ماں ماتا
عورت کے بارے میں مذاہب عالم میں بالعموم قابل قدر جذبات کا اظہار کیا گیا ہے
عورت کے بارے میں مذاہب عالم میں بالعموم قابل قدر جذبات کا اظہار کیا گیا ہے اور یہاں تک ہے کہ ایک مشہور و معروف ڈکٹیٹر نے یہاں تک کہا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوںگا۔ یہ اعتراف ہے اس حقیقت کا کہ قوم کے ترتیب پانے میں، اس کی ترقی میں عورت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ کم و بیش دنیا کی آبادی کا نصف سے زیادہ خواتین ہیں۔
کیوں ایسا ہے؟ اس کی بڑی عام وجہ یہ ہے کہ جو برداشت کا مادہ رکھتا ہے وہ پنپنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ برداشت کا مادہ اور قوت اور جز عورت میں بہت زیادہ ہے۔
ہیں دنیا میں ایسے لوگ، جو ماں کا درجہ سمجھتے ہیں، اس کی خدمت اس طرح کرتے ہیں جو اس کا حق ہے، مگر اسی معاشرے نے عورت کی تذلیل میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات دوسرے کے جرم پر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ میں اس قوم کا ہی حصہ ہوں۔
برصغیر میں اسلام کی توضیع، ترکیب اور اس کا عملی زندگی میں مظاہرہ دوسرے ممالک سے بالکل الگ ہے اور کبھی کبھی تو تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ اسلام کا سفر کیا برصغیر ہندو پاک میں آکر مکمل ہوا ہے؟ میری بات کو سمجھنے کے لیے ذرا سی تفصیل کی ضرورت ہوگی۔ معاشرے کے ایک بڑے پہلو کو چھوڑ کر کہ جس میں مرد نے عورت کو بازار دیا، عام زندگی میں آج بھی ماں، بیوی، بہن، بیٹی کے رشتے موجود ہیں اور ان کا احترام کیا جاتا ہے، سوائے چند غلط لوگوں کے جو ایسا نہیں کرتے اور ان کی بڑی تعداد فساد برپا کرنے والوں میں ہے کہ وہ عورت کو ایک جنس اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور لعنت کے حق دار ہیں۔
اگر اسلام کے نقطہ نظر سے بات کریںگے تو بات بہت کمزور اور شاید یہ سمجھا جائے کہ ہم مسلم معاشرے کو زیادہ اہمیت دینے کی بات کررہے ہیں۔ ہندو مذہب کو لے لیجیے، اس مذہب میں ایک جانور کو جو دودھ دیتا ہے، جس سے بچے پلتے ہیں، بڑے زندہ رہتے ہیں، ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس درجے کا مطلب یہ نہیں ہے ہندو دھرم میں اس کی وجہ سے آپ انسانوں کو تہہ تیغ کردیں، یہ مفاد پرست ہندوؤں کا کام ہے جن کا سربراہ بھارت کا وزیراعظم ہے۔ اس وقت اسی طرح مفاد پرست مسلمان ہیں، وہ گائے کا کام عورت سے لیتے ہیں اور گاؤ ماتا کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔
ہندو دھرم میں گائے کے شوہر صاحب کے بارے میں کوئی خاص ہدایت نہیں ہے مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ مفاد پرست ہندو ''بیل'' کے بھی سرپرست بن گئے ہیں تاکہ مسلمانوں پر ظلم کرسکیں، کیوںکہ مسلمان کو بھی شاید لکھ دیا گیا ہے نسخے میں کہ گائے کا گوشت ضرور کھانا ہے اور یہ نسخہ مولوی صاحبان کا تیار کردہ ہے تاکہ ''کام'' چلتا رہے۔
خیر یہ توالگ موضوع ہوجائے گا۔ یہ بھارت میں ظلم کی داستان ہے۔ بات عورت ذات کی ہورہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں اور معاشروں میں عورت کو جائز مقام دیا گیا ہے، ملکہ برطانیہ اور جرمنی کی وائس چانسلر اور کئی ملکوں کی سربراہ خواتین ہیں، جن میں بدترین حسینہ واجد ہیں، بظاہر مسلمان اندر سے مودی کی ہمشیرہ۔
قلم بار بار بہک جاتا ہے، برائیوں کی نشاندہی کے لیے تو عورت کو ہی ہندو دھرم میں بہت ''استعمال'' کیا گیا ہے ''دیوی'' بناکر اور وہاں سے اس کا حشر کیا ہے، برصغیر کے معاشرے نے، آپ بخوبی واقف ہیں۔ قدرت اﷲ شہاب، منٹو اور دوسرے بہت حقیقت پسند لکھنے والوں نے سچے افسانے لکھے ہیں۔ یہ وہ افسانے تھے جو 1947 کے فسادات کی وجہ سے باہر آگئے، ورنہ درون خانہ ایسے نہ جانے کتنے افسانے دم گھٹ کر ختم ہوجاتے تھے اور یہ کسی خاص علاقے کی ہی بات نہیں، ہم جس علاقے سے واقف ہیں اس کا ذکر کررہے ہیں۔ عیسائی، یہودی معاشروں نے بھی عورت کے ساتھ کچھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کیا۔
بھارت میں بھی اور پاکستان میں بھی ایک ''غیر سرکاری طاقت'' موجود ہے، طاقتوروں کی جو اپنی بیٹھک، اوطاق، چوپال میں تماشے کرتے رہتے اور سزا کا حق دار وہاں عورت ہی ہوتی ہے اور عورت کا جرمانہ بھی عورت، کیونکہ ان کے اپنے کرتوت اور کارناموں پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ عورت ان کے لیے ایک تبادلے کی چیز ہے، دے دو، لے لو۔ کس کی بیٹی ہے، کس کی ماں ہے، کس کی بہن ہے، یہ طاقت ور لوگ جانتے ہیں، مانتے ہیں، کیونکہ وہ مظلوم ان کے اپنے گھر کی نہیں ہیں، کسی اور کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہیں۔
قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتا، وہ بھی ان کے گھر کی ''لونڈی'' ہے یعنی کنیز، آج تک کسی گرفتار ہونے والے کو سزا پاتے نہیں دیکھا، ''خفیہ ہاتھ'' سب کچھ برابر کردیتے ہیں اور جس کی عزت خراب ہوتی ہے وہ مزید ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
دہشت گردوں کو ''حوریں'' فراہم کی جاتی ہیں، ہم نے سنا ہے اور ''حوریں'' ملنے کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور حیرت ہے کہ یہ سارے ایک انجانے نشے میں اس پر اعتبار کرکے آلۂ کار بن جاتے ہیں، جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ کتنے اسلامی ہوسکتے ہیں اس پر ہم تبصرہ نہیں کرسکتے۔ آپ خود سوچیے عرب ملکوں نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ہے، یوں لگتا ہے کہ مذہب بچا یہاں ہے اور بچانا بھی یہاں ہے۔ وہ تمام وسائل فراہم کررہے ہیں کہ یہاں مذہب اس طرح رہے جس طرح وہ چاہتے ہیں اور اس میں مرکز ''عورت'' ہی ہے۔
عرب ممالک میں زیر جامہ تبدیل نہ کرنے پر عورت عدالت سے خلع کی درخواست کرتی ہے اور اس کو خلع مل جاتا ہے کہ اس کا شوہر کئی کئی روز تک گندے کپڑے پہنے رہتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے اخبار کی خبر ہے اور یہاں عورت پر شوہر تیزاب ڈال دیتا ہے کہ وہ نشے کے لیے پیسے کماکر لائے اور کچھ نہیں ہوتا، حالانکہ اسلامی معاشرہ ہے، مسلم عدالتیں ہیں۔ تو وہ کون ہیں جو خلع دیتے ہیں اور یہاں ایسا کیا ہے کہ مرد جو چاہے جرم عورت کے خلاف کرے، چوٹی کاٹ دے، ناک کاٹ دے، گلا گھونٹ دے، عزت خراب کروادے۔ ہمارے معاشرے نے اب تک سزا کا موثر قانون نہیں بنایا، اگر ہے تو عمل در آمد پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
یہ کیس مفت رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔ قاضی کو سننے چاہئیں، براہ راست اور فیصلہ دیانت داری سے کرنا چاہیے ، قاضی کا دیانت دار اور منصف ہونا ضروری ہے، جب جلدی اور آسان انصاف ملے گا تب عورت محفوظ ہوگی۔
عرب ملکوں میں قاضی کون ہیں، انتظامیہ کا حصہ ہیں، موثر حصہ ہیں، ان کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ وہ ''جھوٹے فیصلے'' نہیں ہوتے۔ ریاست کو پتا ہے کہ فیصلہ درست ہوگا، قاضی کو پتا ہے کہ فیصلہ درست کرنا ہے اور مدعی کو پتا ہے کہ انصاف ملے گا۔
اس سے غرض نہیں ہے کہ عرب مسلم معاشرہ کس راستے پر جارہا ہے، وہ حساب وہی کرے گا جو آخرکار حساب کرنے والا ہے، ہمیں اپنے انتشار کو ختم کرنا ہے، عورت گھر کا مرکز ہے، اگر مرکز ختم ہوجائے تو گھر کو تباہی سے بچانا بہت مشکل ہے۔
ہمارا معاشرہ مطالبہ کرتا ہے ذمے داروں سے کہ عورت کو احترام دو، درجوں میں تقسیم نہ کرو، وزیراعظم کی بیٹی اور ایک مزدور کی بیٹی، دونوں بیٹیاں ہیں، دونوں کے لیے ایک قانون اور ایک طرح کا عمل درآمد ضروری ہے۔
سیاست بہت ضروری ہوگی، مگر اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے، اسے حل کیا جائے۔ اگر ہم مزید لکھیںگے تو فی الوقت اقتدار کے بڑے بڑے و امیر اور اعلیٰ شخصیات اس بازار میں ''ننگے'' نظر آئیںگے۔ خود کو بچایئے، قوم کو بچایئے، عورت کو بچایئے۔ وہ قوم کی نرسری ہے، اگر نرسری تباہ ہوجائے گی تو قوم جنم نہیں لے گی، ''پھوگ'' جنم لے گا جو آگ لگانے کے کام آتا ہے۔ سوچیے۔
کیوں ایسا ہے؟ اس کی بڑی عام وجہ یہ ہے کہ جو برداشت کا مادہ رکھتا ہے وہ پنپنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ برداشت کا مادہ اور قوت اور جز عورت میں بہت زیادہ ہے۔
ہیں دنیا میں ایسے لوگ، جو ماں کا درجہ سمجھتے ہیں، اس کی خدمت اس طرح کرتے ہیں جو اس کا حق ہے، مگر اسی معاشرے نے عورت کی تذلیل میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات دوسرے کے جرم پر میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ میں اس قوم کا ہی حصہ ہوں۔
برصغیر میں اسلام کی توضیع، ترکیب اور اس کا عملی زندگی میں مظاہرہ دوسرے ممالک سے بالکل الگ ہے اور کبھی کبھی تو تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ اسلام کا سفر کیا برصغیر ہندو پاک میں آکر مکمل ہوا ہے؟ میری بات کو سمجھنے کے لیے ذرا سی تفصیل کی ضرورت ہوگی۔ معاشرے کے ایک بڑے پہلو کو چھوڑ کر کہ جس میں مرد نے عورت کو بازار دیا، عام زندگی میں آج بھی ماں، بیوی، بہن، بیٹی کے رشتے موجود ہیں اور ان کا احترام کیا جاتا ہے، سوائے چند غلط لوگوں کے جو ایسا نہیں کرتے اور ان کی بڑی تعداد فساد برپا کرنے والوں میں ہے کہ وہ عورت کو ایک جنس اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور لعنت کے حق دار ہیں۔
اگر اسلام کے نقطہ نظر سے بات کریںگے تو بات بہت کمزور اور شاید یہ سمجھا جائے کہ ہم مسلم معاشرے کو زیادہ اہمیت دینے کی بات کررہے ہیں۔ ہندو مذہب کو لے لیجیے، اس مذہب میں ایک جانور کو جو دودھ دیتا ہے، جس سے بچے پلتے ہیں، بڑے زندہ رہتے ہیں، ماں کا درجہ دیا گیا ہے۔ اس درجے کا مطلب یہ نہیں ہے ہندو دھرم میں اس کی وجہ سے آپ انسانوں کو تہہ تیغ کردیں، یہ مفاد پرست ہندوؤں کا کام ہے جن کا سربراہ بھارت کا وزیراعظم ہے۔ اس وقت اسی طرح مفاد پرست مسلمان ہیں، وہ گائے کا کام عورت سے لیتے ہیں اور گاؤ ماتا کے برابر بھی نہیں سمجھتے۔
ہندو دھرم میں گائے کے شوہر صاحب کے بارے میں کوئی خاص ہدایت نہیں ہے مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ مفاد پرست ہندو ''بیل'' کے بھی سرپرست بن گئے ہیں تاکہ مسلمانوں پر ظلم کرسکیں، کیوںکہ مسلمان کو بھی شاید لکھ دیا گیا ہے نسخے میں کہ گائے کا گوشت ضرور کھانا ہے اور یہ نسخہ مولوی صاحبان کا تیار کردہ ہے تاکہ ''کام'' چلتا رہے۔
خیر یہ توالگ موضوع ہوجائے گا۔ یہ بھارت میں ظلم کی داستان ہے۔ بات عورت ذات کی ہورہی تھی۔ دوسرے مذاہب میں اور معاشروں میں عورت کو جائز مقام دیا گیا ہے، ملکہ برطانیہ اور جرمنی کی وائس چانسلر اور کئی ملکوں کی سربراہ خواتین ہیں، جن میں بدترین حسینہ واجد ہیں، بظاہر مسلمان اندر سے مودی کی ہمشیرہ۔
قلم بار بار بہک جاتا ہے، برائیوں کی نشاندہی کے لیے تو عورت کو ہی ہندو دھرم میں بہت ''استعمال'' کیا گیا ہے ''دیوی'' بناکر اور وہاں سے اس کا حشر کیا ہے، برصغیر کے معاشرے نے، آپ بخوبی واقف ہیں۔ قدرت اﷲ شہاب، منٹو اور دوسرے بہت حقیقت پسند لکھنے والوں نے سچے افسانے لکھے ہیں۔ یہ وہ افسانے تھے جو 1947 کے فسادات کی وجہ سے باہر آگئے، ورنہ درون خانہ ایسے نہ جانے کتنے افسانے دم گھٹ کر ختم ہوجاتے تھے اور یہ کسی خاص علاقے کی ہی بات نہیں، ہم جس علاقے سے واقف ہیں اس کا ذکر کررہے ہیں۔ عیسائی، یہودی معاشروں نے بھی عورت کے ساتھ کچھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کیا۔
بھارت میں بھی اور پاکستان میں بھی ایک ''غیر سرکاری طاقت'' موجود ہے، طاقتوروں کی جو اپنی بیٹھک، اوطاق، چوپال میں تماشے کرتے رہتے اور سزا کا حق دار وہاں عورت ہی ہوتی ہے اور عورت کا جرمانہ بھی عورت، کیونکہ ان کے اپنے کرتوت اور کارناموں پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ عورت ان کے لیے ایک تبادلے کی چیز ہے، دے دو، لے لو۔ کس کی بیٹی ہے، کس کی ماں ہے، کس کی بہن ہے، یہ طاقت ور لوگ جانتے ہیں، مانتے ہیں، کیونکہ وہ مظلوم ان کے اپنے گھر کی نہیں ہیں، کسی اور کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہیں۔
قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتا، وہ بھی ان کے گھر کی ''لونڈی'' ہے یعنی کنیز، آج تک کسی گرفتار ہونے والے کو سزا پاتے نہیں دیکھا، ''خفیہ ہاتھ'' سب کچھ برابر کردیتے ہیں اور جس کی عزت خراب ہوتی ہے وہ مزید ذلیل و خوار ہوتا ہے۔
دہشت گردوں کو ''حوریں'' فراہم کی جاتی ہیں، ہم نے سنا ہے اور ''حوریں'' ملنے کے خواب دکھائے جاتے ہیں اور حیرت ہے کہ یہ سارے ایک انجانے نشے میں اس پر اعتبار کرکے آلۂ کار بن جاتے ہیں، جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ کتنے اسلامی ہوسکتے ہیں اس پر ہم تبصرہ نہیں کرسکتے۔ آپ خود سوچیے عرب ملکوں نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا ہے، یوں لگتا ہے کہ مذہب بچا یہاں ہے اور بچانا بھی یہاں ہے۔ وہ تمام وسائل فراہم کررہے ہیں کہ یہاں مذہب اس طرح رہے جس طرح وہ چاہتے ہیں اور اس میں مرکز ''عورت'' ہی ہے۔
عرب ممالک میں زیر جامہ تبدیل نہ کرنے پر عورت عدالت سے خلع کی درخواست کرتی ہے اور اس کو خلع مل جاتا ہے کہ اس کا شوہر کئی کئی روز تک گندے کپڑے پہنے رہتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے اخبار کی خبر ہے اور یہاں عورت پر شوہر تیزاب ڈال دیتا ہے کہ وہ نشے کے لیے پیسے کماکر لائے اور کچھ نہیں ہوتا، حالانکہ اسلامی معاشرہ ہے، مسلم عدالتیں ہیں۔ تو وہ کون ہیں جو خلع دیتے ہیں اور یہاں ایسا کیا ہے کہ مرد جو چاہے جرم عورت کے خلاف کرے، چوٹی کاٹ دے، ناک کاٹ دے، گلا گھونٹ دے، عزت خراب کروادے۔ ہمارے معاشرے نے اب تک سزا کا موثر قانون نہیں بنایا، اگر ہے تو عمل در آمد پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
یہ کیس مفت رجسٹرڈ ہونے چاہئیں۔ قاضی کو سننے چاہئیں، براہ راست اور فیصلہ دیانت داری سے کرنا چاہیے ، قاضی کا دیانت دار اور منصف ہونا ضروری ہے، جب جلدی اور آسان انصاف ملے گا تب عورت محفوظ ہوگی۔
عرب ملکوں میں قاضی کون ہیں، انتظامیہ کا حصہ ہیں، موثر حصہ ہیں، ان کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، کیوںکہ وہ ''جھوٹے فیصلے'' نہیں ہوتے۔ ریاست کو پتا ہے کہ فیصلہ درست ہوگا، قاضی کو پتا ہے کہ فیصلہ درست کرنا ہے اور مدعی کو پتا ہے کہ انصاف ملے گا۔
اس سے غرض نہیں ہے کہ عرب مسلم معاشرہ کس راستے پر جارہا ہے، وہ حساب وہی کرے گا جو آخرکار حساب کرنے والا ہے، ہمیں اپنے انتشار کو ختم کرنا ہے، عورت گھر کا مرکز ہے، اگر مرکز ختم ہوجائے تو گھر کو تباہی سے بچانا بہت مشکل ہے۔
ہمارا معاشرہ مطالبہ کرتا ہے ذمے داروں سے کہ عورت کو احترام دو، درجوں میں تقسیم نہ کرو، وزیراعظم کی بیٹی اور ایک مزدور کی بیٹی، دونوں بیٹیاں ہیں، دونوں کے لیے ایک قانون اور ایک طرح کا عمل درآمد ضروری ہے۔
سیاست بہت ضروری ہوگی، مگر اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے، اسے حل کیا جائے۔ اگر ہم مزید لکھیںگے تو فی الوقت اقتدار کے بڑے بڑے و امیر اور اعلیٰ شخصیات اس بازار میں ''ننگے'' نظر آئیںگے۔ خود کو بچایئے، قوم کو بچایئے، عورت کو بچایئے۔ وہ قوم کی نرسری ہے، اگر نرسری تباہ ہوجائے گی تو قوم جنم نہیں لے گی، ''پھوگ'' جنم لے گا جو آگ لگانے کے کام آتا ہے۔ سوچیے۔