امریکا عورت کی صدارت قبول نہیں
ٹرمپ ایک ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں، سیاست میں وہ کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتے
ABU DHABI:
امریکا میں 45 ویں صدر کے لیے انتخابی معرکہ ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ نے مدمقابل خاتون امیدوار ہلیری کلنٹن کو باآسانی شکست دے کر اپنے نام کرلیا۔ اس طرح ووٹرز کی طرف سے دنیا کو یہ پیغام بھی گیا کہ امریکی عوام کو عورت کی صدارت ابھی قبول نہیں ہے۔ لیڈی ہلیری کلنٹن کے لیے صدارتی دوڑ میں شکست کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے 2008ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنے کی مہم میں بھی ہلیری کلنٹن سیاہ فام امیدوار بارک اوباما سے شکست کھاگئی تھیں۔
2008ء کے انتخابات کے لیے جب امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی میں نامزدگی حاصل کرنے کی مہم چل رہی تھی، ایک پاکستانی نژاد امریکن نے کہا تھا کہ ہلیری کلنٹن نامزدگی حاصل نہیں کرپائیں گی۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ امریکن ایک عورت کو اپنا صدر نہیں بنائیں گے۔ چند ہفتوں بعد واقعی ہلیری کلنٹن کو صدارتی نامزدگی مہم میں بارک اوباما کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔
2016ء کے صدارتی انتخابات میں لیڈی ہلیری کلنٹن صدر اوباما کی بھرپور مدد اور اپنے شوہر سابق صدر امریکا بل کلنٹن کے تعاون اور اثر ورسوخ کی وجہ سے ڈیموکریٹک میں صدارتی نامزدگی حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگئیں لیکن وہ امریکن ووٹرز کی اکثریت کو اپنی حمایت پر راضی نہ کر سکیں۔ 45 ویں صدر کے لیے ری پبلکن پارٹی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی حاصل کرنا بھی کئی لوگوں کے لیے حیرت کا سبب بنا تھا۔
ٹرمپ ایک ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں، سیاست میں وہ کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتے، اپنے اکھڑ لہجے یا پھر صاف گوئی کی وجہ سے ان کی شخصیت کئی تنازعات کی زد میں بھی رہی ہے۔ ان کے برعکس لیڈی ہلیری کلنٹن امریکا کے نہایت کامیاب اور مقبول صدر بل کلنٹن کی زوجہ ہونے کی وجہ سے پہلے خاتون اول اور پھر امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکا اور دنیا بھر میں نمایاں رہی ہیں۔ انھیں اعلیٰ پوزیشن پر رہتے ہوئے سیاسی امور احسن طریقے سے نمٹانے کا خوب تجربہ ہے۔ مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکن کمانڈوز کے آپریشن کے وقت ہلیری کلنٹن امریکا کی وزیر خارجہ تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں پہلی مرتبہ بطور صدارتی امیدوار ہی وارد ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ایسی کئی باتیں کہیں جن سے ان کی شخصیت تنازعات کی زد میں آئی اور امریکا کے سب سے بڑے عہدے کے لیے ان کی اہلیت کے بارے میں شبہات پھیلے۔ امریکی میڈیا اور رائے عامہ کے سروے کرنے والے دیگر اداروں نے ہلیری کلنٹن کو مضبوط امیدوار قرار دیا۔ شاید ان جائزوں کی وجہ سے بھی انتخابی مہم کے دوران اور انتخابات کے دن یعنی منگل 8 نومبر کو بھی ہلیری کلنٹن اپنی فتح کے بارے میں بہت پر اعتماد دکھائی دے رہی تھیں۔
ان کی بدن بولی سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اپنی جیت یقینی سمجھ رہی ہیں اور انتخابی عمل ان کی فتح کے اعلان کے لیے محض ایک رسمی کارروائی ہے لیکن امریکن ووٹرز نے اپنا فیصلہ ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار سیاسی عورت کے مقابلے میں سیاست میں نووارد ایک متنازعہ مرد کے حق میں دیا۔ اس طرح امریکی ووٹرز کی جانب سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود امریکا لیڈی ہلیری کلنٹن کی قیادت و سیادت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکا کی صدارتی دوڑ میں عورت 2008ء میں بھی ہاری تھی، 2016ء میں بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
2008ء میں تو ڈیموکریٹک پارٹی ایک عورت کو نامزدگی دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ پارٹی نے سیاہ فام امیدوار بارک اوباما کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس وقت کئی لوگوں نے پارٹی میں ہلیری کی شکست کو ایک عورت کی شکست نہ کہا بلکہ سیاہ فام امیدوار کو ترجیح دینے کا عنوان دیا۔ 2016ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک خاتون کو نامزدگی تو دے دی لیکن اپنی نامزدگی پر صدر اوباما، سابق صدر بل کلنٹن اور کئی بارسوخ امریکی شخصیات کی بے پناہ سپورٹ کے باوجود ہلیری کلنٹن اپنے حق میں امریکی ووٹرز کو قائل نہ کر سکیں۔
ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ امریکن عورتوں کی اکثریت نے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا یعنی امریکی عورتوں نے بھی خاتون صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔ شاید امریکن عورتیں ایک عورت کو امریکی صدارت کے منصب کے لائق نہیں سمجھتیں۔ ووٹنگ کے رجحانات کے ابتدائی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ گورے اور خوشحال ووٹرز کی اکثریت ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں یکسو تھی۔ سیاہ فام ووٹرز جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ ڈیمو کریٹک امیدوار کو ووٹ دیں گے، انتخابی عمل میں پرجوش طریقے سے شامل نہ ہوئے۔
اندازہ ہے کہ سیاہ فام ووٹرز بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن سے دور ہی رہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کے ابتدائی جائزوں سے یہ اخذ ہوا کہ امریکن عورتوں نے عورت کو ووٹ نہ ڈالا اور امریکی سیاہ فاموں نے صدر اوباما کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار کے حق میں گرمجوشی نہ دکھائی۔
امریکا میں صدارتی انتخابات پچھلے دو سو سال سے زائد عرصے سے ہو رہے ہیں۔ امریکا میں پہلا صدارتی انتخاب 1788ء میں ہوا تھا۔ انتخابات میں پہلے صرف مرد ہی ووٹ ڈال سکتے تھے، عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ امریکن عورتوں نے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے 1848ء سے جدوجہد شروع کی، بالآخر 72 سال کی مسلسل کوششوں کے بعد 18 اگست 1920ء کو امریکن عورت انتخابات میں ووٹ کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اکیسویں صدی میں امریکا میں خواتین اراکین پارلیمنٹ کی تعداد تقریباً 17 فیصد ہے۔ اب امریکن عورت ملک کے سب سے بڑے عہدے تک بھی پہنچنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لیے قانونی طور پر تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن روشن خیال امریکا کے ووٹرز بشمول خواتین ووٹرز ابھی کسی عور ت کو اس منصب سے نوازنے کے حق میں نظر نہیں آتے۔ ایشیا میں اندرا گاندھی، بے نظیر بھٹو، خالدہ ضیاء، حسینہ واجد، چندریکا بندرا نائکے، گولڈامیئر بالترتیب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور اسرائیل کی وزیراعظم منتخب ہو چکی ہیں۔
یورپ میں برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر، جرمنی میں انجیلا مرکل سمیت دنیا کے کئی ممالک میں عورتیںصدر یا وزیرِاعظم ہیں یا رہ چکی ہیں۔ امریکا دنیا بھر میں کئی معاملات میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے، تاہم عورت کی قیادت کے معاملے میں امریکا دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔
لیڈی ہلیری کلنٹن، ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اپنی شکست سے بہت افسردہ ہوں گی۔ شاید وہ سوچ رہی ہوں کہ انھیں عورت ہونے کی وجہ سے شکست ہوئی۔ شکست خوردہ جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی میں اپنی انتخابی مہم پر نظرِثانی کرتے ہوئے کسی جگہ شاید یہ خیال بھی گردش کر رہا ہو کہ اگر لیڈی ہلیری کلنٹن کے بجائے ڈیمو کریٹک پارٹی مسٹر برنی سینڈرز کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیتی تو ان کا امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست نہ کھاتا۔
اکیسویں صدی میں امریکی عورت کو 1920ء سے پہلے کی جدوجہد کو ذہن میں رکھ کر ملکی صدارت حاصل کرنے کے لیے ایک نئی جدوجہد کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ اس جدوجہد کا پہلا مرحلہ عورت کے بارے میں امریکی ووٹرز کے مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہے۔
امریکا میں 45 ویں صدر کے لیے انتخابی معرکہ ایک انتہائی متنازعہ شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ نے مدمقابل خاتون امیدوار ہلیری کلنٹن کو باآسانی شکست دے کر اپنے نام کرلیا۔ اس طرح ووٹرز کی طرف سے دنیا کو یہ پیغام بھی گیا کہ امریکی عوام کو عورت کی صدارت ابھی قبول نہیں ہے۔ لیڈی ہلیری کلنٹن کے لیے صدارتی دوڑ میں شکست کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے 2008ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی سے نامزدگی حاصل کرنے کی مہم میں بھی ہلیری کلنٹن سیاہ فام امیدوار بارک اوباما سے شکست کھاگئی تھیں۔
2008ء کے انتخابات کے لیے جب امریکا کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی میں نامزدگی حاصل کرنے کی مہم چل رہی تھی، ایک پاکستانی نژاد امریکن نے کہا تھا کہ ہلیری کلنٹن نامزدگی حاصل نہیں کرپائیں گی۔ میں نے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ امریکن ایک عورت کو اپنا صدر نہیں بنائیں گے۔ چند ہفتوں بعد واقعی ہلیری کلنٹن کو صدارتی نامزدگی مہم میں بارک اوباما کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔
2016ء کے صدارتی انتخابات میں لیڈی ہلیری کلنٹن صدر اوباما کی بھرپور مدد اور اپنے شوہر سابق صدر امریکا بل کلنٹن کے تعاون اور اثر ورسوخ کی وجہ سے ڈیموکریٹک میں صدارتی نامزدگی حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگئیں لیکن وہ امریکن ووٹرز کی اکثریت کو اپنی حمایت پر راضی نہ کر سکیں۔ 45 ویں صدر کے لیے ری پبلکن پارٹی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی حاصل کرنا بھی کئی لوگوں کے لیے حیرت کا سبب بنا تھا۔
ٹرمپ ایک ارب پتی کاروباری شخصیت ہیں، سیاست میں وہ کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتے، اپنے اکھڑ لہجے یا پھر صاف گوئی کی وجہ سے ان کی شخصیت کئی تنازعات کی زد میں بھی رہی ہے۔ ان کے برعکس لیڈی ہلیری کلنٹن امریکا کے نہایت کامیاب اور مقبول صدر بل کلنٹن کی زوجہ ہونے کی وجہ سے پہلے خاتون اول اور پھر امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے امریکا اور دنیا بھر میں نمایاں رہی ہیں۔ انھیں اعلیٰ پوزیشن پر رہتے ہوئے سیاسی امور احسن طریقے سے نمٹانے کا خوب تجربہ ہے۔ مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکن کمانڈوز کے آپریشن کے وقت ہلیری کلنٹن امریکا کی وزیر خارجہ تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں پہلی مرتبہ بطور صدارتی امیدوار ہی وارد ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے ایسی کئی باتیں کہیں جن سے ان کی شخصیت تنازعات کی زد میں آئی اور امریکا کے سب سے بڑے عہدے کے لیے ان کی اہلیت کے بارے میں شبہات پھیلے۔ امریکی میڈیا اور رائے عامہ کے سروے کرنے والے دیگر اداروں نے ہلیری کلنٹن کو مضبوط امیدوار قرار دیا۔ شاید ان جائزوں کی وجہ سے بھی انتخابی مہم کے دوران اور انتخابات کے دن یعنی منگل 8 نومبر کو بھی ہلیری کلنٹن اپنی فتح کے بارے میں بہت پر اعتماد دکھائی دے رہی تھیں۔
ان کی بدن بولی سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ اپنی جیت یقینی سمجھ رہی ہیں اور انتخابی عمل ان کی فتح کے اعلان کے لیے محض ایک رسمی کارروائی ہے لیکن امریکن ووٹرز نے اپنا فیصلہ ایک جہاں دیدہ اور تجربہ کار سیاسی عورت کے مقابلے میں سیاست میں نووارد ایک متنازعہ مرد کے حق میں دیا۔ اس طرح امریکی ووٹرز کی جانب سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود امریکا لیڈی ہلیری کلنٹن کی قیادت و سیادت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکا کی صدارتی دوڑ میں عورت 2008ء میں بھی ہاری تھی، 2016ء میں بھی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
2008ء میں تو ڈیموکریٹک پارٹی ایک عورت کو نامزدگی دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ پارٹی نے سیاہ فام امیدوار بارک اوباما کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس وقت کئی لوگوں نے پارٹی میں ہلیری کی شکست کو ایک عورت کی شکست نہ کہا بلکہ سیاہ فام امیدوار کو ترجیح دینے کا عنوان دیا۔ 2016ء میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک خاتون کو نامزدگی تو دے دی لیکن اپنی نامزدگی پر صدر اوباما، سابق صدر بل کلنٹن اور کئی بارسوخ امریکی شخصیات کی بے پناہ سپورٹ کے باوجود ہلیری کلنٹن اپنے حق میں امریکی ووٹرز کو قائل نہ کر سکیں۔
ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ امریکن عورتوں کی اکثریت نے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا یعنی امریکی عورتوں نے بھی خاتون صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ نہیں ڈالا۔ شاید امریکن عورتیں ایک عورت کو امریکی صدارت کے منصب کے لائق نہیں سمجھتیں۔ ووٹنگ کے رجحانات کے ابتدائی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ گورے اور خوشحال ووٹرز کی اکثریت ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں یکسو تھی۔ سیاہ فام ووٹرز جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ ڈیمو کریٹک امیدوار کو ووٹ دیں گے، انتخابی عمل میں پرجوش طریقے سے شامل نہ ہوئے۔
اندازہ ہے کہ سیاہ فام ووٹرز بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشن سے دور ہی رہے۔ امریکی صدارتی انتخابات کے ابتدائی جائزوں سے یہ اخذ ہوا کہ امریکن عورتوں نے عورت کو ووٹ نہ ڈالا اور امریکی سیاہ فاموں نے صدر اوباما کی حمایت یافتہ خاتون امیدوار کے حق میں گرمجوشی نہ دکھائی۔
امریکا میں صدارتی انتخابات پچھلے دو سو سال سے زائد عرصے سے ہو رہے ہیں۔ امریکا میں پہلا صدارتی انتخاب 1788ء میں ہوا تھا۔ انتخابات میں پہلے صرف مرد ہی ووٹ ڈال سکتے تھے، عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ امریکن عورتوں نے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق کے لیے 1848ء سے جدوجہد شروع کی، بالآخر 72 سال کی مسلسل کوششوں کے بعد 18 اگست 1920ء کو امریکن عورت انتخابات میں ووٹ کا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اکیسویں صدی میں امریکا میں خواتین اراکین پارلیمنٹ کی تعداد تقریباً 17 فیصد ہے۔ اب امریکن عورت ملک کے سب سے بڑے عہدے تک بھی پہنچنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لیے قانونی طور پر تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن روشن خیال امریکا کے ووٹرز بشمول خواتین ووٹرز ابھی کسی عور ت کو اس منصب سے نوازنے کے حق میں نظر نہیں آتے۔ ایشیا میں اندرا گاندھی، بے نظیر بھٹو، خالدہ ضیاء، حسینہ واجد، چندریکا بندرا نائکے، گولڈامیئر بالترتیب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور اسرائیل کی وزیراعظم منتخب ہو چکی ہیں۔
یورپ میں برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر، جرمنی میں انجیلا مرکل سمیت دنیا کے کئی ممالک میں عورتیںصدر یا وزیرِاعظم ہیں یا رہ چکی ہیں۔ امریکا دنیا بھر میں کئی معاملات میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے، تاہم عورت کی قیادت کے معاملے میں امریکا دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔
لیڈی ہلیری کلنٹن، ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اپنی شکست سے بہت افسردہ ہوں گی۔ شاید وہ سوچ رہی ہوں کہ انھیں عورت ہونے کی وجہ سے شکست ہوئی۔ شکست خوردہ جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی میں اپنی انتخابی مہم پر نظرِثانی کرتے ہوئے کسی جگہ شاید یہ خیال بھی گردش کر رہا ہو کہ اگر لیڈی ہلیری کلنٹن کے بجائے ڈیمو کریٹک پارٹی مسٹر برنی سینڈرز کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیتی تو ان کا امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے شکست نہ کھاتا۔
اکیسویں صدی میں امریکی عورت کو 1920ء سے پہلے کی جدوجہد کو ذہن میں رکھ کر ملکی صدارت حاصل کرنے کے لیے ایک نئی جدوجہد کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ اس جدوجہد کا پہلا مرحلہ عورت کے بارے میں امریکی ووٹرز کے مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہے۔