حسن ناصر کی شہادت
حسن ناصر برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار محسن الملک کے نواسے تھے
13 نومبر 1960 کو جنرل ایوب خان کی آمریت میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے عظیم رہنما کامریڈ حسن ناصر کو لاہور کے بدنام زمانہ شاہی قلعے میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کردیاگیا تھا۔ حسن ناصر برصغیر کے سب سے بڑے جاگیردار محسن الملک کے نواسے تھے، ان کی شہادت کے بعد ان کی والدہ زہرہ علمبردار حسین کہتی ہیں کہ ''ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہوتا ہے ورنہ وہ انسان نہیں، بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے، میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی، کئی سال سے جی کڑا کیے رکھا، بالآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا۔ میری بات چھوڑیے البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پائی''۔
فیض احمد فیض کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے، حسن ناصر کی شہادت کے بعد لکھتے ہیں ''دو تین برس اور گزر گئے، ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مارشل لا نافذ ہوا، ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھردیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعہ کے وحشت ناک زنداں کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی، ہمیں نکلے ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایاکہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا، جو دو دن پہلے فوت ہوگیا ہے، اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا''۔ اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس درد ناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے، اس کی تفصیل ان کی کتاب ''حسن ناصر کی شہادت'' میں موجود ہے۔
اسحاق کی سیاسی زندگی کا حال سب جانتے ہیں۔ مزدور کسان مسائل میں اور لوگوں نے بھی حصہ لیا لیکن جس خلوص، ثابت قدمی، ایثار اور جان نثاری سے اسحاق نے سب سکھ آرام تج کر اور درویشی کا چولا اوڑھ کر اس مظلوم طبقے میں اپنی ذات کو جذب کیا اس سے پابلو نرودا کے الفاظ یاد آتے ہیں۔ ''میں تمہاری جھونپڑی کی خاک میں مل کر خاک ہوگیا ہوں۔ میں تمہاری سیاہ باجرے کی روٹی کا ایک نوالہ اور تمہارے چاک چاک کرتے کی ایک دھجی بن گیا ہوں''۔حسن ناصر کی شہادت کے بعد انقلابی دانشور ڈاکٹر ایوب مرزا کہتے ہیں کہ ''دیوار پر صاف تحریر تھا کہ حسن ناصر راہ حق میں شہید ہوچکا ہے، اس کے بعد اسحاق نے جس ہمت اور جرأت سے حسن ناصر کیس کھڑا کیا اور لڑا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ خیبر سے کیماڑی تک اور ڈھاکا سے چٹاگانگ تک اس کی بازگشت ہمیشہ سنی جائے گی۔
حسن ناصر اور اسحاق کا نام جدوجہد کی تاریخ میں ایک ساتھ آئیگا۔ دادا امیر حیدر کا کہنا ہے کہ اسحاق نے اس کیس میں جس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال پاکستان میں نہیں ملتی، وہ نڈر آدمی تھا، نظریاتی تھا اور یہ ایوب خان کے مارشل لا کی سختی کا زمانہ تھا، دہشت کا ہر ذہن پر غلبہ تھا، یار و اغیار سب سہمے ہوئے تھے۔ دادا جب بھی اسحاق کی جرأت اور قربانی کا ذکر کرتے ان کی بوڑھی آنکھوں میں جوش اور ولولے کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔ اسحاق سے جب بھی ان کی اس بہادری کا تذکرہ ہوا مسکرا کر بولے، ڈاکٹر صاحب یہ کیا بہادری ہے اپنوں کی خبر گیری اپنے ہی تو کرتے ہیں، دشمن تو وہ کرتے ہیں جو حسن ناصر کے ساتھ ہوا۔ اسحاق صاحب ایک بڑے تمغے کے جائز مستحق ہیں''۔
حسن ناصر 1948 میں 20 برس کی عمر میں آندھرا پردیش (حیدرآباد دکن) سے کراچی آکر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے۔ اس وقت لائٹ ہاؤس کے نزدیک کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوتا تھا، وہ وہیں صبح سویرے دفتر کھولتے اور جھاڑو لگاتے تھے۔ انھوں نے اپنے خاندانی جاگیردار طبقے سے ناتا توڑ کر مزدور طبقے سے ناتا جوڑ لیا تھا اسی لیے کبھی لانڈھی کورنگی اور کبھی سائٹ کی صنعتی بستیوں میں ٹھکانہ کرلیا تھا۔ لانڈھی ماچس فیکٹری، گنیش کھوپرا مل لیاری، ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے مزدور یونینوں سے مستقل رابطے میں رہتے تھے۔
وہ اکثر لنڈے کا چار چار آنے کا کوٹ پینٹ پہنا کرتے تھے۔ تھے تو وہ حیدرآباد دکن کے، مگر دیکھنے میں پٹھان لگتے تھے۔ 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو وہ گرفتار ہوکر کراچی سینٹرل جیل میں قید ہوگئے، وہاں قیدیوں میں ایسی یکجہتی اور بھائی چارگی پیدا کی کہ ایک معمولی سے مسئلے پر جیل کے قیدیوں نے ان کے کہنے پر ہڑتال کردی اور ان کے مطالبات بھی مانے گئے۔ 1954 میں ہی عام انتخابات میں جوکوفرنٹ یعنی متحدہ محاذ نے سابق مشرقی پاکستان میں تمام نشستیں جیت لیں اور اس محاذ میں 80 فیصد نشستیں کمیونسٹوں کے پاس تھیں۔ مسلم لیگ کو صرف 19 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمران طبقات خاص کر نوکر شاہی کے کان کھڑے ہوگئے اور اسکندر مرزا نے اقتدار سنبھال کر تمام جمہوری اداروں اور منتخب اراکین کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کی ابتدا 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی شروع ہوچکی تھی۔
کوریا میں ایک جانب دنیا بھر کے کمیونسٹ گوریلا امریکی پٹھو کورین حکمران کے خلاف لڑ رہے تھے، اسی دوران پاکستانی نوکر شاہی نے امریکی خواہشات کے مطابق لیاقت علی خان کو پاکستانی فوج کو کوریا بھیجنے کو کہا تو لیاقت علی خان نے منع کردیا، اس کے علاوہ برٹش کمپنی کو امریکا نے امریکی کمپنی کو منتقل کرنے کے لیے لیاقت علی خان کو تجویز دی اور انھوں نے اس تجویز کو بھی ٹھکرادیا اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی لیاقت علی خان قتل کردیے گئے۔ وہ اس وقت وزیراعظم تھے۔ 1958 میں امریکی آشیرباد سے جنرل محمد ایوب خان فیلڈ مارشل اور صدر بن گئے۔
1960 میں حسن ناصر کو گرفتار کر کے لاہور شاہی قلعہ میں منتقل کردیا گیا اور وہیں جسمانی اذیت دے کر انھیں شہید کردیا گیا۔ اسی 13 نومبر کے حوالے سے کراچی آرٹس کونسل میں کمیونسٹ دانشور سید سبھا حسن کی یاد میں صبح 10 بجے سے سارا دن ان کی زندگی اور جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی۔ یہ بھی حسن ناصر کے ساتھیوں میں سے تھے۔ واضح رہے کہ سبھا حسن درجنوں کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
ایوبی آمریت نے امریکی آشیرباد میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگاکر سمجھا تھا کہ اب کمیونسٹ تحریک ختم ہو جائے گی مگر یہ ان کی بھول ثابت ہوئی۔ اب امریکا اور برطانیہ خود سوشلسٹ، کمیونسٹ اور انارکسٹ تحریک سے گھبراہٹ کا شکار ہے۔ آج برنی سینڈرز اور جیری کورلون انھیں للکار رہے ہیں۔ آج پاکستان میں ساری سامراج نواز بورژوا پارٹیاں آپس میں ہی گتھم گتھا ہورہی ہیں، مگر مزدور طبقہ ان تمام نورا کشتیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی طبقاتی اور انقلابی لڑائیوں میں مشغول ہے۔ پنجاب کسان اتحاد، انجمن مزارعین پنجاب کی لڑائیوں میں پاکستان عوامی ورکرز پارٹی، سوشلسٹ موومنٹ اور انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز پیش پیش نظر آتی ہیں۔
گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوروں کی شہادت پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے تحت ناصر منصور کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے اور ریلی نکالی گئی، ادھر اندرون سندھ و خاص کر حیدرآباد میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اکثر مزدوروں اور ہاریوں کے مسائل پر جدوجہد میں برسرپیکار ہے۔ معروف کمیونسٹ رہنما اور فلسفے کے استاد اور مصنف ڈاکٹر ظفر عارف ایم کیو ایم کے کنوینر بنتے ہی گرفتار کر لیے گئے، ان کے ساتھ این ایس ایف کے سابق مرکزی صدر مومن خان مومن ایڈووکیٹ کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ایم کیو ایم میں آگے جاکر سوشلسٹ رجحانات کو بڑھائیں گے یا اپنے کسی مفادات کی تکمیل کریں گے۔ بہرحال کہیں بھی حکمرانوں اور نوکر شاہی کو ذرا سا بھی کمیونزم کی سن گن ملتی ہے تو فوراً اسے دھر لیا جاتا ہے۔ا
فیض احمد فیض کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے، حسن ناصر کی شہادت کے بعد لکھتے ہیں ''دو تین برس اور گزر گئے، ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مارشل لا نافذ ہوا، ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھردیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعہ کے وحشت ناک زنداں کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی، ہمیں نکلے ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایاکہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا، جو دو دن پہلے فوت ہوگیا ہے، اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا''۔ اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس درد ناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے، اس کی تفصیل ان کی کتاب ''حسن ناصر کی شہادت'' میں موجود ہے۔
اسحاق کی سیاسی زندگی کا حال سب جانتے ہیں۔ مزدور کسان مسائل میں اور لوگوں نے بھی حصہ لیا لیکن جس خلوص، ثابت قدمی، ایثار اور جان نثاری سے اسحاق نے سب سکھ آرام تج کر اور درویشی کا چولا اوڑھ کر اس مظلوم طبقے میں اپنی ذات کو جذب کیا اس سے پابلو نرودا کے الفاظ یاد آتے ہیں۔ ''میں تمہاری جھونپڑی کی خاک میں مل کر خاک ہوگیا ہوں۔ میں تمہاری سیاہ باجرے کی روٹی کا ایک نوالہ اور تمہارے چاک چاک کرتے کی ایک دھجی بن گیا ہوں''۔حسن ناصر کی شہادت کے بعد انقلابی دانشور ڈاکٹر ایوب مرزا کہتے ہیں کہ ''دیوار پر صاف تحریر تھا کہ حسن ناصر راہ حق میں شہید ہوچکا ہے، اس کے بعد اسحاق نے جس ہمت اور جرأت سے حسن ناصر کیس کھڑا کیا اور لڑا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ خیبر سے کیماڑی تک اور ڈھاکا سے چٹاگانگ تک اس کی بازگشت ہمیشہ سنی جائے گی۔
حسن ناصر اور اسحاق کا نام جدوجہد کی تاریخ میں ایک ساتھ آئیگا۔ دادا امیر حیدر کا کہنا ہے کہ اسحاق نے اس کیس میں جس جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کی مثال پاکستان میں نہیں ملتی، وہ نڈر آدمی تھا، نظریاتی تھا اور یہ ایوب خان کے مارشل لا کی سختی کا زمانہ تھا، دہشت کا ہر ذہن پر غلبہ تھا، یار و اغیار سب سہمے ہوئے تھے۔ دادا جب بھی اسحاق کی جرأت اور قربانی کا ذکر کرتے ان کی بوڑھی آنکھوں میں جوش اور ولولے کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا۔ اسحاق سے جب بھی ان کی اس بہادری کا تذکرہ ہوا مسکرا کر بولے، ڈاکٹر صاحب یہ کیا بہادری ہے اپنوں کی خبر گیری اپنے ہی تو کرتے ہیں، دشمن تو وہ کرتے ہیں جو حسن ناصر کے ساتھ ہوا۔ اسحاق صاحب ایک بڑے تمغے کے جائز مستحق ہیں''۔
حسن ناصر 1948 میں 20 برس کی عمر میں آندھرا پردیش (حیدرآباد دکن) سے کراچی آکر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے۔ اس وقت لائٹ ہاؤس کے نزدیک کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہوتا تھا، وہ وہیں صبح سویرے دفتر کھولتے اور جھاڑو لگاتے تھے۔ انھوں نے اپنے خاندانی جاگیردار طبقے سے ناتا توڑ کر مزدور طبقے سے ناتا جوڑ لیا تھا اسی لیے کبھی لانڈھی کورنگی اور کبھی سائٹ کی صنعتی بستیوں میں ٹھکانہ کرلیا تھا۔ لانڈھی ماچس فیکٹری، گنیش کھوپرا مل لیاری، ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے مزدور یونینوں سے مستقل رابطے میں رہتے تھے۔
وہ اکثر لنڈے کا چار چار آنے کا کوٹ پینٹ پہنا کرتے تھے۔ تھے تو وہ حیدرآباد دکن کے، مگر دیکھنے میں پٹھان لگتے تھے۔ 1954 میں جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی تو وہ گرفتار ہوکر کراچی سینٹرل جیل میں قید ہوگئے، وہاں قیدیوں میں ایسی یکجہتی اور بھائی چارگی پیدا کی کہ ایک معمولی سے مسئلے پر جیل کے قیدیوں نے ان کے کہنے پر ہڑتال کردی اور ان کے مطالبات بھی مانے گئے۔ 1954 میں ہی عام انتخابات میں جوکوفرنٹ یعنی متحدہ محاذ نے سابق مشرقی پاکستان میں تمام نشستیں جیت لیں اور اس محاذ میں 80 فیصد نشستیں کمیونسٹوں کے پاس تھیں۔ مسلم لیگ کو صرف 19 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمران طبقات خاص کر نوکر شاہی کے کان کھڑے ہوگئے اور اسکندر مرزا نے اقتدار سنبھال کر تمام جمہوری اداروں اور منتخب اراکین کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کی ابتدا 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی شروع ہوچکی تھی۔
کوریا میں ایک جانب دنیا بھر کے کمیونسٹ گوریلا امریکی پٹھو کورین حکمران کے خلاف لڑ رہے تھے، اسی دوران پاکستانی نوکر شاہی نے امریکی خواہشات کے مطابق لیاقت علی خان کو پاکستانی فوج کو کوریا بھیجنے کو کہا تو لیاقت علی خان نے منع کردیا، اس کے علاوہ برٹش کمپنی کو امریکا نے امریکی کمپنی کو منتقل کرنے کے لیے لیاقت علی خان کو تجویز دی اور انھوں نے اس تجویز کو بھی ٹھکرادیا اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی لیاقت علی خان قتل کردیے گئے۔ وہ اس وقت وزیراعظم تھے۔ 1958 میں امریکی آشیرباد سے جنرل محمد ایوب خان فیلڈ مارشل اور صدر بن گئے۔
1960 میں حسن ناصر کو گرفتار کر کے لاہور شاہی قلعہ میں منتقل کردیا گیا اور وہیں جسمانی اذیت دے کر انھیں شہید کردیا گیا۔ اسی 13 نومبر کے حوالے سے کراچی آرٹس کونسل میں کمیونسٹ دانشور سید سبھا حسن کی یاد میں صبح 10 بجے سے سارا دن ان کی زندگی اور جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی۔ یہ بھی حسن ناصر کے ساتھیوں میں سے تھے۔ واضح رہے کہ سبھا حسن درجنوں کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
ایوبی آمریت نے امریکی آشیرباد میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگاکر سمجھا تھا کہ اب کمیونسٹ تحریک ختم ہو جائے گی مگر یہ ان کی بھول ثابت ہوئی۔ اب امریکا اور برطانیہ خود سوشلسٹ، کمیونسٹ اور انارکسٹ تحریک سے گھبراہٹ کا شکار ہے۔ آج برنی سینڈرز اور جیری کورلون انھیں للکار رہے ہیں۔ آج پاکستان میں ساری سامراج نواز بورژوا پارٹیاں آپس میں ہی گتھم گتھا ہورہی ہیں، مگر مزدور طبقہ ان تمام نورا کشتیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی طبقاتی اور انقلابی لڑائیوں میں مشغول ہے۔ پنجاب کسان اتحاد، انجمن مزارعین پنجاب کی لڑائیوں میں پاکستان عوامی ورکرز پارٹی، سوشلسٹ موومنٹ اور انٹرنیشنل یوتھ اینڈ ورکرز پیش پیش نظر آتی ہیں۔
گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوروں کی شہادت پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے تحت ناصر منصور کی قیادت میں احتجاجی مظاہرے اور ریلی نکالی گئی، ادھر اندرون سندھ و خاص کر حیدرآباد میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اکثر مزدوروں اور ہاریوں کے مسائل پر جدوجہد میں برسرپیکار ہے۔ معروف کمیونسٹ رہنما اور فلسفے کے استاد اور مصنف ڈاکٹر ظفر عارف ایم کیو ایم کے کنوینر بنتے ہی گرفتار کر لیے گئے، ان کے ساتھ این ایس ایف کے سابق مرکزی صدر مومن خان مومن ایڈووکیٹ کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ایم کیو ایم میں آگے جاکر سوشلسٹ رجحانات کو بڑھائیں گے یا اپنے کسی مفادات کی تکمیل کریں گے۔ بہرحال کہیں بھی حکمرانوں اور نوکر شاہی کو ذرا سا بھی کمیونزم کی سن گن ملتی ہے تو فوراً اسے دھر لیا جاتا ہے۔ا