رنجیت سنگھ اور لاہور
1803ء میں مہا راجا رنجیت سنگھ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ شالامار باغ کی سیر کررہا تھا کہ باغ کے نام کے حوالے سے بحث چل نکلی
رنجیت سنگھ نے شالامار باغ کا نام ''شہلا باغ'' کردیا۔
1803ء میں مہا راجا رنجیت سنگھ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ شالامار باغ کی سیر کررہا تھا کہ باغ کے نام کے حوالے سے بحث چل نکلی۔ ہر ایک نے کسی نہ کسی کا قول حوالہ دے کر اپنے خیال کے مطابق اس کی وجہ تسمیہ بیان کی۔ مہاراجا کاموقف تھاکہ باغ کا نام ''شالامار '' اس لیے نہیں ہوسکتا کہ پنجابی زبان میں اس کے معنی ''سدا خدا کی مار'' کے ہیں۔ یقینا ایسا خوبصورت باغ جہاں انسان لطف اْٹھاتے اورخوشی محسوس کرتے ہیں اسے ایسے نام سے کیوں کر پکارا جاسکتاہے۔
کسی نے دلیل پیش کی کہ ترکی زبان میں اس سے مراد ''خوشی کا مقام''ہے۔ رنجیت سنگھ نے کہاکہ اگر ایساہے تو مرزا مہدی ایرانی کو اپنی تصنیف میں '' شعلہ ماہ'' کا لفظ کیوں وضع کرناپڑا؟ رنجیت سنگھ کے خیال میں باغ کا نام ''شہلا باغ'' ہوناچاہیے تھاچنانچہ سکھ دورمیں شالامارباغ اسی نام سے پکاراجانے لگا۔(''نقوش''لاہورنمبر)
گھوڑی کے استقبال کے لیے شہر کی صفائی کرائی گئی
مہاراجارنجیت سنگھ گھوڑوں کاشوقین تھا۔اس کے اصطبل میں دنیاکے نایاب گھوڑے موجود تھے۔1823ء میں خالصہ دربارمیں آنے والے ایک یورپی فوجی افسر بیرن چارلس ہگل (Baron Charles Hugel) کی زبانی رنجیت کو معلوم ہواکہ پشاور کے گورنریار محمد خان بارکزئی کے پاس ایک نہایت شاندارگھوڑی موجود ہے۔ مہاراجا نے یارمحمد کو اپنے وزیر فقیر عزیزالدین کے ہاتھ پیغام بھجوایاکہ وہ گھوڑی مہاراجا کو پیش کردے۔سلطان روم اور شاہ ایران بھی گھوڑی کے حصول کے خواہش مندتھے۔
یارمحمدنے فقیرعزیزالدین کے سامنے کسی گھوڑی کی موجودگی سے صاف انکارکردیا،تاہم مہاراجا کے دل سے گھوڑی کاخیال کسی لمحے محو نہ ہوپایا۔وہ اسے حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا چنانچہ اْس نے گھوڑی کی تلاش کے لیے مخبرروانہ کیے۔ان مخبروں کے ذریعے مہاراجاکوگھوڑی کی موجودگی کی اطلاع ملی۔ اطلاع پاکر رنجیت سنگھ نے 1826ء میں اپنے ایک بہادر جرنیل بْدھ سنگھ سندھانوالیہ کو گھوڑی پرقبضے کے لیے کثیر فوج کے ہمراہ پشاور روانہ کردیا۔حکم تھاکہ کچھ بھی ہوجائے، گھوڑی ہرقیمت پرسکھ دربارمیں پہنچنی چاہیے۔
اس موقع پرایک خوفناک جنگ ہوئی جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔حالات کودیکھتے ہوئے یارمحمد نے ایک بار پھر پینترا بدلا اورجان چھڑانے کے لیے کہہ دیاکہ اس کے پاس کبھی ایسی ایک گھوڑی موجود تھی، مگراب وہ مرچکی ہے۔اب تومہاراجا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیااوراس نے 1829ء میں کنور نونہال سنگھ اور جنرل ونتورہ کی سربراہی میں اپنی افواج کو پشاور بھیجاتاکہ وہ کسی بھی قیمت پر گھوڑی کولے کر آئیں۔یارمحمد کو پتہ چلاتواقتدار اپنے بھائی سلطان محمدخان کو سونپ کرخود جان بچانے کے لیے یوسف زئی پہاڑوں میں فرارہوگیا۔
جنرل ونتورہ نے سلطان محمد کو گرفتارکرلیااوراسے دھمکی دی کہ اگر گھوڑی نہ ملی تواس کاسرقلم کردیاجائے گا۔ سخت گیر جنرل ونتورہ کی دھمکی کارگررثابت ہوئی اورسلطان محمد نے مجبوراً گھوڑی ونتورہ کے حوالے کردی کیونکہ اس کے سوااب کوئی راستہ باقی نہ بچاتھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ گھوڑی جنرل ونتورہ کو پیش کرتے ہوئے سلطان محمد بچوں کی طرح بلک بلک کر رودیا تھا، مگرمجبورتھا۔ گھوڑی کو فوری طورپر پانچ سو سپاہیوں کی حفاظت میں لاہور بھیج دیاگیا۔
رنجیت کو خبرملی تواس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ فوری طورپر گھوڑی کے استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔بادامی باغ اورقلعے کے اردگردعلاقے کے راستوں کو صاف کیاگیا۔ تمام سڑکوں پرجھاڑودیا گیا تاکہ دْھول کا ایک ذرّہ بھی گھوڑی کے نتھنوں میں نہ جاسکے۔ آخر کیوں نہ ہوتااس نایاب گھوڑی کے حصول کے لیے قریباً بارہ ہزار انسانوں نے جانوں سے ہاتھ دھوئے اور سکھ خزانے سے بارہ ارب روپے صرف ہوئے تھے۔
جنرل ونتورہ کواس کارنامے پر دوہزار کا قیمتی خلعت عطاہوا۔ گھوڑی کانام'' اسپ لیلیٰ ' ' ر کھا گیااور اسے لاکھوں روپے کے سونے کے زیورات اورجواہرات سے آراستہ کیاگیا۔ خاص طورپر اس کے گلے میں کوہ نور ہیرابھی پہنایاگیا۔گھوڑی کوصرف خاص خاص مواقع پر باہر لایاجاتا۔یہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی سب سے پسندیدہ گھوڑی تھی۔
( محمدنعیم مرتضیٰ کی مرتب کردہ تصنیف ''واقعاتِ لاہور'' سے اقتباس)
1803ء میں مہا راجا رنجیت سنگھ اپنے مصاحبوں کے ہمراہ شالامار باغ کی سیر کررہا تھا کہ باغ کے نام کے حوالے سے بحث چل نکلی۔ ہر ایک نے کسی نہ کسی کا قول حوالہ دے کر اپنے خیال کے مطابق اس کی وجہ تسمیہ بیان کی۔ مہاراجا کاموقف تھاکہ باغ کا نام ''شالامار '' اس لیے نہیں ہوسکتا کہ پنجابی زبان میں اس کے معنی ''سدا خدا کی مار'' کے ہیں۔ یقینا ایسا خوبصورت باغ جہاں انسان لطف اْٹھاتے اورخوشی محسوس کرتے ہیں اسے ایسے نام سے کیوں کر پکارا جاسکتاہے۔
کسی نے دلیل پیش کی کہ ترکی زبان میں اس سے مراد ''خوشی کا مقام''ہے۔ رنجیت سنگھ نے کہاکہ اگر ایساہے تو مرزا مہدی ایرانی کو اپنی تصنیف میں '' شعلہ ماہ'' کا لفظ کیوں وضع کرناپڑا؟ رنجیت سنگھ کے خیال میں باغ کا نام ''شہلا باغ'' ہوناچاہیے تھاچنانچہ سکھ دورمیں شالامارباغ اسی نام سے پکاراجانے لگا۔(''نقوش''لاہورنمبر)
گھوڑی کے استقبال کے لیے شہر کی صفائی کرائی گئی
مہاراجارنجیت سنگھ گھوڑوں کاشوقین تھا۔اس کے اصطبل میں دنیاکے نایاب گھوڑے موجود تھے۔1823ء میں خالصہ دربارمیں آنے والے ایک یورپی فوجی افسر بیرن چارلس ہگل (Baron Charles Hugel) کی زبانی رنجیت کو معلوم ہواکہ پشاور کے گورنریار محمد خان بارکزئی کے پاس ایک نہایت شاندارگھوڑی موجود ہے۔ مہاراجا نے یارمحمد کو اپنے وزیر فقیر عزیزالدین کے ہاتھ پیغام بھجوایاکہ وہ گھوڑی مہاراجا کو پیش کردے۔سلطان روم اور شاہ ایران بھی گھوڑی کے حصول کے خواہش مندتھے۔
یارمحمدنے فقیرعزیزالدین کے سامنے کسی گھوڑی کی موجودگی سے صاف انکارکردیا،تاہم مہاراجا کے دل سے گھوڑی کاخیال کسی لمحے محو نہ ہوپایا۔وہ اسے حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا چنانچہ اْس نے گھوڑی کی تلاش کے لیے مخبرروانہ کیے۔ان مخبروں کے ذریعے مہاراجاکوگھوڑی کی موجودگی کی اطلاع ملی۔ اطلاع پاکر رنجیت سنگھ نے 1826ء میں اپنے ایک بہادر جرنیل بْدھ سنگھ سندھانوالیہ کو گھوڑی پرقبضے کے لیے کثیر فوج کے ہمراہ پشاور روانہ کردیا۔حکم تھاکہ کچھ بھی ہوجائے، گھوڑی ہرقیمت پرسکھ دربارمیں پہنچنی چاہیے۔
اس موقع پرایک خوفناک جنگ ہوئی جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔حالات کودیکھتے ہوئے یارمحمد نے ایک بار پھر پینترا بدلا اورجان چھڑانے کے لیے کہہ دیاکہ اس کے پاس کبھی ایسی ایک گھوڑی موجود تھی، مگراب وہ مرچکی ہے۔اب تومہاراجا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیااوراس نے 1829ء میں کنور نونہال سنگھ اور جنرل ونتورہ کی سربراہی میں اپنی افواج کو پشاور بھیجاتاکہ وہ کسی بھی قیمت پر گھوڑی کولے کر آئیں۔یارمحمد کو پتہ چلاتواقتدار اپنے بھائی سلطان محمدخان کو سونپ کرخود جان بچانے کے لیے یوسف زئی پہاڑوں میں فرارہوگیا۔
جنرل ونتورہ نے سلطان محمد کو گرفتارکرلیااوراسے دھمکی دی کہ اگر گھوڑی نہ ملی تواس کاسرقلم کردیاجائے گا۔ سخت گیر جنرل ونتورہ کی دھمکی کارگررثابت ہوئی اورسلطان محمد نے مجبوراً گھوڑی ونتورہ کے حوالے کردی کیونکہ اس کے سوااب کوئی راستہ باقی نہ بچاتھا۔ مورخین کہتے ہیں کہ گھوڑی جنرل ونتورہ کو پیش کرتے ہوئے سلطان محمد بچوں کی طرح بلک بلک کر رودیا تھا، مگرمجبورتھا۔ گھوڑی کو فوری طورپر پانچ سو سپاہیوں کی حفاظت میں لاہور بھیج دیاگیا۔
رنجیت کو خبرملی تواس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ فوری طورپر گھوڑی کے استقبال کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔بادامی باغ اورقلعے کے اردگردعلاقے کے راستوں کو صاف کیاگیا۔ تمام سڑکوں پرجھاڑودیا گیا تاکہ دْھول کا ایک ذرّہ بھی گھوڑی کے نتھنوں میں نہ جاسکے۔ آخر کیوں نہ ہوتااس نایاب گھوڑی کے حصول کے لیے قریباً بارہ ہزار انسانوں نے جانوں سے ہاتھ دھوئے اور سکھ خزانے سے بارہ ارب روپے صرف ہوئے تھے۔
جنرل ونتورہ کواس کارنامے پر دوہزار کا قیمتی خلعت عطاہوا۔ گھوڑی کانام'' اسپ لیلیٰ ' ' ر کھا گیااور اسے لاکھوں روپے کے سونے کے زیورات اورجواہرات سے آراستہ کیاگیا۔ خاص طورپر اس کے گلے میں کوہ نور ہیرابھی پہنایاگیا۔گھوڑی کوصرف خاص خاص مواقع پر باہر لایاجاتا۔یہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی سب سے پسندیدہ گھوڑی تھی۔
( محمدنعیم مرتضیٰ کی مرتب کردہ تصنیف ''واقعاتِ لاہور'' سے اقتباس)