کب آئے گا وہ دن
کسی بھی تقریب کی محفل میں بیٹھیں گول مول باتوں کے بعد موجودہ حالات پر گفتار رفتار کے مثل رواں ہوتی ہے
ISLAMABAD:
کسی بھی تقریب کی محفل میں بیٹھیں گول مول باتوں کے بعد موجودہ حالات پر گفتار رفتار کے مثل رواں ہوتی ہے۔ دوستوں میں تو ہر موضوع پر باتیں ہوتی ہیں، جو جس دفتر میں ملازم وہاں کی باتیں ہر کام والا اپنے کام کی باتیں لیکن سب سے بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اپنے آفس کی بات کی ہے۔ وہاں بھی حکومتی احکامات حکومتی لوگوں کی باتیں اسی طرح ہر شخص ملکی حالات کی باتوں کے ساتھ اپنے حالات لے بیٹھا۔ حقیقت ہے جس طرح وقت گزر رہا ہے۔
لوگوں کے حالات بڑھنے کے بجائے گر رہے ہیں، آمدنی کم اخراجات زیادہ۔ وہ شخص کیا کرے میرے ایک دوست نے جیب سے بجلی کا بل نکالا بولا آپ دیکھیں 80 گزکا مکان خود آپ نے دیکھا کتنے کمرے ہیں اور لائٹ کا استعمال کس قدر۔ بل دیکھا 6 ہزار کا بل واقعی زیادتی ہے میں نے کہا واقعی یہ زیادتی ہے۔ میں چھ بجے دفتر ہٰذا گیا لیکن بجائے بل درست ہونے کے یہ کہا کہ صرف اقساط ہو سکتی ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں بل درست ہے۔ حیرت کوئی ایئرکنڈیشنڈ نہیں تین پنکھے دس بلب ایک کپڑے دھونے کی مشین جو ہفتے میں ایک باردوگھنٹے چلتی ہے۔اس کے علاوہ اورکوئی خرچ نہیں۔
کیا عرض کروں یہ صرف ایک محکمے کی بات نہیں، بلاوجہ ہم صرف ایک ڈپارٹمنٹ کو بدنام کرتے ہیں۔ گیس کا پہلے یہ حال نہ تھا لیکن اب حال بدل گیا، فون تو شروع سے اپنے اہل قدم پر رواں دواں ہے۔ ایک کرایہ دار کے لیے سخت مشکل ہے یوں سمجھ لیں اس کی ہر چیز کرایہ پر رکھی ہے اور مہینہ ہوتے کرایہ دینا ہے۔ عجیب اتفاق ہے پاکستان بنے ایک قلیل عرصہ بیت گیا لیکن عوام میں بہتری نہ آسکی۔ علاج معالجہ، تعلیم، پانی، رہائش، کھانا پینا ہر شے میں وہ پریشان ہے۔ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے عوامی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے ہر پاکستانی جو بڑے عہدوں، بڑے مقام، بڑی مسندوں، بڑے مقاموں، بڑے بھتوں، بڑی رشوت، بڑی کمیشنوں پر موجود ہے وہ یقینا خوشحال ہے یہ پانچ فیصد طبقہ اور پانچ فیصد طبقہ وہ جو دوسرے غلط راستوں سے پیدا کر رہے ہیں۔ نوے فیصد عوام روزمرہ کی پریشانیوں میں ملوث ہے۔ ملک کا کسان جو بوتا ہے وہ ہم کھاتے ہیں وہ کسان غریب ہے وہ اپنی جگہ ہر سال مقروض رہتا ہے۔ فصل کی آمد پر قرض لیا اور جب فصل پیدا ہوئی قرضے میں چلی گئی۔
ہم لوگ صرف باتیں بنانے میں آگے ہیں صرف ایک ہفتہ ان کے پاس رہ کر دیکھیں ان کی غربت آسودگی کا حال معلوم ہوجائے گا۔ اس کے بعد دوسرے کسی اور کے پاس رکشہ چلانے والا جس نے قسطوں پر رکشہ لیا، قسط دینی لازم ہے، رکشے کا فیول، ٹوٹ پھوٹ اپنی جگہ اس میں لین دین بھی اب کیا کرے کس طرح گھر جائے۔ اگر ایک ہفتہ بھی بیمار پڑ گیا تو ایک ہفتے کی قسط کی فکر کا خوف ہوتا ہے اگر کہیں قسط رک گئی تو قسطوں والے آکر رکشہ اٹھالے جائیں گے ان کے تعلقات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ یہ غریب رکشے والا کر کچھ نہیں سکتا۔
میں نے ایک سبزی فروش کو دیکھا بیس سال سے سبزی فروشی پر ہے، فٹ پاتھ پر بیٹھتا ہے، ٹھیلہ خریدنے کے پیسے نہ بن سکے۔ فٹ پاتھ پر بھی مفت نہیں یہاں بھی اس کو نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ اس کے آگے ایک پھل والا ہے اچھا خوبصورت ٹھیلا ہے جس میں کافی مال آتا ہے۔ لائل پور میں ایک روئی کے کارخانے میں ملا تھا۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے فیکٹری بند ہوئی۔ کراچی میں بڑا بھائی فروٹ بیچتا ہے اس کے پاس آگیا۔ فروٹ لگانا شروع کردیے۔ اس سے بات کی یہ بھی اپنی غربت کے گیت سنانے لگا۔
کارخانے سے جو رقم ملی تھی وہ فروٹ کے ٹھیلے اور مال لگانے پر خرچ کردی۔ ابھی تک لگی ہوئی رقم وصول نہیں ہوئی۔ وہ بھی پریشان ہے اور حکومت کو برا کہتا ہے اور اپنی غربت کا دکھڑا روتا ہے۔ پورے ملک کی یہی حالت ہے، ٹھیلے والے، پھیری والے، گھروں پر رنگ کرنے والے، دفتروں میں کام کرنے والے جن سے ملا کوئی خوشحال نظر نہیں آیا۔ کسی نے کہا یہ ملک کیسے چل رہا ہے، جواب دیا اللہ چلا رہا ہے، بس یہی پاکستانی عوام پر ہے۔
حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں چند سالوں میں سدھرنا نہیں کہہ سکتے۔ ہاں یہ ضرور ہے سدھار آنا شروع۔ ایسا نہیں 3 ماہ 4 ماہ ڈیڑھ سال، 2 ماہ اور پھر تین سال لیکن ساڑھے تین سال ہوگئے پہلے سے بھی خراب۔ ہاں ایسا ضرور ہے ان کے حالات پہلے سے افضل مالا مال ہوگئے ہوں گے۔ ایمانداری کا اپنا ایک مقام ہے اس دنیا سے لے کر اگلی دنیا تک۔ چور بازاری، بے ایمانی اس دنیا میں تو واہ واہ ہے لیکن دوسری دنیا میں دوزخ کے علاوہ اس کے لیے کچھ نہیں۔ مجھے کیا بلکہ بہت لوگوں کو اس امر پر تعجب ہے ہم سب مسلمان ہوتے ہوئے اچھی بری باتوں کی معلومات رکھتے ہیں، سمجھتے ہیں اچھے سلوک کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا اور برے سلوک کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا۔
مال اور زر ہوتے ہوئے ہم غربا کی مدد نہیں کرتے ہمارے حاکم چاہیں تو پورے ملک کے بسنے والے خوشحال نہیں تو فارغ البال ضرور ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے عوام نے وعدہ، عہد و پیماں سب دیکھا ووٹ لیتے وقت آسمان سے ستارے نیچے دینے کی قسمیں وعدے لیکن ووٹ حاصل کرنے اور مسند حاصل کرنے کے بعد کہاں کے تم اور کہاں کے ہم۔ ایسا لگتا ہے کوئی شناسائی نہیں ایک دوسرے کو جانتے نہیں۔ دوبارہ جب وقت آیا تو آ کے پیروں کو ہاتھ لگایا، ٹوپی پیروں میں رکھ دی، جھوٹ، مکاری، عیاری، چالبازی سے پھر ووٹ حاصل کرلیے اس ملک میں یہ سلسلہ مدتوں سے چل رہا ہے امید نظر آتی ہے شاید آیندہ بھی ایسا ہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
کئی بار حاکم بننے کے بعد خود اس قدر زردار بنالیا کہ نسلوں کی نسلیں زمین و جائیداد مال و زر میں موجود رہیں۔ یہ سوچ کر ساری دولت اکٹھا کی، جائیدادیں بنائیں، بلڈنگیں کھڑی کیں، ہوٹل بنائے لیکن یہ نہ سوچا جن غریبوں، مسکینوں، معذوروں، بیواؤں کا پیسہ استعمال کر رہے ہو یہ کبھی رنگ دکھا سکتا ہے۔ اللہ کی لاٹھی میں دیر ہے اندھیر نہیں، غریب غربا کی مدد کرنے کے بجائے ان کا حق دار پیسہ استعمال کریں یہ کب تک۔ اس وقت عوام چراغ پا ہے اس کا کہنا اگر جس کے پاس طاقت ہے وہ ان کو اپنی طاقت کے زور پر ان کی مسند سے اٹھا دے اور اچھے ایماندار محنتی دیانتدار لوگوں کو بٹھائیں تاکہ وہ اپنے شاہی تختوں پر بیٹھ کر غریبوں کے لیے شاہی کام کریں۔
آج اگر ایک کام شروع ہوگیا تو بیس سال میں ملک بالکل تبدیل ہوجائے گا۔ نرسری کی تعلیم میں بچوں کو ملک و ملکیت، وفاداری، دیانتداری، قانون کی بالادستی سکھائیں میٹرک تک آکر یہ ملک کے وفادار ہوں گے اور بیس سال میں کایا پلٹ جائے گی۔ جو بھی ملک کامیاب ہوا اس نے یہی فارمولا اپنایا۔ یہ وہ عمل ہے جو رائیگاں نہیں جاتا چھوٹے بچے بڑے ہوکر ملک کے قانون پر پورا عمل کرتے ہیں نہ جھوٹ نہ فریب سارے کام سیدھے۔ سرکاری ملازم ہوں پرائیویٹ یا خود کاروبار کرنے والے سب ایک جذبے پر ہوں گے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ متعدد بار برسر اقتدار آنے کے بعد ترقی کی منازل طے نہ ہوسکیں۔ جنھوں نے اپنی کاوشوں سے تعلیم حاصل کی وہ بے روزگار پھر رہے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے بی اے یا ایم اے پاس چپڑاسی، ڈاک و سوئیپر اس قسم کے چھوٹے عہدوں پر درخواست گزار ہیں۔ اس میں بھی اگر کسی کو کہیں واقفیت ملی یا کچھ رقم قرض لے کر دے دی تو وہ ملازم ہوگیا ورنہ وہ اسی طرح کہیں فٹ پاتھ پر کسی شے کا ٹھیہ لگاتا ہے اور شرم کی وجہ سے اپنی اعلیٰ تعلیم بھی نہیں بتا سکتا یہ سب پورے ملک کے ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہے کب آئے گا وہ دن ؟
کسی بھی تقریب کی محفل میں بیٹھیں گول مول باتوں کے بعد موجودہ حالات پر گفتار رفتار کے مثل رواں ہوتی ہے۔ دوستوں میں تو ہر موضوع پر باتیں ہوتی ہیں، جو جس دفتر میں ملازم وہاں کی باتیں ہر کام والا اپنے کام کی باتیں لیکن سب سے بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اپنے آفس کی بات کی ہے۔ وہاں بھی حکومتی احکامات حکومتی لوگوں کی باتیں اسی طرح ہر شخص ملکی حالات کی باتوں کے ساتھ اپنے حالات لے بیٹھا۔ حقیقت ہے جس طرح وقت گزر رہا ہے۔
لوگوں کے حالات بڑھنے کے بجائے گر رہے ہیں، آمدنی کم اخراجات زیادہ۔ وہ شخص کیا کرے میرے ایک دوست نے جیب سے بجلی کا بل نکالا بولا آپ دیکھیں 80 گزکا مکان خود آپ نے دیکھا کتنے کمرے ہیں اور لائٹ کا استعمال کس قدر۔ بل دیکھا 6 ہزار کا بل واقعی زیادتی ہے میں نے کہا واقعی یہ زیادتی ہے۔ میں چھ بجے دفتر ہٰذا گیا لیکن بجائے بل درست ہونے کے یہ کہا کہ صرف اقساط ہو سکتی ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں بل درست ہے۔ حیرت کوئی ایئرکنڈیشنڈ نہیں تین پنکھے دس بلب ایک کپڑے دھونے کی مشین جو ہفتے میں ایک باردوگھنٹے چلتی ہے۔اس کے علاوہ اورکوئی خرچ نہیں۔
کیا عرض کروں یہ صرف ایک محکمے کی بات نہیں، بلاوجہ ہم صرف ایک ڈپارٹمنٹ کو بدنام کرتے ہیں۔ گیس کا پہلے یہ حال نہ تھا لیکن اب حال بدل گیا، فون تو شروع سے اپنے اہل قدم پر رواں دواں ہے۔ ایک کرایہ دار کے لیے سخت مشکل ہے یوں سمجھ لیں اس کی ہر چیز کرایہ پر رکھی ہے اور مہینہ ہوتے کرایہ دینا ہے۔ عجیب اتفاق ہے پاکستان بنے ایک قلیل عرصہ بیت گیا لیکن عوام میں بہتری نہ آسکی۔ علاج معالجہ، تعلیم، پانی، رہائش، کھانا پینا ہر شے میں وہ پریشان ہے۔ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے عوامی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے ہر پاکستانی جو بڑے عہدوں، بڑے مقام، بڑی مسندوں، بڑے مقاموں، بڑے بھتوں، بڑی رشوت، بڑی کمیشنوں پر موجود ہے وہ یقینا خوشحال ہے یہ پانچ فیصد طبقہ اور پانچ فیصد طبقہ وہ جو دوسرے غلط راستوں سے پیدا کر رہے ہیں۔ نوے فیصد عوام روزمرہ کی پریشانیوں میں ملوث ہے۔ ملک کا کسان جو بوتا ہے وہ ہم کھاتے ہیں وہ کسان غریب ہے وہ اپنی جگہ ہر سال مقروض رہتا ہے۔ فصل کی آمد پر قرض لیا اور جب فصل پیدا ہوئی قرضے میں چلی گئی۔
ہم لوگ صرف باتیں بنانے میں آگے ہیں صرف ایک ہفتہ ان کے پاس رہ کر دیکھیں ان کی غربت آسودگی کا حال معلوم ہوجائے گا۔ اس کے بعد دوسرے کسی اور کے پاس رکشہ چلانے والا جس نے قسطوں پر رکشہ لیا، قسط دینی لازم ہے، رکشے کا فیول، ٹوٹ پھوٹ اپنی جگہ اس میں لین دین بھی اب کیا کرے کس طرح گھر جائے۔ اگر ایک ہفتہ بھی بیمار پڑ گیا تو ایک ہفتے کی قسط کی فکر کا خوف ہوتا ہے اگر کہیں قسط رک گئی تو قسطوں والے آکر رکشہ اٹھالے جائیں گے ان کے تعلقات بھی ایسے ہوتے ہیں کہ یہ غریب رکشے والا کر کچھ نہیں سکتا۔
میں نے ایک سبزی فروش کو دیکھا بیس سال سے سبزی فروشی پر ہے، فٹ پاتھ پر بیٹھتا ہے، ٹھیلہ خریدنے کے پیسے نہ بن سکے۔ فٹ پاتھ پر بھی مفت نہیں یہاں بھی اس کو نذرانہ دینا پڑتا ہے۔ اس کے آگے ایک پھل والا ہے اچھا خوبصورت ٹھیلا ہے جس میں کافی مال آتا ہے۔ لائل پور میں ایک روئی کے کارخانے میں ملا تھا۔ بجلی کی بندش کی وجہ سے فیکٹری بند ہوئی۔ کراچی میں بڑا بھائی فروٹ بیچتا ہے اس کے پاس آگیا۔ فروٹ لگانا شروع کردیے۔ اس سے بات کی یہ بھی اپنی غربت کے گیت سنانے لگا۔
کارخانے سے جو رقم ملی تھی وہ فروٹ کے ٹھیلے اور مال لگانے پر خرچ کردی۔ ابھی تک لگی ہوئی رقم وصول نہیں ہوئی۔ وہ بھی پریشان ہے اور حکومت کو برا کہتا ہے اور اپنی غربت کا دکھڑا روتا ہے۔ پورے ملک کی یہی حالت ہے، ٹھیلے والے، پھیری والے، گھروں پر رنگ کرنے والے، دفتروں میں کام کرنے والے جن سے ملا کوئی خوشحال نظر نہیں آیا۔ کسی نے کہا یہ ملک کیسے چل رہا ہے، جواب دیا اللہ چلا رہا ہے، بس یہی پاکستانی عوام پر ہے۔
حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں چند سالوں میں سدھرنا نہیں کہہ سکتے۔ ہاں یہ ضرور ہے سدھار آنا شروع۔ ایسا نہیں 3 ماہ 4 ماہ ڈیڑھ سال، 2 ماہ اور پھر تین سال لیکن ساڑھے تین سال ہوگئے پہلے سے بھی خراب۔ ہاں ایسا ضرور ہے ان کے حالات پہلے سے افضل مالا مال ہوگئے ہوں گے۔ ایمانداری کا اپنا ایک مقام ہے اس دنیا سے لے کر اگلی دنیا تک۔ چور بازاری، بے ایمانی اس دنیا میں تو واہ واہ ہے لیکن دوسری دنیا میں دوزخ کے علاوہ اس کے لیے کچھ نہیں۔ مجھے کیا بلکہ بہت لوگوں کو اس امر پر تعجب ہے ہم سب مسلمان ہوتے ہوئے اچھی بری باتوں کی معلومات رکھتے ہیں، سمجھتے ہیں اچھے سلوک کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا اور برے سلوک کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا۔
مال اور زر ہوتے ہوئے ہم غربا کی مدد نہیں کرتے ہمارے حاکم چاہیں تو پورے ملک کے بسنے والے خوشحال نہیں تو فارغ البال ضرور ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے عوام نے وعدہ، عہد و پیماں سب دیکھا ووٹ لیتے وقت آسمان سے ستارے نیچے دینے کی قسمیں وعدے لیکن ووٹ حاصل کرنے اور مسند حاصل کرنے کے بعد کہاں کے تم اور کہاں کے ہم۔ ایسا لگتا ہے کوئی شناسائی نہیں ایک دوسرے کو جانتے نہیں۔ دوبارہ جب وقت آیا تو آ کے پیروں کو ہاتھ لگایا، ٹوپی پیروں میں رکھ دی، جھوٹ، مکاری، عیاری، چالبازی سے پھر ووٹ حاصل کرلیے اس ملک میں یہ سلسلہ مدتوں سے چل رہا ہے امید نظر آتی ہے شاید آیندہ بھی ایسا ہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
کئی بار حاکم بننے کے بعد خود اس قدر زردار بنالیا کہ نسلوں کی نسلیں زمین و جائیداد مال و زر میں موجود رہیں۔ یہ سوچ کر ساری دولت اکٹھا کی، جائیدادیں بنائیں، بلڈنگیں کھڑی کیں، ہوٹل بنائے لیکن یہ نہ سوچا جن غریبوں، مسکینوں، معذوروں، بیواؤں کا پیسہ استعمال کر رہے ہو یہ کبھی رنگ دکھا سکتا ہے۔ اللہ کی لاٹھی میں دیر ہے اندھیر نہیں، غریب غربا کی مدد کرنے کے بجائے ان کا حق دار پیسہ استعمال کریں یہ کب تک۔ اس وقت عوام چراغ پا ہے اس کا کہنا اگر جس کے پاس طاقت ہے وہ ان کو اپنی طاقت کے زور پر ان کی مسند سے اٹھا دے اور اچھے ایماندار محنتی دیانتدار لوگوں کو بٹھائیں تاکہ وہ اپنے شاہی تختوں پر بیٹھ کر غریبوں کے لیے شاہی کام کریں۔
آج اگر ایک کام شروع ہوگیا تو بیس سال میں ملک بالکل تبدیل ہوجائے گا۔ نرسری کی تعلیم میں بچوں کو ملک و ملکیت، وفاداری، دیانتداری، قانون کی بالادستی سکھائیں میٹرک تک آکر یہ ملک کے وفادار ہوں گے اور بیس سال میں کایا پلٹ جائے گی۔ جو بھی ملک کامیاب ہوا اس نے یہی فارمولا اپنایا۔ یہ وہ عمل ہے جو رائیگاں نہیں جاتا چھوٹے بچے بڑے ہوکر ملک کے قانون پر پورا عمل کرتے ہیں نہ جھوٹ نہ فریب سارے کام سیدھے۔ سرکاری ملازم ہوں پرائیویٹ یا خود کاروبار کرنے والے سب ایک جذبے پر ہوں گے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ متعدد بار برسر اقتدار آنے کے بعد ترقی کی منازل طے نہ ہوسکیں۔ جنھوں نے اپنی کاوشوں سے تعلیم حاصل کی وہ بے روزگار پھر رہے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے بی اے یا ایم اے پاس چپڑاسی، ڈاک و سوئیپر اس قسم کے چھوٹے عہدوں پر درخواست گزار ہیں۔ اس میں بھی اگر کسی کو کہیں واقفیت ملی یا کچھ رقم قرض لے کر دے دی تو وہ ملازم ہوگیا ورنہ وہ اسی طرح کہیں فٹ پاتھ پر کسی شے کا ٹھیہ لگاتا ہے اور شرم کی وجہ سے اپنی اعلیٰ تعلیم بھی نہیں بتا سکتا یہ سب پورے ملک کے ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہے کب آئے گا وہ دن ؟