متحدہ پر پابندی عدالت کا تمام منتخب اراکین کو وکالت نامے جمع کرانے کا حکم
عدالت کا ایم کیوایم کے وکلا کو ارکان کے دستخط کرانے کے لئے 22 نومبر تک کی مہلت
ISLAMABAD:
بانی متحدہ الطاف حسین کی شر انگیز تقاریر سے متعلق کیس میں عدالت نے وکالت نامے پر متحدہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کے دستخط نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہوتے ہوئے تمام اراکین کو وکالت نامے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
بانی ایم کیو ایم کی ملک مخالف تقریر اور متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی سے متعلق درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی۔ اس موقع پر درخواست گزار مولوی اقبال حیدر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک توڑنا چاہتے ہیں اور فاروق ستار سمیت پارٹی رہنما ملک توڑنے کی منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔ حکمت عملی کے تحت الیکشن کمیشن کے معاملات ڈاکٹر فاروق ستار کے سپرد کردئیے گئے تھے، اربوں روپےکا پارٹی فنڈ بھی پہلے سے فاروق ستار کے حوالے کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن تقریر ہوئی سارے پارٹی رہنما بشمول فاروق ستار سہولت فراہم کر رہے تھے، فاروق ستار عدالت سے اشتہاری قرار دیئے گئے ہیں اس لئے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پر پابندی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
مولوی اقبال حیدر کی جانب سے کہا گیا کہ الطاف حسین کے ملکی سالمیت کے خلاف اقدامات پر رینجرز نے ایم کیو ایم کا مرکز سیل کیا اور مقدمات بھی درج ہوئے، تمام منتخب نمائندوں نے الطاف حسین سے تاحیات وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے لہذا متحدہ کے خلاف دہشت گردی اور سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے پابندی عائد کی جائے۔ اس موقع پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے وکالت نامے پر متحدہ ارکان اسمبلی کے دستخط نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وکالت نامے پر صرف فاروق ستار کے دستخط ہیں، 71 ارکان اسمبلی و سینیٹ کے دستخط کہاں ہیں؟ عدالت ایم کیوایم کے وکلا کو ارکان کے دستخط کرانے کے لئے 22 نومبر تک کی مہلت دے دی۔
بانی متحدہ الطاف حسین کی شر انگیز تقاریر سے متعلق کیس میں عدالت نے وکالت نامے پر متحدہ ارکان اسمبلی و سینیٹ کے دستخط نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہوتے ہوئے تمام اراکین کو وکالت نامے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
بانی ایم کیو ایم کی ملک مخالف تقریر اور متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی سے متعلق درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ میں ہوئی۔ اس موقع پر درخواست گزار مولوی اقبال حیدر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک توڑنا چاہتے ہیں اور فاروق ستار سمیت پارٹی رہنما ملک توڑنے کی منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔ حکمت عملی کے تحت الیکشن کمیشن کے معاملات ڈاکٹر فاروق ستار کے سپرد کردئیے گئے تھے، اربوں روپےکا پارٹی فنڈ بھی پہلے سے فاروق ستار کے حوالے کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن تقریر ہوئی سارے پارٹی رہنما بشمول فاروق ستار سہولت فراہم کر رہے تھے، فاروق ستار عدالت سے اشتہاری قرار دیئے گئے ہیں اس لئے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پر پابندی کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
مولوی اقبال حیدر کی جانب سے کہا گیا کہ الطاف حسین کے ملکی سالمیت کے خلاف اقدامات پر رینجرز نے ایم کیو ایم کا مرکز سیل کیا اور مقدمات بھی درج ہوئے، تمام منتخب نمائندوں نے الطاف حسین سے تاحیات وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے لہذا متحدہ کے خلاف دہشت گردی اور سیکیورٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے پابندی عائد کی جائے۔ اس موقع پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے وکالت نامے پر متحدہ ارکان اسمبلی کے دستخط نہ ہونے پر اعتراض کرتے ہوئے استفسار کیا کہ وکالت نامے پر صرف فاروق ستار کے دستخط ہیں، 71 ارکان اسمبلی و سینیٹ کے دستخط کہاں ہیں؟ عدالت ایم کیوایم کے وکلا کو ارکان کے دستخط کرانے کے لئے 22 نومبر تک کی مہلت دے دی۔