آبی دوزخ کے مکین
ایک ایسا صوبہ جس کی زمینوں کے نیچے شاندار خزانے دفن ہیں، جن سے دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں
ایک ایسا صوبہ جس کی زمینوں کے نیچے شاندار خزانے دفن ہیں، جن سے دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن مکین مفلسی و بد حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گڈانی شپ بریکنگ کے وسیع منافع بخش کاروبار کرنے والوں کے لیے زندگی کی ساری آسائشیں موجود ہیں لیکن ان مزدوروں کی حفاظت کا کبھی کوئی تصور کیا ہی نہیں گیا۔ شاید وہ انسان نہیں جانور ہیں۔ منیر نیازی نے ایسے ہی انسانوں کے لیے کہا تھا کہ ؎
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
کسے پروا تھی کہ معمولی لگنے والی آگ کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس آبی دوزخ میں جلنے والے بھی انسان ہیں۔ کسی کے گھر کے چراغ، کسی کی امید اور واحد کفیل جو ٹھیکہ داروں، جمعہ داروں اور مالکان کی تمام جعل سازیاں، استحصال کو برداشت کرتے ہیں اور جانتے بوجھتے برادشت کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہے، یہ ایسے ہی لوگ جان سکتے ہیں جو اس عذاب سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ساری تکلیفیں، اذیتیں، محض دو وقت کی روٹی کے لیے اٹھاتے ہیں۔ زندگی بھر دکھ، مصیبتیں برداشت کرنے کے باوجود کس قدر اذیت ناک موت ان کے حصے میں آئی۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیا تھا جو اس جہنم میں جھونک دیے گئے۔
یہ آگ ان لوگوں کو کیوں نہیں جلاتی جو اس کے اصل ذمے دار ہوتے ہیں، وہ ایسی موت کیوں نہیں مرتے۔ گڈانی شپ بریکنگ پر لگی آگ پانچویں روز بجھائی گئی۔ اس کے ذمے دار بہت دور شہر میں سکون سے سوتے رہے، مرنے والوں کے لواحقین اپنے دکھ پر بلکتے رہے، ان کے پیارے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
وہ معمولی محنت کش تھے، اپنا دکھ، اپنی فریاد کس کو سنائیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یا پھر اس بات کو رویا جائے کہ کبھی کبھی انسان کے لیے قدرت کی دی ہوئی نعمتیں بھی زحمت بن جاتی ہیں۔ جس طرح ماضی میں اور آج بھی تیل کی دولت جن ممالک کو حاصل ہے وہ مغربی ممالک کے سازشوں کے جال میں جکڑے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں۔ بالکل یہی حالات برسوں سے صوبہ بلوچستان کو درپیش ہیں۔
معدنی خزانوں سے لبریز صوبہ بلوچستان آج سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ بلوچستان کی داستان الم بہت پرانی ہے، جس میں ٹوٹے ہوئے وعدوں کی کہانی، بلند بانگ دعوؤں کی کہانی شامل ہے۔ جس کی سنگلاخ چٹانوں کے نیچے چھپے خزانوں پر تو سب نے اپنا حق سمجھا، لیکن فرض پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تقریباً دس فیصد ہے، اس کی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے، یہاں تیل، گیس، کوئلہ، سونے، چاندی، قیمتی ماربل اور دیگر دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اگر درست زاویے سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہوتی، تو شاید اس صوبے کا ہر باشندہ خوشحال و آسودہ ہوتا اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے آزاد ہوتا۔ مگر اس صوبے کی بدقسمتی دیکھیے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ غربت، تعلیم اور بیماری کے علاج سے محروم یہ صوبہ ہی نظر آتا ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے دیگر صوبوں کے دست نگر ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اس کے وسائل پر غیر ملکوں نے بھی اپنی حریص نظریں جمائی ہوئی ہیں۔
بلوچستان کی تباہی و بربادی کی جب بات آتی ہے تو ہمیشہ سرداری نظام اور ان کی اجارہ داری کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے اپنے مفادات اور مراعات کے پیش نظر اسے ایک سیاسی صوبہ بنانے کے بجائے سرداری صوبہ بنانے کی کوشش کی۔ جب بھی صوبائی حکومتیں تشکیل دی جاتیں، وہاں سرداری حاکمیت رہی۔ اس بدحال صوبے کے مسائل کا حل یہ سردار کیا کریں گے جو خود اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر گالم گلوچ اور شدید تنقید، ہاتھا پائی کرتے ہیں۔ ان سرداروں کی آپس کی نااتفاقیوں ہی کی وجہ سے غیر ملکی ان کے خزانوں کو اپنے ملک منتقل کرتے رہے ہیں۔
1961 کے ایک سروے میں یہ بات پتہ چلی کہ چاغی کے پہاڑوں میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، لیکن معلوم ہونے کے باوجود حکومتیں اور ارباب اختیار سوتے رہے۔ اس خزانے کو پاکستان میں خام شکل کے سونا، چاندی اور تانبے کو صاف کرنے کے پلانٹ نہ ہونے کے سبب سرمایہ کار کمپنیاں نہایت سستے داموں پاکستان کا قیمتی خام مال باہر لے جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہ خبر نظر سے گزری کہ ایران نے اپنے ذرایع سے تانبا کان سے نکالنے اور اسے صاف کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے۔ اس سے جہاں اس نے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلی ہے، وہاں بیرونی طاقتوں پر انحصار سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیا ہے اور اپنے ملک کی قیمتی دولت کو بچانے میں بھی کامیاب ہوگیا ہے۔
ایران کی اس کامیابی میں پاکستان کے لیے بھی بڑا سبق ہے کہ جب ہم ایٹم بم، جدید میزائل تیار کرسکتے ہیں تو اس سرزمین میں چھپے خزانے کو خود زمین سے نکالنے کے لیے ایکسپلورنگ، مائننگ، سروئنگ اور ریفائننگ سے لے کر مصنوعات تیار کرنے تک کے تمام کام کو مقامی سطح پر کیوں نہیں کرسکتے؟ اقوام عالم میں سی پیک منصوبے اور ریکوڈک ٹیلے کے خزانے کا بڑا چرچا ہے۔ اس خزانے کے بارے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ٹیلے کے نیچے دس ارب کلو گرام بہترین تانبا اور سینتیس 37)) کروڑ گرام سونا موجود ہے، جس کی مالیت 260 ارب ڈالر بنتی ہے۔
ادھر ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ اپنی مٹی کو سونا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے پوری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں، قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ بلوچ عوام اس شاندار خزانے کے مالک غربت کی انتہائی بدترین سطح پر جی رہے ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ صوبے کے پاس آگ کو بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ اور اسپتالوں کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔
چند دن بعد سانحہ سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوگا کہ اس کیس کی فائل بھی سرد خانے کی نذر ہوجائے گی، جلنے والوں کے لواحقین کے لیے حکومت امداد کا اعلان بھی کرے گی، لوگ اس حادثے کو بھلا دیں گے، پھر کوئی جہاز ٹو ٹنے کے لیے آئے گا، مزدوروں کے چہرے دھاڑی لگنے کی آس میں مسکرائیں گے۔ ایسے میں کوئی مزدور جہاز کو ڈس مینٹل کرتے ہوئے یا پھر فیول ٹینک کے پاس کھڑے ہوکر اپنے سنگی ساتھی کو یاد کرتے شاید غالب کا شعر ضرور دہرائے گا۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو اب راکھ ، جستجو کیا ہے
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
کسے پروا تھی کہ معمولی لگنے والی آگ کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس آبی دوزخ میں جلنے والے بھی انسان ہیں۔ کسی کے گھر کے چراغ، کسی کی امید اور واحد کفیل جو ٹھیکہ داروں، جمعہ داروں اور مالکان کی تمام جعل سازیاں، استحصال کو برداشت کرتے ہیں اور جانتے بوجھتے برادشت کرنا کس قدر دشوار ہوتا ہے، یہ ایسے ہی لوگ جان سکتے ہیں جو اس عذاب سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ساری تکلیفیں، اذیتیں، محض دو وقت کی روٹی کے لیے اٹھاتے ہیں۔ زندگی بھر دکھ، مصیبتیں برداشت کرنے کے باوجود کس قدر اذیت ناک موت ان کے حصے میں آئی۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیا تھا جو اس جہنم میں جھونک دیے گئے۔
یہ آگ ان لوگوں کو کیوں نہیں جلاتی جو اس کے اصل ذمے دار ہوتے ہیں، وہ ایسی موت کیوں نہیں مرتے۔ گڈانی شپ بریکنگ پر لگی آگ پانچویں روز بجھائی گئی۔ اس کے ذمے دار بہت دور شہر میں سکون سے سوتے رہے، مرنے والوں کے لواحقین اپنے دکھ پر بلکتے رہے، ان کے پیارے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
وہ معمولی محنت کش تھے، اپنا دکھ، اپنی فریاد کس کو سنائیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یا پھر اس بات کو رویا جائے کہ کبھی کبھی انسان کے لیے قدرت کی دی ہوئی نعمتیں بھی زحمت بن جاتی ہیں۔ جس طرح ماضی میں اور آج بھی تیل کی دولت جن ممالک کو حاصل ہے وہ مغربی ممالک کے سازشوں کے جال میں جکڑے ہوئے اپنے ہی لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں۔ بالکل یہی حالات برسوں سے صوبہ بلوچستان کو درپیش ہیں۔
معدنی خزانوں سے لبریز صوبہ بلوچستان آج سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ بلوچستان کی داستان الم بہت پرانی ہے، جس میں ٹوٹے ہوئے وعدوں کی کہانی، بلند بانگ دعوؤں کی کہانی شامل ہے۔ جس کی سنگلاخ چٹانوں کے نیچے چھپے خزانوں پر تو سب نے اپنا حق سمجھا، لیکن فرض پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تقریباً دس فیصد ہے، اس کی سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے، یہاں تیل، گیس، کوئلہ، سونے، چاندی، قیمتی ماربل اور دیگر دھاتوں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اگر درست زاویے سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہوتی، تو شاید اس صوبے کا ہر باشندہ خوشحال و آسودہ ہوتا اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے آزاد ہوتا۔ مگر اس صوبے کی بدقسمتی دیکھیے کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ غربت، تعلیم اور بیماری کے علاج سے محروم یہ صوبہ ہی نظر آتا ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے دیگر صوبوں کے دست نگر ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ اس کے وسائل پر غیر ملکوں نے بھی اپنی حریص نظریں جمائی ہوئی ہیں۔
بلوچستان کی تباہی و بربادی کی جب بات آتی ہے تو ہمیشہ سرداری نظام اور ان کی اجارہ داری کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے اپنے مفادات اور مراعات کے پیش نظر اسے ایک سیاسی صوبہ بنانے کے بجائے سرداری صوبہ بنانے کی کوشش کی۔ جب بھی صوبائی حکومتیں تشکیل دی جاتیں، وہاں سرداری حاکمیت رہی۔ اس بدحال صوبے کے مسائل کا حل یہ سردار کیا کریں گے جو خود اسمبلیوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر گالم گلوچ اور شدید تنقید، ہاتھا پائی کرتے ہیں۔ ان سرداروں کی آپس کی نااتفاقیوں ہی کی وجہ سے غیر ملکی ان کے خزانوں کو اپنے ملک منتقل کرتے رہے ہیں۔
1961 کے ایک سروے میں یہ بات پتہ چلی کہ چاغی کے پہاڑوں میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، لیکن معلوم ہونے کے باوجود حکومتیں اور ارباب اختیار سوتے رہے۔ اس خزانے کو پاکستان میں خام شکل کے سونا، چاندی اور تانبے کو صاف کرنے کے پلانٹ نہ ہونے کے سبب سرمایہ کار کمپنیاں نہایت سستے داموں پاکستان کا قیمتی خام مال باہر لے جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہ خبر نظر سے گزری کہ ایران نے اپنے ذرایع سے تانبا کان سے نکالنے اور اسے صاف کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے۔ اس سے جہاں اس نے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلی ہے، وہاں بیرونی طاقتوں پر انحصار سے بھی چھٹکارا حاصل کرلیا ہے اور اپنے ملک کی قیمتی دولت کو بچانے میں بھی کامیاب ہوگیا ہے۔
ایران کی اس کامیابی میں پاکستان کے لیے بھی بڑا سبق ہے کہ جب ہم ایٹم بم، جدید میزائل تیار کرسکتے ہیں تو اس سرزمین میں چھپے خزانے کو خود زمین سے نکالنے کے لیے ایکسپلورنگ، مائننگ، سروئنگ اور ریفائننگ سے لے کر مصنوعات تیار کرنے تک کے تمام کام کو مقامی سطح پر کیوں نہیں کرسکتے؟ اقوام عالم میں سی پیک منصوبے اور ریکوڈک ٹیلے کے خزانے کا بڑا چرچا ہے۔ اس خزانے کے بارے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ٹیلے کے نیچے دس ارب کلو گرام بہترین تانبا اور سینتیس 37)) کروڑ گرام سونا موجود ہے، جس کی مالیت 260 ارب ڈالر بنتی ہے۔
ادھر ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ اپنی مٹی کو سونا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے بجائے پوری دنیا میں کشکول لیے پھرتے ہیں، قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ بلوچ عوام اس شاندار خزانے کے مالک غربت کی انتہائی بدترین سطح پر جی رہے ہیں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ صوبے کے پاس آگ کو بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ اور اسپتالوں کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔
چند دن بعد سانحہ سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوگا کہ اس کیس کی فائل بھی سرد خانے کی نذر ہوجائے گی، جلنے والوں کے لواحقین کے لیے حکومت امداد کا اعلان بھی کرے گی، لوگ اس حادثے کو بھلا دیں گے، پھر کوئی جہاز ٹو ٹنے کے لیے آئے گا، مزدوروں کے چہرے دھاڑی لگنے کی آس میں مسکرائیں گے۔ ایسے میں کوئی مزدور جہاز کو ڈس مینٹل کرتے ہوئے یا پھر فیول ٹینک کے پاس کھڑے ہوکر اپنے سنگی ساتھی کو یاد کرتے شاید غالب کا شعر ضرور دہرائے گا۔
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو اب راکھ ، جستجو کیا ہے