مڈل کلاس آرڈر
جبتک دری بچھانے، جھنڈے لگانے،نعرے لگانے والا کارکن ایوانوں میں...
پاکستان کے سیاسی حالات اور معاشی صورتحال اس امر کے غماز ہیں کہ پاکستان میں آزادی حاصل کرنے کے بعد مضبوط نظام اور مستحکم معیشت کی منزل حاصل نہ کی جاسکی۔ اس کے اسباب متعدد ہیں لیکن سب سے بڑا سبب کمزور نظام حکومت اور سیاسی صورتحال ہے۔ سیاسی صورتحال کا استحکام مضبوط سیاسی جماعتوں کے سبب معرض وجود میں آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ قیام پاکستان کے فوری بعد پاکستان کی بانی جماعت کے حصے بخرے ہوگئے اور بانیان یا تو ہم سے بچھڑ گئے یا انھیں شہید کردیا گیا۔ بچی کھچی قیادت کو غدار کہہ کر دیوار سے لگادیا گیا۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے کس طرح نکلاجائے۔ تو سب سے پہلے ہماری نگاہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر جاتی ہے جو نظریات کی بنیاد پر کام کرنے کے بجائے بڑے سیاسی خانوادوں، گدی نشینوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے سہارے پر سیاست کر رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک مضبوط سیاسی نظام، مستحکم سیاسی جماعتوں کی شکل میں قائم ہوتا جو اس نو آزاد مملکت کو اس کے بانیان کے خوابوں کے مطابق چلاتا، لیکن ایسا ہونہ سکا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے سیاسی رہنما عروج پر آئے اور انھوں نے بڑے پرکشش نعرے دیے، تبدیلی اور انقلاب کی نوید سنائی لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ یہ مضبوط سیاستدان بھی کمزور سہاروں پر چلنے پر مجبور تھے۔ انھوں نے بھی دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے دم پر ہی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا اپنی کامیابی سمجھی۔ نظریات کی بنیاد پر پاکستان میں دو قسم کی جماعتیں نظر آتی ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے اسلام کو بنیاد بنا کر سیاست کا آغاز کیا اور وہ مذہبی سیاسی جماعتیں کہلائیں اور دوسری وہ جنھوں نے اپنے سیکولر تشخص کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
دین کے نام پر سیاست کرنے والوں کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہے تھے اور سیکولر تشخص کے حامل لوگوں نے کمزور بنیادوں پر اپنی نام نہاد جدوجہد آگے بڑھائی۔ اس کے برعکس 70 کی دہائی کے آخر میں سندھ کے شہری علاقوں سے بھی ایک سوچ ابھری جس نے ان تمام اسباب کا جائزہ لے کر حقیقت پسندی کے تناظر میں ایک عملی جدوجہد کا آغاز کیا جس کا یہ عزم تھا کہ پاکستان کے مسائل وہ نمائندگان حل کرسکتے ہیں جو اس کرب سے گزر رہے ہوں۔
جنھوں نے وہ حالات دیکھے ہوں کہ بسوں میں لٹک کر کس طرح تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور کسب معاش کے لیے سفر کیاجاتا ہے۔ وہ اس بات سے بھی آشنا ہوں کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے انھیں کس قسم کی تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر گلی محلوں میں مسائل ہوں تو ان کے حل کے لیے کس طرح سے کوششیں کی جاتی ہیں۔
اس بنیاد پر ایک طلبا تنظیم کی بنیا د رکھی گئی اور جب اس تنظیم کا راستہ روکا گیا تو یہ تعلیمی اداروں سے نکل کر پورے شہر میں پھیل گئی اور عوام نے اس کی پکار پر لبیک کہا۔ جب 1987 میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور اس تحریک نے فقیدالمثال کامیابی حاصل کی اور اپنے نعروں کو عملی جامہ پہنایا تو یہ سوچ کراچی ا ور حیدرآباد سے نکل کر وادی مہران کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔
اس جدوجہد کی غیر متزلزل قیادت نے اپنے نظریے کو ایک مضبوط اور قابل عمل فلسفے کے ساتھ پورے پاکستان میں متعارف کرانا چاہا تو پاکستان کا وہ طبقہ جو چند خانوادوں اور گھرانوں کی بنیاد پر ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر قابض تھا، اس نے اس سوچ کا راستہ روکا جس کا سبب یہ تھا کہ یہ وہی سوچ تھی جو بنیادی طور پر پاکستان کو مسائل سے نکال کر ایک ترقی یافتہ ملک اور باعزت اقوام کی فہرست میں شامل کراسکتی تھی۔
تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اس جدوجہد کے قائد الطاف حسین نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور انتہائی مشکل حالات میں اس مشکل جدوجہد کو جاری و ساری رکھا اور بالآخر تمام طالع آزما اور سازشی عناصر نے شکست کھائی۔ تمام الزامات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اور آج متحدہ قومی موومنٹ 98 فیصد حقوق سے محروم عوام کے لیے قائد تحریک کے فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر عمل پیرا ہے اور یہ تحریک عوام کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کا دائرہ پورے ملک میں وسیع کرچکی ہے اور آ ج بھی عزم یہی ہے کہ ملک کے مسائل غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہی حل کرسکتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے مسائل کا ادراک کریں اور تسلیم کریں کہ ہم ان برائیوں اور مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس کی عملی جدوجہد کے لیے جس طریقے کو سامنے رکھیں اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ ان مسائل سے عہدہ بر آ ہوسکے۔
اس ضمن میں قائد تحریک الطاف حسین کے فیصلے، ان کا تدبر اور فہم و فراست وقت کی ہر کسوٹی پر پورا اترا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس نظریے کے فروغ کے لیے آج ہم کوشاں ہیں وہ بنیادی طور پر سماجی انصاف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے اور یہ حقیقی معنوں میں مڈل کلا س آرڈر ہے اور اس سوچ اور فکر سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی قوم، کوئی طبقہ آبادی اس قسم کے مسائل سے دوچار ہے تو وہ اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہے بلکہ ان جملوں کی دلیل کے طور پر قائد تحریک الطاف حسین کی 34 سالہ جدوجہد اور ایم کیو ایم کی تابناک تاریخ موجود ہے جس میں عوامی مسائل کے حل کے سنہری ابواب بھی شامل ہیں۔ قربانیوں کی ایسی لازوال تاریخ موجود ہے جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کم کم دستیاب ہے۔ اس تحریر کاخلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے مضبوط نظریاتی سیاسی جماعتوں کا ہونا لازمی ہے۔
اگر ہم نئی جماعت بنا کر بھی انحصار جاگیرداروں، وڈیروں اور بھاری بھرکم شخصیات پر کریں گے تو نتائج ماضی سے مختلف نہ ہوں گے، جب تک دری بچھانے والا، جھنڈے لگانے والا اور نعرے لگانے والا کارکن ایوانوں میں نہیں پہنچے گا اس وقت تک ملک اور قوم بحرانوں سے نہیں نکل سکے گی۔ اس کی مثالیں پاکستان کی تاریخ میں دستیاب ہیں کہ بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے ، اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تو باہم دست و گریباں ہوئے، کبھی استعفے دیے گئے تو کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ یوسف رضا گیلانی ایک انتہائی فیصلے کے بعد عہدے سے نااہل ہوئے لیکن ملک آج بھی آئینی تعطل کا شکار ہے۔
باالفاظ دیگر پاکستان ابھی تک اپنے سیاسی اور حکومتی نظام کے ارتقا سے گزر رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ 64 برس گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک ایک مستحکم نظام حکومت اور ترقی یافتہ معیشت کی منزل حاصل نہ کرسکے۔ اس کے اسباب یہی ہیں کہ ہم نے ابھی تک مڈل کلاس آرڈر کو اختیار نہیں کیا۔ یقیناً وہ وقت آپہنچا ہے کہ جب پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام اس جماعت کو منتخب کریں گے جس نے 34 برس میں اپنی شاندار کارکردگی سے یہ ثابت کیا کہ اس کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ ملک کو ایک مضبو ط نظام حکومت اور ایک طاقتور معیشت فراہم کرسکتی ہے۔ آج متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام کے 15 برس مکمل کررہی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک کا سفر گو کہ لمحوں پر محیط ہے لیکن اس کی بڑی بھاری قیمت ایم کیو ایم کے کارکنان اور قیادت نے ادا کی ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین آج بھی جلاو طنی کی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم دعا گو ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب ملک کے حالات ایسے ہوں گے جہاں پر سماجی انصاف کا بول بالا ہوگا اور انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچے گا۔ کسب معاش اور روزگار کے لیے کسی کو ترک وطن نہیں کرنا پڑے گا۔ اس وقت جا کر ہم بانیان پاکستان کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرسکیں گے اور یہ تعبیر قائد تحریک الطاف حسین کے پیش کردہ مڈل کلاس آرڈر میں ہی مضمر ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس صورتحال سے کس طرح نکلاجائے۔ تو سب سے پہلے ہماری نگاہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پر جاتی ہے جو نظریات کی بنیاد پر کام کرنے کے بجائے بڑے سیاسی خانوادوں، گدی نشینوں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے سہارے پر سیاست کر رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک مضبوط سیاسی نظام، مستحکم سیاسی جماعتوں کی شکل میں قائم ہوتا جو اس نو آزاد مملکت کو اس کے بانیان کے خوابوں کے مطابق چلاتا، لیکن ایسا ہونہ سکا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے سیاسی رہنما عروج پر آئے اور انھوں نے بڑے پرکشش نعرے دیے، تبدیلی اور انقلاب کی نوید سنائی لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ یہ مضبوط سیاستدان بھی کمزور سہاروں پر چلنے پر مجبور تھے۔ انھوں نے بھی دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے دم پر ہی اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنا اپنی کامیابی سمجھی۔ نظریات کی بنیاد پر پاکستان میں دو قسم کی جماعتیں نظر آتی ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے اسلام کو بنیاد بنا کر سیاست کا آغاز کیا اور وہ مذہبی سیاسی جماعتیں کہلائیں اور دوسری وہ جنھوں نے اپنے سیکولر تشخص کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
دین کے نام پر سیاست کرنے والوں کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی وہ توقع کر رہے تھے اور سیکولر تشخص کے حامل لوگوں نے کمزور بنیادوں پر اپنی نام نہاد جدوجہد آگے بڑھائی۔ اس کے برعکس 70 کی دہائی کے آخر میں سندھ کے شہری علاقوں سے بھی ایک سوچ ابھری جس نے ان تمام اسباب کا جائزہ لے کر حقیقت پسندی کے تناظر میں ایک عملی جدوجہد کا آغاز کیا جس کا یہ عزم تھا کہ پاکستان کے مسائل وہ نمائندگان حل کرسکتے ہیں جو اس کرب سے گزر رہے ہوں۔
جنھوں نے وہ حالات دیکھے ہوں کہ بسوں میں لٹک کر کس طرح تعلیم حاصل کی جاتی ہے اور کسب معاش کے لیے سفر کیاجاتا ہے۔ وہ اس بات سے بھی آشنا ہوں کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے انھیں کس قسم کی تکالیف کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر گلی محلوں میں مسائل ہوں تو ان کے حل کے لیے کس طرح سے کوششیں کی جاتی ہیں۔
اس بنیاد پر ایک طلبا تنظیم کی بنیا د رکھی گئی اور جب اس تنظیم کا راستہ روکا گیا تو یہ تعلیمی اداروں سے نکل کر پورے شہر میں پھیل گئی اور عوام نے اس کی پکار پر لبیک کہا۔ جب 1987 میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور اس تحریک نے فقیدالمثال کامیابی حاصل کی اور اپنے نعروں کو عملی جامہ پہنایا تو یہ سوچ کراچی ا ور حیدرآباد سے نکل کر وادی مہران کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔
اس جدوجہد کی غیر متزلزل قیادت نے اپنے نظریے کو ایک مضبوط اور قابل عمل فلسفے کے ساتھ پورے پاکستان میں متعارف کرانا چاہا تو پاکستان کا وہ طبقہ جو چند خانوادوں اور گھرانوں کی بنیاد پر ملک کے اقتدارِ اعلیٰ پر قابض تھا، اس نے اس سوچ کا راستہ روکا جس کا سبب یہ تھا کہ یہ وہی سوچ تھی جو بنیادی طور پر پاکستان کو مسائل سے نکال کر ایک ترقی یافتہ ملک اور باعزت اقوام کی فہرست میں شامل کراسکتی تھی۔
تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اس جدوجہد کے قائد الطاف حسین نے صبر کا دامن نہ چھوڑا اور انتہائی مشکل حالات میں اس مشکل جدوجہد کو جاری و ساری رکھا اور بالآخر تمام طالع آزما اور سازشی عناصر نے شکست کھائی۔ تمام الزامات جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے اور آج متحدہ قومی موومنٹ 98 فیصد حقوق سے محروم عوام کے لیے قائد تحریک کے فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر عمل پیرا ہے اور یہ تحریک عوام کے حقوق کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کا دائرہ پورے ملک میں وسیع کرچکی ہے اور آ ج بھی عزم یہی ہے کہ ملک کے مسائل غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان ہی حل کرسکتے ہیں۔ حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے مسائل کا ادراک کریں اور تسلیم کریں کہ ہم ان برائیوں اور مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور اس کی عملی جدوجہد کے لیے جس طریقے کو سامنے رکھیں اس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ ان مسائل سے عہدہ بر آ ہوسکے۔
اس ضمن میں قائد تحریک الطاف حسین کے فیصلے، ان کا تدبر اور فہم و فراست وقت کی ہر کسوٹی پر پورا اترا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس نظریے کے فروغ کے لیے آج ہم کوشاں ہیں وہ بنیادی طور پر سماجی انصاف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے اور یہ حقیقی معنوں میں مڈل کلا س آرڈر ہے اور اس سوچ اور فکر سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی قوم، کوئی طبقہ آبادی اس قسم کے مسائل سے دوچار ہے تو وہ اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہے بلکہ ان جملوں کی دلیل کے طور پر قائد تحریک الطاف حسین کی 34 سالہ جدوجہد اور ایم کیو ایم کی تابناک تاریخ موجود ہے جس میں عوامی مسائل کے حل کے سنہری ابواب بھی شامل ہیں۔ قربانیوں کی ایسی لازوال تاریخ موجود ہے جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کم کم دستیاب ہے۔ اس تحریر کاخلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لیے مضبوط نظریاتی سیاسی جماعتوں کا ہونا لازمی ہے۔
اگر ہم نئی جماعت بنا کر بھی انحصار جاگیرداروں، وڈیروں اور بھاری بھرکم شخصیات پر کریں گے تو نتائج ماضی سے مختلف نہ ہوں گے، جب تک دری بچھانے والا، جھنڈے لگانے والا اور نعرے لگانے والا کارکن ایوانوں میں نہیں پہنچے گا اس وقت تک ملک اور قوم بحرانوں سے نہیں نکل سکے گی۔ اس کی مثالیں پاکستان کی تاریخ میں دستیاب ہیں کہ بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے ، اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے تو باہم دست و گریباں ہوئے، کبھی استعفے دیے گئے تو کبھی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ یوسف رضا گیلانی ایک انتہائی فیصلے کے بعد عہدے سے نااہل ہوئے لیکن ملک آج بھی آئینی تعطل کا شکار ہے۔
باالفاظ دیگر پاکستان ابھی تک اپنے سیاسی اور حکومتی نظام کے ارتقا سے گزر رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ 64 برس گزر جانے کے باوجود ہم ابھی تک ایک مستحکم نظام حکومت اور ترقی یافتہ معیشت کی منزل حاصل نہ کرسکے۔ اس کے اسباب یہی ہیں کہ ہم نے ابھی تک مڈل کلاس آرڈر کو اختیار نہیں کیا۔ یقیناً وہ وقت آپہنچا ہے کہ جب پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام اس جماعت کو منتخب کریں گے جس نے 34 برس میں اپنی شاندار کارکردگی سے یہ ثابت کیا کہ اس کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ ملک کو ایک مضبو ط نظام حکومت اور ایک طاقتور معیشت فراہم کرسکتی ہے۔ آج متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام کے 15 برس مکمل کررہی ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک کا سفر گو کہ لمحوں پر محیط ہے لیکن اس کی بڑی بھاری قیمت ایم کیو ایم کے کارکنان اور قیادت نے ادا کی ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین آج بھی جلاو طنی کی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم دعا گو ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب ملک کے حالات ایسے ہوں گے جہاں پر سماجی انصاف کا بول بالا ہوگا اور انصاف عوام کی دہلیز تک پہنچے گا۔ کسب معاش اور روزگار کے لیے کسی کو ترک وطن نہیں کرنا پڑے گا۔ اس وقت جا کر ہم بانیان پاکستان کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرسکیں گے اور یہ تعبیر قائد تحریک الطاف حسین کے پیش کردہ مڈل کلاس آرڈر میں ہی مضمر ہے۔