رویوں کی نفسیات
رویے انفرادی طور پر تشکیل پاتے ہیں، جو سماجی نفسیات کا اہم حصہ بن جاتے ہیں
رویے انفرادی طور پر تشکیل پاتے ہیں، جو سماجی نفسیات کا اہم حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ رویے ہمارے احساسات،خیالات اور پسند وناپسند کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ ہماری سوچ اور عمل کے درمیان رابطے کا کام دیتے ہیں۔ ان رویوں کا پس منظر سمجھنا بہت مشکل کام ہے مگر کہیں نہ کہیں لا شعور میں موجود ناپسندیدہ رویے اور تلخ تجربات ان رویوں کا محرک بنتے ہیں۔ایک طرح سے شعوری طور پر رویوں کا اظہار اور ان کی کڑی کہیں نہ کہیں ماضی سے ملتی ہے۔ ہمارا ماضی ہمارے ذہن کے اس حصے میں محفوظ ہوتا ہے جسے لا شعور کہاجاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رویے کیسے تشکیل پاتے ہیں؟ اور ان کی ترتیب میں کون سی محرکات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ دو عوامل اس حوالے سے اہم ہیں۔ ایک تو موروثی اثر ہے، جو بہت اہم اور اٹل ہے۔ جسے ہم کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جیسے ہر خاندان کی ساکھ یا تباہی ان کے رویوں سے بنتی ہے، شرافت، سچائی یا ایمانداری نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے، اسی طرح برے اور منفی رویے بھی کردار کا تعین کرتے ہیں۔ جو خاندان کی بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں۔ ان رویوں کا موروثی پس منظر ایک اٹل حقیقت ہے بالکل موروثی بیماریوں کی طرح ماں کی سوچ اور ماحول کا اثر بچے پر اس وقت سے پڑنا شروع ہوجاتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔
ماں کی سوچ، پسند ناپسند، رویے اور رد عمل بچے کے ذہن و جسمانی حمت پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو معاشرے ماں کے حقوق، مزاج اور حالت کو نظر اندازکرتے ہیں وہاں ماحول میں ذہنی تناؤ زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ ماں اور بچے کا تعلق ذہنی و روحانی ہے یہ زمین اور زرخیزی کا رابطہ ہے۔ زمین کو پانی اور توجہ ملتی رہے تو وہ ہریالی بانٹتی ہے دوسری صورت میں بنجر بن جاتی ہے ماں کا احساس اگر بنجر زمین جیسا بنادیاجائے تو نسلیں بھی وہ ہریالی ذہن میں محسوس نہیں کرسکتیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے وہ ایک ہاتھ سے وصول کرکے دوسرے ہاتھ سے لوٹادیتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک مضمون میری نظر سے گزرا جس کے مطابق سری لنکا واحد ملک ہے جہاں پڑھی لکھی ماں بچوں کی پرورش بہتر انداز میں کرتی ہے۔
اس تحقیقی مضمون کے مطابق یہ ماں بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان، نیپال کی ماؤں کی نسبت بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کا بہتر خیال رکھتی ہے جب سری لنکا گئے تو وہاں نئی نسل کو بہت مثبت اور فعال پایا۔ وہاں بچے اور نوجوان بہت پرسکون تھے معاشرہ بھی منظم تھا ماں کا ذہنی سکون اور معاشرتی رتبہ، ماحول کی ترتیب سے عیاں تھا چند ماؤں سے بات چیت ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ لوگ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے نہ بے جا روک ٹوک کی جاتی ہے پڑھائی کے حوالے سے بھی بچوں پر کوئی ذہنی دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔ مرد گھرکی خواتین سے تعاون کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اگر گھر یا خاندان چند اچھے اصول اپنالے تو نئی نسلوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ عورتیں ذہنی دباؤ کے ساتھ جسمانی تشدد کا شکار الگ ہوتی ہیں یہ غیر انسانی رویے گھروں سے لے کر باہر کی دنیا تک عام ہیں۔ جن معاشروں میں عورت کو ذہنی و جسمانی تحفظ حاصل نہیں وہ سماج ہر طرح کی بد نظمی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ عورت کے حوالے سے جو رویے ہمیں اس معاشرے میں موجود ملتے ہیں وہ موروثی اور ماحول کی پیداوار ہیں۔
ایک بیٹا باپ کے منفی رویے سے بہت کچھ سیکھتا ہے جو اس کی ماں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے آگے چل کر وہی بیٹا لاشعوری طور پر ویسا ہی منفی رویہ اپنی بیوی کے ساتھ رکھے گا۔ لہٰذا رویوں کی ترتیب میں موروثیت کے ساتھ ماحول کا اثر بھی پایا جاتا ہے موروثی وجوہات دکھائی نہیں دیتے مگر ماحول کی ترتیب یا تناؤ واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
رویوں کی تعمیر میں سماجی زندگی کے اثرات، مشروط رویے، مشاہدات، تقلیدی رویے، تجربات، ذاتی رجحان و معلوماتی پہلو وغیرہ شامل ہیں۔
زندگی مسلسل رنگ بدلتی ہے لہٰذا رویے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں برے نتائج اور تجربوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اس کے بعد وہ اپنے رویوں میں بہتری لے کر آتا ہے جس کے لیے ذاتی تجزیے کی صلاحیت، خود احتسابی اور دور اندیشی کا ہونا لازمی امر ہے۔ انسان کے حالات بہت بڑی حد تک اس کے رویوں پر انحصار کرتے ہیں۔ انسان المیے اور حادثے بھی اپنے رویوں سے خود تخلیق کرتا ہے۔ منہ، ہٹ دھرمی، جارحیت، غصہ اور انا پرستی جیسے رویے اس وقت پیدا ہونے لگتے ہیں جب لوگ آمرانہ رویوں اور بے جا سختی کا سامنا کرتے ہیں۔
مثال یورپ یا امریکا میں لوگوں کے رویوں میں اعتدال پایاجاتا ہے وہ چیخ کر بات نہیں کرتے، یا غلطی پر چراغ پا نہیں ہوتے بلکہ معاملے کو سمجھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان معاشروں میں انسانی حقوق کی بالادستی قائم ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے انھیں قانونی تعاون درکار ہے لہٰذا رویے ترتیب اور تہذیب کے دائرے میں چلتے ہیں۔
ہم نے کبھی رویوں کی بد صورت پر احتجاج نہیں کیا۔ ارد گرد جس قدر برائی ماحول میں نظر آتی ہے۔ وہ ہماری خاموشی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ تبدیلی ذات کے رویوں میں بہتری سے آتی ہے ذات کا سکون اورتنظیم گھر اور ماحول میں بہتری لے کر آتی ہے حل یہی ہے کہ خود احتسابی کو ذات کا آئینہ بنالینے سے انسان دوسروں کی خامیوں کی طرف کم متوجہ ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رویے کیسے تشکیل پاتے ہیں؟ اور ان کی ترتیب میں کون سی محرکات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ دو عوامل اس حوالے سے اہم ہیں۔ ایک تو موروثی اثر ہے، جو بہت اہم اور اٹل ہے۔ جسے ہم کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتے۔ جیسے ہر خاندان کی ساکھ یا تباہی ان کے رویوں سے بنتی ہے، شرافت، سچائی یا ایمانداری نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے، اسی طرح برے اور منفی رویے بھی کردار کا تعین کرتے ہیں۔ جو خاندان کی بدنامی کا سبب بن جاتے ہیں۔ ان رویوں کا موروثی پس منظر ایک اٹل حقیقت ہے بالکل موروثی بیماریوں کی طرح ماں کی سوچ اور ماحول کا اثر بچے پر اس وقت سے پڑنا شروع ہوجاتا ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔
ماں کی سوچ، پسند ناپسند، رویے اور رد عمل بچے کے ذہن و جسمانی حمت پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو معاشرے ماں کے حقوق، مزاج اور حالت کو نظر اندازکرتے ہیں وہاں ماحول میں ذہنی تناؤ زیادہ پایا جاتا ہے کیونکہ ماں اور بچے کا تعلق ذہنی و روحانی ہے یہ زمین اور زرخیزی کا رابطہ ہے۔ زمین کو پانی اور توجہ ملتی رہے تو وہ ہریالی بانٹتی ہے دوسری صورت میں بنجر بن جاتی ہے ماں کا احساس اگر بنجر زمین جیسا بنادیاجائے تو نسلیں بھی وہ ہریالی ذہن میں محسوس نہیں کرسکتیں۔
یہ فطرت کا قانون ہے وہ ایک ہاتھ سے وصول کرکے دوسرے ہاتھ سے لوٹادیتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک مضمون میری نظر سے گزرا جس کے مطابق سری لنکا واحد ملک ہے جہاں پڑھی لکھی ماں بچوں کی پرورش بہتر انداز میں کرتی ہے۔
اس تحقیقی مضمون کے مطابق یہ ماں بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان، نیپال کی ماؤں کی نسبت بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کا بہتر خیال رکھتی ہے جب سری لنکا گئے تو وہاں نئی نسل کو بہت مثبت اور فعال پایا۔ وہاں بچے اور نوجوان بہت پرسکون تھے معاشرہ بھی منظم تھا ماں کا ذہنی سکون اور معاشرتی رتبہ، ماحول کی ترتیب سے عیاں تھا چند ماؤں سے بات چیت ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ لوگ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے نہ بے جا روک ٹوک کی جاتی ہے پڑھائی کے حوالے سے بھی بچوں پر کوئی ذہنی دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔ مرد گھرکی خواتین سے تعاون کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اگر گھر یا خاندان چند اچھے اصول اپنالے تو نئی نسلوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جاتا ہے۔
عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے۔ عورتیں ذہنی دباؤ کے ساتھ جسمانی تشدد کا شکار الگ ہوتی ہیں یہ غیر انسانی رویے گھروں سے لے کر باہر کی دنیا تک عام ہیں۔ جن معاشروں میں عورت کو ذہنی و جسمانی تحفظ حاصل نہیں وہ سماج ہر طرح کی بد نظمی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ عورت کے حوالے سے جو رویے ہمیں اس معاشرے میں موجود ملتے ہیں وہ موروثی اور ماحول کی پیداوار ہیں۔
ایک بیٹا باپ کے منفی رویے سے بہت کچھ سیکھتا ہے جو اس کی ماں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے آگے چل کر وہی بیٹا لاشعوری طور پر ویسا ہی منفی رویہ اپنی بیوی کے ساتھ رکھے گا۔ لہٰذا رویوں کی ترتیب میں موروثیت کے ساتھ ماحول کا اثر بھی پایا جاتا ہے موروثی وجوہات دکھائی نہیں دیتے مگر ماحول کی ترتیب یا تناؤ واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
رویوں کی تعمیر میں سماجی زندگی کے اثرات، مشروط رویے، مشاہدات، تقلیدی رویے، تجربات، ذاتی رجحان و معلوماتی پہلو وغیرہ شامل ہیں۔
زندگی مسلسل رنگ بدلتی ہے لہٰذا رویے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں برے نتائج اور تجربوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اس کے بعد وہ اپنے رویوں میں بہتری لے کر آتا ہے جس کے لیے ذاتی تجزیے کی صلاحیت، خود احتسابی اور دور اندیشی کا ہونا لازمی امر ہے۔ انسان کے حالات بہت بڑی حد تک اس کے رویوں پر انحصار کرتے ہیں۔ انسان المیے اور حادثے بھی اپنے رویوں سے خود تخلیق کرتا ہے۔ منہ، ہٹ دھرمی، جارحیت، غصہ اور انا پرستی جیسے رویے اس وقت پیدا ہونے لگتے ہیں جب لوگ آمرانہ رویوں اور بے جا سختی کا سامنا کرتے ہیں۔
مثال یورپ یا امریکا میں لوگوں کے رویوں میں اعتدال پایاجاتا ہے وہ چیخ کر بات نہیں کرتے، یا غلطی پر چراغ پا نہیں ہوتے بلکہ معاملے کو سمجھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان معاشروں میں انسانی حقوق کی بالادستی قائم ہے۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے انھیں قانونی تعاون درکار ہے لہٰذا رویے ترتیب اور تہذیب کے دائرے میں چلتے ہیں۔
ہم نے کبھی رویوں کی بد صورت پر احتجاج نہیں کیا۔ ارد گرد جس قدر برائی ماحول میں نظر آتی ہے۔ وہ ہماری خاموشی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ تبدیلی ذات کے رویوں میں بہتری سے آتی ہے ذات کا سکون اورتنظیم گھر اور ماحول میں بہتری لے کر آتی ہے حل یہی ہے کہ خود احتسابی کو ذات کا آئینہ بنالینے سے انسان دوسروں کی خامیوں کی طرف کم متوجہ ہوتا ہے۔