مخالفین نے حکم رانوں پر تنقید کے تیر برسا دیے
متحدہ قومی موومنٹ کو سندھیوں کے ساتھ چلنا ہے اور سندھیوں کو متحدہ کے ساتھ چلنا ہے۔
مسلم لیگ فنکشنل کا حیدرآباد میں ہونے والا جلسہ تاریخی ثابت ہوا، جس میں حکومت مخالف تمام جماعتوں کے قایدین نے شرکت کی۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیر صاحب پگارا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نئے بیراج کی نہیں بلکہ ڈیم کی ضرورت ہے، لیکن ڈیم، کالاباغ پر نہیں، کہیں آگے بنایا گیا تو ہم اس کی تعمیر میں بہ حیثیت مزدور بھی کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پی پی پی کے ساتھ چلتے رہے، لیکن جب محسوس کیا کہ اس اتحاد کے باعث سندھ خطر ے میں پڑھ گیا ہے تو الگ ہو گئے، بلدیاتی نظام سمیت کسی بھی معاملے میں ہم سے مشاورت نہیںکی گئی۔
ہماری جانب سے تحفظات کے اظہار کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ چند افراد کا فیصلہ پورے سندھ پر مسلط کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کا نام فنکشنل لیگ سے جوڑا جاتا ہے کہ ہم اس کے حامی ہیں، لیکن یہ کہنے والے اس کا ثبوت تو پیش کریں۔ انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی، لیکن فوری طور پر استعفے منظور کرنے کے بجائے اس میں کافی تاخیر کی گئی اور اب ہمارے اپوزیشن لیڈر کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے علم میں آیا ہے کہ تھوڑے دن بعد متحدہ قومی موومنٹ کو اپوزیشن میں بٹھایا جائے گا اور ان کی مرضی سے نگراں حکومت بنا کر انتخابات میں دھاندلی کی جائے گی۔
کنڈیارو کے ضمنی الیکشن میں حکومتی دھاندلی سب کے سامنے ہے۔ ایم کیوایم کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ اس دہرے بلدیاتی نظام سے پورے سندھ کے عوام بے زار ہیں اور عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر دھاندلی کی گئی تو نفرتوںکا طوفان بڑھتا چلا جائے گا، ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ حکومت کے کھیل کا حصہ نہ بنے۔ انھوں نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک میں خوش حالی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے نتیجے میں آج سندھ تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو سندھیوں کے ساتھ چلنا ہے اور سندھیوں کو متحدہ کے ساتھ چلنا ہے، جو سندھ میں رہتا ہے وہ سندھی ہے اور ہم آپ کو بھی سندھی سمجھتے ہیں، پنجاب سے لوگ یہاں آ کر بس گئے ہیں، لیکن ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، غریب آدمی کو صرف عزت اور انصاف چاہیے۔ انگریزوں نے بھی ہمیں غدار کا لقب دیا اور اگر آج پیپلز پارٹی والے بھی یہی کہہ رہے ہیں تو ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب سندھ بچاؤ کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تو ہمارے متعلق کہا گیا کہ ہم اس کمیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے، لیکن ہمارا اجلاس صرف ایک نکاتی تھا۔ ہم نے صرف سندھ دشمن بلدیاتی نظام کے نکتے پر بات کی اور اس اجلاس میں نہ تو الیکشن پر بات ہوئی اور نہ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات کی گئی۔
جلسے میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفٰی کھر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر پگارا بہادر، نیک ہیں اور پاکستان و سندھ کے وفادار ہیں۔ اس وقت ملک بچانے کے لیے پیر پگارا جیسی شخصیت کی ضرورت ہے اور اگر اس مرتبہ بھی قوم نے عقل وسوچ کے ساتھ صحیح فیصلہ نہیں کیا تو پھر شاید موجودہ پاکستان کی شکل میں ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں ملے گا۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی اور فنکشنل لیگ سندھ کے صدر پیر سید صدرالدین شاہ راشدی کا کہنا تھا کہ ہمیں سب سے پہلے دو نمبر لیڈر شپ سے نجات حاصل کرنا ہو گی، جس کے بعد ہی پاکستان مضبوط ہوگا۔
سندھ بچاؤ کمیٹی کے کنوینر اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید جلال محمود شاہ، سندھ پروگریسیو نیشلسٹ الائنس کے کنوینر اور عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا تھا کہ فنکشنل لیگ کا جلسہ سندھ دشمنوں کے منہ پر تمانچا اور بلدیاتی نظام کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ثابت ہوا ہے، ہماری محبت سندھ کے ساتھ ہے، پیر پگارا سندھ کے ساتھ ہیں تو ہم بھی پیرپگارا کے ساتھ ہیں، سندھ کوئی کارڈ نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو پاکستان کا ایک حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک ہے، جہاں ہم عزت، برابری اور وقار کی بنیاد پر رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر اسے چلانے کے لیے کوئی غیر فطری طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ بہتر نہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی بغاوت کا نعرہ بلند نہیں کیا بلکہ ہم اپنا حق چاہتے ہیں، سندھ سے محبت ورثے میں ملی ہے اور سندھ کے تاریخی وجود کو بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ بلدیاتی نظام کی صورت میں ملنے والی نفرت کو سنبھال کر رکھیں اور پیپلز پارٹی نے انھیں جو تکالیف دی ہیں، ان کا جواب عام انتخابات میں ووٹ کی صورت میں دیں۔
پیپلز پارٹی کے ناراض رکن قومی اسمبلی ظفر علی خان نے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دہرا بلدیاتی نظام نافذ کر کے سندھ کے خلاف سازش کی گئی۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فنکشنل لیگ پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود، سندھ کے جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب عبداﷲ حسین ہارون نے کہا کہ اس وقت پیر صاحب پگارا پر ملک اور قوم کو مشکل حالات سے باہر نکالنے کی ذمے داری ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر خالد محمود سومرو اور جماعت اسلامی سندھ کے سابق امیر اسد اﷲ بھٹوکا کہنا تھا کہ پیر پگارا ایک جدوجہد اور باطل سے ٹکرانے کا نام ہے اور ہم ان کی قیادت میں حق و سچ کا پرچم بلند کر کے بدمعاشوں کو بھگائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) سندھ کے سیکریٹری جنرل سلیم ضیاء، فنکشنل لیگ کی راہ نما نصرت سحر عباسی، سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ سندھ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش کا مقابلہ کیا جائے گا اور جن لوگوں نے اس نظام کو منظور کرایا امید ہے کہ انھیں بھی جلد اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا، جسقم کے چیئرمین صنعان قریشی اور جیے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو کا کہنا تھا کہ سندھ میں انقلاب اور ولولہ پیدا ہوگیا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سندھ کے وارث موجود ہیں۔
دوسری جانب اندرون سندھ کئی شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے بعد شہریوں نے احتجاج کیا۔ اہل حیدرآباد کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں پھلیلی پریٹ آباد، کینٹ، ہیر آباد، شاہی بازار، سٹی کالج روڈ، ڈومنوا روڈ، تلک چاڑی، گڈس ناکا، کھوکھر محلہ، قاضی عبدالقیوم روڈ، گاڑی کھاتہ اور دیگر مقامات سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، جن میں خواتین اور بزرگ افراد کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، ریلی کے شرکاء حیدر چوک پر جمع ہوئے، جہاں انھوں نے احتجاجاً دھرنا دیا، مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور الطاف حسین کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دھرنا دو گھنٹے تک جاری رہا، جس کے بعد مظاہرین پُر امن طور پر منتشر ہو گئے۔ لطیف آباد میں بھی شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
ادھر حیدرآباد کا رخ کرنے والے جمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکریٹری اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے متحدہ کے قائد الطاف حسین کو مشورہ دیا کہ وہ بھی دوسرے لیڈروں کی طرح سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، کسی بھی قسم کا احتجاج ان کے حق میں نہیں جائے گا۔ مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ عدالتیں آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں، عدالتی فیصلے کسی کو پسند اور کسی کو ناپسند ہوتے ہیں، ان پر آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کی جا سکتی ہے، ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں حکومت میں شامل سیاسی جماعت ہے، میرا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو مشورہ ہے کہ وہ بھی دوسرے لیڈروں کی طرح عدالت میں پیش ہو کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا سامنا کریں۔ انھوں نے بتایا کہ متحدہ مجلس عمل کو فعال بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں جنوری کے پہلے ہفتے میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پانچ دینی جماعتوں کا اجلاس ہوگا، جس میں ایم ایم اے کی بحالی کے متعلق صلاح و مشورے کیے جائیں گے۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیر صاحب پگارا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو نئے بیراج کی نہیں بلکہ ڈیم کی ضرورت ہے، لیکن ڈیم، کالاباغ پر نہیں، کہیں آگے بنایا گیا تو ہم اس کی تعمیر میں بہ حیثیت مزدور بھی کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پی پی پی کے ساتھ چلتے رہے، لیکن جب محسوس کیا کہ اس اتحاد کے باعث سندھ خطر ے میں پڑھ گیا ہے تو الگ ہو گئے، بلدیاتی نظام سمیت کسی بھی معاملے میں ہم سے مشاورت نہیںکی گئی۔
ہماری جانب سے تحفظات کے اظہار کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ چند افراد کا فیصلہ پورے سندھ پر مسلط کردیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کا نام فنکشنل لیگ سے جوڑا جاتا ہے کہ ہم اس کے حامی ہیں، لیکن یہ کہنے والے اس کا ثبوت تو پیش کریں۔ انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی، لیکن فوری طور پر استعفے منظور کرنے کے بجائے اس میں کافی تاخیر کی گئی اور اب ہمارے اپوزیشن لیڈر کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے علم میں آیا ہے کہ تھوڑے دن بعد متحدہ قومی موومنٹ کو اپوزیشن میں بٹھایا جائے گا اور ان کی مرضی سے نگراں حکومت بنا کر انتخابات میں دھاندلی کی جائے گی۔
کنڈیارو کے ضمنی الیکشن میں حکومتی دھاندلی سب کے سامنے ہے۔ ایم کیوایم کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ اس دہرے بلدیاتی نظام سے پورے سندھ کے عوام بے زار ہیں اور عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر دھاندلی کی گئی تو نفرتوںکا طوفان بڑھتا چلا جائے گا، ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ حکومت کے کھیل کا حصہ نہ بنے۔ انھوں نے کہا کہ کرپشن کی وجہ سے ملک میں خوش حالی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ اس کے نتیجے میں آج سندھ تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو سندھیوں کے ساتھ چلنا ہے اور سندھیوں کو متحدہ کے ساتھ چلنا ہے، جو سندھ میں رہتا ہے وہ سندھی ہے اور ہم آپ کو بھی سندھی سمجھتے ہیں، پنجاب سے لوگ یہاں آ کر بس گئے ہیں، لیکن ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، غریب آدمی کو صرف عزت اور انصاف چاہیے۔ انگریزوں نے بھی ہمیں غدار کا لقب دیا اور اگر آج پیپلز پارٹی والے بھی یہی کہہ رہے ہیں تو ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب سندھ بچاؤ کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا تو ہمارے متعلق کہا گیا کہ ہم اس کمیٹی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے، لیکن ہمارا اجلاس صرف ایک نکاتی تھا۔ ہم نے صرف سندھ دشمن بلدیاتی نظام کے نکتے پر بات کی اور اس اجلاس میں نہ تو الیکشن پر بات ہوئی اور نہ ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات کی گئی۔
جلسے میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفٰی کھر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر پگارا بہادر، نیک ہیں اور پاکستان و سندھ کے وفادار ہیں۔ اس وقت ملک بچانے کے لیے پیر پگارا جیسی شخصیت کی ضرورت ہے اور اگر اس مرتبہ بھی قوم نے عقل وسوچ کے ساتھ صحیح فیصلہ نہیں کیا تو پھر شاید موجودہ پاکستان کی شکل میں ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں ملے گا۔ نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی اور فنکشنل لیگ سندھ کے صدر پیر سید صدرالدین شاہ راشدی کا کہنا تھا کہ ہمیں سب سے پہلے دو نمبر لیڈر شپ سے نجات حاصل کرنا ہو گی، جس کے بعد ہی پاکستان مضبوط ہوگا۔
سندھ بچاؤ کمیٹی کے کنوینر اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید جلال محمود شاہ، سندھ پروگریسیو نیشلسٹ الائنس کے کنوینر اور عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی کا کہنا تھا کہ فنکشنل لیگ کا جلسہ سندھ دشمنوں کے منہ پر تمانچا اور بلدیاتی نظام کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم ثابت ہوا ہے، ہماری محبت سندھ کے ساتھ ہے، پیر پگارا سندھ کے ساتھ ہیں تو ہم بھی پیرپگارا کے ساتھ ہیں، سندھ کوئی کارڈ نہیں بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جو پاکستان کا ایک حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک ہے، جہاں ہم عزت، برابری اور وقار کی بنیاد پر رہنا چاہتے ہیں، لیکن اگر اسے چلانے کے لیے کوئی غیر فطری طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ بہتر نہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی بغاوت کا نعرہ بلند نہیں کیا بلکہ ہم اپنا حق چاہتے ہیں، سندھ سے محبت ورثے میں ملی ہے اور سندھ کے تاریخی وجود کو بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔ انھوں نے عوام سے کہا کہ بلدیاتی نظام کی صورت میں ملنے والی نفرت کو سنبھال کر رکھیں اور پیپلز پارٹی نے انھیں جو تکالیف دی ہیں، ان کا جواب عام انتخابات میں ووٹ کی صورت میں دیں۔
پیپلز پارٹی کے ناراض رکن قومی اسمبلی ظفر علی خان نے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے دہرا بلدیاتی نظام نافذ کر کے سندھ کے خلاف سازش کی گئی۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فنکشنل لیگ پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود، سندھ کے جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ، اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب عبداﷲ حسین ہارون نے کہا کہ اس وقت پیر صاحب پگارا پر ملک اور قوم کو مشکل حالات سے باہر نکالنے کی ذمے داری ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر خالد محمود سومرو اور جماعت اسلامی سندھ کے سابق امیر اسد اﷲ بھٹوکا کہنا تھا کہ پیر پگارا ایک جدوجہد اور باطل سے ٹکرانے کا نام ہے اور ہم ان کی قیادت میں حق و سچ کا پرچم بلند کر کے بدمعاشوں کو بھگائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) سندھ کے سیکریٹری جنرل سلیم ضیاء، فنکشنل لیگ کی راہ نما نصرت سحر عباسی، سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ سندھ کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش کا مقابلہ کیا جائے گا اور جن لوگوں نے اس نظام کو منظور کرایا امید ہے کہ انھیں بھی جلد اپنی غلطی کا احساس ہوجائے گا، جسقم کے چیئرمین صنعان قریشی اور جیے سندھ محاذ کے چیئرمین ریاض چانڈیو کا کہنا تھا کہ سندھ میں انقلاب اور ولولہ پیدا ہوگیا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سندھ کے وارث موجود ہیں۔
دوسری جانب اندرون سندھ کئی شہروں کی طرح حیدرآباد میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خلاف سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونے کے بعد شہریوں نے احتجاج کیا۔ اہل حیدرآباد کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں پھلیلی پریٹ آباد، کینٹ، ہیر آباد، شاہی بازار، سٹی کالج روڈ، ڈومنوا روڈ، تلک چاڑی، گڈس ناکا، کھوکھر محلہ، قاضی عبدالقیوم روڈ، گاڑی کھاتہ اور دیگر مقامات سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، جن میں خواتین اور بزرگ افراد کی بھی بڑی تعداد شامل تھی، ریلی کے شرکاء حیدر چوک پر جمع ہوئے، جہاں انھوں نے احتجاجاً دھرنا دیا، مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور الطاف حسین کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دھرنا دو گھنٹے تک جاری رہا، جس کے بعد مظاہرین پُر امن طور پر منتشر ہو گئے۔ لطیف آباد میں بھی شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
ادھر حیدرآباد کا رخ کرنے والے جمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکریٹری اور سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے متحدہ کے قائد الطاف حسین کو مشورہ دیا کہ وہ بھی دوسرے لیڈروں کی طرح سپریم کورٹ میں پیش ہوں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، کسی بھی قسم کا احتجاج ان کے حق میں نہیں جائے گا۔ مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ عدالتیں آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے فیصلے کرتی ہیں، عدالتی فیصلے کسی کو پسند اور کسی کو ناپسند ہوتے ہیں، ان پر آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کی جا سکتی ہے، ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں حکومت میں شامل سیاسی جماعت ہے، میرا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو مشورہ ہے کہ وہ بھی دوسرے لیڈروں کی طرح عدالت میں پیش ہو کر اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا سامنا کریں۔ انھوں نے بتایا کہ متحدہ مجلس عمل کو فعال بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس سلسلے میں جنوری کے پہلے ہفتے میں مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پانچ دینی جماعتوں کا اجلاس ہوگا، جس میں ایم ایم اے کی بحالی کے متعلق صلاح و مشورے کیے جائیں گے۔