ماہِ رمضان اورمہنگائی کا طوفان
حکومتی سطح پر رمضان المبارک کا استقبال پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں یک بہ یک اضافے کے ساتھ کیا گیا
ABOTTABAD:
رمضان اور پاکستان کا بڑا پرانا اورگہرا تعلق ہے کہ اسی ماہِ مقدس کی 27 ویں مبارک تاریخ کو اﷲ کا بخشا ہوا یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا۔ اخلاقی تقاضا تو یہ تھا کہ وطنِ عزیز میں اس مبارک مہینے کا سرکاری و عوامی دونوں سطحوں پر خصوصی اہتمام و احترام کیا جاتا مگر افسوس صد افسوس زمینی حقیقت یہ ہے کہ:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
حکومتی سطح پر رمضان المبارک کا استقبال پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں یک بہ یک اضافے کے ساتھ کیا گیا ہے جب کہ عوامی سطح پر روزمرّہ استعمال کی چیزوں کی چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی شروع ہوگئی۔ سبزیوں کی قیمتوں میں 10 سے 20 روپے اضافہ ہوا ہے اور پھلوں کی قیمتیں تو گویا آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ چاول کے نرخ 85 روپے سے بڑھا کر 110 روپے فی کلو اور بیسن کے نرخ 90 روپے سے بڑھا کر 120 روپے کردیے گئے ہیں۔ خوردنی تیل، گھی اور چائے کی پتّی کی قیمتوں میں بھی 10 سے 50 روپے کلو تک کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ماضی کی طرح امسال بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آمدِ رمضان کے موقعے پر مہنگائی میں کمی اور سبسڈی کے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے لیکن عملاً ہوش ربا گرانی کی حکمرانی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اخبارات میں شایع ہونے والے اشتہارات کے ذریعے یہ باور کرایا گیا تھا کہ 600 اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے لیے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے، لیکن اس میں بھی پبلسٹی کا عنصر زیادہ اور حقیقت کا عمل دخل بہت کم تھا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک بھر میں پانچ ہزار یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد 18 کروڑ عوام کی ضروریات کی تکمیل کی نسبت سے انتہائی قلیل ہے۔
ہمارے ہم عمر قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پرائس کنٹرول کمیٹیاں انتہائی فعال ہوا کرتی تھیں اور ریڈیو پاکستان کی مقامی نشریات میں روزمرّہ استعمال میں آنے والی مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا صبح کے وقت باقاعدگی کے ساتھ اعلان کیا جاتا تھا تاکہ صارفین باخبر رہیں اور گراں فروش دکان داروں کے ہتھے چڑھنے سے محفوظ رہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں آج بھی موجود ہیں مگر عملاً وہ یا تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی ہیں یا گراں فروشوں کے ساتھ ان کی ساز باز اور ملی بھگت ہے۔
متعلقہ حکام کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے عملے کی نگرانی کریں اور انھیں مختلف منڈیوں، مارکیٹوں اور دکانوں کے دورے کرنے پر مجبور کریں تاکہ وہ اشیاء کی قیمتوں اور کوالٹی کو چیک کریں اور خلاف ورزی کے مرتکب دکان داروں اور تاجروں کے خلاف قانون اور قواعد کے مطابق تادیبی کارروائی عمل میں لائیں۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں رفیع احمد قدوائی (مرحوم) ایک زمانے میں وفاقی وزیر خوراک ہوا کرتے تھے، جن کی عوام دوستی اور نیک نامی کے گن بھارت کی جنتا آج تک گاتی ہے۔ خوراک کی قلت کا مسئلہ جب حد سے آگے گزر گیا تو چاروناچار پنڈت نہرو نے وزارت خوراک کا قلم دان قدوائی صاحب کے حوالے کردیا ۔
قدوائی صاحب کا یہ ریکارڈ تھا کہ جو بھی محکمہ قابو سے باہر ہوجائے وہ ان کے حوالے کردیا جائے۔ چنانچہ جب وزارتِ خوراک کا محکمہ ان کے حوالے کیا گیا تو اس وقت آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ کرپٹ اور بدعنوان افسران ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجرانِ اجناس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور بھارت کی جنتا دانے دانے کو ترس رہی تھی۔ جوں ہی وزارت خوراک کا چارج قدوائی صاحب نے سنبھالا، فوراً ہی رشوت خور افسران اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجران پر گویا لرزہ طاری ہوگیا۔ قدوائی صاحب نے دن کے آرام اور رات کی نیند کو خود پر حرام کرلیا اور وہ ہاتھ دھو کر بدعنوان سرکاری عملے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے سیٹھوں کے پیچھے پڑ گئے۔ موصوف بھیس بدل بدل کر ذخیرہ اندوزوں سے رابطے کرتے اور تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد اچانک غلے کے گوداموں پر چھاپوں کے چھاپے مارتے۔ نتیجتاً گندم کا سارا اسٹاک مارکیٹ میں آگیا اور طلب و رسد کے درمیان توازن پیدا ہونے کے نتیجے میں غلے کی قیمتیں اپنی اصلی سطح پر آگئیں۔
مصنوعی قلت ختم ہوتے ہی غلے کی فراوانی عام ہوگئی۔ قدوائی صاحب کے اس کارنامے کے بدلے بھارت کی بھوکی جنتا نے انھیں ''ان داتا'' کے خطاب سے نوازا۔ افسوس کہ وطنِ عزیز کو کوئی رفیع احمد قدوائی میسر نہیں آیا ورنہ تو نہ گرانی کا مسئلہ درپیش ہوتا اور نہ لوڈشیڈنگ کا۔رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت حد سے زیادہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے ''شہرِ عظیم و شہرِ مبارک'' قرار دیا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔
اس مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں، جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔'' یہ مقدس مہینہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی رحمتوں، بخششوں اور مغفرتوں کو سمیٹنے کا نادر موقع ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ہم خوفِ خدا اور حب نبیﷺ کا احساس کرتے ہوئے رمضان المبارک کا استقبال اسی مہینے کے تقدس کے شایانِ شان کرتے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم احساسِ ندامت سے بھی عاری ہوچکے ہیں۔
قارئینِ کرام! آپ کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ کرسمس کی آمد کے موقعے پر مغرب کے ممالک میں تاجر اور دکان دار اپنے تہوار کے احترام میں چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں طور پر کمی کردیتے ہیں تاکہ عوام النّاس پورے جوش و جذبے کے ساتھ مع اہلِ خانہ بھرپور انداز میں شرکت کرسکیں، مگر ہمارا وتیرہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ گرانی کا جو سیلاب امنڈ کر آتا ہے عیدالفطر تک اس میں تیزی کے ساتھ اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک جانب رمضان المبارک کی آمد پر منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب کشت و خون کا بازار بھی گرم ہے، حالانکہ سخت تنبیہہ کی گئی ہے کہ ''روزہ دار کو چاہیے کہ بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔'' فرمانِ نبویﷺ ہے کہ ''روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ فضول گفتگو اور گالم گلوچ چھوڑنے کا نام ہے۔''
رمضان اور پاکستان کا بڑا پرانا اورگہرا تعلق ہے کہ اسی ماہِ مقدس کی 27 ویں مبارک تاریخ کو اﷲ کا بخشا ہوا یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا۔ اخلاقی تقاضا تو یہ تھا کہ وطنِ عزیز میں اس مبارک مہینے کا سرکاری و عوامی دونوں سطحوں پر خصوصی اہتمام و احترام کیا جاتا مگر افسوس صد افسوس زمینی حقیقت یہ ہے کہ:
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
حکومتی سطح پر رمضان المبارک کا استقبال پٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں یک بہ یک اضافے کے ساتھ کیا گیا ہے جب کہ عوامی سطح پر روزمرّہ استعمال کی چیزوں کی چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی شروع ہوگئی۔ سبزیوں کی قیمتوں میں 10 سے 20 روپے اضافہ ہوا ہے اور پھلوں کی قیمتیں تو گویا آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ چاول کے نرخ 85 روپے سے بڑھا کر 110 روپے فی کلو اور بیسن کے نرخ 90 روپے سے بڑھا کر 120 روپے کردیے گئے ہیں۔ خوردنی تیل، گھی اور چائے کی پتّی کی قیمتوں میں بھی 10 سے 50 روپے کلو تک کا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ماضی کی طرح امسال بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے آمدِ رمضان کے موقعے پر مہنگائی میں کمی اور سبسڈی کے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے لیکن عملاً ہوش ربا گرانی کی حکمرانی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اخبارات میں شایع ہونے والے اشتہارات کے ذریعے یہ باور کرایا گیا تھا کہ 600 اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے لیے اڑھائی ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے، لیکن اس میں بھی پبلسٹی کا عنصر زیادہ اور حقیقت کا عمل دخل بہت کم تھا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک بھر میں پانچ ہزار یوٹیلٹی اسٹورز کی تعداد 18 کروڑ عوام کی ضروریات کی تکمیل کی نسبت سے انتہائی قلیل ہے۔
ہمارے ہم عمر قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب پرائس کنٹرول کمیٹیاں انتہائی فعال ہوا کرتی تھیں اور ریڈیو پاکستان کی مقامی نشریات میں روزمرّہ استعمال میں آنے والی مختلف اشیائے خورونوش کی قیمتوں کا صبح کے وقت باقاعدگی کے ساتھ اعلان کیا جاتا تھا تاکہ صارفین باخبر رہیں اور گراں فروش دکان داروں کے ہتھے چڑھنے سے محفوظ رہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں آج بھی موجود ہیں مگر عملاً وہ یا تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوئی ہیں یا گراں فروشوں کے ساتھ ان کی ساز باز اور ملی بھگت ہے۔
متعلقہ حکام کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے عملے کی نگرانی کریں اور انھیں مختلف منڈیوں، مارکیٹوں اور دکانوں کے دورے کرنے پر مجبور کریں تاکہ وہ اشیاء کی قیمتوں اور کوالٹی کو چیک کریں اور خلاف ورزی کے مرتکب دکان داروں اور تاجروں کے خلاف قانون اور قواعد کے مطابق تادیبی کارروائی عمل میں لائیں۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہندوستان کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کی کابینہ میں رفیع احمد قدوائی (مرحوم) ایک زمانے میں وفاقی وزیر خوراک ہوا کرتے تھے، جن کی عوام دوستی اور نیک نامی کے گن بھارت کی جنتا آج تک گاتی ہے۔ خوراک کی قلت کا مسئلہ جب حد سے آگے گزر گیا تو چاروناچار پنڈت نہرو نے وزارت خوراک کا قلم دان قدوائی صاحب کے حوالے کردیا ۔
قدوائی صاحب کا یہ ریکارڈ تھا کہ جو بھی محکمہ قابو سے باہر ہوجائے وہ ان کے حوالے کردیا جائے۔ چنانچہ جب وزارتِ خوراک کا محکمہ ان کے حوالے کیا گیا تو اس وقت آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ کرپٹ اور بدعنوان افسران ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجرانِ اجناس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور بھارت کی جنتا دانے دانے کو ترس رہی تھی۔ جوں ہی وزارت خوراک کا چارج قدوائی صاحب نے سنبھالا، فوراً ہی رشوت خور افسران اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے تاجران پر گویا لرزہ طاری ہوگیا۔ قدوائی صاحب نے دن کے آرام اور رات کی نیند کو خود پر حرام کرلیا اور وہ ہاتھ دھو کر بدعنوان سرکاری عملے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے سیٹھوں کے پیچھے پڑ گئے۔ موصوف بھیس بدل بدل کر ذخیرہ اندوزوں سے رابطے کرتے اور تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد اچانک غلے کے گوداموں پر چھاپوں کے چھاپے مارتے۔ نتیجتاً گندم کا سارا اسٹاک مارکیٹ میں آگیا اور طلب و رسد کے درمیان توازن پیدا ہونے کے نتیجے میں غلے کی قیمتیں اپنی اصلی سطح پر آگئیں۔
مصنوعی قلت ختم ہوتے ہی غلے کی فراوانی عام ہوگئی۔ قدوائی صاحب کے اس کارنامے کے بدلے بھارت کی بھوکی جنتا نے انھیں ''ان داتا'' کے خطاب سے نوازا۔ افسوس کہ وطنِ عزیز کو کوئی رفیع احمد قدوائی میسر نہیں آیا ورنہ تو نہ گرانی کا مسئلہ درپیش ہوتا اور نہ لوڈشیڈنگ کا۔رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت حد سے زیادہ ہے جس کا اندازہ اس بات سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے ''شہرِ عظیم و شہرِ مبارک'' قرار دیا ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔
اس مہینے کی ایک رات (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے اﷲ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں، جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔'' یہ مقدس مہینہ نیکیوں کا موسمِ بہار ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی رحمتوں، بخششوں اور مغفرتوں کو سمیٹنے کا نادر موقع ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا ہم خوفِ خدا اور حب نبیﷺ کا احساس کرتے ہوئے رمضان المبارک کا استقبال اسی مہینے کے تقدس کے شایانِ شان کرتے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم احساسِ ندامت سے بھی عاری ہوچکے ہیں۔
قارئینِ کرام! آپ کے علم میں یہ بات ضرور ہوگی کہ کرسمس کی آمد کے موقعے پر مغرب کے ممالک میں تاجر اور دکان دار اپنے تہوار کے احترام میں چیزوں کی قیمتوں میں نمایاں طور پر کمی کردیتے ہیں تاکہ عوام النّاس پورے جوش و جذبے کے ساتھ مع اہلِ خانہ بھرپور انداز میں شرکت کرسکیں، مگر ہمارا وتیرہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ گرانی کا جو سیلاب امنڈ کر آتا ہے عیدالفطر تک اس میں تیزی کے ساتھ اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک جانب رمضان المبارک کی آمد پر منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب کشت و خون کا بازار بھی گرم ہے، حالانکہ سخت تنبیہہ کی گئی ہے کہ ''روزہ دار کو چاہیے کہ بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔'' فرمانِ نبویﷺ ہے کہ ''روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ فضول گفتگو اور گالم گلوچ چھوڑنے کا نام ہے۔''