ٹرمپ کے بعد دنیا

’’جب ہندوستان میں مودی آسکتا ہے تو امریکا میں ٹرمپ کیوں نہیں‘‘

Jvqazi@gmail.com

امریکا کے انتخابات سے کچھ دن پہلے ایک نوٹ میں، میں نے بھی کہا ''جب ہندوستان میں مودی آسکتا ہے تو امریکا میں ٹرمپ کیوں نہیں''۔ بہت سے پنڈت مجھ پہ ہنسے، کچھ نے کہا امریکا کے عوام اتنے جاہل نہیں۔ تو لیجیے آپ ٹرمپ والا امریکا، مودی والا ہندوستان، پوتن والا روس، اردگان والا ترکی۔ یہ وہی بیانیہ (Narrative) ہے جس پر کھیل کر یہ ووٹرز کو جذبات میں لاکر جمہوریت کے نام پر اقتدار کے زینے چڑھتے ہیں اور جمہوریت کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

ہمارے پاس ماضی میں یہ کام کرنے کی تاریخ ہٹلر سے شروع ہوئی ہے۔ آپ جمہوریت کے نام پر آئے، آمر بنے اور جرمن قوم کو اس غلط فہمی کا شکار کیا کہ وہ دنیا کی سپر قوم ہے۔ اس ایک کو لانے کا کفارہ پھر صرف جرمن قوم نے ادا نہیں کیا تھا پوری دنیا دوسری جنگ عظیم کی شکل میں ادا کر بیٹھی۔ دنیا میں نئے نقشے وجود میں آئے اور اس طرح سے پاکستان بھی معرض وجود میں آیا۔ ہمارے لحاظ سے تو یہ مستفید ہوا کہ انگریز کمزور ہوا، اسے ہندوستان چھوڑنا پڑا لیکن ہم جن کو پاکستان ملا، اس کی قیادت و آزادی دلانے والی پارٹی اتنی اندر سے مضبوط نہ تھی کہ وہ پاکستان کی سمت کا تعین کرسکے۔

مجھے جب ٹرمپ جیتتا ہوا نظر آیا تھا، اس کی وجہ برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدہ ہونا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ آج کل ان ماڈرن ریاستوں کے شہریوں کے اندر ایک خوف طاری ہے کہ جیسے سب کچھ ان سے چھنتا جارہا ہے۔ جتنا ایسے ممالک کے شہری آزادی کے مزے اڑا رہے ہیں اتنا تو دنیا میں شاید ہی کوئی پا رہا ہو۔ مگر 9/11 ہوا، پھر بش نے جنگ کے طبل بجائے، پھر بش ہی جیتے، جنگ کی بدبو نے امریکا کے ہوش ٹھکانے لگا دیے اور تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام شہری امریکا کا صدر بنا۔ مگر یہ تاریخ میں پہلی بار نہ ہوسکا کہ ایک عورت امریکا کی صدر بنتی۔

جو حقیقت ہمارے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ امریکا ابھی نہیں بدلا۔ ابھی امریکا وہی رونالڈ ریگن والا زندہ ہے، جس نے ضیا الحق کو جنم دیا تھا۔ بش والا زندہ ہے، جس نے جنرل مشرف کو جنم دیا تھا۔ اور اب ہے ٹرمپ والا امریکا۔ تو کیا پھر پاکستان...؟

لیکن نہیں رونالڈ ریگن کے زمانوں میں ہندوستان سوویت یونین کے ساتھ تھا۔ بش کے زمانے میں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ تھا، کیونکہ اس زمانے میں ورلڈ یونی پولر تھا اور اب امریکا کا اس خطے میں سب سے بڑا اتحادی ہندوستان ہے اور پاکستان چین کے ساتھ ہے اور چین کی حیثیت اب وہی ہے جو کل سوویت یونین کی ہوتی تھی، یعنی امریکا کا سب سے بڑا حریف۔

ہاں مگر ایک بہت بڑا فرق بھی ہے۔ سوویت یونین کے ساتھ امریکا کی نظریاتی جنگ تھی، جو سرد جنگ میں تبدیل ہوئی۔ یہاں ماجرا وہ نہیں، یعنی چین کی معیشت کی ڈگر بھی وہی ہے جو امریکا کی ہے، اب تو پوری دنیا کی معیشت سرمایہ داری نظام پہ چلتی ہے۔


اس کے باوجود بھی بہت کچھ مختلف ہے، یعنی چین نے جو فائدہ لیا وہ گلوبلائزیشن کا لیا۔ اس کی چیزیں سستی تھیں۔ سستی اس لیے تھیں کہ اس کے مزدور کی اجرت سستی تھی۔ اجرت سستی اس لیے تھی کہ وہ امریکا و یورپ کے شہری کی طرح خوشحال مزدور نہیں تھا، آزاد نہیں تھا اور پھر ایک غریب مزدور نے ایک خوشحال مزدور کی فیکٹریاں بند کروا دیں، اس لیے کہ وہ اپنے مالک سے اجرت زیادہ لیتا تھا اور مالک اس کی اجرت اس کی پیدا کی ہوئی چیز کی قیمت میں ڈال دیا کرتا تھا اور وہ قیمت چین کے مزدور کی پیدا کی ہوئی چیز سے مہنگی ہوتی تھی۔ ہوا کیا؟ امریکا میں فیکٹریاں بند ہونے لگیں اور چین میں فیکٹریاں کھلتی گئیں۔

دوسری طرف امریکا نے دنیا کے لیے امریکا آنے کے دروازے کھولے رکھے۔ اچھے اچھے ہنر والے امریکا چلے گئے۔ امریکا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سب سے آگے نکلا، سروس انڈسٹری وغیرہ میں اس کا اپنا ایک مقام تھا، مگر امریکا میں تعلیم بہت مہنگی تھی۔ ڈاکٹر بننا، انجینئر بننا، ریسرچ اسکالر بننا امریکا کے مزدور کے بچے کے لیے بہت مشکل تھا اور ایسے کام امریکا میں ہندوستان سے آئے ہنرمند شہری کرنے لگے۔ ساؤتھ ایشیا سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایکسپرٹ دھڑا دھڑ گئے، ڈاکٹر گئے وغیرہ وغیرہ۔ اور اس طرح ان مہاجروں نے ایک ڈر کی فضا پیدا کی۔

شام جیسے بحران ہوئے، یورپ نے راستے کھول دیے اور برطانیہ نے یورپی یونین ہی چھوڑ دی تاکہ وہ مہاجرین کا خلا روک سکے اور اس طرح پھر اسلامو فوبیا جیسے ڈر ظہور پذیر ہوئے۔ اور بالآخر جن بوتل سے باہر ۔ یہ ہے وہ ٹرمپ جو آپ کو امریکا نے ورلڈ لیڈر کی حیثیت میں عطا کیا ہے۔ اب اللہ ہی جانے کیا ہوگا آگے۔

بہت سے لوگ امریکا چھوڑ کر واپس اپنے وطن کو لوٹیں گے؟ امریکا اب چین سے چیزیں لینے پر کچھ پابندیاں لگائے تاکہ اس کے مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے ذرایع نکلیں وغیرہ وغیرہ۔ مجھے نہیں لگتا یہ ممکن ہے۔ دنیا بہت آپس میں گھل مل سی گئی ہے۔ گلوبلائزیشن پہ تنقید اپنی جگہ مگر وہ حقیقت ہے۔ اس نے بہت سوں کو امیر کیا اور بہت سوں کو غریب بھی کیا ہے۔ مگر دنیا میں ترقی کی رفتار بڑھی، شرح نمو بڑھی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے حساسیت بڑھی اور یہ بھی ہوا جو ریاستیں ماڈرن ریاستیں نہیں تھیں وہ فرسودہ ہوکر بکھرنے لگی تھیں، ان میں ٹرمپ کے آنے سے کچھ جان پڑ گئی۔ مگر یہ کام دیر تک نہیں چل سکے گا۔

جاتے جاتے یہ گماں بھی عرض کرتا چلوں کہ ٹرمپ کے آنے سے ہندوستان بہت خوش ہوگا اور ہندوستان امریکا میں پاکستان کے خلاف اور تیز پروپیگنڈا کرے گا اور عین ممکن ہے ریپبلکن کے کان ہندوستان کی طرف مائل بہ کرم ہوں۔ خود عرب ریاستوں کے لیے برے دن آئیں گے، وہ ریاستیں جو دنیا میں اسلام کا انتہا پرست برانڈ پھیلاتی ہیں۔

اب دنیا کا تھیٹر مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ ایشیا ہے اور امریکا اب یہاں بہت شفٹ لائے گا اور فوکس کرے گا۔ چین کے خلاف اس کا سب سے بڑا اسٹرٹیجک پارٹنر ہندوستان ہے۔

امریکا ایک حقیقت ہے اور ریپبلکن والا امریکا اب اور حقیقت ہے۔ بے رحم امریکا! ہمیں اب ایک توازن پیدا کرنا ہوگا۔ ہندوستان کے پروپیگنڈہ کی نفی کے لیے ہمیں اب یہ ثابت کرنا ہوگا ہم کسی بھی جہادی تنظیم کی ہمت افزائی نہیں کر رہے۔ اس کے بعد اگر کسی اور معاملے پر کسی نے ٹکرانے کی کوشش کی تو یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اب ہم چین کے اس خطے میں سب سے بڑے اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں اور ہماری معاشی ترقی اب چین سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسے عزائم اگر کسی نے پیدا کرنے کی کوشش کی تو وہ پاکستان جیسا دوست کھوئے گا، اور منہ کی بھی کھائے گا۔
Load Next Story