گوادر اور اقتصادی راہداری کی مخالفت کیوں
’’سی پیک‘‘ منصوبہ جتنا عظیم الشان ہے اس کی مخالفت کرنے اوراسے ناکام بنانےوالے بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پرسامنےآرہے ہیں
مجھے وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کے چاروں لیکچر سننے کا موقع ملا ہے۔ یہ چشم کشا اور معلومات افزا لیکچرز چند دن پہلے ہی پی ٹی وی پر دیے گئے ہیں۔ احسن اقبال اتنی تیاری سے سامنے آئے تھے کہ لیکچر کا کوئی پہلو ادھورا اور خام محسوس نہ ہوا۔ وہ ایک غیر ملکی یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہے ہیں؛ چنانچہ پی ٹی وی پر دیے گئے تمام لیکچروں میں وہ کامل دستگاہ رکھنے والے پروفیسر کی ہی حیثیت میں نظر آتے رہے۔ ویسے شکل وصورت میں بھی وہ سیاستدان کم اور کسی جامعہ کے سنجیدہ اور لائق استاد زیادہ نظر آتے ہیں۔
اُنہوں نے ایک بار پھر پاکستان کی ترقی اور ترویج کے لیے ''چین پاکستان اکنامک کوریڈور'' (سی پیک)، جسے چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی کہا جا رہا ہے، کا وسیع تر معنوں میں اپنا پیغام تمام سننے اور دیکھنے والوں تک پہنچا دیا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ اس عظیم اور بے مثال منصوبے کو کس کس طرح اور کس کس شکل میں مشکلات اور مخالفتوں کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف اور پاکستان کی عسکری قیادت یک زبان ہو کر سی پیک کی تکمیل کے لیے جس مستحکم لہجے میں اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں، یہی امید رکھی جانی چاہیے کہ، انشاء اللہ، اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ بخیر وخوبی اپنی منزل سے ہمکنار ہوگا۔
''سی پیک'' منصوبہ جتنا عظیم الشان ہے، اس کی مخالفت کرنے اور اسے ناکام بنانے والے بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پر سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت اور امریکا ان مخالفین میں پیش پیش ہیں۔ دو برادر اسلامی ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف نئے انداز میں حالات بگڑے ہیں، سی پیک کے خلاف بھارتی آوازیں اور سازشیں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی خفیہ ادارے، را، کی زیر نگرانی ترتیب دیا جانے والا وہ لیکچر ہے جس میں ''سی پیک'' کی کھل کر مخالفت کی گئی ہے۔
جدید نقشوں، سٹیلائیٹ امیجوں اور جدولوں کی مدد سے دیا گیا یہ طویل لیکچر ایک بھارتی Dr Gaurav Garg نے دیا ہے جس میں سی پیک، گوادر پورٹ اور بلوچستان کے خلاف پوری ڈھٹائی کے ساتھ دریدہ دہنی کی گئی ہے۔ اس ہندو متعصب ''محقق'' ڈاکٹر گارگ نے غیر مبہم الفاظ میں بھارتی حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے: ''بھارت کو ہر صورت میں ''سی پیک'' منصوبہ ناکام بنا دینا چاہیے۔ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر کو چین کے علاقے کاشغر سے ملانے والی یہ اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے بھارت کو بلوچستان کی محرومیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں راہداری کو گلگت، بلتستان میں گزرنے سے روکنا ہو گا۔''
یوٹیوب پر پڑا یہ لیکچر مَیں نے خود سنا اور دیکھا ہے۔ پاکستان کے خلاف نہائیت دل آزار اور قابلِ اعتراض زبان استعمال کی گئی ہے اور بھارتی پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ کامیاب ہو گیا اور گوادر بندرگاہ پوری طرح بروئے کار آ گئی تو بھارت کی افغانستان اور ایران میں کی گئی تمام سرمایہ کاری اکارت چلی جائے گی۔ نئی ایرانی بندرگاہ، چاہ بہار، پر خرچ کیا جانے والا دو ارب ڈالر کا بھارتی سرمایہ بھی ڈوب جائے گا کہ ''چاہ بہار'' اور گوادر کے درمیان صرف 72 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ بھارتی ڈاکٹر گارگ نے اپنے حکمرانوں سے کہا ہے کہ سی پیک کو ناکام کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت عالمی سطح پر نواب اکبر بگٹی کی موت کے واقعہ کو زیادہ سے زیادہ اچھالنے کے کوشش کرے تاکہ بلوچستان کو ایک مظلوم صوبہ ثابت کیا جا سکے۔
سی پیک کے خلاف بھارت کی کوششیں اور سرگرمیاں کئی رخی اور متنوع ہیں۔ مقصد فقط یہ ہے کہ پاکستان اس عظیم اور مفید پراجیکٹ، جس پر چین چھیالیس ارب ڈالر کا خطیر سرمایہ صَرف کر رہا ہے، کو کبھی مکمل نہ کر پائے اور نہ ہی پاک چین تعلقات مزید آگے بڑھ سکیں۔ اس ضمن میں آٹھ نومبر 2016ء کو وطنِ عزیز کے ایک معروف انگریزی معاصر میں ایک حیرت انگیز خبر ان الفاظ میں شایع ہوئی ہے: ''برطانیہ میں مقیم آزاد کشمیر کے ایک شخص (جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی لکھتا ہے) کے پاکستانی شناختی کارڈ کی تجدید روک دی گئی ہے۔
الزام ہے کہ یہ شخص سی پیک کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسی سے تعاون کر رہا ہے۔ ایک حساس ادارے نے بھی مبینہ طور پر عدالت کے رو برو کہا ہے کہ مذکورہ شخص اینٹی پاکستان اور اینٹی سی پیک سرگرمیوں میں ملوث ہے۔'' رپورٹ کے مطابق، اُس نے دو انگریزی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں پاکستان، سی پیک اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کے خلاف خاصا مواد پایا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر میں ان کتابوں کی ترسیل اور تقسیم حکماً روک کر انھیں ضبط بھی کیا جا چکا ہے۔
وطنِ عزیز کے اندر بھی سی پیک کے خلاف مورچہ لگانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اس پر تاسف ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نومبر 2016ء کے دوسرے ہفتے خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے ہائیکورٹ میں ''سی پیک'' کے خلاف ایک رِٹ دائر کر دی۔ اس آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے مغربی روٹ کے بارے میں کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔ شکایت کی گئی کہ مشرقی روٹ کی بااثر لابی مغربی روٹ کے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے مشرقی روٹ کی طرف منتقل کر رہی ہے۔
اس شکایت کے بارے میں کے پی کے اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر نے کہا کہ ہم نہ سی پیک کے خلاف ہیں اور نہ ہی اس کا تعطل چاہتے ہیں بلکہ اپنے صوبے کا جائز حق مانگتے ہیں۔ یہ موقف درست ہوگا لیکن اسی رِٹ کے بارے میں وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی جناب احسن اقبال، جو سی پیک کی تعمیر وتشکیل میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، نے کہا کہ کے پی کے حکومت کا (سی پیک کے پس منظر میں) رِٹ دائر کرنا غیر ذمے دارانہ فعل ہے۔ پاکستان میں پیش آنے والے ایسے واقعات چین بھی دیکھ رہا ہے اور بھارت بھی۔
بھارت تو یقینا اِن واقعات سے اطمینان محسوس کرتا ہوگا کہ اُس کے مذموم مقاصد کو تقویت ملتی ہے لیکن پاکستان کا دوست، چین، رنج کی کیفیت میں مبتلا ہوگا۔ انھی رکاوٹوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں متعین چینی سفیر نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جناب عمران خان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں تاکہ سی پیک کی بیل بخیر وخوبی منڈھے چڑھ سکے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے جس طرح ''سی پیک'' کے خلاف رِٹ دائر کی ہے، اسے بہر حال عوامی سطح پر پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا گیا ہے۔ کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ''سی پیک'' کا حشر بھی کالا باغ ڈیم جیسا کرنا چاہتی ہے؟
اُنہوں نے ایک بار پھر پاکستان کی ترقی اور ترویج کے لیے ''چین پاکستان اکنامک کوریڈور'' (سی پیک)، جسے چین پاکستان اقتصادی راہداری بھی کہا جا رہا ہے، کا وسیع تر معنوں میں اپنا پیغام تمام سننے اور دیکھنے والوں تک پہنچا دیا ہے۔ یہ بھی بتایا ہے کہ اس عظیم اور بے مثال منصوبے کو کس کس طرح اور کس کس شکل میں مشکلات اور مخالفتوں کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف اور پاکستان کی عسکری قیادت یک زبان ہو کر سی پیک کی تکمیل کے لیے جس مستحکم لہجے میں اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں، یہی امید رکھی جانی چاہیے کہ، انشاء اللہ، اقتصادی راہداری کا یہ منصوبہ بخیر وخوبی اپنی منزل سے ہمکنار ہوگا۔
''سی پیک'' منصوبہ جتنا عظیم الشان ہے، اس کی مخالفت کرنے اور اسے ناکام بنانے والے بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پر سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت اور امریکا ان مخالفین میں پیش پیش ہیں۔ دو برادر اسلامی ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ جب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف نئے انداز میں حالات بگڑے ہیں، سی پیک کے خلاف بھارتی آوازیں اور سازشیں مزید بڑھ گئی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی خفیہ ادارے، را، کی زیر نگرانی ترتیب دیا جانے والا وہ لیکچر ہے جس میں ''سی پیک'' کی کھل کر مخالفت کی گئی ہے۔
جدید نقشوں، سٹیلائیٹ امیجوں اور جدولوں کی مدد سے دیا گیا یہ طویل لیکچر ایک بھارتی Dr Gaurav Garg نے دیا ہے جس میں سی پیک، گوادر پورٹ اور بلوچستان کے خلاف پوری ڈھٹائی کے ساتھ دریدہ دہنی کی گئی ہے۔ اس ہندو متعصب ''محقق'' ڈاکٹر گارگ نے غیر مبہم الفاظ میں بھارتی حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے: ''بھارت کو ہر صورت میں ''سی پیک'' منصوبہ ناکام بنا دینا چاہیے۔ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر کو چین کے علاقے کاشغر سے ملانے والی یہ اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کے لیے بھارت کو بلوچستان کی محرومیوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہیے۔ کسی بھی صورت میں راہداری کو گلگت، بلتستان میں گزرنے سے روکنا ہو گا۔''
یوٹیوب پر پڑا یہ لیکچر مَیں نے خود سنا اور دیکھا ہے۔ پاکستان کے خلاف نہائیت دل آزار اور قابلِ اعتراض زبان استعمال کی گئی ہے اور بھارتی پیٹ میں اٹھنے والے مروڑ کا اظہار یوں کیا گیا ہے کہ اگر سی پیک منصوبہ کامیاب ہو گیا اور گوادر بندرگاہ پوری طرح بروئے کار آ گئی تو بھارت کی افغانستان اور ایران میں کی گئی تمام سرمایہ کاری اکارت چلی جائے گی۔ نئی ایرانی بندرگاہ، چاہ بہار، پر خرچ کیا جانے والا دو ارب ڈالر کا بھارتی سرمایہ بھی ڈوب جائے گا کہ ''چاہ بہار'' اور گوادر کے درمیان صرف 72 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ بھارتی ڈاکٹر گارگ نے اپنے حکمرانوں سے کہا ہے کہ سی پیک کو ناکام کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بھارت عالمی سطح پر نواب اکبر بگٹی کی موت کے واقعہ کو زیادہ سے زیادہ اچھالنے کے کوشش کرے تاکہ بلوچستان کو ایک مظلوم صوبہ ثابت کیا جا سکے۔
سی پیک کے خلاف بھارت کی کوششیں اور سرگرمیاں کئی رخی اور متنوع ہیں۔ مقصد فقط یہ ہے کہ پاکستان اس عظیم اور مفید پراجیکٹ، جس پر چین چھیالیس ارب ڈالر کا خطیر سرمایہ صَرف کر رہا ہے، کو کبھی مکمل نہ کر پائے اور نہ ہی پاک چین تعلقات مزید آگے بڑھ سکیں۔ اس ضمن میں آٹھ نومبر 2016ء کو وطنِ عزیز کے ایک معروف انگریزی معاصر میں ایک حیرت انگیز خبر ان الفاظ میں شایع ہوئی ہے: ''برطانیہ میں مقیم آزاد کشمیر کے ایک شخص (جو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی لکھتا ہے) کے پاکستانی شناختی کارڈ کی تجدید روک دی گئی ہے۔
الزام ہے کہ یہ شخص سی پیک کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسی سے تعاون کر رہا ہے۔ ایک حساس ادارے نے بھی مبینہ طور پر عدالت کے رو برو کہا ہے کہ مذکورہ شخص اینٹی پاکستان اور اینٹی سی پیک سرگرمیوں میں ملوث ہے۔'' رپورٹ کے مطابق، اُس نے دو انگریزی کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں پاکستان، سی پیک اور پاکستان کی کشمیر پالیسی کے خلاف خاصا مواد پایا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر میں ان کتابوں کی ترسیل اور تقسیم حکماً روک کر انھیں ضبط بھی کیا جا چکا ہے۔
وطنِ عزیز کے اندر بھی سی پیک کے خلاف مورچہ لگانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اس پر تاسف ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر نومبر 2016ء کے دوسرے ہفتے خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے ہائیکورٹ میں ''سی پیک'' کے خلاف ایک رِٹ دائر کر دی۔ اس آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سی پیک کے مغربی روٹ کے بارے میں کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں۔ شکایت کی گئی کہ مشرقی روٹ کی بااثر لابی مغربی روٹ کے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے مشرقی روٹ کی طرف منتقل کر رہی ہے۔
اس شکایت کے بارے میں کے پی کے اسمبلی کے سپیکر جناب اسد قیصر نے کہا کہ ہم نہ سی پیک کے خلاف ہیں اور نہ ہی اس کا تعطل چاہتے ہیں بلکہ اپنے صوبے کا جائز حق مانگتے ہیں۔ یہ موقف درست ہوگا لیکن اسی رِٹ کے بارے میں وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی جناب احسن اقبال، جو سی پیک کی تعمیر وتشکیل میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، نے کہا کہ کے پی کے حکومت کا (سی پیک کے پس منظر میں) رِٹ دائر کرنا غیر ذمے دارانہ فعل ہے۔ پاکستان میں پیش آنے والے ایسے واقعات چین بھی دیکھ رہا ہے اور بھارت بھی۔
بھارت تو یقینا اِن واقعات سے اطمینان محسوس کرتا ہوگا کہ اُس کے مذموم مقاصد کو تقویت ملتی ہے لیکن پاکستان کا دوست، چین، رنج کی کیفیت میں مبتلا ہوگا۔ انھی رکاوٹوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں متعین چینی سفیر نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جناب عمران خان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں تاکہ سی پیک کی بیل بخیر وخوبی منڈھے چڑھ سکے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے جس طرح ''سی پیک'' کے خلاف رِٹ دائر کی ہے، اسے بہر حال عوامی سطح پر پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا گیا ہے۔ کئی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ''سی پیک'' کا حشر بھی کالا باغ ڈیم جیسا کرنا چاہتی ہے؟