گھڑی اور گھڑا
ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں موٹر، ڈرائیور اور ماہانہ وظیفے کی سہولت دے رکھی تھی
اسلام آباد پولیس نے اندیشۂ نقص امن کے تحت ایک گرفتار نوجوان کو میرے سامنے پیش کیا۔ ہتھکڑی میں بندھا وہ بائیس چوبیس سال کا خوش شکل، عمدہ لباس پہنے اسمارٹ نوجوان ہالی وڈ کی کسی رومان بھری فلم کا ہیرو لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا نوجوان تم سے کسے خطرہ محسوس ہوا کہ پولیس نے تمہیں 107/151 ضابطہ فوجداری کے تحت گرفتار کرنا ضروری سمجھا۔ وہ کسمسایہ اور بولا نانا جان نے ناراض ہو کر پولیس اسٹیشن فون کر کے گرفتار کروا دیا۔
اس دوران میں نے متعلقہ فائل (کلندرہ) کے صفحات الٹنے شروع کیے تو ایک کاغذ پر لکھی ایس ایچ او اسلام آباد پولیس اسٹیشن کے نام تحریر پڑھی جس کے مطابق اس نوجوان کی شوریدہ سری اور اس سے خطرے کا ذکر تھا جس کے نیچے لکھنے والے کا صرف اتنا نام لکھا تھا ''جوش''۔ میں نے تشویش آمیز لہجے میں پوچھا ''کیا تم جوش ملیح آبادی کے نواسے ہو''۔ وہ بولا ''جی ہاں''۔ میرے منہ سے غیرارادی طور پر نکل گیا ''تو پھر تو تمہاری ضمانت بھی نہیں ہو سکتی۔''
نوجوان کے وکیل پر اس وقت تک میری نظر نہ پڑی تھی۔ وہ آگے آ کر بولا ''جناب یہ قابل ضمانت کیس ہے، میں درخواست ضمانت اور ضمانت نامے مع ضامن پیش کرتا ہوں، آپ کس قانون کے تحت ضمانت نہیں لیں گے۔'' مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً کہا ''نہیں نہیں لایئے ضمانت نامے اور ضامن کی پراپرٹی کی دستاویز۔'' وکیل صاحب سے ضامن کی رجسٹری لے کر میں نے اس کے ساتھ ایک کاغذ پر سٹیپل کیا جس پر لکھا کہ ''تحصیلدار دستاویز کی تصدیق کرے'' اور وکیل کو دو گھنٹے بعد آنے کے لیے کہہ دیا۔
ان کے جانے کے بعد میں نے اپنی عدالت کے ریٹائرمنٹ روم میں جا کر ٹیلی فون پر جوشؔ صاحب کا فون نمبر معلوم کر کے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کا نواسہ ہتھکڑی پہنے عدالت میں موجود ہے۔ انھوں نے جذباتی ہو کر کہا کہ ''اسے جیل بھجوا دیں۔'' میں نے انھیں سمجھایا کہ ابھی تو وہ مشتعل ہو کر آپ کو مارنے کو پڑتا ہے، اگر کچھ روز جیل میں رہا تو وہ سچ مچ آپ کو مارے گا لیکن آج میں اسے سمجھا بجھا کر ضمانت پر رہا کر دوں گا جس پر جوشؔ صاحب نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کی۔
میں نے اگلے روز گھر آ کر ملنے کا کہا اور پتہ سمجھا دیا پھر میں نے اسی روز ان کے نواسے کی ضمانت منظور کر لی اور اسے پیار سے نانا کا مقام پہچاننے اور ان کی تابعداری کرنے کی تاکید کی۔
آئندہ روز جوش صاحب صفیہ شمیم ملیح آبادی کے ہمراہ میرے ہاں تشریف لے آئے۔ چائے پینے کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ نواسہ ٹرانسپورٹ کا بزنس کرنے کا خواہش مند تھا اور ٹرک خریدنا چاہتا تھا۔ انھوں نے اسے ٹرک لے دیا۔ وہ ایک ٹرانسپورٹ گروپ میں شامل ہو گیا پھر کبھی کبھی اپنے ڈرائیور کے ساتھ ٹرک میں آنے جانے لگا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے پاس آ کر بولا کہ وہ اپنے ٹرک ڈرائیور کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
جوش صاحب نے مخالفت اور ڈانٹ ڈپٹ کی تو نواسہ مشتعل ہونے لگا اور ایک روز ان پر ہاتھ اٹھانے کی سطح پر آنے کو تھا جب انھوں نے اسلام آباد کے انسپکٹر پولیس کو بلا لیا۔ جوش صاحب اب چائے پی کر پان کی گلوری منہ میں ڈال کر اپنی ناراضی کی وجوہ بتا رہے تھے۔ میں نے ان کی لکھی ہوئی آپ بیتی ''یادوں کی بارات'' جس میں انھوں نے اپنے اٹھارہ معاشقوں کا ذکر کیا ہوا ہے پڑھ رکھی تھی۔ وہ پان چبا رہے تھے۔
جب میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ''جوش صاحب خود تو اٹھارہ اٹھارہ لیکن نواسے کو ایک عشق پر آپ نے ہتھکڑی لگوا دی۔'' جوش صاحب کو سن کر ہنسی آ گئی اور پان کی پیک ان کے ہونٹوں کے کناروں سے بہہ نکلی جسے میں نے دوڑ کر رومال سے پکڑا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں نے آپ کے نواسے کو سمجھایا ہے اور سرزنش بھی کی ہے تو جوش صاحب اور ان کی بیٹی صفیہ شمیم میرے گھر سے رخصت ہوئے۔
ایک شام جوش صاحب سے پہلی ملاقات کے بعد کئی ماہ بعد میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ کیفے سنوپی جہاں لذیز فرائیڈ فش ملتی تھی، پہنچ کر داخل ہونے کو تھا کہ ایک کار میں سے جوش ملیح آبادی کو نکلتے دیکھ کر رک گیا۔ انھوں نے مجھے پہچان کر بتایا کہ وہ اس ریستوران میں فرائیڈ فش کھانے آئے ہیں۔ ہم دونوں ایک کیبن میں جا بیٹھے اور میں نے بھی انھیں اس ریستوران میں آنے کی وجہ بتائی۔ ویٹر آیا تو میں نے فرائیڈ فش کا آرڈر دیا اور جوش صاحب سے درخواست کی کہ مجھے میزبانی کا شرف بخشیں۔
فش آنے سے پہلے ہی ان کا ڈرائیور ایک بیگ لیے کیبن میں داخل ہوا۔ اس نے بیگ میں سے ایک بوتل اور ٹائم پیس نکال کر میز پر رکھیں اور باہر نکل گیا۔ جوش صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ''شوق کریں گے؟'' میں نے عرض کی کہ مچھلی کھانے میں ساتھ دوں گا۔ ہم باتیں کرنے لگے۔ میں نے نواسے کے ارادے کی بابت پوچھا تو کہنے لگے ''سیٹھی صاحب شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی کا نواسہ کب تک ضد پر قائم رہتا۔ اب وہ راہ راست پر آ گیا ہے۔
پورے تیس منٹ کے بعد ان کا ڈرائیور دوبارہ نمودار ہوا۔ اس نے بوتل اور ٹائم پیس اٹھائیں، انھیں بیگ میں ڈالا اور باہر نکل گیا۔ ہم آپس میں باتیں کرتے اور فرائیڈ فش کھاتے رہے۔ معلوم ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں موٹر، ڈرائیور اور ماہانہ وظیفے کی سہولت دے رکھی تھی۔ میں نے ٹائم پیس (گھڑی) کے بارے میں ان سے کچھ پوچھنے کی خواہش کے باوجود کوئی استفسار نہ کیا کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ جوش ملیح آبادی گھڑی رکھ کر جب کہ اسرار الحق مجازؔ گھڑا رکھ کر پیتے ہیں۔ اس روز دوسری ملاقات کے بعد جوش صاحب سے کبھی ملنا نہیں ہوا لیکن جی چاہتا ہے کہ دونوں شعرأ کے دو دو شعر لکھ کر ان کی یاد کو زندہ کیا جائے:
یہ شوخ فضا، یہ تازہ چمن، یہ مست گھٹا، یہ سرد ہوا
کافر ہے اگر اس وقت بھی کوئی رخ نہ کرے میخانے کا
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
(جوشؔ)
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
اے مطربِ بیباک کوئی اور بھی نغمہ
اے ساقی فیاض شراب اور زیادہ
(مجازؔ)
اس دوران میں نے متعلقہ فائل (کلندرہ) کے صفحات الٹنے شروع کیے تو ایک کاغذ پر لکھی ایس ایچ او اسلام آباد پولیس اسٹیشن کے نام تحریر پڑھی جس کے مطابق اس نوجوان کی شوریدہ سری اور اس سے خطرے کا ذکر تھا جس کے نیچے لکھنے والے کا صرف اتنا نام لکھا تھا ''جوش''۔ میں نے تشویش آمیز لہجے میں پوچھا ''کیا تم جوش ملیح آبادی کے نواسے ہو''۔ وہ بولا ''جی ہاں''۔ میرے منہ سے غیرارادی طور پر نکل گیا ''تو پھر تو تمہاری ضمانت بھی نہیں ہو سکتی۔''
نوجوان کے وکیل پر اس وقت تک میری نظر نہ پڑی تھی۔ وہ آگے آ کر بولا ''جناب یہ قابل ضمانت کیس ہے، میں درخواست ضمانت اور ضمانت نامے مع ضامن پیش کرتا ہوں، آپ کس قانون کے تحت ضمانت نہیں لیں گے۔'' مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً کہا ''نہیں نہیں لایئے ضمانت نامے اور ضامن کی پراپرٹی کی دستاویز۔'' وکیل صاحب سے ضامن کی رجسٹری لے کر میں نے اس کے ساتھ ایک کاغذ پر سٹیپل کیا جس پر لکھا کہ ''تحصیلدار دستاویز کی تصدیق کرے'' اور وکیل کو دو گھنٹے بعد آنے کے لیے کہہ دیا۔
ان کے جانے کے بعد میں نے اپنی عدالت کے ریٹائرمنٹ روم میں جا کر ٹیلی فون پر جوشؔ صاحب کا فون نمبر معلوم کر کے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کا نواسہ ہتھکڑی پہنے عدالت میں موجود ہے۔ انھوں نے جذباتی ہو کر کہا کہ ''اسے جیل بھجوا دیں۔'' میں نے انھیں سمجھایا کہ ابھی تو وہ مشتعل ہو کر آپ کو مارنے کو پڑتا ہے، اگر کچھ روز جیل میں رہا تو وہ سچ مچ آپ کو مارے گا لیکن آج میں اسے سمجھا بجھا کر ضمانت پر رہا کر دوں گا جس پر جوشؔ صاحب نے مجھ سے ملاقات کی خواہش کی۔
میں نے اگلے روز گھر آ کر ملنے کا کہا اور پتہ سمجھا دیا پھر میں نے اسی روز ان کے نواسے کی ضمانت منظور کر لی اور اسے پیار سے نانا کا مقام پہچاننے اور ان کی تابعداری کرنے کی تاکید کی۔
آئندہ روز جوش صاحب صفیہ شمیم ملیح آبادی کے ہمراہ میرے ہاں تشریف لے آئے۔ چائے پینے کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ نواسہ ٹرانسپورٹ کا بزنس کرنے کا خواہش مند تھا اور ٹرک خریدنا چاہتا تھا۔ انھوں نے اسے ٹرک لے دیا۔ وہ ایک ٹرانسپورٹ گروپ میں شامل ہو گیا پھر کبھی کبھی اپنے ڈرائیور کے ساتھ ٹرک میں آنے جانے لگا۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے پاس آ کر بولا کہ وہ اپنے ٹرک ڈرائیور کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
جوش صاحب نے مخالفت اور ڈانٹ ڈپٹ کی تو نواسہ مشتعل ہونے لگا اور ایک روز ان پر ہاتھ اٹھانے کی سطح پر آنے کو تھا جب انھوں نے اسلام آباد کے انسپکٹر پولیس کو بلا لیا۔ جوش صاحب اب چائے پی کر پان کی گلوری منہ میں ڈال کر اپنی ناراضی کی وجوہ بتا رہے تھے۔ میں نے ان کی لکھی ہوئی آپ بیتی ''یادوں کی بارات'' جس میں انھوں نے اپنے اٹھارہ معاشقوں کا ذکر کیا ہوا ہے پڑھ رکھی تھی۔ وہ پان چبا رہے تھے۔
جب میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ''جوش صاحب خود تو اٹھارہ اٹھارہ لیکن نواسے کو ایک عشق پر آپ نے ہتھکڑی لگوا دی۔'' جوش صاحب کو سن کر ہنسی آ گئی اور پان کی پیک ان کے ہونٹوں کے کناروں سے بہہ نکلی جسے میں نے دوڑ کر رومال سے پکڑا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ میں نے آپ کے نواسے کو سمجھایا ہے اور سرزنش بھی کی ہے تو جوش صاحب اور ان کی بیٹی صفیہ شمیم میرے گھر سے رخصت ہوئے۔
ایک شام جوش صاحب سے پہلی ملاقات کے بعد کئی ماہ بعد میں اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ کیفے سنوپی جہاں لذیز فرائیڈ فش ملتی تھی، پہنچ کر داخل ہونے کو تھا کہ ایک کار میں سے جوش ملیح آبادی کو نکلتے دیکھ کر رک گیا۔ انھوں نے مجھے پہچان کر بتایا کہ وہ اس ریستوران میں فرائیڈ فش کھانے آئے ہیں۔ ہم دونوں ایک کیبن میں جا بیٹھے اور میں نے بھی انھیں اس ریستوران میں آنے کی وجہ بتائی۔ ویٹر آیا تو میں نے فرائیڈ فش کا آرڈر دیا اور جوش صاحب سے درخواست کی کہ مجھے میزبانی کا شرف بخشیں۔
فش آنے سے پہلے ہی ان کا ڈرائیور ایک بیگ لیے کیبن میں داخل ہوا۔ اس نے بیگ میں سے ایک بوتل اور ٹائم پیس نکال کر میز پر رکھیں اور باہر نکل گیا۔ جوش صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ ''شوق کریں گے؟'' میں نے عرض کی کہ مچھلی کھانے میں ساتھ دوں گا۔ ہم باتیں کرنے لگے۔ میں نے نواسے کے ارادے کی بابت پوچھا تو کہنے لگے ''سیٹھی صاحب شبیر حسن خاں جوش ملیح آبادی کا نواسہ کب تک ضد پر قائم رہتا۔ اب وہ راہ راست پر آ گیا ہے۔
پورے تیس منٹ کے بعد ان کا ڈرائیور دوبارہ نمودار ہوا۔ اس نے بوتل اور ٹائم پیس اٹھائیں، انھیں بیگ میں ڈالا اور باہر نکل گیا۔ ہم آپس میں باتیں کرتے اور فرائیڈ فش کھاتے رہے۔ معلوم ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں موٹر، ڈرائیور اور ماہانہ وظیفے کی سہولت دے رکھی تھی۔ میں نے ٹائم پیس (گھڑی) کے بارے میں ان سے کچھ پوچھنے کی خواہش کے باوجود کوئی استفسار نہ کیا کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ جوش ملیح آبادی گھڑی رکھ کر جب کہ اسرار الحق مجازؔ گھڑا رکھ کر پیتے ہیں۔ اس روز دوسری ملاقات کے بعد جوش صاحب سے کبھی ملنا نہیں ہوا لیکن جی چاہتا ہے کہ دونوں شعرأ کے دو دو شعر لکھ کر ان کی یاد کو زندہ کیا جائے:
یہ شوخ فضا، یہ تازہ چمن، یہ مست گھٹا، یہ سرد ہوا
کافر ہے اگر اس وقت بھی کوئی رخ نہ کرے میخانے کا
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا
(جوشؔ)
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
اے مطربِ بیباک کوئی اور بھی نغمہ
اے ساقی فیاض شراب اور زیادہ
(مجازؔ)