ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا حکمت عملی کیا ہو گی

پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ نئے امریکی صدر جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لیے متوازن پالیسی اختیار کریں

PESHAWAR/ISLAMABAD/LAHORE:
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرمتوقع کامیابی کے بعد امریکا کی مختلف ریاستوں میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں' مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں' جنھیں منتشر کرنے کے لیے پولیس کو شیلنگ کرنا پڑی جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ صدارتی الیکشن سے قبل امریکا سمیت دنیا بھر میں ہونے والے تبصرے' تجزیے اور سروے ہلیری کلنٹن کی متوقع کامیابی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست کے بارے میں پرامید تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا اور مختلف عالمی رہنماؤں نے اس پر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار بھی کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ہلیری کلنٹن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا' ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے لیے درکار 270 سے زائد 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے جب کہ ہلیری 218 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکیں' اس طرح 70سالہ ڈونلڈ ٹرمپ ہلیری کو شکست دے کر امریکا کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے۔ اگرچہ ہلیری کلنٹن کے پاپولر ووٹوں کی تعداد ٹرمپ سے پونے دو لاکھ زائد ہے' اس سے قبل 2000ء میں بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امید وار الگور کے پاپولر ووٹ زیادہ تھے لیکن الیکٹورل ووٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے جارج بش جونیئر امریکا کے صدر منتخب ہو گئے تھے۔

امریکا کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد مظاہرے ہوئے ہیں جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد ان نتائج کو دل سے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ اپنی شکست پر شدید افسردہ ہے۔ اس سے پہلے امریکا میں یہ روایت رہی ہے کہ ہارنے والی پارٹی اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول کرتی اور جیتنے والے کو مبارکباد دیتی،اسی لیے امریکی جمہوریت کو پوری دنیا میں رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

اگرچہ ہلیری نے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ کو کامیابی کی مبارکباد دی مگر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ امریکا کے لیے باعث تشویش اور قابل غور بھی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکی قوم ہمارے خیالات کے باعث بہت زیادہ تقسیم ہو چکی ہے۔ امریکا میں شروع ہونے والے مظاہرے بھی اس تقسیم کو واضح کرتے ہیں' یہ تقسیم اگر مزید گہری ہوتی چلی گئی تو مستقبل میں امریکا کی داخلی سلامتی کے لیے یہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

آخر یہ نظریاتی تقسیم کیوں ہوئی، مبصرین اس کا ذمے دار ڈونلڈ ٹرمپ کو قرار دیتے ہیں جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران مختلف مذاہب اور ممالک کے خلاف تنقید کے نشتر برسائے خاص طور پر امریکی مسلمانوں میں ٹرمپ کے بارے میں بہت زیادہ تشویش پیدا ہوئی' یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کی جیت پر امریکی مسلمان غیریقینی اور خوف کا شکار نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ کی غیرمتوقع کامیابی کا دنیا کو اس قدر دھچکا لگا کہ عالمی سطح پر اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا اور سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے' پاکستان' ممبئی' ٹوکیو' شنگھائی' سڈنی اور یورپی اسٹاک ایکسچینج میں بھی شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا یہاں تک کہ امریکی اسٹاک ایکس چینجز میں بھی پانچ فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی۔

ٹرمپ کی کامیابی پر بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں نے جشن منایا جب کہ بھارتی میڈیا نے اس کامیابی کو پاکستان کے لیے دھچکا قرار دیا۔ اگرچہ ٹرمپ نے فتح کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اختلاف کے بجائے اتفاق رائے سے چلیں گے اور تمام ملکوں کے ساتھ معتدل رویہ اپنائیں گے۔ جنوبی ایشیا کے رہنما اس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کیا پالیسی اپناتے ہیں، اگرچہ پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئے گی' پاکستان اور امریکا تجارتی شراکت دار ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات صرف ایک شعبے تک محدود نہیں۔


مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی کہا ہے کہ انتخابی مہم اور پالیسی بیانات میں فرق ہوتا ہے' امید ہے کہ ٹرمپ کے آنے سے تعلقات بہتر ہوں گے ان کے سامنے کشمیر کا مسئلہ رکھا جائے گا' امریکا اور پاکستان کے مفادات مشترک ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کے دور صدارت میں دونوں ممالک باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں گے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکا کی پاکستان کے بارے میں پالیسی میں بنیادی تبدیلی نہیں ہو گی تاہم انھیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کہیں زیادہ جارحانہ انداز نہ اپنائے' یہ بھی امکان ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں ٹرمپ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالیں اور زیادہ مطالبات کریں۔ پاکستان امریکا کے بھارت کی جانب بڑھتے ہوئے جھکاؤ کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہے' اب ٹرمپ کے آنے کے بعد یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ چونکہ انھوں نے بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ان کا میلان بھی بھارت کی جانب ہے' اس لیے ٹرمپ کی پاکستان کے مقابلے میں بھارت پر نوازشات اور مہربانیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا میں فرد واحد کے پاس پالیسی سازی کا حق نہیں ہوتا لہٰذا ٹرمپ کی پالیسی سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے لیکن کہیں نہ کہیں معاملات قدرے پٹری سے اترنے کے خدشے کے پیش نظر پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی بہتر بنانے کی جانب توجہ دینی ہو گی۔ بھارت ہر صورت نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنے تعلقات بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنے کی کوشش کرے گا لہٰذا اس صورت میں پاکستان کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔

انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں کا رویہ اور نعرے کچھ اور ہوتے ہیں اور اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔ امریکی پالیسی اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہے لہٰذا جنوبی ایشیا میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر امریکی پالیسی ساز اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔اب پاکستانی پالیسی سازوں پر ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ امریکا سے تعلقات کو کس نہج پر لے جاتے ہیں۔نئے صدر کے ساتھ زمینی حقائق کے مطابق بڑی ذہانت اور مدبرانہ طریقے سے معاملات طے کرنا ہوں گے اور اس مقصد کے لیے امریکا میں پاکستان کو بہتر حکمت سے لابنگ کرنی چاہیے۔

پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ نئے امریکی صدر جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لیے متوازن پالیسی اختیار کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھی برقرار رہے اور پاک امریکا تعلقات بھی بہتر رہیں' بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت' پاکستان اور طالبان کے حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں' ڈونلڈ ٹرمپ کا دور صدارت جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا۔

 
Load Next Story