شفقت و نرمی اختیار کیجیے

صراط مستقیم کی طرف حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلائیے

بے شک سب سے اہم چیز جو اﷲ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے علم بردار پر واجب ہوتی ہے۔ فوٹو؛ فائل

KARACHI:
شیخ سعدی رحمہ اﷲ کہتے ہیں : تمہاری دعوت تمام مخلوق کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر، تمہارے رب کے سیدھے راستے کی طرف علم نافع اور عمل صالح پر مشتمل ہونی چاہیے۔ حکمت کے ساتھ یعنی ہر ایک کو اس کے حال، فہم اور اس کے اندر قبولیت اور اطاعت کے مادے کے مطابق ہو۔

حکمت یہ ہے کہ دعوت جہالت کی بجائے علم کے ذریعے دی جائے اور سب سے اہم چیز سے ابتدا کی جائے، جو عقل اور فہم میں قریب ہو اور ایسے نرم اور شفقت بھرے انداز سے دعوت دی جا ئے کہ اُسے مکمل طور پر قبول کر لیا جائے۔ اگر وہ حکمت کے ساتھ اس کے عیوب و محاسن بتائے پھر اچھی نصیحت کے ذریعے دعوت دینے کی طرف منتقل ہو جائے جو ترغیب و ترہیب کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

بے شک سب سے اہم چیز جو اﷲ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے علم بردار پر واجب ہوتی ہے وہ یہ کہ وہ اپنے عمل کو اﷲ سبحانہ کے لیے خالص کرے، ریاکاری اور خود پسندی سے بہت زیادہ بچے، ہر اس چیز سے بچے جو عمل کو فاسد کرتی ہو اور وہ ہمیشہ شرعی اور نافع علم کو اپنا زادِراہ بنائے، جو بھلائی کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں اس کا سامان اور ہتھیار ہیں۔ لہٰذا لوگوں کو دعوت دیتے وقت شفقت اور نرمی سے اپنے آپ کو آراستہ کرلو اور نفرت دلانے اور سختی کرنے سے دور رہو، جب تک اس کی اشد ضرورت نہ ہو! کیوں کہ یہی اس کا راستہ ہے جو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کہتے ہیں: نرمی ہی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا راستہ ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کا نیکی کا حکم دینا معروف طریقے سے ہونا چاہیے اور برائی سے منع کرنا برائی سے نہیں ہونا چاہیے۔


اﷲ عزّ و جل کی طرف دعوت دینے والا دوسروں کو نصیحت اور وعظ کرتے وقت ہمیشہ اپنے نبی ﷺ کا یہ فرمان یاد رکھے: '' نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوب صورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال لی جاتی ہے اسے بد صورت بنا دیتی ہے۔''

حافظ مناوی رحمہ اﷲ کہتے ہیں : عالم کو چاہیے کہ جب وہ کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو کسی فرض میں کوتاہی کر رہا ہے یا کوئی حرام کام کررہا ہے تو وہ اس کی راہ نمائی کرنے میں نرمی سے کام لے اور اس کے ساتھ شفقت سے پیش آئے اور اسے چاہیے کہ اپنے نبی ﷺ کی سیرت کو پڑھے کہ وہ دعوت دیتے وقت اور لوگوں کی خیر خواہی کرتے وقت کس قدر نرمی کرنے والے اور بردبار تھے۔ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اس اثنا میں کہ میں رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: اﷲ تجھ پر رحم کرے تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا۔ تو میں نے کہا : میری ماں مجھے گم پائے، تم سب کو کیا ہو گیا ہے کہ مجھے گھور رہے ہو ؟ پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے۔ تو جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں (تو مجھے عجیب لگا) لیکن میں خاموش رہا، جب رسول اﷲ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے، میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم نہیں دیکھا، ﷲ کی قسم! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ''بے شک یہ نماز ہے اس میں لوگوں کی کسی قسم کی گفت گو روا نہیں ہے، یہ تو تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے۔''

ابن جوزی رحمہ اﷲ کہتے ہیں : یہ حدیث تربیت کرنے والوں کو سکھاتی ہے کہ وہ کیسے تربیت کریں۔ بے شک جاہل کو تعلیم دینے سے پہلے اس پر شفقت کرنا اس پر سختی کرنے سے زیادہ مفید ہے کیوں کہ جس کو علم ہی نہیں اس پر سختی کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں، سختی تو بس اس کے ساتھ کی جاتی ہے جو علم کے باوجود مخالفت کرتا ہے۔

امام ابن رجب رحمہ اﷲ کہتے ہیں : سلف صالحین جب کسی آدمی کو نصیحت کرنا چاہتے تو اسے تنہائی میں وعظ کرتے تھے۔

ہم اﷲ سے سب کے لیے ہدایت کا سوال کرتے ہیں۔
Load Next Story