپنے لیے جو دوا بھی حاصل کرتے وہ میرے لیے بھی لے لیتے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ ڈاکٹر سے پوچھ لوں اور صرف اپنے رسک پر اسے استعمال کروں، لیکن میں مستقل مریض تھا کہ خان صاحب اپنے مرض کے ساتھ چلے گئے اور میرے لیے چشموں کے فریم تحفے میں چھوڑ گئے جن کی حفاظت اپنے مہربان کی نشانی کے طور پر میں کرتا رہتا ہوں۔

بات اس دھند کی ہو رہی تھی جو گزشتہ دنوں ہمارے ماحول پر اچانک چھا گئی اور اس بری طرح کہ میرے جیسے آنکھوں کے بیمار گھبرا اٹھے۔ ایک دو دن اس کا عروج رہا اور پھر زوال شروع ہو گیا۔ میرے مہربان نے اطلاع دی کہ اب دو تین دنوں میں یہ گرد بھی بیٹھ جائے گی اور ہماری آپ کی بصارت نارمل ہو جائے گی۔ میرا مہربان ہم مرض بھی اسی خطرے میں رہتا ہے اور میری طرح مسلسل احتیاط کے ساتھ کہ بینائی کا کوئی متبادل نہیں ہے ویسے سچ بات تو یہ ہے کہ جتنا دیکھنا تھا دیکھ لیا۔ اب مزید کیا دیکھیں گے۔ دنیا دیکھ لی اور دنیا کا بہت کچھ دیکھ لیا۔


آثار قدیمہ کا ایک ہجوم ان کی تاریخ کے ساتھ نظروں سے گزر گیا اور ان سب کو جی بھر کر دیکھا۔ مصر کے قدیم مگر بدصورت آثار اور اہرام بھی دیکھے، ایک آدھ کے اندر جانے کا اتفاق بھی ہو گیا۔ اسی طرح مسلمانوں کے آثار بھی دیکھے جن میں سے کوئی بھی بدصورت نہیں تھا۔ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں تھے اپنے حسن کے ساتھ جگمگا رہے تھے۔ مثال کے طور پر تاج محل کا نام لے لیں یا دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی مساجد کا جن کا حسن انسان کو دنگ کر دیتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کوئی اور نشانی بھی ایسی ہو گی جو نگاہوں اور قدموں کو پکڑ لے گی اور آپ اس پر نظر ڈال کر آگے بڑھ جائیں گے۔

ایران مصر اور کئی عرب ملک ایسے ہیں جن کی سرزمین ان آثار سے روشن ہے اور دنیا ان کو دیکھنے آتی ہے۔ یہ ایک طویل فہرست ہے اور مسلمان بطور حکمران یا اچھی حیثیت میں جس ملک میں گئے وہاں اپنی کوئی نہ کوئی نشانی چھوڑ آئے۔ انھوں نے کسی تاریخی عمارت کی ایک اینٹ بھی وہاں سے نہیں اٹھائی بلکہ وقت ملا تو اس کو مزید آراستہ کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں عبرت کا مقام ہے کہ یہاں ہندوستان کے ایک گروہ اور حکمران نے قدیم آثار کو لوٹ لیا لیکن ان مقامات پر ان کے جو آثار بھی تھے وہ آج تک صحیح سلامت ہیں۔

بہرحال ہر قوم کا اپنا مزاج ہے ہم مسلمانوں نے دنیا کو کیا نہیں دیا اور ایسے آثار دیے کہ ان کا جواب ممکن ہی نہیں لیکن ہم ان لوگوں سے اپنے آثار محفوظ نہ رکھ سکے۔ آج کی تاریخ یہ سب ہمارے سامنے پیش کرتی ہے اور دنیا کی عبرت کے لیے اس زمین پر سب کچھ موجود ہے جو اپنے بنانے اور دنیا کے سامنے لانے والوں کے ذوق کی نشانی ہے اور ایک نمونہ ہے۔

اتفاق سے مجھے کئی ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں موجود وہ آثار جو مسلمانوں نے تعمیر کیے اپنی چھب دکھا رہے ہیں۔ ان کی پانی کی نالیاں بھی آرٹ کا ایک نمونہ ہیں اور ان میں سے پانی کھل کر بہتا ہے اور ادھر ادھر گند نہیں پھیلتا۔ یہ زندگی اور انسانی ذوق و شوق کے نمونے ہیں جو اس زمین پر اور اس زمین پر موجود عمارتوں میں دنیا کے سامنے ہیں۔ ان عمارتوں کا حوالہ کیا دیں جو انسانی تاریخ کو نئی زندگی دے گئیں۔ ان آثار کو بنانے والے فنکار گزر گئے مگر اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ گئے بعد میں آنے والے انسانوں کے لیے، یہ وہ سخی لوگ تھے جو قدرت نے بنی نوع انسان کو عطا کیے تھے۔
Load Next Story