کراچی بنا ہے کوڑے دان
مرکز کی شہر کے معمولات میں مداخلت نہ تھی اور ادارے اپنے کام کرتے رہے
بات 1988ء کی ہے جب بی بی شہید اپنی سیاسی قوت پر ملک کی وزیراعظم بنی تھیں اور سندھ کے شہری علاقوں پر ایم کیو ایم کا سورج پہلی بار طلوع ہوا۔ بی بی شہید نے حقیقت کو تسلیم کیا اور ''90'' جاکر مذاکرات کیے اور ایم کیو ایم کو دوام بخشا، مگر ملک کی سیاست سے بی بی شہید کے خاتمے نے ایک بڑی سیاسی ٹریجڈی (Tragedy) کو جنم دیا۔ جن کا سیاست کی دہلیز پر قدم رکھنا بھی ممکن نہ تھا وہ ملک کے حکمران بنے اور سیاست میں کرپشن نے آہستہ آہستہ قدم جمایا۔ ملک میں کوئی قد آور سیاسی شخصیت نہ رہی۔ کراچی میں میٹروپولیٹن سٹی پورے زور و شور سے چلتا رہا، بلدیہ عظمیٰ کو فنڈ ملتے رہے اور باقاعدگی سے کام چلتے رہے۔
مرکز کی شہر کے معمولات میں مداخلت نہ تھی اور ادارے اپنے کام کرتے رہے، بلکہ آج کی بات نہ تھی کہ ادارے متصادم ہوں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ پارٹی بی بی کا نام لیتی ہے مگر بی بی کے قول و فعل سے یکسر مخالف ہے۔ کہاں بی بی کی شفقت اور اپنے ورکروں اور کارکنوں سے اتفاق اور محبت اور کہاں موجودہ پی پی کا رویہ۔ بی بی کی شہادت کے بعد ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ اپنے وزرا اور کارکنوں کی عزت و تکریم وہ کرتی رہیں اور تمام اہم امور پر وہ پارٹی کے اہم لوگوں سے مشورہ کرتی تھیں۔ چند برس پہلے کی بات ہے ان کے وفاقی وزیر صحت امیر حیدر کاظمی مرحوم نے یہ بات مجھے بتائی کہ وہ ایک خصوصی میٹنگ میں موجود تھے، جس میں اعتزاز احسن بھی تھے۔
گفتگو کچھ اس انداز سے ہورہی تھی کہ جس میں امیر حیدر کاظمی کچھ بیچ میں بول پڑے۔ اس پر بی بی نے ذرا خفگی سے ان کو چپ کرادیا، پھر میٹنگ ختم ہوگئی اور وہ گھر پہنچ گئے، جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی، انھوں نے فون اٹھایا تو بی بی کا فون تھا، وہ کاظمی سے مخاطب ہوئیں اور واقعے پر انھوں نے سوری کہا۔ اس بات پر کاظمی صاحب جب بھی بی بی کا تذکرہ کرتے ان کی سادگی کا تذکرہ ضرور کرتے اور کہتے کہ بی بی نہ صرف اپنے کارکنوں بلکہ ملک کے تمام لوگوں سے بھی یونہی محبت کرتی تھیں۔ مگر ان کے جانے کے بعد وہ کیفیت جاتی رہی اور جاں نثاروں کا وہ جذبہ بھی نہ رہا۔
سیاست کی دنیا بدل گئی اور کرپشن کا عمل دخل بڑھ گیا، سندھ کی سیاست کا رخ بھی بدل گیا اور ضرب عضب کے بعد سندھ کی سیاست میں ایک بھونچال آ گیا، لیاری کی سیاست اور ایم کیو ایم میں دھڑے بندی نے پی پی کی سیاست کو یکسر بدل ڈالا۔ چونکہ ایم کیو ایم کئی حصوں میں بٹ گئی تو اس کی سیاست میں مضبوطی نہ رہی، اس لیے پی پی نے اپنا دباؤ بڑھادیا اور شہر کی سیاست بھی بدل گئی۔ جب سے نئے وزیراعلیٰ نے قلم دان سنبھالا ہے، ان میں ابتدا میں کافی میل مروت نظر آیا، چھوٹے موٹے علاقوں میں گھومنا اور نہاری روٹی کے ہوٹلوں پر جانا اور اس کے بعد شہر میں صفائی ستھرائی کا خاتمہ۔
ٹاور سے لے کر ناظم آباد، نارتھ کراچی، غرض شہر کے ہر علاقے میں کوڑے کا ڈھیر، بعض علاقوں میں نہ صرف کوڑے کا ڈھیر بلکہ کچرے نے نصف سڑک کو گھیرلیا ہے اور تعفن کے بھبھوکے اٹھ رہے ہیں ادھر بلدیہ عظمیٰ کا اکاؤنٹ منجمد ہوگیا ہے، اور ایک ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
دیوالی کے موقع پر ہندو برادری تنخواہوں سے محروم رہی۔ سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ شہر کی مزدور انجمنیں اور بلدیہ کی ورکرز یونین کیوں خاموش ہیں؟ اور اگر بلدیہ کے ادارہ کی کوئی افادیت نہیں تو پھر میئر اور ڈپٹی میئر کی کیا ضرورت تھی اور اگر سیاسی اختلافات ہیں تو اس کی عوام کو سزا کیوں مل رہی ہے؟ شہر میں صفائی ستھرائی کا فقدان، حالانکہ صفائی نصف ایمان۔ جب کہ عوام کا ٹیکس رائیگاں جا رہا ہے۔ بلدیاتی ادارے سپریم کورٹ سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟ بلکہ سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔
آج کا کراچی اس دن کے کراچی کو وزیراعظم سندھ یاد کریں جیسا کہ انھوں نے اپنی نو عمری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ایم اے جناح روڈ صبح کے وقت دھویا جاتا تھا، اب دھونا تو دور کی بات اب کوئی صفائی ستھرائی پر مامور نہیں۔ زیادہ عرصہ تو یہ معاملہ چلے گا نہیں، آخرکار تمام امور معمول کے مطابق چلیں گے اور تمام لوگوں کو گھر بیٹھنے کی تنخواہ دینی پڑے گی۔ افسوس کا مقام ہے سندھ کے چھوٹے شہروں کا جو حال ہے کراچی کو بھی اب اسی راہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ اسمبلی کے ممبران اپنی تنخواہ لے کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟
ابھی پنجاب میں کرپشن کا دھرنا چل رہا تھا، کاش کوئی ماضی کے لاہور کو دیکھے اور اب حال کے لاہور کی ترقی دیکھیں، بسوں کا احوال دیکھیں، سٹی ریلوے کے احوال دیکھیں اور اب حال کا کراچی دیکھیں۔ آخر ایک ملک میں اس قدر فرق کیونکر ہے؟ کیا کراچی کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دو کروڑ کی آبادی والا شہر اور اس کا یہ حال۔ یہ وہ شہر ہے جو تقریباً بہت سے ملکوں کی بھی اتنی بڑی آبادی نہیں، پھر ملک کی دولت کا 60 فیصد اس شہر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، سندھ حکومت کو اگر مراد علی شاہ دیکھ بھال کر چلائیں تو یہاں کے لوگ ان کی پارٹی کی طرف رخ کر سکتے ہیں مگر اس قدر بے توجہی کیونکر۔ اگر بی بی شہید ہوتیں تو کیا کراچی اتنا ہی بدحال ہوتا۔ جلد ہی لگتا ہے کراچی میں بیماری کا ایک سیلاب شہر میں آنے کو ہے۔
اخباروں نے بیماری کی آمد کو سردی کی آمد سے تشبیہ دی ہے، جب کہ یہ غلاظت کے ڈھیر کی وجہ سے ہے۔ آخر کراچی کے لوگ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔ صرف سندھ کی صوبائی اسمبلی کی عمارت اور اس سے ملحقہ اداروں کی تعمیر سے کراچی ترقی نہیں کر سکتا۔ پنجاب نے گزشتہ 10 برسوں میں سڑکوں کا نظام بہتر بنا دیا، وسطی شہر جو گاؤں گوٹھ کی شکل تھا، اب بیرونی دنیا کا کوئی شہر لگتا ہے اور سندھ کے چھوٹے اور بڑے شہر اب گوٹھ کا منظر پیش کر رہے ہیں، سڑکیں بنانا تو لگتا ہے سندھ حکومت کی کوئی ترجیح ہی نہیں، بس اسمبلی بنانے اور حکومت کرنے کا خواب ہے کہ اسی راہ پر زور ہے۔
بلاول بھٹو کو بھی غالباً یہ علم نہیں کہ کراچی کا کیا حال ہے۔ جو لوگ بلاول ہاؤس میں دن گزارتے ہیں اور مختلف شعبوں میں مشیر کی حیثیت سے موجود ہیں، اس شہر کی جبیں پر یہ لوگ افشاں تو ملنے سے رہے۔ اس پر سیاہی ہی ملی جا رہی ہے، نہ بچوں کے کھیلنے کے گراؤنڈ ہیں، نہ صاف روڈ ہیں اور نہ مستقبل میں کوئی امید ہے، کیونکہ لیڈر شپ کے عزائم زرگری ہے۔
ذرا غور فرمایئے دنیا کا کوئی بڑا شہر بلدیہ کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ گو فوج کراچی کے امن میں اپنا کردار ادا کررہی ہے مگر بلدیہ کے مسئلے پر وہ بھی خاموش تماشائی ہے۔ کس قدر فتنہ پرور لوگ پکڑے گئے مگر ان کے مقدمات کے فیصلے نہ ہو سکے۔ اب نئے سپہ سالار آنے کو ہیں یا کوئی نیا فیصلہ ہونے کو ہے۔ ملک ایک گومگو کے عالم میں ہے۔ ہر صوبے کی ایک نئی حکمت عملی ہے۔
واحد صوبہ پنجاب ہے جس کی گرفت صوبہ بلوچستان پر کسی حد تک مضبوط ہے۔ باقی روا روی کی گفتگو ہے اور اب امریکی انتخاب میں ٹرمپ جیت چکے ہیں، ہیلری یا ٹرمپ کسی سے بھی پاکستان کے قریبی روابط نہیں اور نہ ہی پاکستان میں استحکام نظر آ رہا ہے، کیونکہ مرکز کی گرفت صوبوں پر بہت کمزور ہے اور صوبوں میں عوامی اتحاد موجود ہے اور نہ عوامی امنگوں کا وہ راستہ جس سے ملک ترقی کر سکتا ہو۔ ہر صوبے کا وزیراعلیٰ عوامی اجتماعی سوچ سے کوسوں دور ہے، محض اپنی پارٹی کی فلاح میں کوشاں ہے، چاہے عوام کا کوئی حال کیوں نہ ہو۔ اب کراچی کوڑے دان کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
مرکز کی شہر کے معمولات میں مداخلت نہ تھی اور ادارے اپنے کام کرتے رہے، بلکہ آج کی بات نہ تھی کہ ادارے متصادم ہوں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ پارٹی بی بی کا نام لیتی ہے مگر بی بی کے قول و فعل سے یکسر مخالف ہے۔ کہاں بی بی کی شفقت اور اپنے ورکروں اور کارکنوں سے اتفاق اور محبت اور کہاں موجودہ پی پی کا رویہ۔ بی بی کی شہادت کے بعد ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔ اپنے وزرا اور کارکنوں کی عزت و تکریم وہ کرتی رہیں اور تمام اہم امور پر وہ پارٹی کے اہم لوگوں سے مشورہ کرتی تھیں۔ چند برس پہلے کی بات ہے ان کے وفاقی وزیر صحت امیر حیدر کاظمی مرحوم نے یہ بات مجھے بتائی کہ وہ ایک خصوصی میٹنگ میں موجود تھے، جس میں اعتزاز احسن بھی تھے۔
گفتگو کچھ اس انداز سے ہورہی تھی کہ جس میں امیر حیدر کاظمی کچھ بیچ میں بول پڑے۔ اس پر بی بی نے ذرا خفگی سے ان کو چپ کرادیا، پھر میٹنگ ختم ہوگئی اور وہ گھر پہنچ گئے، جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی، انھوں نے فون اٹھایا تو بی بی کا فون تھا، وہ کاظمی سے مخاطب ہوئیں اور واقعے پر انھوں نے سوری کہا۔ اس بات پر کاظمی صاحب جب بھی بی بی کا تذکرہ کرتے ان کی سادگی کا تذکرہ ضرور کرتے اور کہتے کہ بی بی نہ صرف اپنے کارکنوں بلکہ ملک کے تمام لوگوں سے بھی یونہی محبت کرتی تھیں۔ مگر ان کے جانے کے بعد وہ کیفیت جاتی رہی اور جاں نثاروں کا وہ جذبہ بھی نہ رہا۔
سیاست کی دنیا بدل گئی اور کرپشن کا عمل دخل بڑھ گیا، سندھ کی سیاست کا رخ بھی بدل گیا اور ضرب عضب کے بعد سندھ کی سیاست میں ایک بھونچال آ گیا، لیاری کی سیاست اور ایم کیو ایم میں دھڑے بندی نے پی پی کی سیاست کو یکسر بدل ڈالا۔ چونکہ ایم کیو ایم کئی حصوں میں بٹ گئی تو اس کی سیاست میں مضبوطی نہ رہی، اس لیے پی پی نے اپنا دباؤ بڑھادیا اور شہر کی سیاست بھی بدل گئی۔ جب سے نئے وزیراعلیٰ نے قلم دان سنبھالا ہے، ان میں ابتدا میں کافی میل مروت نظر آیا، چھوٹے موٹے علاقوں میں گھومنا اور نہاری روٹی کے ہوٹلوں پر جانا اور اس کے بعد شہر میں صفائی ستھرائی کا خاتمہ۔
ٹاور سے لے کر ناظم آباد، نارتھ کراچی، غرض شہر کے ہر علاقے میں کوڑے کا ڈھیر، بعض علاقوں میں نہ صرف کوڑے کا ڈھیر بلکہ کچرے نے نصف سڑک کو گھیرلیا ہے اور تعفن کے بھبھوکے اٹھ رہے ہیں ادھر بلدیہ عظمیٰ کا اکاؤنٹ منجمد ہوگیا ہے، اور ایک ادارہ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
دیوالی کے موقع پر ہندو برادری تنخواہوں سے محروم رہی۔ سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ شہر کی مزدور انجمنیں اور بلدیہ کی ورکرز یونین کیوں خاموش ہیں؟ اور اگر بلدیہ کے ادارہ کی کوئی افادیت نہیں تو پھر میئر اور ڈپٹی میئر کی کیا ضرورت تھی اور اگر سیاسی اختلافات ہیں تو اس کی عوام کو سزا کیوں مل رہی ہے؟ شہر میں صفائی ستھرائی کا فقدان، حالانکہ صفائی نصف ایمان۔ جب کہ عوام کا ٹیکس رائیگاں جا رہا ہے۔ بلدیاتی ادارے سپریم کورٹ سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟ بلکہ سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔
آج کا کراچی اس دن کے کراچی کو وزیراعظم سندھ یاد کریں جیسا کہ انھوں نے اپنی نو عمری کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ایم اے جناح روڈ صبح کے وقت دھویا جاتا تھا، اب دھونا تو دور کی بات اب کوئی صفائی ستھرائی پر مامور نہیں۔ زیادہ عرصہ تو یہ معاملہ چلے گا نہیں، آخرکار تمام امور معمول کے مطابق چلیں گے اور تمام لوگوں کو گھر بیٹھنے کی تنخواہ دینی پڑے گی۔ افسوس کا مقام ہے سندھ کے چھوٹے شہروں کا جو حال ہے کراچی کو بھی اب اسی راہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ اسمبلی کے ممبران اپنی تنخواہ لے کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے؟
ابھی پنجاب میں کرپشن کا دھرنا چل رہا تھا، کاش کوئی ماضی کے لاہور کو دیکھے اور اب حال کے لاہور کی ترقی دیکھیں، بسوں کا احوال دیکھیں، سٹی ریلوے کے احوال دیکھیں اور اب حال کا کراچی دیکھیں۔ آخر ایک ملک میں اس قدر فرق کیونکر ہے؟ کیا کراچی کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دو کروڑ کی آبادی والا شہر اور اس کا یہ حال۔ یہ وہ شہر ہے جو تقریباً بہت سے ملکوں کی بھی اتنی بڑی آبادی نہیں، پھر ملک کی دولت کا 60 فیصد اس شہر کے ذریعے پیدا ہوتا ہے، سندھ حکومت کو اگر مراد علی شاہ دیکھ بھال کر چلائیں تو یہاں کے لوگ ان کی پارٹی کی طرف رخ کر سکتے ہیں مگر اس قدر بے توجہی کیونکر۔ اگر بی بی شہید ہوتیں تو کیا کراچی اتنا ہی بدحال ہوتا۔ جلد ہی لگتا ہے کراچی میں بیماری کا ایک سیلاب شہر میں آنے کو ہے۔
اخباروں نے بیماری کی آمد کو سردی کی آمد سے تشبیہ دی ہے، جب کہ یہ غلاظت کے ڈھیر کی وجہ سے ہے۔ آخر کراچی کے لوگ ٹیکس بھی دیتے ہیں۔ صرف سندھ کی صوبائی اسمبلی کی عمارت اور اس سے ملحقہ اداروں کی تعمیر سے کراچی ترقی نہیں کر سکتا۔ پنجاب نے گزشتہ 10 برسوں میں سڑکوں کا نظام بہتر بنا دیا، وسطی شہر جو گاؤں گوٹھ کی شکل تھا، اب بیرونی دنیا کا کوئی شہر لگتا ہے اور سندھ کے چھوٹے اور بڑے شہر اب گوٹھ کا منظر پیش کر رہے ہیں، سڑکیں بنانا تو لگتا ہے سندھ حکومت کی کوئی ترجیح ہی نہیں، بس اسمبلی بنانے اور حکومت کرنے کا خواب ہے کہ اسی راہ پر زور ہے۔
بلاول بھٹو کو بھی غالباً یہ علم نہیں کہ کراچی کا کیا حال ہے۔ جو لوگ بلاول ہاؤس میں دن گزارتے ہیں اور مختلف شعبوں میں مشیر کی حیثیت سے موجود ہیں، اس شہر کی جبیں پر یہ لوگ افشاں تو ملنے سے رہے۔ اس پر سیاہی ہی ملی جا رہی ہے، نہ بچوں کے کھیلنے کے گراؤنڈ ہیں، نہ صاف روڈ ہیں اور نہ مستقبل میں کوئی امید ہے، کیونکہ لیڈر شپ کے عزائم زرگری ہے۔
ذرا غور فرمایئے دنیا کا کوئی بڑا شہر بلدیہ کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ گو فوج کراچی کے امن میں اپنا کردار ادا کررہی ہے مگر بلدیہ کے مسئلے پر وہ بھی خاموش تماشائی ہے۔ کس قدر فتنہ پرور لوگ پکڑے گئے مگر ان کے مقدمات کے فیصلے نہ ہو سکے۔ اب نئے سپہ سالار آنے کو ہیں یا کوئی نیا فیصلہ ہونے کو ہے۔ ملک ایک گومگو کے عالم میں ہے۔ ہر صوبے کی ایک نئی حکمت عملی ہے۔
واحد صوبہ پنجاب ہے جس کی گرفت صوبہ بلوچستان پر کسی حد تک مضبوط ہے۔ باقی روا روی کی گفتگو ہے اور اب امریکی انتخاب میں ٹرمپ جیت چکے ہیں، ہیلری یا ٹرمپ کسی سے بھی پاکستان کے قریبی روابط نہیں اور نہ ہی پاکستان میں استحکام نظر آ رہا ہے، کیونکہ مرکز کی گرفت صوبوں پر بہت کمزور ہے اور صوبوں میں عوامی اتحاد موجود ہے اور نہ عوامی امنگوں کا وہ راستہ جس سے ملک ترقی کر سکتا ہو۔ ہر صوبے کا وزیراعلیٰ عوامی اجتماعی سوچ سے کوسوں دور ہے، محض اپنی پارٹی کی فلاح میں کوشاں ہے، چاہے عوام کا کوئی حال کیوں نہ ہو۔ اب کراچی کوڑے دان کی شکل اختیار کر رہا ہے۔