روزے اور رویے

آئیے! اپنے طور طریقے بدلیں

آئیے! اپنے طور طریقے بدلیں۔ فوٹو ایکسپریس



ماہ صیام اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں سمیت عالم اسلام پر سایہ فگن ہے۔ ہم حضرت محمد ﷺ کے اُمتی کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ان کی فضیلتوں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اس مہنے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات کا ہے تو پھر کون بدنصیب ہوگا، جو اس مہینے کو کھونا چاہے گا۔

تاہم ان باتوں سے قطع نظر ہمارے معاشرے میں بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو اپنے رویوں سے اس ماہ مبارک کو بھی داغ دار کر رہے ہیں۔ہمارا رویہ سال کے دیگر مہینوں میں تو جاہلانہ اور خود غرضانہ رہتا ہی ہے مگر ہمارے طور طریقوں میں اس ماہ مقدس میں بھی کوئی بدلاؤ نہیں آتا۔

کئی خواتین اس مہینے میں بھی غیبت کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔ روزے میں نقاہت کے باعث ان میں بولنے کی سکت نہیں رہتی، مگر روزہ افطار کر کے شکم سیری کے بعد جب جان میں جان آتی ہے، تو وہ اپنی اصلیت پر اُتر آتی ہیں۔ بعض شادی شدہ خواتین یا تو اپنی ماں یا بہن کے گھر جا کر اپنے سُسرالیوں اور پڑوسیوں کے خلاف باتوں کا سلسلہ دراز کرلیتی ہیں۔ اگر جانا ممکن نہ ہو تو فون پر ہی اپنے دل کی ساری بھڑاس نکال لیتی ہیں۔

ان کی باتوں کا محور وہی دوسروں کی بُرائیاں ہوتی ہیں کہ ''میں نے تو فلاں کے گھر تھال بھر بھر کے افطاری بھیجی تھی، مگر بدلے میں وہ چند پکوڑے اور کھجور پکڑا کر چلی گئی۔'' یا پھر اپنی عبادتوں کی نمایش کہ ''ماشاء اﷲ دو قرآن ختم کر لیے، اب تیسرا پڑھ رہی ہوں اور نمازیں اور تراویح تو بالکل نہیں چھوڑتی۔'' خواتین اپنی ان ہی بُری خصلتوں کی بنا پر اپنی نیکیاں برباد کرلیتی ہیں۔

اگر تصویر کا روشن پہلو دیکھیں تو دنیا میں لاکھوں خواتین ایسی بھی ہیں، جو نمائش اور اپنا نام ظاہر کیے بغیر صرف اپنے رب کی خوش نودی کی خاطر غریبوں، مسکینوں اور لاچاروں کو پورے ماہ سحری و افطاری کرواتی ہیں اور پتا بھی نہیں لگنے دیتیں کہ یہ سارا اہتمام کون کروا رہا ہے۔ خواتین کو اپنے سلوک اور رویے میں عاجزی پیدا کرنی چاہیے اور اس ماہ مبارک کو خود غرضی اور نمایش کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔

ہم رمضان کی مبارک ساعتوں سے یوں بھی استفادہ کرسکتے ہیں کہ ان میں اپنی شخصیت اور رویوں کے نکھارنے سنوارنے کا سامان کریں اور اس طرح معاشرے میں خیر کو فروغ دیں۔ آپ اپنے پڑوس میں اور کم از کم قریب ترین چار گھروں میں افطاری ضرور بھیجیں۔


اس بات کا انتظار نہ کریں کہ اُن کی طرف سے افطاری آئے گی تو ہم بھیجیں گے، ورنہ نہیں۔ یہ خود غرضانہ سوچ نہ رکھیں، چاہے آپ کے ہاں کہیں سے آئے یا نہ آئے، لیکن اگر آپ استطاعت رکھتی ہیں تو حسبِ استطاعت اپنے محلے کے گھروں میں افطار بھیجیں۔ یہ ضروری نہیں کہ افطاری بہت زیادہ اہتمام کرکے دیں، دو تین چیزیں بھی ہوں تو کافی ہے۔ اگر آپ کے ہاں کسی رشتے دار یا پڑوسی کی طرف سے افطاری آئے، تو اسے کم سمجھ کر حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں، بل کہ یہ سوچیے کہ یہ اﷲ کا رزق ہے اور دینے والے کا خلوص مد نظر رکھیں، جس نے اپنی افطاری میں آپ کو یاد رکھا۔

آپ اُن لوگوں کا بھی خیال رکھیں جو گاؤں دیہات اور چھوٹے شہروں سے رزق حلال کمانے کے لیے بڑے شہروں میں آتے ہیں۔ ان کا کوئی باقاعدہ ٹھکانا نہیں ہوتا اور وہ بڑی مشکلوں سے چند پیسے جوڑ کر اپنے پیاروں کو گاؤں بھیجتے ہیں۔ ایسے لوگ کراچی میں بھرے پڑے ہیں، مثلاً مزدور یا چوکی دار وغیرہ۔ ان لوگوں کا رمضان المبارک میں خاص خیال رکھیے اور ان کے لیے سحری اور افطاری کا بندوبست کیجیے۔

خواتین بھر پور کوشش کریں کہ ان کے رویے سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اکثر خواتین اسکول کی چھٹی کے دن اپنے بچوں کو صبح سویرے ہی بلڈنگ کی سیڑھیوں یا گراؤنڈ فلور پر کھیلنے کے لیے بھیج دیتی ہیں، جس سے روزہ داروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ افراد جو ہفتے کے چھے دن کام کرتے ہیں اور ایک اتوار کا دن اُن کے سونے اور آرام کا ہوتا ہے، وہ صبح سویرے بچوں کی چیخ و پکار اور شور شرابے سے سو نہیں پاتے اور ان کا چھٹی کا دن بھی بے آرامی اور بے زاری کی نظر ہو جاتا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اس بات کا احساس کریں کہ ان کے رویے سے کسی روزہ داروں کو تکلیف نہ پہنچے اور صبح سویرے بچوں کو گھر سے نہ نکلنے دیں۔

کئی خواتین کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ افطاری کا اہتمام کرتے ہوئے پھل، پیاز اور آلو کے چھلکے اور اسی طرح کی دوسری تمام اشیاء مناسب طریقے سے ٹھکانے نہیں لگاتیں۔ چوں کہ رمضان المبارک میں سحر و افطار میں پکانے کا زیادہ اہتمام ہوتا ہے، اسی لیے کوڑے دان بھی فوراً بھر جاتا ہے۔ جب کوڑے دان میں مزید کچرا ڈالنے کی گنجایش باقی نہیں رہتی، تو ہم یہی کچرا دوسروں کے گھر کے سامنے پھینک دیتے ہیں۔ یہ کس قدر نامناسب حرکت ہے۔

آپ کی یہ حرکت آپ کو دوسروں کی نظر میں گرانے کا سبب بنتی ہے اور آپ ثواب کمانے کے بہ جائے عذاب کماتی ہیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوڑے دان بھر جائے اور مزید ڈالنے کی گنجایش نہ رہے، تو اضافی کچرا پڑوس میں اچھالنے اور سیڑھیوں پر پھینکنے کے بہ جائے اسے ایک بڑے شاپر میں ڈالیے اور اُسے کوڑے دان کے برابر میں رکھ دیں اور جب یہ بھر جائیے تو اسے گرہ لگا دیں، تاکہ کچرا اِدھر اُدھر پھیلنے نہ پائے۔

رمضان کا مہینہ صدقات، خیرات زکوٰۃ اور فطرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، زکوٰۃ اسلام کا لازمی حصہ ہے، تاکہ دولت گردش میں رہے اور غریبوں کا حق انھیں ملتا رہے۔ زکوٰۃ اور فطرے کی رقم پیشہ ور بھکاریوں کو دینے کے بہ جائے اُن لوگوں کو دینی چاہیے جو سفید پوش ہیں اور اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتے، مگر خودداری اور شرم کے باعث کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ذرا سی کوشش سے ایسے لوگ آپ کے پڑوس اور رشتے داروں میں بہ آسانی مل جائیں گے اور آپ انھیں صورت ہی سے پہچان لیں گی کہ یہ واقعی ضرورت مند ہیں۔

رمضان کا مہینہ سال میں صرف ایک بار آتا ہے۔ اس میں ہم اچھی باتوں پر عمل پیرا ہو کر اس کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ چناں چہ ہمیں اپنے روییے سے کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ گالم گلوچ، جھوٹ، غیبت، لڑائی جھگڑا، لگائی بجھائی کے بہ جائے صبر و شکر، قناعت، عبادت اور مکمل سچائی کے ساتھ یہ مہینہ گزاریں۔

Recommended Stories

Load Next Story