دستور نرالے تھے
قدیم یونانیوں کے کچھ دل چسپ اور خوف ناک قوانین، جن کی پاس داری لازمی تھی
روم تاریک دنیا میں تہذیب کا ایک ایسا روشن مینار تھا جس نے اپنی کرنوں سے دنیا کو روشن کیا اور ہر طرف تہذیب و تمدن کی روشنی پھیلائی۔ یہ وہ دور تھا جب رومی سلطنت کو تہذیب، وقار اور شان و شوکت کا مرکز قرار دیا جاتا تھا۔
اہل روم نے اپنے حساب سے اپنی تہذیب و تمدن کو مستحکم کرنے کے لیے جو قوانین بنائے تھے، وہ ممکن ہے کہ آج کے دور میں قابل قبول نہ ہوں، مگر وہ ان قوانین پر عمل داری کو اپنی زندگیوں میں لازمی سمجھتے تھے۔ رومیوں کو اپنے ان قوانین پر بڑا فخر تھا، حالاں کہ ان میں سے بعض قوانین بہت عجیب تھے جنہیں دیوانگی یا فاتر العقلی بھی کہا جاسکتا ہے، مگر وہ انہیں نہ صرف پسند کرتے تھے، بل کہ اپنی زندگیوں کا لازمی جزو قرار دیتے تھے۔ آئیے ان قوانین کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
٭ارغوانی رنگ پہننا جرم تھا:
قدیم روم میں ارغوانی رنگ کو سب سے شان دار اور شاہی رنگ سمجھا جاتا تھا۔ اس دور کے بادشاہ اپنے شاہی لباس کے اوپر ارغوانی رنگ کے گاؤن پہنتے تھے جن میں وہ بہت باوقار اور مہذب لگتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ ان جیسا شان دار کوئی دوسرا نظر نہ آئے، چناں چہ انہوں نے عام لوگوں کو یہ رنگ پہننے کی اجازت نہیں دی تھی، تاکہ ان میں اور عام لوگوں میں واضح فرق نظر آئے اور ارغوانی رنگ پہننے والا دور سے ہی پہچانا جائے کہ وہ کوئی بہت بڑی چیز ہے۔ اسی لیے قدیم روم میں عام رعایا کو اس بات کی اجازت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی دولت و امارت کا برملا اظہار کرے یا شان دار عمارتیں تعمیر کرے۔ قدیم روم کا یہ قانون اس لیے تھا تاکہ کسی بھی عام شخص کو دیکھتے ہی اس کی سماجی حیثیت کا اندازہ ہوجائے اور یہ پتا چل جائے کہ اس کی معاشی یا مالی حیثیت کیا ہے۔ اس طرح شاہی اور غیرشاہی افراد میں واضح فرق نظر آتا تھا۔
٭خواتین کو کسی کی موت پر رونے یا ماتم کرنے کی اجازت نہیں تھی:
قدیم روم میں مُردوں کی آخری رسومات جلوس کی شکل میں شروع ہوتی تھیں۔ وہ ایسے کہ سوگوار لوگ اپنے مُردوں کے جنازے جلوس کی شکل میں لے کر روتے پیٹتے ہوئے شہر کی گلیوں سے گزرتے تھے۔ اس موقع پر جتنے زیادہ لوگ ماتمی جلوس میں روتے ہوئے ساتھ چلتے تھے، اس سے مرنے والے کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ چناں چہ عام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے بعض لوگ تو اپنے مردوں کے جلوس کے لیے پیشہ ور رونے والوں کی خدمات حاصل کرلیتے تھے جو معاوضہ لے کر رونے کا یہ فریضہ بھرپور طریقے سے انجام دیتے تھے۔
ان میں خواتین بھی شامل ہوتی تھیں، مگر وہ اپنے رنج وغم کا اظہار کچھ زیادہ ہی شدت سے کرتی تھیں۔ وہ بے چاریاں اپنے مرنے والوں کے ماتمی جلوس میں اپنے بال نوچتیں، اپنے چہروں کو لہولہان کرلیتیں اور اس قدر روتیں کہ دیکھنے والوں کو یقین ہوجاتا کہ یہ مرنے والے سے بہت محبت کرتی ہیں۔ بعد میں خواتین کے رونے اور ماتم کرنے کی یہ صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ ان کی جانوں کے لیے خطرات پیدا ہوگئے اور کئی بار رونے پیٹنے میں وہ حد سے گزرگئیں تو ماتمی جلوسوں میں ان کے رونے پیٹنے اور ماتم کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، البتہ مرد اس پابندی سے آزاد رہے۔
٭عاشقوں کو قتل کردیا جاتا تھا:
قدیم رومی دستور کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے شخص کی محبت میں مبتلا دیکھ لیتا یا ان دونوں کو کسی کمرے میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ اپنی بیوی اور اس کے عاشق کو اس کمرے میں قید کردے، کمرہ مقفل کردے اور اپنے پڑوسی کو بلاکر اس بے وفائی کا تماشا دکھادے۔ اس شخص کے پاس صرف بیس گھنٹے ہوتے تھے، اس مدت میں وہ اپنے پڑوسیوں کو بلاکر اپنی بیوی کی اصلیت کا پول سب کے سامنے کھول سکتا تھا، لیکن اگر یہ وقت گزر گیا تو پھر وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں، اگر اس نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اس کے پاس تین دن ہوتے تھے جن میں وہ عام لوگوں کے سامنے اپنی بیوی کی بے وفائی کا باقاعدہ اعلان کرسکتا تھا۔
اس اعلان میں وہ بہت کھل کر سب کچھ سچ سچ بیان کرتا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو کب، کہاں کس حالت میں اور کس شخص کے ساتھ پکڑا تھا۔ اس کے بعد وہ قانونی طور پر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حق دار ہوجاتا تھا ورنہ اس مرد کو برے ناموں اور گھٹیا القاب سے پکارا جاتا تھا۔ اگر اس کی بیوی کا عاشق کوئی غلام یا مرد طوائف ہوتا تھا تو وہ اس کو قتل بھی کرسکتا تھا۔ اگر وہ کوئی معزز شہری ہوتا تو پھر شوہر اس سلسلے میں اپنے سسر سے بات کرتا تھا۔ روم میں ایسی عورتوں کے باپ اپنی بیٹی کے عاشق کو قتل کرنے کا حق رکھتے تھے، چاہے وہ کتنے ہی معزز کیوں نہ ہوں۔ لیکن اگر کسی عورت کا شوہر اپنی بیوی کے ساتھ بے وفائی کا مرتکب ہوا ہو تو وہ بے چاری عورت قانونی طور پر رونے پیٹنے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
٭انوکھی اور وحشیانہ سزا:
اگر روم کا کوئی شخص کوئی برا کام کرتا تو اس کا سر قلم کردیا جاتا تھا۔ لیکن اگر وہ کچھ زیادہ ہی برا کام کرتا تو اسے جیل کی چھت کے اوپر لے جاکر نیچے پھینک دیا جاتا۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو قتل کرتا تو اس سے بھی بری اور خطرناک سزا دی جاتی تھی۔ ایسے شخص کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر لگ بھگ اندھا کردیا جاتا پھر اسے شہر سے دور کسی کھیت میں لے جاکر بالکل ننگا کرکے لوہے کی سلاخوں سے مارا جاتا۔ اس کے بعد بھی وہ نہ مرتا تو اسے ایک ایسی بوری میں ڈال دیا جاتا جس میں ایک اژدہا، ایک کتا، ایک بے دُم والا خوں خوار بندر اور ایک مرغ ہوتا تھا، پھر اس بوری کو وحشیانہ انداز سے خوب ہلانے کے بعد سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ اس کے بعد مذکورہ شخص کا جو حشر ہوتا تھا، ان کا اندازہ پڑھنے والے خود ہی لگاسکتے ہیں۔
٭طوائفوں کے بالوں کا رنگ:
قدیم روم میں طوائفوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنے بالوں کو سرخ رنگ دیں، تاکہ وہ روم کی عام خواتین سے بالکل الگ نظر آئیں۔ ویسے تو قدیم روم کی خواتین کے بال قدرتی طور پر سیاہ ہوتے تھے، مگر کچھ خاص نسل کی عورتوں کے بالوں کا رنگ قدرتی طور پر سرخ بھی ہوتا تھا۔ یہ سب بربر عورتیں تھیں۔ چوں کہ طوائفوں پر لازم تھا کہ وہ معزز رومی خواتین کی طرح نظر نہیں آئیں، بلکہ ان سے الگ دکھائی دیں، اس لیے انہوں نے اس کا آسان سا حل یہ نکالا کہ اپنے سر کے بال اور چوٹیاں بربر عورتوں کی طرح سرخ رنگ میں رنگ لیں۔
اس موقع پر ایک مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ اصل رومی خواتین ان سرخ بالوں والی بربر خواتین سے حسد محسوس کرنے لگیں، کیوں کہ وہ سرخ بالوں میں زیادہ پرکشش لگتی تھیں۔ رومی عورتوں نے اس مسئلے کا یہ حل تلاش کیا کہ انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر غلام خواتین کو زبردستی گنجا کردیا، تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق وہ بالوں سے ہی محروم ہوگئیں، چناں چہ ایسی عورتیں وگ یا مصنوعی بال استعمال کرنے پر مجبور ہوگئیں، اس طرح روم کی اعلیٰ درجے کے معزز خواتین طوائفوں سے منفرد اور نمایاں ہوگئیں۔
٭خودکشی کرنے والے اجازت لینے کے پابند ہوتے تھے:
قدیم روم میں بعض لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی مرضی سے موت کو گلے لگانا چاہتے تھے، گویا وہ قانونی طور پر خودکشی کرنے کے خواہش مند ہوتے تھے اور ایسی خواہش کو ناجائز یا غیرقانونی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بعض مخصوص قسم کے حالات میں خودکشی کرنا دانش مندی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ایسے شخص کو بڑی عزت و تکریم سے نوازا جاتا تھا۔ اگر حالات بہت زیادہ خراب ہوجاتے تو بادشاہ زہر کی چٹکی کھاکر اپنی جان دے دیتے تھے۔
اسی طرح بہت زیادہ بیمار افراد جو زندگی سے بیزار ہوچکے ہوں، انہیں بھی اس بات کی قانونی طور پر اجازت دے دی جاتی تھی کہ وہ اپنی مشکلات کے خاتمے کے لیے صنوبر کے ایک مخصوص درخت کی لکڑی کا زہر پی لیں اور اس طرح زندگی کے قید خانے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلیں۔ لیکن کچھ لوگوں کو خود کشی کرنے کی اجازت نہیں تھی، جن میں فوجی، سپاہی، غلام اور قیدی شامل تھے اور اس فیصلے کے پس پردہ معاشی اسباب تھے۔ فوجی اور سپاہی چوں کہ ریاست کے لیے مفید ہوتے تھے، اس لیے انہیں خودکشی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح قیدیوں کو بھی خودکشی کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی جاتی تھی کیوں، اس صورت میں ریاست ان کی جائیداد اپنے قبضے میں نہیں لے سکتی تھی۔
اگر کوئی غلام خودکشی کرلیتا تو اکثر اس کا مالک مکمل ری فنڈ کا حق دار ہوتا تھا۔ لیکن ایک خاص موقع پر وہ ریاست سے خودکشی کی درخواست کرتے تھے اور انہیں اس کی اجازت مل جاتی تھی۔ وہ یہ تھا کہ ایک مایوس شخص سینیٹ میں اپنی موت یا خودکشی کے لیے درخواست دے سکتا تھا۔ سینیٹ کا ادارہ اس درخواست پر غور کرتا اور اگر اسے صحیح سمجھتا تو اسے زہر کی ایک بوتل مفت فراہم کردی جاتی تھی جسے پی کر وہ شخص اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا تھا۔
٭آسمانی بجلی سے مرنے والوں کی تدفین کی اجازت نہیں تھی:
قدیم رومیوں کا عقیدہ تھا اگر کبھی آسمانی بجلی غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جوپیٹر دیوتا غصے میں ہوتا ہے۔ اس دیوتا کا وہ بہت احترام بھی کرتے تھے اور اس سے ڈرتے بھی تھے۔ اسی لیے اگر آسمانی بجلی اپنی پوری گرج، چمک اور کڑک کے ساتھ کسی انسان پر حملہ آور ہوتی اور اس کی زندگی کا خاتمہ کردیتی تو اسے مرنے والے کی بدقسمتی نہیں بل کہ خوش قسمتی سمجھا جاتا تھا، کیوں کہ جوپیٹر دیوتا صرف ناپسندیدہ چیزوں یا افراد کو ہی اپنا نشانہ بناتا تھا، اگر مذکورہ چیز یا فرد کے جانے وقت آگیا تھا تو اسے بہرصورت جانا ہوتا تھا۔ لیکن آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے مرنے والا زمین میں دفن نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے جوپیٹر دیوتا کی ایک قربانی چرالی ہے جس کی سخت سزا مقرر تھی۔ اگر کوئی فرد یا افراد آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کرتے تھے تو رومی مذکورہ فرد یا افراد کی قربانی جوپیٹر کے لیے پیش کردیا کرتے تھے۔
٭باپ اپنے بیٹوں کو صرف تین بار فروخت کرسکتے تھے:
قدیم روم میں باپ اپنے بچوں کو بہ طور غلام عارضی طور پر فروخت کرنے کا قانونی حق رکھتے تھے جس کے لیے باپ اور خریدار کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا تھا جس کے بعد مذکورہ بچہ اس خریدار کے قبضے میں چلا جاتا۔ لیکن اس معاہدے کے مطابق خریدار ایک خاص مدت کے بعد اس بچے کو واپس اس کے گھر پہنچاتا تھا۔ اگر کوئی باپ اپنے بچے کو تین بار بہ طور غلام فروخت کرتا تو ویسے تو ایسے باپ کو نامعقول باپ قرار دیا جاتا تھا، لیکن بہرحال قانونی طور پر یہ جائز تھا، اس لیے بے چارے بچے کو تیسری بار بھی بہ طور غلام کام کرنا پڑتا تھا، لیکن اس مدت کی تکمیل کے بعد وہ قانونی طور پر آزاد ہوتا تھا۔
٭خواتین کو شوہر کی ملکیت بننے سے بچنے کے لیے سال میں چند روز اس کا گھر چھوڑنا ہوتا تھا:
قدیم رومیوں نے ایک خاص مجموعۂ قوانین بنایا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اگر آپ کسی بھی چیز کو ایک خاص مدت تک کے لیے اپنے قبضے میں رکھیں گے تو وہ یہ مدت گزرنے کے بعد خود بہ خود آپ کی پراپرٹی یا ملکیت بن جائے گی۔ اہل روم کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے کوئی بھی چیز، فرد یا افراد ایک خاص مدت کے لیے اپنے قبضے میں رکھیں تو وہ یہ مدت گزرنے کے بعد قانونی طور پر آپ کی ملکیت بن جائیں گے۔ ان میں بیویاں بھی شامل تھیں۔
اس قانون کی رو سے اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے گھر میں ایک سال تک مسلسل قیام کرے گی تو وہ یہ مدت گزرنے کے بعد قانونی طور پر شوہر کی ملکیت بن جائے گی۔ لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی ملکیت بننا نہیں چاہتی تو اس کا بھی ایک آسان حل ہے، وہ یہ کہ اسے ہر سال مسلسل تین روز تک شوہر کے گھر سے دور رہنا ہوگا۔ چناں چہ یہ روم کا رواج بن گیا تھا کہ بیویاں ہر سال اپنے شوہر کے گھر سے نکل کر چند روز تک کسی دوسرے مقام پر چھپ جاتی تھیں اور بعد میں واپس آجاتی تھیں، اس طرح وہ شوہر کی ملکیت بننے سے بچ جاتی تھیں۔
٭قدیم رومی باپ اپنی پوری فیملی کو قتل کرسکتا تھا:
قدیم روم کے ابتدائی دنوں میں باپ کو بڑے اختیارات حاصل تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ناقابل یقین حد تک سب کچھ کرسکتا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ باپ بغیر کسی وجہ کے اپنی اولاد کو سزا دے سکتا تھا، اگر اس کی اولاد اس کی نافرمانی کرتی یا اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوتی تو وہ اسے قتل کرسکتا تھا۔ قدیم روم کے سبھی باپ چھوٹے بچوں کو ہی نہیں بل کہ ان کے بڑے ہونے کے بعد بھی ان پر پورا اختیار رکھتے تھے۔ لیکن بیٹیوں پر شادی کے بعد بھی باپ کو پورا اختیار حاصل تھا، ہاں باپ کی موت کے بعد بیٹے آزاد ہوجاتے تھے۔
اہل روم نے اپنے حساب سے اپنی تہذیب و تمدن کو مستحکم کرنے کے لیے جو قوانین بنائے تھے، وہ ممکن ہے کہ آج کے دور میں قابل قبول نہ ہوں، مگر وہ ان قوانین پر عمل داری کو اپنی زندگیوں میں لازمی سمجھتے تھے۔ رومیوں کو اپنے ان قوانین پر بڑا فخر تھا، حالاں کہ ان میں سے بعض قوانین بہت عجیب تھے جنہیں دیوانگی یا فاتر العقلی بھی کہا جاسکتا ہے، مگر وہ انہیں نہ صرف پسند کرتے تھے، بل کہ اپنی زندگیوں کا لازمی جزو قرار دیتے تھے۔ آئیے ان قوانین کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں:
٭ارغوانی رنگ پہننا جرم تھا:
قدیم روم میں ارغوانی رنگ کو سب سے شان دار اور شاہی رنگ سمجھا جاتا تھا۔ اس دور کے بادشاہ اپنے شاہی لباس کے اوپر ارغوانی رنگ کے گاؤن پہنتے تھے جن میں وہ بہت باوقار اور مہذب لگتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ ان جیسا شان دار کوئی دوسرا نظر نہ آئے، چناں چہ انہوں نے عام لوگوں کو یہ رنگ پہننے کی اجازت نہیں دی تھی، تاکہ ان میں اور عام لوگوں میں واضح فرق نظر آئے اور ارغوانی رنگ پہننے والا دور سے ہی پہچانا جائے کہ وہ کوئی بہت بڑی چیز ہے۔ اسی لیے قدیم روم میں عام رعایا کو اس بات کی اجازت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی دولت و امارت کا برملا اظہار کرے یا شان دار عمارتیں تعمیر کرے۔ قدیم روم کا یہ قانون اس لیے تھا تاکہ کسی بھی عام شخص کو دیکھتے ہی اس کی سماجی حیثیت کا اندازہ ہوجائے اور یہ پتا چل جائے کہ اس کی معاشی یا مالی حیثیت کیا ہے۔ اس طرح شاہی اور غیرشاہی افراد میں واضح فرق نظر آتا تھا۔
٭خواتین کو کسی کی موت پر رونے یا ماتم کرنے کی اجازت نہیں تھی:
قدیم روم میں مُردوں کی آخری رسومات جلوس کی شکل میں شروع ہوتی تھیں۔ وہ ایسے کہ سوگوار لوگ اپنے مُردوں کے جنازے جلوس کی شکل میں لے کر روتے پیٹتے ہوئے شہر کی گلیوں سے گزرتے تھے۔ اس موقع پر جتنے زیادہ لوگ ماتمی جلوس میں روتے ہوئے ساتھ چلتے تھے، اس سے مرنے والے کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ چناں چہ عام لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے بعض لوگ تو اپنے مردوں کے جلوس کے لیے پیشہ ور رونے والوں کی خدمات حاصل کرلیتے تھے جو معاوضہ لے کر رونے کا یہ فریضہ بھرپور طریقے سے انجام دیتے تھے۔
ان میں خواتین بھی شامل ہوتی تھیں، مگر وہ اپنے رنج وغم کا اظہار کچھ زیادہ ہی شدت سے کرتی تھیں۔ وہ بے چاریاں اپنے مرنے والوں کے ماتمی جلوس میں اپنے بال نوچتیں، اپنے چہروں کو لہولہان کرلیتیں اور اس قدر روتیں کہ دیکھنے والوں کو یقین ہوجاتا کہ یہ مرنے والے سے بہت محبت کرتی ہیں۔ بعد میں خواتین کے رونے اور ماتم کرنے کی یہ صورت حال اس قدر بگڑ گئی کہ ان کی جانوں کے لیے خطرات پیدا ہوگئے اور کئی بار رونے پیٹنے میں وہ حد سے گزرگئیں تو ماتمی جلوسوں میں ان کے رونے پیٹنے اور ماتم کرنے پر پابندی عائد کردی گئی، البتہ مرد اس پابندی سے آزاد رہے۔
٭عاشقوں کو قتل کردیا جاتا تھا:
قدیم رومی دستور کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے شخص کی محبت میں مبتلا دیکھ لیتا یا ان دونوں کو کسی کمرے میں رنگے ہاتھوں پکڑ لیتا تو اسے اجازت تھی کہ وہ اپنی بیوی اور اس کے عاشق کو اس کمرے میں قید کردے، کمرہ مقفل کردے اور اپنے پڑوسی کو بلاکر اس بے وفائی کا تماشا دکھادے۔ اس شخص کے پاس صرف بیس گھنٹے ہوتے تھے، اس مدت میں وہ اپنے پڑوسیوں کو بلاکر اپنی بیوی کی اصلیت کا پول سب کے سامنے کھول سکتا تھا، لیکن اگر یہ وقت گزر گیا تو پھر وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ ہاں، اگر اس نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اس کے پاس تین دن ہوتے تھے جن میں وہ عام لوگوں کے سامنے اپنی بیوی کی بے وفائی کا باقاعدہ اعلان کرسکتا تھا۔
اس اعلان میں وہ بہت کھل کر سب کچھ سچ سچ بیان کرتا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو کب، کہاں کس حالت میں اور کس شخص کے ساتھ پکڑا تھا۔ اس کے بعد وہ قانونی طور پر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حق دار ہوجاتا تھا ورنہ اس مرد کو برے ناموں اور گھٹیا القاب سے پکارا جاتا تھا۔ اگر اس کی بیوی کا عاشق کوئی غلام یا مرد طوائف ہوتا تھا تو وہ اس کو قتل بھی کرسکتا تھا۔ اگر وہ کوئی معزز شہری ہوتا تو پھر شوہر اس سلسلے میں اپنے سسر سے بات کرتا تھا۔ روم میں ایسی عورتوں کے باپ اپنی بیٹی کے عاشق کو قتل کرنے کا حق رکھتے تھے، چاہے وہ کتنے ہی معزز کیوں نہ ہوں۔ لیکن اگر کسی عورت کا شوہر اپنی بیوی کے ساتھ بے وفائی کا مرتکب ہوا ہو تو وہ بے چاری عورت قانونی طور پر رونے پیٹنے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
٭انوکھی اور وحشیانہ سزا:
اگر روم کا کوئی شخص کوئی برا کام کرتا تو اس کا سر قلم کردیا جاتا تھا۔ لیکن اگر وہ کچھ زیادہ ہی برا کام کرتا تو اسے جیل کی چھت کے اوپر لے جاکر نیچے پھینک دیا جاتا۔ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو قتل کرتا تو اس سے بھی بری اور خطرناک سزا دی جاتی تھی۔ ایسے شخص کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر لگ بھگ اندھا کردیا جاتا پھر اسے شہر سے دور کسی کھیت میں لے جاکر بالکل ننگا کرکے لوہے کی سلاخوں سے مارا جاتا۔ اس کے بعد بھی وہ نہ مرتا تو اسے ایک ایسی بوری میں ڈال دیا جاتا جس میں ایک اژدہا، ایک کتا، ایک بے دُم والا خوں خوار بندر اور ایک مرغ ہوتا تھا، پھر اس بوری کو وحشیانہ انداز سے خوب ہلانے کے بعد سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ اس کے بعد مذکورہ شخص کا جو حشر ہوتا تھا، ان کا اندازہ پڑھنے والے خود ہی لگاسکتے ہیں۔
٭طوائفوں کے بالوں کا رنگ:
قدیم روم میں طوائفوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنے بالوں کو سرخ رنگ دیں، تاکہ وہ روم کی عام خواتین سے بالکل الگ نظر آئیں۔ ویسے تو قدیم روم کی خواتین کے بال قدرتی طور پر سیاہ ہوتے تھے، مگر کچھ خاص نسل کی عورتوں کے بالوں کا رنگ قدرتی طور پر سرخ بھی ہوتا تھا۔ یہ سب بربر عورتیں تھیں۔ چوں کہ طوائفوں پر لازم تھا کہ وہ معزز رومی خواتین کی طرح نظر نہیں آئیں، بلکہ ان سے الگ دکھائی دیں، اس لیے انہوں نے اس کا آسان سا حل یہ نکالا کہ اپنے سر کے بال اور چوٹیاں بربر عورتوں کی طرح سرخ رنگ میں رنگ لیں۔
اس موقع پر ایک مسئلہ یہ کھڑا ہوا کہ اصل رومی خواتین ان سرخ بالوں والی بربر خواتین سے حسد محسوس کرنے لگیں، کیوں کہ وہ سرخ بالوں میں زیادہ پرکشش لگتی تھیں۔ رومی عورتوں نے اس مسئلے کا یہ حل تلاش کیا کہ انہوں نے ڈھونڈ ڈھانڈ کر غلام خواتین کو زبردستی گنجا کردیا، تاکہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق وہ بالوں سے ہی محروم ہوگئیں، چناں چہ ایسی عورتیں وگ یا مصنوعی بال استعمال کرنے پر مجبور ہوگئیں، اس طرح روم کی اعلیٰ درجے کے معزز خواتین طوائفوں سے منفرد اور نمایاں ہوگئیں۔
٭خودکشی کرنے والے اجازت لینے کے پابند ہوتے تھے:
قدیم روم میں بعض لوگ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی مرضی سے موت کو گلے لگانا چاہتے تھے، گویا وہ قانونی طور پر خودکشی کرنے کے خواہش مند ہوتے تھے اور ایسی خواہش کو ناجائز یا غیرقانونی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بعض مخصوص قسم کے حالات میں خودکشی کرنا دانش مندی کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ایسے شخص کو بڑی عزت و تکریم سے نوازا جاتا تھا۔ اگر حالات بہت زیادہ خراب ہوجاتے تو بادشاہ زہر کی چٹکی کھاکر اپنی جان دے دیتے تھے۔
اسی طرح بہت زیادہ بیمار افراد جو زندگی سے بیزار ہوچکے ہوں، انہیں بھی اس بات کی قانونی طور پر اجازت دے دی جاتی تھی کہ وہ اپنی مشکلات کے خاتمے کے لیے صنوبر کے ایک مخصوص درخت کی لکڑی کا زہر پی لیں اور اس طرح زندگی کے قید خانے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرلیں۔ لیکن کچھ لوگوں کو خود کشی کرنے کی اجازت نہیں تھی، جن میں فوجی، سپاہی، غلام اور قیدی شامل تھے اور اس فیصلے کے پس پردہ معاشی اسباب تھے۔ فوجی اور سپاہی چوں کہ ریاست کے لیے مفید ہوتے تھے، اس لیے انہیں خودکشی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح قیدیوں کو بھی خودکشی کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی جاتی تھی کیوں، اس صورت میں ریاست ان کی جائیداد اپنے قبضے میں نہیں لے سکتی تھی۔
اگر کوئی غلام خودکشی کرلیتا تو اکثر اس کا مالک مکمل ری فنڈ کا حق دار ہوتا تھا۔ لیکن ایک خاص موقع پر وہ ریاست سے خودکشی کی درخواست کرتے تھے اور انہیں اس کی اجازت مل جاتی تھی۔ وہ یہ تھا کہ ایک مایوس شخص سینیٹ میں اپنی موت یا خودکشی کے لیے درخواست دے سکتا تھا۔ سینیٹ کا ادارہ اس درخواست پر غور کرتا اور اگر اسے صحیح سمجھتا تو اسے زہر کی ایک بوتل مفت فراہم کردی جاتی تھی جسے پی کر وہ شخص اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا تھا۔
٭آسمانی بجلی سے مرنے والوں کی تدفین کی اجازت نہیں تھی:
قدیم رومیوں کا عقیدہ تھا اگر کبھی آسمانی بجلی غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جوپیٹر دیوتا غصے میں ہوتا ہے۔ اس دیوتا کا وہ بہت احترام بھی کرتے تھے اور اس سے ڈرتے بھی تھے۔ اسی لیے اگر آسمانی بجلی اپنی پوری گرج، چمک اور کڑک کے ساتھ کسی انسان پر حملہ آور ہوتی اور اس کی زندگی کا خاتمہ کردیتی تو اسے مرنے والے کی بدقسمتی نہیں بل کہ خوش قسمتی سمجھا جاتا تھا، کیوں کہ جوپیٹر دیوتا صرف ناپسندیدہ چیزوں یا افراد کو ہی اپنا نشانہ بناتا تھا، اگر مذکورہ چیز یا فرد کے جانے وقت آگیا تھا تو اسے بہرصورت جانا ہوتا تھا۔ لیکن آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے مرنے والا زمین میں دفن نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اگر کوئی ایسا کرتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے جوپیٹر دیوتا کی ایک قربانی چرالی ہے جس کی سخت سزا مقرر تھی۔ اگر کوئی فرد یا افراد آسمانی بجلی گرنے کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کرتے تھے تو رومی مذکورہ فرد یا افراد کی قربانی جوپیٹر کے لیے پیش کردیا کرتے تھے۔
٭باپ اپنے بیٹوں کو صرف تین بار فروخت کرسکتے تھے:
قدیم روم میں باپ اپنے بچوں کو بہ طور غلام عارضی طور پر فروخت کرنے کا قانونی حق رکھتے تھے جس کے لیے باپ اور خریدار کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا تھا جس کے بعد مذکورہ بچہ اس خریدار کے قبضے میں چلا جاتا۔ لیکن اس معاہدے کے مطابق خریدار ایک خاص مدت کے بعد اس بچے کو واپس اس کے گھر پہنچاتا تھا۔ اگر کوئی باپ اپنے بچے کو تین بار بہ طور غلام فروخت کرتا تو ویسے تو ایسے باپ کو نامعقول باپ قرار دیا جاتا تھا، لیکن بہرحال قانونی طور پر یہ جائز تھا، اس لیے بے چارے بچے کو تیسری بار بھی بہ طور غلام کام کرنا پڑتا تھا، لیکن اس مدت کی تکمیل کے بعد وہ قانونی طور پر آزاد ہوتا تھا۔
٭خواتین کو شوہر کی ملکیت بننے سے بچنے کے لیے سال میں چند روز اس کا گھر چھوڑنا ہوتا تھا:
قدیم رومیوں نے ایک خاص مجموعۂ قوانین بنایا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اگر آپ کسی بھی چیز کو ایک خاص مدت تک کے لیے اپنے قبضے میں رکھیں گے تو وہ یہ مدت گزرنے کے بعد خود بہ خود آپ کی پراپرٹی یا ملکیت بن جائے گی۔ اہل روم کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے کوئی بھی چیز، فرد یا افراد ایک خاص مدت کے لیے اپنے قبضے میں رکھیں تو وہ یہ مدت گزرنے کے بعد قانونی طور پر آپ کی ملکیت بن جائیں گے۔ ان میں بیویاں بھی شامل تھیں۔
اس قانون کی رو سے اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے گھر میں ایک سال تک مسلسل قیام کرے گی تو وہ یہ مدت گزرنے کے بعد قانونی طور پر شوہر کی ملکیت بن جائے گی۔ لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی ملکیت بننا نہیں چاہتی تو اس کا بھی ایک آسان حل ہے، وہ یہ کہ اسے ہر سال مسلسل تین روز تک شوہر کے گھر سے دور رہنا ہوگا۔ چناں چہ یہ روم کا رواج بن گیا تھا کہ بیویاں ہر سال اپنے شوہر کے گھر سے نکل کر چند روز تک کسی دوسرے مقام پر چھپ جاتی تھیں اور بعد میں واپس آجاتی تھیں، اس طرح وہ شوہر کی ملکیت بننے سے بچ جاتی تھیں۔
٭قدیم رومی باپ اپنی پوری فیملی کو قتل کرسکتا تھا:
قدیم روم کے ابتدائی دنوں میں باپ کو بڑے اختیارات حاصل تھے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ناقابل یقین حد تک سب کچھ کرسکتا تھا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ باپ بغیر کسی وجہ کے اپنی اولاد کو سزا دے سکتا تھا، اگر اس کی اولاد اس کی نافرمانی کرتی یا اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوتی تو وہ اسے قتل کرسکتا تھا۔ قدیم روم کے سبھی باپ چھوٹے بچوں کو ہی نہیں بل کہ ان کے بڑے ہونے کے بعد بھی ان پر پورا اختیار رکھتے تھے۔ لیکن بیٹیوں پر شادی کے بعد بھی باپ کو پورا اختیار حاصل تھا، ہاں باپ کی موت کے بعد بیٹے آزاد ہوجاتے تھے۔