آپ کے اسمارٹ فون میں گھس بیٹھا جاسوس سافٹ ویئر

ایک اسرائیلی کمپنی نے ایسا پروگرام ایجاد کرلیا جو بڑی صفائی سے موبائل کا سارا ڈیٹا چُرا لیتا ہے

اسرائیلی حکومت پھر سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لیے بجٹ کا بہت بڑا حصہ خرچ کرنے لگی۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
این ایس او گروپ کے ملازمین چہرے مہرے اور ظاہری ہیت میں دیگر انسانوں سے ملتے جلتے ہیں۔ وہ بھی صبح سویرے اٹھتے، ہاتھ منہ دھوتے، ناشتا کرتے اور اپنے دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا دفتر اسرائیل کے دارالحکومت، تل ابیب کے علاقے ہرزیلا میں واقع ہے۔

اپنی نشستوں پر براجمان ہوتے ہی وہ کام پر جت جاتے ہیں۔ یہ ان کا غیر معمولی اور پُراسرار کام ہی ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔کمپیوٹر سافٹ ویئر بنانے والی اس اسرائیلی کمپنی کے ماہرین سمارٹ فونوں میں داخل ہوکر استعمال کنندہ کی جاسوسی کرنے والے انتہائی نفیس و جدید ترین پروگرام تخلیق کرتے ہیں۔ سمارٹ فون میں داخل ہوکر یہ پروگرام اتنے خفیہ انداز میں جاسوسی کرتے ہیں کہ استعمال کنندہ کو علم ہی نہیں ہوپاتا کہ ایک جاسوس سافٹ وئیر اسی کے فون میں گھسا بیٹھا اس کی ساری معلومات چرا رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ 10 اگست 2016ء سے قبل بہت کم لوگ این ایس او گروپ(NSO Group) سے واقف تھے۔ پھر ایک واقعے نے اس غیر معروف اسرائیلی کمپنی کو عالمی شہرت عطا کرڈالی۔ ہوا یہ کہ اوائل اگست میں احمد منصور کو دو ای میل پیغام موصول ہوئے۔ احمد منصور متحدہ عرب امارات میں سماجی رہنما اور تحریک انسانی حقوق کا لیڈر ہے۔ اماراتی حکومت پر تنقید کرنے کے باعث جیل جاچکا۔ حکومت اکثر اس کے فون ٹیپ کرتی تھی۔ اسی لیے جب احمد منصور کو دو مشکوک ای میل ملے، تو اس کا ماتھا ٹھنک گیا۔

اتفاق سے احمد منصور ایک کانفرنس میں شرکت کرنے ٹورنٹو،کینیڈا جارہا تھا۔ ٹورنٹو پہنچ کر اس نے اپنا سمارٹ فون سائبر سکیورٹی سے متعلق دو کمپنیوں کو دکھایا۔ کمپنیوں کے ماہرین نے ای میل پیغامات کی جانچ پرکھ کی، تو وہ جاسوسی کرنے والے ایک سافٹ ویئر کے ہرکارے ثابت ہوئے۔ کینیڈین ماہرین نے اس جدید ترین اور نئے جاسوس سافٹ ویئر کو پیگاسس (pegasus) کا نام دیا۔کمپیوٹر ماہرین کی رو سے یہ سمارٹ فون کی جاسوسی کرنے والا اب تک دریافت شدہ سب سے جدید وطاقتور سافٹ ویئر ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی اسمارٹ فون کا استعمال کنندہ کسی ایک ای میل میسج پر کلک کرتا، دور دراز واقع سرور (Server) سے پیگاسس اپنے سفر کا آغاز کرتا اور شاہراہ نیٹ پر تیزی سے چلتا سمارٹ فون میں داخل ہوجاتا۔ وہ پھر سمارٹ فون کے آپریٹنگ سسٹم میں موجود خرابیوں (کمپیوٹری اصطلاح میں زیرو ڈے) سے فائدہ اٹھاتا اور سسٹم پر قبضہ کرلیتا۔ گویا اب وہ سمارٹ فون سرور کے مالکوں کا غلام بن جاتا۔

اب سمارٹ فون کے استعمال کنندہ کی ہر حرکت بذریعہ پیگاسس سرور کے مالکوں تک پہنچتی رہتی۔ پیگاسس میں یہ صلاحیت بھی تھی کہ وہ سمارٹ فون کے کیمرے اور آڈیو نظام چپکے سے چلادے اور استعمال کنندہ کو کانوں کان خبر نہ ہوپاتی۔ حتیٰ کہ سرور کے مالک سمارٹ فون میں محفوظ نمبروں، پتاجات اور دوسرا ڈیٹا کاپی کرنا چاہتے، تو بذریعہ پیگاسس یہ کام بھی بہ آسانی کرسکتے تھے۔



جب کینیڈین کمپیوٹر کے سامنے پیگاسس کی خصوصیات آئیں، تو وہ ششدر رہ گئے۔ ان کے تو تصّور ہی میں ایسے ''سوفسٹی کیٹڈ'' سافٹ ویئر کا خاکہ بسا تھا جو سمارٹ فون پر قابض ہو کر مکمل جاسوسی کرسکے۔ مگر ایک نجی اسرائیلی کمپنی کے ماہرین اس تصّور کو عملی جامہ پہناچکے تھے۔

احمد منصور کے پاس ایپل کمپنی کا تیار کردہ جدید سمارٹ فون، آئی فون 6 زیراستعمال تھا۔ چناںچہ پیگاسس جاسوس پروگرام تلاش کرنے والے محققوں نے ایپل کمپنی کو اطلاع دی کہ ایک جاسوس سافٹ ویئر آئی فون 6 کے آپریٹنگ سسٹم میں موجود خامیوں (زیرو ڈے) سے فائدہ اٹھا کر اسے ہیک کر رہا ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی ایپل کمپنی میں ہلچل مچ گئی۔ کمپنی کے کمپیوٹر ماہرین نے پھر آپریٹنگ نظام کی وہ خرابیاں دور کیں اور اس کا نیا ورژن ''آئی او ایس 9.3.5 ''جاری کر دیا۔

ایپل کمپنی نے اعلان کیا کہ آئی فون 6 استعمال کرنے والے سبھی صارفین یہ ورژن انسٹال کر لیں تاکہ ان کا سمارٹ فون پیگاسس جاسوس سافٹ ویئر سے محفوظ ہو سکے۔ کینیڈین ماہرین کمپیوٹر کا کہنا ہے کہ پیگاسس سافٹ ویئر ونڈوز اور اینڈرائڈ آپریٹنگ نظاموں کی خرابیوں سے بھی فائدہ اٹھاتا تھا تاہم مائیکرو سوفٹ اور گوگل کمپنیوں نے وہ خرابیاں بھی دور کر دی ہیں۔ گویا اب اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کا تیار کردہ پیگاسس جاسوس سافٹ ویئر ناکارہ اور بے اثر ہو چکا۔لیکن این ایس او گروپ کے تیار کردہ دیگر جاسوس سافٹ ویئر اب بھی حکومتوں سے لے کر افراد تک خرید سکتے ہیں۔

حکومتیں ان سافٹ ویئرز کے ذریعے اپنے مخالفین اور دشمنوں کی جاسوسی کرتی ہیں جبکہ افراد بھی مخالفوں کی جاسوسی کرنے کے لیے اسرائیلی کمپنی کے تیار کردہ سوفٹ ویئرز استعمال کرتے ہیں۔اگرچہ این ایس او گروپ کے جاسوس سافٹ ویئرز کی خدمات ہر کوئی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ خاصا مہنگا سودا ہے۔

ٹارگٹ سمارٹ فون پر جاسوس سافٹ ویئر انسٹال کرنے کی فیس ہی پانچ لاکھ ڈالر (پانچ کروڑ روپے سے زیادہ)ہے۔ اسی کے بعد سمارٹ فون کی جاسوسی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ این ایس او گروپ ساڑھے چھ لاکھ ڈالر ادا کرنے پر دس سمارٹ فونوں کی جاسوسی کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔ کوئی حکومت یا فرد مزید سمارٹ فونوں کی جاسوسی کرانا چاہے تو مزید رقم دینی پڑتی ہے۔




این این اے گروپ کمپنی 2010ء میں اسرائیلی فوج کے ایلیٹ ترین ادارے'' یونٹ 8200 ''سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر ماہرین نے چھ برس قبل قائم کی تھی۔ یہ جاسوس سافٹ ویئر تیار کرنے والی محض ایک اسرائیلی کمپنی ہے۔ اسرائیل میں اس قسم کی کمپیوٹر کمپنیوں کا جال بچھ چکا۔ یہ امر واضح کرتا ہے کہ اب اسرائیلی حکومت دنیا کے کسی بھی کونے میں کام کرنے والے سمارٹ فون کی جاسوسی کر سکتی ہے۔

اس کے معنی ہیں کہ خاص طور پر اسرائیل کے مخالف مسلمان لیڈروں کو دیکھ بھال کر اپنا سمارٹ فون استعمال کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ اسرائیل یا امریکا کا کوئی جاسوس سافٹ ویئر ان کے سمارٹ فون میں گھس کر قیمتی معلومات چوری کر لے۔ ان کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ اپنے منصوبوں اور عزائم کی تفصیل کمپیوٹر یا سمارٹ فون میں نہ رکھیں اور چالاک دشمن کو عالم بے خبری میں رہنے دیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کی قوت

یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی کہ اسرائیلی دنیائے نیٹ میں جاسوسی کرنے والے جدید ترین سافٹ ویئر ایجاد کررہے ہیں۔ دراصل اسرائیل چاروں طرف سے خودساختہ دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ اسی لیے اسرائیلی حکومت خود کو ہر وقت حالت جنگ میں سمجھتی اور چوکنا رہتی ہے۔ دشمنوں پر چوبیس گھنٹے نظر رکھنے کیلئے ہی اسرائیلی جاسوسی کے جدید ترین طریقے ایجاد کرنے لگے۔ اپنی غرض پوری کرنے کی خاطر انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔

اسرائیلی حکومت پھر سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لیے بجٹ کا بہت بڑا حصہ خرچ کرنے لگی۔ اس ہم شعبے کو بڑھاوا دینے کے باعث نتائج بھی جلد سامنے آئے۔ اسرائیلی ماہرین نے نہ صرف جدید ہتھیار ایجاد کیے بلکہ سائنسی و تکنیکی اختراعات سے خود کو معاشرتی و معاشی طور پر نہایت مضبوط بنالیا۔مثال کے طور پر اسرائیل کا بیشتر علاقہ بنجر ہے۔ مگر اسرائیلی ماہرین نے کھیتی باڑی کے ایسے نئے نظام بنائے کہ ریت میں بھی فصل اور باغات اگانا ممکن ہوچکا۔ چناں چہ آج اسرائیلی اپنا اگاتے اور کھاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ممالک کے مابین زبردست''سائبر جنگیں ''ہوں گی۔اس میدان میں بھی اسرائیل سائنس و ٹیکنالوجی کو بے پناہ اہمیت دینے کی وجہ سے بہت ترقی کر چکا۔

اسرائیل کی روش دیکھ کر عالم اسلام کے حکمرانوں کو سبق لینا چاہیے۔ ہمارے اکثر حکمران عمارتوں اور شاہراؤں کی تعمیر پر پیسا خرچ کرتے ہیں ۔جبکہ عوام یورپی ممالک سے درآمد شدہ سامان تعیش خریدنے پر اربوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں۔ مگر ملائشیا اور ترکی کو چھوڑ کر بقیہ تمام اسلامی ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی تو کیا تعلیم و علم پر بھی کما حقہ توجہ نہیں دی جاتی۔دوسری جانب سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت پاکر چھوٹا سا ملک، اسرائیل مقامی سپرپاور بن چکا۔ اسرائیلی اب دھڑلے سے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور پڑوسی اسلامی ممالک میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اسرائیل کو للکار کر فلسطینیوں کا دفاع ہی کرلیں۔

''زیرو ڈے'' کی بلیک مارکیٹ

ایک سافٹ ویئر چھوٹا ہو یا بڑا ،محنت شاقہ کے بعد تیار ہوتا ہے۔ اسے ریاضیاتی پیچیدگیوں کا شاہکار کہنا چاہیے۔ جو سافٹ ویئر جتنا بڑا ہو ،وہ اتنا ہی زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ ایک کمپیوٹر یا سمارٹ فون میں انہی سافٹ ویئروں کا مجموعہ یعنی آپریٹنگ سسٹم انہی کو قابل استعمال بناتا ہے۔سافٹ ویئر انجینئر بڑے دھیان وتوجہ سے سافٹ ویئر یا پروگرام تخلیق کرتے ہیں تاہم تمام تر زیرکی و گیرائی کے باوجود اکثر سافٹ ویئر میں کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے۔ یہ خامی کمپیوٹری اصطلاح میں ''زیرو ڈے'' کہلاتی ہے۔

سافٹ ویئر بنانے والی کمپنیوں میں ماہرین ایک نئے سافٹ ویئر کو بار بار تجربات اور نظرثانی سے گزارتے ہیں تاکہ اس کی خامیاں وخرابیاں عیاں و ہو سکیں۔ اکثر خامیاں جانچ پڑتال کے اس عمل سے پکڑی جاتی ہیں تاہم بعض اوقات کوئی خامی کمپنی کے ماہرین کی پکڑ میں نہیں آ پاتی۔آج سافٹ ویئروں میں یہی خامیاں پکڑنے کے لیے کمپیوٹر ماہرین کا مخصوص طبقہ پیدا ہو چکا۔ ان ماہرین میں سے بہت سے خامیاں کمائی کی خاطر ڈھونڈتے ہیں جبکہ دوسرے جرائم پیشہ گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے ماہرین ہیکر بھی کہلاتے ہیں۔

کمائی کی خاطر سافٹ ویئروں میں خامیاں تلاش کرنے والوں کا طریق کار واضح ہے۔ جب کوئی ایسا ہیکر کسی سافٹ ویئر میں خامی یا زیرو ڈے تلاش کر لے تو وہ اسے بنانے والی کمپنی سے رابطہ کرتا ہے۔ عام طور پر وہ کمپنی ہیکر کو منہ مانگی رقم دے کر وہ خامی خرید لیتی ہے۔ دنیا کی تمام بڑی کمپیوٹر کمپنیاں مثلاً مائیکرو سوفٹ، گوگل، ایپل، فیس بک وغیرہ ہیکروں سے اپنے سافٹ ویئرز کی خامیاں لاکھوں ڈالر دے کر خریدتی ہیں۔

یہ کاروبار قانونی اور جائز ہے۔جرائم پیشہ ہیکر جب کسی سافٹ ویئر میں خامی تلاش کر لے تو وہ سب سے پہلے اس کی نوعیت دیکھتا ہے۔ اگر یہ خامی حکومتوں یا بڑے جرائم پیشہ گروہوں کے کام آ سکتی ہے تو وہ ان سے سودے بازی کرتا ہے۔ جو سب سے زیادہ بولی لگائے ،ہیکر اسے وہ خامی فروخت کر ڈالتا ہے۔ یہ دھندا ناجائز اور غیرقانونی اور عرف عام میں زیرو ڈیز کی بلیک مارکیٹ کہلاتا ہے۔آج حکومتیں بھی ایک دوسرے کے کمپیوٹر نظام پر حملہ آور ہیں مثلاً اسرائیلی اور امریکی حکومتوں نے مل کر ایک خطرناک ''سٹیکس نیٹ'' وائرس تیار کیا تھا۔

اسی وائرس نے ایران میں یورینیم افزودہ کرنے والی کئی سینٹری فیوگل مشینیں خراب کر دی تھیں۔ سٹیکس نیٹ وائرس سینٹری فیوگل مشینیں چلانے والے سافٹ ویئر میں موجود ایک خامی سے فائدہ اٹھا کر ہی کامیاب ہوا۔ ماہرین کمپیوٹر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے جرمن کمپنی، سائمنز کے تیار کردہ سافٹ ویئر کی خامی زیرو ڈیز بلیک مارکیٹ سے دس لاکھ ڈالر میں خریدی تھی۔

زیرو ڈیز کی بلیک مارکیٹ میں سافٹ ویئر کی نوعیت واہمیت کے لحاظ سے خامی یا خامیوں کی بولی لگتی ہے۔ خامی اگر بڑی کمپیوٹر کمپنی مثلاً مائیکرو سوفٹ یا ایپل کے تیار کردہ سافٹ ویئر میں نکلے تو اس کی قیمت کروڑوں روپے تک پہنچ جاتی ہے۔سافٹ ویئروں میں کوئی خامی مل جانا ہیکروں کو راتوں رات کروڑ پتی بنا دیتی ہے۔ اسی لیے آج کل لاکھوں ماہرین کمپیوٹر فارغ وقت میں اہم و کارآمد سافٹ ویئروں میں کوئی خامی ڈھونڈنے کی سعی کرتے ہیں ۔جسے کامیابی مل جائے وہ جلد ہی لاکھوں ڈالر میں کھیلنے لگتا ہے۔
Load Next Story