وہ تو چلے گئے اے دل
14 سال پہلے ایسے ہی وہ ’’بیرون‘‘ سے آئے تھے اور گورنر بنا دیے گئے
14 سال پہلے ایسے ہی وہ ''بیرون'' سے آئے تھے اور گورنر بنا دیے گئے۔ آج 14 سال بعد ویسے ہی گورنری سے ہٹائے جانے کے بعد وہ ''بیرون'' واپس چلے گئے ہیں۔ جیسے وہ 14 سال پہلے فوری آئے تھے ویسے ہی فوری چلے گئے، اپنے ساتھ بہت سی ''کہی ان کہی'' کہانیاں لیے۔
گورنر سندھ عشرت العباد نے طویل ترین عرصہ گورنری کا گزارا، اس دوران ''اس بستی پر کیا کیا بیتی وہی کھل کر کہہ دیں''۔ وہ نہ بولے تو دیواریں بولیں، ویسے اگر وہ نہ بھی بولے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، جو کچھ کراچی میں ہوتا رہا، دن کے اجالے میں کیا رات کے اندھیرے میں کیا۔ آج اندھیرے اجالے بول رہے ہیں۔
کون آیا کون گیا
کون گیا کون آیا
کس نے کیا کہا، کیا کیا، کس سے کہا یا کن سے کہا۔ سب ''کچاچٹھا '' بولا جا رہا ہے۔ پاکستان کے امیر کبیر لوگوں کا کیا ہے، کچھ بھی نہیں! وہ تو اپنی دنیا میں مست ہیں، دیکھنے، سننے، سنانے کو ہم غریب لوگ ہی ہیں جو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور کڑھتے ہیں۔ وہ گھر جن کے بڑوں نے پاکستان بنایا تھا اور وہ یہ کام کرکے منوں مٹی تلے جا سوئے انھی گھروں میں رہ جانے والے لوگ یہ سارے غم انھی کے ہیں، سارے دکھ انھی کے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو رات کو رات کہہ چکے اب رات کو صبح کیسے کہہ دیں وہ نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو امیر کبیر لوگوں کا کام ہے بلکہ کارنامہ ہے کہ وہ اندھیری رات کو بھی صبح کہہ دیتے ہیں کیونکہ وہ اس اندھیری رات کا حصہ ہوتے ہیں۔
گورنر سندھ عشرت العباد چلے گئے۔ انھیں جانے کی بہت جلدی تھی۔ ادھر انھیں سبکدوشی کا پیغام ملا، ادھر انھوں نے دبئی کا ہوائی ٹکٹ لیا اور اڑ کر دبئی پہنچ گئے۔ بالکل اسی طرح جیسے انھیں 14 سال پہلے اشارہ ملا تھا ''جاؤ اور گورنری سنبھالو'' اور ہمارے احکامات کا انتظار کرو۔ گورنر عشرت العباد کو احکامات ملتے رہے اور وہ انھیں بجا لاتے رہے۔
گورنر صاحب نے انسانی خدمت کے کام خوب کیے، بحری قذاقوں کے ہاتھوں یرغمال پاکستانیوں بلکہ ہندوستانیوں کو بھی آزاد کرایا اور یرغمالی کے گھر والوں کی دعائیں سمیٹیں، بچوں کا پیار لیا، اچھا کیا، بہت اچھا کیا۔ سارے پاکستان میں گورنر صاحب کے نام کے ڈنکے بجے، لوگ واہ واہ کرتے ہوئے ان کے ایسے کارناموں پر جھوم جھوم گئے۔
''اس شہر خرابی میں'' ایسے بھی گھر ہیں ایک دو نہیں سیکڑوں ہیں، جن میں آج بھی بقول جالب:
کس طرح گزرتے ہیں یہ دن رات نہ پوچھو
آہوں کے سہارے، کبھی اشکوں کے سہارے
اسی شہر ناپرساں میں ہزاروں گھر روئے اور رو رہے ہیں، مگر بلدیہ کی فیکٹری والے سانحے میں وحشی سفاک ، میں درندے لکھنے لگا تھا مگر رک گیا کہ درندے بھی ان جیسے نہیں ہوتے۔ ان لوگوں نے بھتہ مانگا اور انکار پر بولے ''تم کو انکار کی جرأت ہوئی تو کیوں کر، سایہ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے'' اور یہ کہتے ہوئے فیکٹری کو آگ لگا کر باہر نکلنے والے آہنی گیٹوں پر تالے ڈال دیے، غریب بستیوں، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن کے تین سو مزدور، محنت کش جوان بوڑھے، عورتیں، لڑکیاں، فیکٹری کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہوگئے، کیسی کیسی شہزادی بچیاں، شہزادے بچے سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے جل گئے۔
آنکھیں بھی جل گئیں۔ دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں مسجدوں کے مینار دیکھتے ہی رہ گئے، منصفوں کی پرشکوہ عمارتیں بھی، وہ ''جن پہ تکیہ تھا'' وہ اسمبلیاں بھی، قلم دوات بھی، سب پھٹے پھٹے دیدوں سے دیکھتے ہی رہے، دیکھتے ہی رہ گئے۔ بس ایک گورنر ہاؤس تھا جہاں بلدیہ فیکٹری پر ''کچھ'' ہو رہا تھا۔ جاتے جاتے گورنر عشرت العباد بتا کر گئے ہیں کہ ''بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کے لیے جو فنڈ جمع کیا تھا، وہ سب بھی ''وہ لوگ'' کھا گئے اور متاثرین کو ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔''
اس شہر کے لیے یہ آنکھیں اتنا روئی ہیں کہ اب تو آنکھوں میں رونے کے لیے آنسو بھی نہیں رہے۔ سو اب تو بغیر آنسو اہل دل روتے ہیں۔
بلدیہ فیکٹری کے معاملات گورنر ہاؤس میں سوچے گئے۔ یہ بات گورنر عشرت العباد صاحب نے خود سب کو بتائی ہے۔
یوں ہی میرے دل میں خیال آیا ہے۔ ایک لوئر مڈل کلاس کا نوجوان ہاتھ میں گٹار لیے گاتا پھرتا تھا۔ اس کی آواز بھی اچھی تھی شاید اس کو بری نظر کھاگئی اور وہ نوجوان سیاست میں آگیا۔ یہ ''سیاست'' سیکڑوں باصلاحیت نوجوان کھا گئی۔ کاش یہ نوجوان ہاتھ میں گٹار لیے گاتا رہتا، لوگوں کا پیارا رہتا، راج دلارا رہتا، مگر سیاست نے اس کے ہاتھ سے پیار کا ہتھیار گٹار لے لیا اور پھر وہ سیاست میں غرق ہوتا چلا گیا۔ اب اس کی زندگی اس کی نہیں تھی، اس کے دن رات اس کے نہیں تھے، اب وہ ایک روبوٹ تھا، اسے جدھر موڑ دیا مڑ گیا، جو چاہا اس روبوٹ سے کروالیا۔
گورنر عشرت العباد نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے لیے بہت کچھ کیا، اس کے اسٹیج پر گٹار گلے میں ڈال کر گانے بھی گائے۔ عشرت گا رہا تھا، اب اس کی گائیکی میں پختگی آچکی تھی، اس کے بالوں میں سفیدی کی طرح۔ عشرت کے کئی والیم آچکے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں گھومتا پھرتا ہے۔ عشرت اسٹیج پر گا رہا تھا اور میں خیالوں کی دنیا سجائے اسے سن رہا تھا۔ ''میں یوں خیالوں کی دنیا بساتا رہا'' ادھر اسٹیج پر گلوکار عشرت گانا ختم کرچکا تھا۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔
بہت سے لوگ کھڑے ہوکر تالیاں بجا رہے تھے اور اسٹیج سیکریٹری کہہ رہا تھا ''یہ تھے گورنر سندھ عشرت العباد جو اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے'' اور میں خیالوں کی دنیا سے باہر آگیا۔ میں نے خود کلامی کی ''یہ تو گورنر صاحب تھے، گلوکار عشرت نہیں۔'' بڑے دکھ ہیں، پتا نہیں کتنے نوجوان کچھ اور بننا چاہتے تھے، کچھ اور بنا دیے گئے۔ قارئین! اس لمحے مجھے اپنا پیارا پڑوسی بہت پیارا شاعر منیر نیازی یاد آگیا ہے۔ میں میانی پٹھاناں گاؤں کا اور منیر نیازی ساتھ والے گاؤں خان پور کا۔ آج یہ دونوں گاؤں دور بہت دور سرحد کے اس پار پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں رہ گئے ہیں۔ اگر ''دنیا کی عنایت'' ہو تو میں واہگہ سے دو گھنٹے میں اپنے گاؤں جاسکتا ہوں۔ منیر نیازی کو سنیے:
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت کدہ دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
فلم ''شہید'' کے لیے انقلابی ہدایت کار خلیل قیصر نے اسے منتخب کیا۔ موسیقی کے عالم رشید عطرے نے کمپوز کیا اور گلوکارہ نسیم بیگم نے اسے اپنا لحن عطا کیا۔ فلم میں یہ گیت اداکارہ مسرت نذیر پر فلمایا گیا۔ جیسی شاعر کی نظم ویسے ہی اسے فنکار ملے۔ کیا خوب
خیر اس وقت تو حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے منیر نیازی اپنی نظم لیے در آئے۔ باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔ گورنر صاحب طویل قیام کے بعد جاچکے ہیں۔ شکیل بدایونی کے فلمی گیت کے مکھڑے کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں:
وہ تو چلے گئے اے دل
یادوں سے ان کی پیار کر
گورنر سندھ عشرت العباد نے طویل ترین عرصہ گورنری کا گزارا، اس دوران ''اس بستی پر کیا کیا بیتی وہی کھل کر کہہ دیں''۔ وہ نہ بولے تو دیواریں بولیں، ویسے اگر وہ نہ بھی بولے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، جو کچھ کراچی میں ہوتا رہا، دن کے اجالے میں کیا رات کے اندھیرے میں کیا۔ آج اندھیرے اجالے بول رہے ہیں۔
کون آیا کون گیا
کون گیا کون آیا
کس نے کیا کہا، کیا کیا، کس سے کہا یا کن سے کہا۔ سب ''کچاچٹھا '' بولا جا رہا ہے۔ پاکستان کے امیر کبیر لوگوں کا کیا ہے، کچھ بھی نہیں! وہ تو اپنی دنیا میں مست ہیں، دیکھنے، سننے، سنانے کو ہم غریب لوگ ہی ہیں جو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور کڑھتے ہیں۔ وہ گھر جن کے بڑوں نے پاکستان بنایا تھا اور وہ یہ کام کرکے منوں مٹی تلے جا سوئے انھی گھروں میں رہ جانے والے لوگ یہ سارے غم انھی کے ہیں، سارے دکھ انھی کے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو رات کو رات کہہ چکے اب رات کو صبح کیسے کہہ دیں وہ نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو امیر کبیر لوگوں کا کام ہے بلکہ کارنامہ ہے کہ وہ اندھیری رات کو بھی صبح کہہ دیتے ہیں کیونکہ وہ اس اندھیری رات کا حصہ ہوتے ہیں۔
گورنر سندھ عشرت العباد چلے گئے۔ انھیں جانے کی بہت جلدی تھی۔ ادھر انھیں سبکدوشی کا پیغام ملا، ادھر انھوں نے دبئی کا ہوائی ٹکٹ لیا اور اڑ کر دبئی پہنچ گئے۔ بالکل اسی طرح جیسے انھیں 14 سال پہلے اشارہ ملا تھا ''جاؤ اور گورنری سنبھالو'' اور ہمارے احکامات کا انتظار کرو۔ گورنر عشرت العباد کو احکامات ملتے رہے اور وہ انھیں بجا لاتے رہے۔
گورنر صاحب نے انسانی خدمت کے کام خوب کیے، بحری قذاقوں کے ہاتھوں یرغمال پاکستانیوں بلکہ ہندوستانیوں کو بھی آزاد کرایا اور یرغمالی کے گھر والوں کی دعائیں سمیٹیں، بچوں کا پیار لیا، اچھا کیا، بہت اچھا کیا۔ سارے پاکستان میں گورنر صاحب کے نام کے ڈنکے بجے، لوگ واہ واہ کرتے ہوئے ان کے ایسے کارناموں پر جھوم جھوم گئے۔
''اس شہر خرابی میں'' ایسے بھی گھر ہیں ایک دو نہیں سیکڑوں ہیں، جن میں آج بھی بقول جالب:
کس طرح گزرتے ہیں یہ دن رات نہ پوچھو
آہوں کے سہارے، کبھی اشکوں کے سہارے
اسی شہر ناپرساں میں ہزاروں گھر روئے اور رو رہے ہیں، مگر بلدیہ کی فیکٹری والے سانحے میں وحشی سفاک ، میں درندے لکھنے لگا تھا مگر رک گیا کہ درندے بھی ان جیسے نہیں ہوتے۔ ان لوگوں نے بھتہ مانگا اور انکار پر بولے ''تم کو انکار کی جرأت ہوئی تو کیوں کر، سایہ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے'' اور یہ کہتے ہوئے فیکٹری کو آگ لگا کر باہر نکلنے والے آہنی گیٹوں پر تالے ڈال دیے، غریب بستیوں، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن کے تین سو مزدور، محنت کش جوان بوڑھے، عورتیں، لڑکیاں، فیکٹری کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہوگئے، کیسی کیسی شہزادی بچیاں، شہزادے بچے سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے جل گئے۔
آنکھیں بھی جل گئیں۔ دو کروڑ کی آبادی والے شہر میں مسجدوں کے مینار دیکھتے ہی رہ گئے، منصفوں کی پرشکوہ عمارتیں بھی، وہ ''جن پہ تکیہ تھا'' وہ اسمبلیاں بھی، قلم دوات بھی، سب پھٹے پھٹے دیدوں سے دیکھتے ہی رہے، دیکھتے ہی رہ گئے۔ بس ایک گورنر ہاؤس تھا جہاں بلدیہ فیکٹری پر ''کچھ'' ہو رہا تھا۔ جاتے جاتے گورنر عشرت العباد بتا کر گئے ہیں کہ ''بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کے لیے جو فنڈ جمع کیا تھا، وہ سب بھی ''وہ لوگ'' کھا گئے اور متاثرین کو ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔''
اس شہر کے لیے یہ آنکھیں اتنا روئی ہیں کہ اب تو آنکھوں میں رونے کے لیے آنسو بھی نہیں رہے۔ سو اب تو بغیر آنسو اہل دل روتے ہیں۔
بلدیہ فیکٹری کے معاملات گورنر ہاؤس میں سوچے گئے۔ یہ بات گورنر عشرت العباد صاحب نے خود سب کو بتائی ہے۔
یوں ہی میرے دل میں خیال آیا ہے۔ ایک لوئر مڈل کلاس کا نوجوان ہاتھ میں گٹار لیے گاتا پھرتا تھا۔ اس کی آواز بھی اچھی تھی شاید اس کو بری نظر کھاگئی اور وہ نوجوان سیاست میں آگیا۔ یہ ''سیاست'' سیکڑوں باصلاحیت نوجوان کھا گئی۔ کاش یہ نوجوان ہاتھ میں گٹار لیے گاتا رہتا، لوگوں کا پیارا رہتا، راج دلارا رہتا، مگر سیاست نے اس کے ہاتھ سے پیار کا ہتھیار گٹار لے لیا اور پھر وہ سیاست میں غرق ہوتا چلا گیا۔ اب اس کی زندگی اس کی نہیں تھی، اس کے دن رات اس کے نہیں تھے، اب وہ ایک روبوٹ تھا، اسے جدھر موڑ دیا مڑ گیا، جو چاہا اس روبوٹ سے کروالیا۔
گورنر عشرت العباد نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے لیے بہت کچھ کیا، اس کے اسٹیج پر گٹار گلے میں ڈال کر گانے بھی گائے۔ عشرت گا رہا تھا، اب اس کی گائیکی میں پختگی آچکی تھی، اس کے بالوں میں سفیدی کی طرح۔ عشرت کے کئی والیم آچکے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں گھومتا پھرتا ہے۔ عشرت اسٹیج پر گا رہا تھا اور میں خیالوں کی دنیا سجائے اسے سن رہا تھا۔ ''میں یوں خیالوں کی دنیا بساتا رہا'' ادھر اسٹیج پر گلوکار عشرت گانا ختم کرچکا تھا۔ ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔
بہت سے لوگ کھڑے ہوکر تالیاں بجا رہے تھے اور اسٹیج سیکریٹری کہہ رہا تھا ''یہ تھے گورنر سندھ عشرت العباد جو اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے'' اور میں خیالوں کی دنیا سے باہر آگیا۔ میں نے خود کلامی کی ''یہ تو گورنر صاحب تھے، گلوکار عشرت نہیں۔'' بڑے دکھ ہیں، پتا نہیں کتنے نوجوان کچھ اور بننا چاہتے تھے، کچھ اور بنا دیے گئے۔ قارئین! اس لمحے مجھے اپنا پیارا پڑوسی بہت پیارا شاعر منیر نیازی یاد آگیا ہے۔ میں میانی پٹھاناں گاؤں کا اور منیر نیازی ساتھ والے گاؤں خان پور کا۔ آج یہ دونوں گاؤں دور بہت دور سرحد کے اس پار پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں رہ گئے ہیں۔ اگر ''دنیا کی عنایت'' ہو تو میں واہگہ سے دو گھنٹے میں اپنے گاؤں جاسکتا ہوں۔ منیر نیازی کو سنیے:
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت کدہ دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
فلم ''شہید'' کے لیے انقلابی ہدایت کار خلیل قیصر نے اسے منتخب کیا۔ موسیقی کے عالم رشید عطرے نے کمپوز کیا اور گلوکارہ نسیم بیگم نے اسے اپنا لحن عطا کیا۔ فلم میں یہ گیت اداکارہ مسرت نذیر پر فلمایا گیا۔ جیسی شاعر کی نظم ویسے ہی اسے فنکار ملے۔ کیا خوب
خیر اس وقت تو حالات و واقعات بیان کرتے ہوئے منیر نیازی اپنی نظم لیے در آئے۔ باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔ گورنر صاحب طویل قیام کے بعد جاچکے ہیں۔ شکیل بدایونی کے فلمی گیت کے مکھڑے کے ساتھ رخصت چاہتا ہوں:
وہ تو چلے گئے اے دل
یادوں سے ان کی پیار کر