کراچی کا حکمران شہری
بھٹو خاندان کے کسی بھی فرد نے کبھی خود کو کراچی کا شہری اس طرح قرار نہیں دیا تھا
کراچی والوں کے لیے یہ ایک خوش آیند خبر ہے کہ سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری نے پہلی بار کھلے عام خود کو کراچی کا شہری تسلیم کیا ہے، جب کہ اس حقیقت کا اظہار ان کی والدہ اور دو بار وزیراعظم رہنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کبھی نہیں کرسکی تھیں، جب کہ وہ بھی اپنے صاحبزادے بلاول زرداری کی طرح کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کی شادی بھی کراچی میں ہوئی تھی۔
بھٹو خاندان کے کسی بھی فرد نے کبھی خود کو کراچی کا شہری اس طرح قرار نہیں دیا تھا جیسے زرداری خاندان سے تعلق رکھنے والے بلاول نے دیا ہے جب کہ دونوں خاندانوں کا کراچی سے انتہائی قریبی تعلق رہا ہے اور بلاول زرداری کے دادا حاکم علی زرداری کراچی کے ایک مشہور سینما کے مالک تھے، جب کہ بھٹو خاندان کی مشہور رہائش گاہ ستر کلفٹن سے کون واقف نہیں، جو اب مرتضیٰ بھٹو کے ورثا کی ملکیت ہے۔
کراچی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو ہمیشہ گلہ رہا کہ کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا، جب کہ ان کی نظامت میں متحدہ کے ارکان اسمبلی، اسمبلیوں ہی میں نہیں بلکہ حکومت وقت میں بھی بھرپور طور پر شامل تھے اور سندھ کا گورنر اپنا تھا اور کراچی سے تعلق رکھنے والے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کا تعلق بھی کراچی ہی سے تھا اور انھوں نے کراچی کا شہری ہونے کے ناتے کراچی کو نظرانداز نہیں کیا اور ان کے دور میں کراچی کو بلاشبہ سب سے زیادہ فنڈز دیے۔
یہ الگ بات کہ اتنے بڑے فنڈ کا درست استعمال نہیں ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے نعمت اللہ دور سے زیادہ فنڈ متحدہ کے سٹی ناظم کو دیے اور مشرف دور میں جتنی ترقی کراچی میں نظر آئی اتنی کبھی ماضی میں نہیں ہوئی۔
گورنر کا عہدہ آئینی ہوتا ہے اور اصل اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں اور سندھ میں منتخب ہونے والے ہر وزیراعلیٰ کا تعلق دیہی سندھ سے رہا۔ البتہ شہری سندھ سے تعلق رکھنے والے متعدد گورنروں کا تعلق کراچی سے تھا۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، جس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک چلتا ہے، مگر سب سے زیادہ کما کر دینے والے کراچی کو جمہوریت کی دعویدار اور اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ نظرانداز کیا اور کراچی کو کبھی اس کا حق نہیں دیا گیا۔
کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تو ہے مگر یہ منی پاکستان ہے جہاں پورے ملک سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کراچی میں اگر اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے تو یہاں لاکھوں پٹھان، سندھی، بلوچ، پنجابی، گلگتی، کشمیری اور غیر ملکی بنگالی، برمی و دیگر بھی لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں اور کراچی میں رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستان کا آئین یہاں رہنے اور کسی بھی سیاسی پارٹی میں شمولیت اور پسند کی پارٹی کو ووٹ دینے کا حق دیتا ہے۔
کراچی کے بلوچوں اور سندھیوں کو پی پی کو اردو بولنے والوں کو متحدہ یا جماعت اسلامی کو پٹھانوں کو اے این پی یا جے یو آئی کو اور پنجابیوں کو مسلم لیگ (ن) کو اور قوم پرستوں کو اپنی من پسند جماعت کو ووٹ دینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پی پی نے بلاشبہ کراچی کے بلوچوں اور سندھیوں کے علاقوں کو ترجیح دے کر انھیں سہولتیں دیں اور متحدہ کے علاقوں میں رہنے والوں کو مکمل نظرانداز کیا۔
بلاول زرداری کی والدہ بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنی دونوں حکومتوں میں کراچی والوں کو سیاسی بنیاد پر جانبدارانہ آپریشن اور بے گناہوں کی ہلاکتیں دیں۔ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار متحدہ نے کراچی کو خونریزی، بھتہ خوری اور اردو بولنے والوں کو بدنامی، تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیا اور آپریشن میں مظالم ڈھا کر متحدہ کو مظلوم پی پی اور (ن) لیگی حکومت کو صالم بنایا۔
تین عشروں سے متحدہ کو ووٹ دینے والوں پر متعدد بار حکومتیں کرنے والی پیپلز پارٹی نے ہاتھ رکھا، نہ مسلم لیگ (ن) نے، دونوں حکمران جماعتوں نے کوٹہ سسٹم اور ناانصافیاں برقرار رکھ کر اردو بولنے والوں کو متحدہ کی طرف دھکیلا اور متحدہ نے حق پرستی کے لیے ووٹ لے کر مفاد پرستی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں متحدہ کے حامیوں نے 2013 میں لاکھوں ووٹ تحریک انصاف کو دیے مگر اقتدار کے لیے بے چین عمران خان نے کراچی پر توجہ نہ دے کر اپنے لاکھوں ووٹروں کو مایوس کیا اور اپنے ووٹر کھو دیے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت برسوں سے متحدہ کے خلاف ہے اور اس نے بھی متحدہ کے ووٹروں پر توجہ نہیں دی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اردو بولنے والوں کو اپنا سمجھا نہ پی پی ان کی ہمدرد ثابت ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھیوں کو مایوس نہیں کیا اور اپنا ووٹ بینک محدود رکھا اور اردو بولنے والوں کو اپنی طرف راغب ہی نہیں کیا۔ لاکھوں کا ووٹ بینک رکھنے والے جو قومی زبان کو اپنی مادری زبان قرار دیتے ہیں انھیں متحدہ کے کھاتے میں رکھا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے پی پی اور (ن) لیگ نے اپنی حکومتوں میں اردو بولنے والوں کو اپنے قریب لانے کے بجائے متحدہ میں رہنے پر مجبور کیا اور تنہا چھوڑا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلال زرداری نے سندھ کا وزیراعلیٰ تبدیل کرکے سندھ میں تبدیلی کی کامیاب کوشش کی ہے اور ان کے والد زرداری کے لیے بھی مشہور ہے کہ اردو بولنے والوں سے ان کی بڑی دوستی ہے۔ ان میں قوم پرستی ضرور ہے مگر تعصب نہیں ہے جس کا ثبوت ڈاکٹر عاصم حسین بھی ہیں۔ مرحوم جام صادق بھی آصف زرداری کی طرح تھے جو کہا کرتے تھے کہ سندھیوں اور مہاجروں نے سندھ ہی میں رہنا ہے اور کوئی کسی کو نہیں نکال سکتا تو کیوں نہ دونوں مل جل کر رہیں اسی میں سندھ کا فائدہ ہے۔
بے نظیر بھٹو دور کے برعکس آصف زرداری کے دور حکومت میں سندھ میں پانچ سال تک کوئی لسانی ہنگامہ نہیں ہوا، مگر انھوں نے بھی اردو بولنے والوں کو پی پی کے قریب لانے کی کوشش نہیں کی اور نہ اردو بولنے والوں کی شکایات رفع کیں۔ انھوں نے سب سے زیادہ متحدہ کو اپنے ساتھ شریک اقتدار تو رکھا مگر متحدہ کے بقول ان کے وزیروں کو اختیار نہیں دیے اور نہ کوٹہ سسٹم ختم کرکے سندھیوں میں موجود دیہی اور شہری کی تقسیم ختم کی اور اختیارات کی حامل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اختیار سندھ حکومت کو دلا کر بے بس کردیا جو اب کراچی کے مسائل حل نہیں کرا سکتی اور مکمل بے اختیار اور سندھ حکومت کی محتاج ہے۔
بلاول زرداری کراچی کا شہری کہلانے والے پہلے حکمران شہری ہیں جس کا انھیں عملی ثبوت دینا ہوگا اور زبانی کہنے کی بجائے عملی طور پر کراچی کے شہری ہونے کا مظاہرہ کرکے دکھانا ہوگا۔ سندھ میں پی پی کے 8 سال میں میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کوٹہ سسٹم پر بھی منصفانہ عمل نہیں ہوا جس سے آئے دن شہری سندھ صوبہ بنانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ کراچی والوں کو میرٹ پر ملازمتیں نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے احساس محرومی شدید ہوچکا ہے اور بلاول زرداری کو فوری طور پر کراچی والوں کے ساتھ ہونے والی یہ ناانصافیاں اور موجود شکایات ختم کرانا ہوں گی۔
مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرکے سینٹرل پنجاب کو نواز رکھا ہے اور پیپلزپارٹی نے کراچی کو نظرانداز کرکے دیہی سندھ کو اپنا رکھا ہے جس سے تعصب پھیل رہا ہے اس لیے بلاول زرداری کو کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیاں ختم کرا کر کراچی والوں کی شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ کراچی والے ہی نہیں بلکہ دیہی سندھ والے بھی کراچی میں دفن ہوتے ہیں اور کراچی سندھ ہی نہیں ملک کا اہم جز ہے جسے سندھ اور وفاق کو خصوصی طور پر ترقی دینا ہوگی اور کراچی والوں کو بھی اپنے سینے سے لگانا ہوگا۔
بھٹو خاندان کے کسی بھی فرد نے کبھی خود کو کراچی کا شہری اس طرح قرار نہیں دیا تھا جیسے زرداری خاندان سے تعلق رکھنے والے بلاول نے دیا ہے جب کہ دونوں خاندانوں کا کراچی سے انتہائی قریبی تعلق رہا ہے اور بلاول زرداری کے دادا حاکم علی زرداری کراچی کے ایک مشہور سینما کے مالک تھے، جب کہ بھٹو خاندان کی مشہور رہائش گاہ ستر کلفٹن سے کون واقف نہیں، جو اب مرتضیٰ بھٹو کے ورثا کی ملکیت ہے۔
کراچی کے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کو ہمیشہ گلہ رہا کہ کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا، جب کہ ان کی نظامت میں متحدہ کے ارکان اسمبلی، اسمبلیوں ہی میں نہیں بلکہ حکومت وقت میں بھی بھرپور طور پر شامل تھے اور سندھ کا گورنر اپنا تھا اور کراچی سے تعلق رکھنے والے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کا تعلق بھی کراچی ہی سے تھا اور انھوں نے کراچی کا شہری ہونے کے ناتے کراچی کو نظرانداز نہیں کیا اور ان کے دور میں کراچی کو بلاشبہ سب سے زیادہ فنڈز دیے۔
یہ الگ بات کہ اتنے بڑے فنڈ کا درست استعمال نہیں ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے نعمت اللہ دور سے زیادہ فنڈ متحدہ کے سٹی ناظم کو دیے اور مشرف دور میں جتنی ترقی کراچی میں نظر آئی اتنی کبھی ماضی میں نہیں ہوئی۔
گورنر کا عہدہ آئینی ہوتا ہے اور اصل اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہوتے ہیں اور سندھ میں منتخب ہونے والے ہر وزیراعلیٰ کا تعلق دیہی سندھ سے رہا۔ البتہ شہری سندھ سے تعلق رکھنے والے متعدد گورنروں کا تعلق کراچی سے تھا۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، جس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک چلتا ہے، مگر سب سے زیادہ کما کر دینے والے کراچی کو جمہوریت کی دعویدار اور اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ نظرانداز کیا اور کراچی کو کبھی اس کا حق نہیں دیا گیا۔
کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت تو ہے مگر یہ منی پاکستان ہے جہاں پورے ملک سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ کراچی میں اگر اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے تو یہاں لاکھوں پٹھان، سندھی، بلوچ، پنجابی، گلگتی، کشمیری اور غیر ملکی بنگالی، برمی و دیگر بھی لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں اور کراچی میں رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستان کا آئین یہاں رہنے اور کسی بھی سیاسی پارٹی میں شمولیت اور پسند کی پارٹی کو ووٹ دینے کا حق دیتا ہے۔
کراچی کے بلوچوں اور سندھیوں کو پی پی کو اردو بولنے والوں کو متحدہ یا جماعت اسلامی کو پٹھانوں کو اے این پی یا جے یو آئی کو اور پنجابیوں کو مسلم لیگ (ن) کو اور قوم پرستوں کو اپنی من پسند جماعت کو ووٹ دینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پی پی نے بلاشبہ کراچی کے بلوچوں اور سندھیوں کے علاقوں کو ترجیح دے کر انھیں سہولتیں دیں اور متحدہ کے علاقوں میں رہنے والوں کو مکمل نظرانداز کیا۔
بلاول زرداری کی والدہ بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنی دونوں حکومتوں میں کراچی والوں کو سیاسی بنیاد پر جانبدارانہ آپریشن اور بے گناہوں کی ہلاکتیں دیں۔ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار متحدہ نے کراچی کو خونریزی، بھتہ خوری اور اردو بولنے والوں کو بدنامی، تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیا اور آپریشن میں مظالم ڈھا کر متحدہ کو مظلوم پی پی اور (ن) لیگی حکومت کو صالم بنایا۔
تین عشروں سے متحدہ کو ووٹ دینے والوں پر متعدد بار حکومتیں کرنے والی پیپلز پارٹی نے ہاتھ رکھا، نہ مسلم لیگ (ن) نے، دونوں حکمران جماعتوں نے کوٹہ سسٹم اور ناانصافیاں برقرار رکھ کر اردو بولنے والوں کو متحدہ کی طرف دھکیلا اور متحدہ نے حق پرستی کے لیے ووٹ لے کر مفاد پرستی کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں متحدہ کے حامیوں نے 2013 میں لاکھوں ووٹ تحریک انصاف کو دیے مگر اقتدار کے لیے بے چین عمران خان نے کراچی پر توجہ نہ دے کر اپنے لاکھوں ووٹروں کو مایوس کیا اور اپنے ووٹر کھو دیے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت برسوں سے متحدہ کے خلاف ہے اور اس نے بھی متحدہ کے ووٹروں پر توجہ نہیں دی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اردو بولنے والوں کو اپنا سمجھا نہ پی پی ان کی ہمدرد ثابت ہوئی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھیوں کو مایوس نہیں کیا اور اپنا ووٹ بینک محدود رکھا اور اردو بولنے والوں کو اپنی طرف راغب ہی نہیں کیا۔ لاکھوں کا ووٹ بینک رکھنے والے جو قومی زبان کو اپنی مادری زبان قرار دیتے ہیں انھیں متحدہ کے کھاتے میں رکھا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے پی پی اور (ن) لیگ نے اپنی حکومتوں میں اردو بولنے والوں کو اپنے قریب لانے کے بجائے متحدہ میں رہنے پر مجبور کیا اور تنہا چھوڑا ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلال زرداری نے سندھ کا وزیراعلیٰ تبدیل کرکے سندھ میں تبدیلی کی کامیاب کوشش کی ہے اور ان کے والد زرداری کے لیے بھی مشہور ہے کہ اردو بولنے والوں سے ان کی بڑی دوستی ہے۔ ان میں قوم پرستی ضرور ہے مگر تعصب نہیں ہے جس کا ثبوت ڈاکٹر عاصم حسین بھی ہیں۔ مرحوم جام صادق بھی آصف زرداری کی طرح تھے جو کہا کرتے تھے کہ سندھیوں اور مہاجروں نے سندھ ہی میں رہنا ہے اور کوئی کسی کو نہیں نکال سکتا تو کیوں نہ دونوں مل جل کر رہیں اسی میں سندھ کا فائدہ ہے۔
بے نظیر بھٹو دور کے برعکس آصف زرداری کے دور حکومت میں سندھ میں پانچ سال تک کوئی لسانی ہنگامہ نہیں ہوا، مگر انھوں نے بھی اردو بولنے والوں کو پی پی کے قریب لانے کی کوشش نہیں کی اور نہ اردو بولنے والوں کی شکایات رفع کیں۔ انھوں نے سب سے زیادہ متحدہ کو اپنے ساتھ شریک اقتدار تو رکھا مگر متحدہ کے بقول ان کے وزیروں کو اختیار نہیں دیے اور نہ کوٹہ سسٹم ختم کرکے سندھیوں میں موجود دیہی اور شہری کی تقسیم ختم کی اور اختیارات کی حامل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اختیار سندھ حکومت کو دلا کر بے بس کردیا جو اب کراچی کے مسائل حل نہیں کرا سکتی اور مکمل بے اختیار اور سندھ حکومت کی محتاج ہے۔
بلاول زرداری کراچی کا شہری کہلانے والے پہلے حکمران شہری ہیں جس کا انھیں عملی ثبوت دینا ہوگا اور زبانی کہنے کی بجائے عملی طور پر کراچی کے شہری ہونے کا مظاہرہ کرکے دکھانا ہوگا۔ سندھ میں پی پی کے 8 سال میں میرٹ کا جنازہ نکل چکا ہے۔ کوٹہ سسٹم پر بھی منصفانہ عمل نہیں ہوا جس سے آئے دن شہری سندھ صوبہ بنانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ کراچی والوں کو میرٹ پر ملازمتیں نہیں دی گئیں جس کی وجہ سے احساس محرومی شدید ہوچکا ہے اور بلاول زرداری کو فوری طور پر کراچی والوں کے ساتھ ہونے والی یہ ناانصافیاں اور موجود شکایات ختم کرانا ہوں گی۔
مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرکے سینٹرل پنجاب کو نواز رکھا ہے اور پیپلزپارٹی نے کراچی کو نظرانداز کرکے دیہی سندھ کو اپنا رکھا ہے جس سے تعصب پھیل رہا ہے اس لیے بلاول زرداری کو کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیاں ختم کرا کر کراچی والوں کی شکایات کا ازالہ کرنا ہوگا اور یہ ماننا ہوگا کہ کراچی والے ہی نہیں بلکہ دیہی سندھ والے بھی کراچی میں دفن ہوتے ہیں اور کراچی سندھ ہی نہیں ملک کا اہم جز ہے جسے سندھ اور وفاق کو خصوصی طور پر ترقی دینا ہوگی اور کراچی والوں کو بھی اپنے سینے سے لگانا ہوگا۔