دہشت گردی سے جنگ نہیں جیتی جاتی

بہت سے لوگ صرف 52 برس جیتے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

52 برس کچھ کم تو نہیں ہوتے۔

بہت سے لوگ صرف 52 برس جیتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ 52 برس کا عرصہ ان کی کل کائنات ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا میں چلنے والی خانہ جنگی 52 برس پر محیط ہے۔ اس دوران 60 لاکھ شہری دربدر ہوئے۔

گھروں سے محروم ہو جانے والے یہ افراد اور ان کے بچے ایک محفوظ چھت، چار دیواری اور اس باورچی خانے کو ترس گئے، جہاں مائیں، بڑی بہنیں، نانیاں اور دادیاں گھر کے تندور میں روٹیاں لگاتی ہیں، کیک بناتی ہیں، سوپ کی خوشبو جہاں تیر جاتی ہے اور بچے اپنے اپنے پیالے تھامے اسے لمحے کا انتظار کرتے ہیں جب ان کا پیالہ اس خوش ذائقہ سوپ سے لبریز کر دیا جائے گا۔

گھر کی چھت اور چار دیواری سے محروم ہو جانے والوں کے علاوہ 2 لاکھ 20 ہزار وہ بھی تھے جن سے اس دوران زندگی چھین لی گئی۔ ان میں عام شہری کے ساتھ ہی جج، ڈاکٹر، ادیب، دانشور اور اداکار سب ہی شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ڈرگ مافیا کے خلاف تھے اور جانتے تھے کہ منشیات کا سیلاب ان کی نوجوان نسل اور آنے والی نسلوں کو ناکارہ کر دے گا۔

زندگی انھیں بھی پیاری تھی لیکن اصول انھیں زندگی سے پیارے تھے، اسی لیے وہ جان سے مار دیے گئے۔ ان میں سے ایک کولمبیا کے صدر جولیو سیزر تربے کی جوان سال بیٹی ڈیانا تُربے تھی جو ڈرگ مافیا کے خلاف لکھتی تھی، بولتی تھی اور اپنے ملک کی ایک مشہور صحافی تھی۔

وہ دن دیہاڑے اغوا کی گئی اور جب اسے آزاد کرانے کے لیے پولیس نے گوریلا تنظیم کے اس کیمپ پر چھاپہ مارا جہاں وہ قید تھی تو گولیوں کے تبادلے میں ایک گولی اسے بھی لگی اور وہ قید سے آزاد ہونے کے بجائے قید حیات سے ہی آزاد ہو گئی۔

اس بارے میں کولمبیا کے نوبیل انعام یافتہ مشہور ادیب گبریئل گارشیا مارکیز نے ایک کتاب ''ایک اغوا کی خبر'' لکھی، جو کولمبیا میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کا انگریزی ترجمہ کئی برس بعد ہوا۔ مارکیز کی یہ تحریر کولمبیا میں چلنے والی خانہ جنگی اور اس کا نوالہ بننے والے لوگوں کے بارے میں ہمیں بہت گہرائی سے بتاتی ہے اور اداس کر دیتی ہے۔

یہ باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ کولمبیا کے موجودہ صدر کو اس خونیں خانہ جنگی کو ختم کرانے کی کوششوں کے اعتراف میں چند دنوں پہلے نوبیل امن انعام سے نوازا گیا ہے۔ اسے وقت کی ستم ظریفی کہیے کہ کولمبیا کے صدر نے جب باغی گوریلوں کے لیڈر سے صلح کے معاملے پر ریفرنڈم کرایا تو لوگوں نے اسے رد کر دیا۔

یہ صدر سانٹوس کے لیے یقیناً ایک دھچکا تھا لیکن اس کے باوجود صدر سانٹوس نااُمید نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آخرکار وہ اس جنگ بندی پر عمل کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ کولمبیا والوں کو بے پناہ تکلیفوں کے باوجود غصہ اس بات پر ہے کہ گوریلا تنظیم ایف اے آر سی کی خونریزیوں کے بعد بھی ان کی اس بات پر تعریف و توصیف کیوں ہو رہی ہے کہ وہ ہتھیار رکھنے پر تیار ہو گئے ہیں۔

سوئیڈن کے شہر اوسلو اور دنیا کے دوسرے دارالحکومتوں میں اس حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے کہ صدر سانٹوس کی امن کوششوں پر اس ریفرنڈم کے نتائج اور نوبیل امن انعام 2016ء کے اعلان کا کیا اثر پڑے گا۔


امن انعام کے اعلان کے فوراً بعد نوبیل امن کمیٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر سانٹوس نے کہا کہ ہم اس بھیانک خانہ جنگی اور خوں ریزی کے خاتمے سے بہت قریب ہیں۔ اس موقع پر میرے لیے امن انعام کا اعلان دراصل میرے لیے نہیں جان سے جانے والے لاکھوں لوگوں اور ان کے پسماندگان کے لیے ہے۔ یہ انعام ان کے نام ہے جو اپنے گھروں سے محروم ہوئے اور اب کیمپوں میں بے گھری کی زندگی گزارتے ہیں۔

صدر سانٹوس سے جب یہ پوچھا گیا کہ کولمبیا میں امن کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں رہی ہیں اور اس وقت بھی ہیں، ایسے میں وہ کون سی بات ہے جو آپ کو خانہ جنگی ختم کرانے کے لیے پُر عزم رکھتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر سانٹوس نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی سماج اور کسی بھی ملک کے لیے اس سے بڑی نعمت کیا ہو سکتی ہے کہ وہاں امن ہو اور اس کے رہنے والے ایک پُر سکون زندگی گزارتے ہوں۔

یہ صدمے کی بات ہے کہ کولمبیا میں رہنے والی کئی نسلیں اس لذت سے نا آشنا ہیں۔ امن قائم کرنے کے لیے میرے پرعزم ہونے کا اس سے بڑا سبب اور کیا ہو سکتا ہے کہ میرے لوگ بھی دنیا کے دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح چین آرام سے رہ سکیں۔

نوبیل امن کمیٹی کے نمائندے نے جب صدر سانٹوس سے پوچھا کہ آپ کا یہ ریڈیو انٹرویو دور دور سنا جائے گا، ایسے میں آپ دنیا کو اور اپنے لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔

اس موقع پر صدر سانٹوس نے اپنی بات ان جملوں پر ختم کی کہ ہم امن کے بہت قریب ہیں۔ ہم جن دو گروپوں سے صلح کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ سے ہمارے معاملات طے پا چکے ہیں، یہ دوسرا گروپ ہے جسے ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آخرکار وہ بھی ہوش مندی سے کام لے گا اور ہتھیار ڈال دے گا۔ یہ باغی بھی لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔

صدر سانٹوس کے اس انٹرویو سے قطع نظر ہم سب سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کی نگاہیں کولمبیا میں امن کے قیام پر جمی ہوئی ہیں۔ یہ امن دنیا سے کہیں زیادہ کولمبیا کے لوگوں کے لیے اہم ہو گا۔ ان کی نئی نسل یہ بھول چکی ہے کہ امن کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ بچے روزانہ بے خوف و خطر اسکول کیسے جاتے ہیں ۔ پارک میں جھولا کیسے جھولتے ہیں اور راتوں میں جگنو کیسے پکڑتے ہیں۔ گھروں کے باورچی خانوں میں چولہے گرم رہنے اور ان پر ہانڈیاں چڑھنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

یہاں ادب کے نوبل انعام یافتہ کولمبین گبریئل گارشیا مارکیز کو کیسے بھلا دیا جائے، جس نے آج سے 26 برس پہلے ایک مضمون کولمبیا کا مستقبل لکھا تھا اور یہ کہا تھا کہ:

''کولمبیا میں تشدد کی صدیوں پرانی روایت میں شہری دہشتگردی ایک نئی چیز ہے۔ بم پھٹنے کی وارداتیں جن میں بے گناہ لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں اور فون پر موت کی گمنام دھمکیاں جو روز مرہ زندگی کو متواتر ہیجان کا شکار رکھتی ہیں، دکھائی نہ دینے والی دہشت دوستوں اور دشمنوں کے اتحاد کے ذریعے ہی ختم ہو سکتی ہے۔

جو کچھ پیش آ چکا ہے اس کے خوف کے ساتھ زندہ رہنا شاید پھر بھی ممکن ہے، لیکن جو کچھ پیش آ سکتا ہے اس کی دہشت کے ساتھ کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا۔ بازار میں دھماکے سے پھٹ جانے والی ترکاریاں: پرواز کے دوران ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے والا جہاز، پینے کے پانی میں زہر کی ملاوٹ سے پورے پورے خاندان کی ہلاکت۔ نہیں: دہشتگردی سے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی گئی۔''

صدر سانٹوس 10 دسمبر کو امن انعام لینے اوسلو جائیں گے۔ ساری دنیا یہ امید کر رہی ہے کہ ریفرنڈم میں شکست کے باوجود کولمبیا کے صدر اور اس ملک کے دانشور، ادیب اور سیاستدان خانہ جنگی سے یقیناً جیت جائیں گے۔ ہم سب جاتے ہیں کہ خانہ جنگی معمول کی بات نہیں، اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ڈرگ مافیا کے مفادات کے تحفظ کے لیے بے گناہ اور بے قصور عوام کا بے دریغ خون بہانا اور اس کے ساتھ ہی انصاف اور آزادی کے نعرے لگانا دو یکسر متضاد باتیں ہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ صرف کولمبیا میں ہی نہیں، دنیا کے مختلف علاقوں میں خانہ جنگی اور خوں ریزی میں ملوث گروہ یہ سمجھیں کہ ان کے لوگوں کو امن کی ضرورت ہے، ان کے لوگوں کے مسائل مذاکرات کی میز پر حل ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ دہشتگردی سے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی جاتی۔
Load Next Story