پنجاب اسمبلی کی پانچ سالہ کارکردگی
پانچ برسوں میں پنجاب حکومت نے148مسودات قانون ایوان میں پیش کئے جن میں 118کی ایوان نے منظوری دی۔
پنجاب اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت کی آخری سہ ماہی میں داخل ہوگئی ہے اور 13 دسمبر سے 43 واں اجلاس جاری ہے۔
موجودہ اسمبلی نے قانون سازی کا نیا ریکارڈ بھی قائم کر دیا ہے اور 119بل منظور کرائے گئے ہیں جبکہ مدت مکمل ہونے تک مزید 22بل منظورکرائے جاسکتے ہیں۔ 2002کی اسمبلی میں چوہدری پرویزالہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران پانچ سالہ دور میں83بل منظور کئے گئے تھے ۔ اس سے قبل 1972ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں اس وقت کی پنجاب اسمبلی نے 118بل منظور کروا کر ریکارڈ قائم کیاتھا جسے 40 سال بعد اس اسمبلی نے توڑ دیا ہے۔2012ء میں سب سے زیادہ 48ترمیمی بل منظور کئے گئے۔
ان پونے پانچ سالوں میں حکومت کی طرف سے کل 148مسودات قانون ایوان میں پیش کئے گئے جن میں 118کی ایوان نے منظوری دی۔ 51 پرائیویٹ بل اسمبلی میں پیش کئے گئے جن میں سے مسلم لیگ (ق) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر عامر سلطان چیمہ اور مسلم لیگ(ن) کے رانا اسد اللہ کا ایک ایک بل منظور ہوا مگر گورنر نے عامر سلطان چیمہ کا بل اعتراض لگا کر واپس بھجوادیا اس طرح صرف ایک پرائیویٹ بل ہی نافذ ہوسکا۔ 20مسودات ابھی تک قائمہ کمیٹیوں میں زیر غور ہیں اور 10مسودات قانون واپس لے لئے گئے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے مطابق 1937 سے لیکر اب تک سب سے زیادہ قانون سازی موجودہ اسمبلی نے کی ہے ۔
گورنر پنجاب کے اعتراضات کے بعد 40بلز کو دو باراسمبلی سے منظور کرانا پڑاہے۔ زیادہ قانون ساز ی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے باعث 18 وفاقی وزارتیں صوبوںکے حوالے کر دی گئی ہیں جس سے صوبائی سطح پر زیادہ قانون سازی کرنا پڑی ہے۔ اسی طرح 1972ء میں بھی نئے محکمے اور ادارے بنے تھے جن کیلئے قانون سازی ہوئی تھی۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے اپنے منصب اور فرائض کی ادائیگی کیلئے اسمبلی کو ریکارڈ وقت دیا۔ پونے پانچ سال میں پنجاب اسمبلی کے کل 43 اجلاسوں کے دوران 290دن کی کارروائی ہوئی ہے۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے 43 اجلاسوں کی کارروائی کے دوران 936گھنٹے صدارت کی۔ وہ ہمیشہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلتے ہیں اور انھیں اکاموڈیٹ بھی کرتے ہیں۔ اسپیکر نے ہر سیشن میں تسلسل سے بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس کئے اور ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے ایجنڈا طے کیا۔
اپوزیشن کو بھی ان کی ذات کے حوالے سے کوئی بڑی شکایت نہیں ہوئی۔اس طرح پنجاب اسمبلی میں ریکارڈ قانون سازی کا کریڈٹ یقینا اسپیکر رانا محمداقبال اور وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناء اللہ کو جاتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 12 قائمہ کمیٹیاں غیر فعال رہیں، ایوان سے ان کمیٹیوں کو کوئی بزنس نہیں بھجوایا گیا اور ان12کمیٹیوں میں سے کسی بھی کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوسکا جبکہ پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی نے باقاعدگی کے ساتھ اجلاس کئے اور کمیٹی کے چئیرمین ملک محمد وارث کلو کی دلچسپی کی وجہ سے زیادہ تر تحاریک استحقاق نمٹا دی گئیں۔
2008ء سے 2012ء کے عرصے کے دوران اراکین اسمبلی نے 489تحاریک استحقاق جمع کروائیں ۔ ان میں 229مسترد اور 260 اراکین کی تحاریک استحقاق منظور کی گئیں، 105کارروائی کیلئے کمیٹی کو بھجوائی گئی ہیں اور 155استحقاق کی تحریکیں زیر غورہیں یا نبٹادی گئیں ہیں۔ اراکین کا سب سے زیادہ استحقاق دوسرے پارلیمانی سال میں ہوا اوراراکین نے استحقاق کی 170 تحریکیں داخل کرائیں جن میں زیادہ تر حکومتی ارکان کی طرف سے تھیں۔
پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی ان کے مقابلے میں سابق دور میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کے سر براہوں چوہدری عظیم نوری گھمن اور آصف سعید منہیس نے بڑی دلچسپی سے کام کیا ، بہتر کارکردگی دکھائی اوراس دوران اربوں روپے کی ریکوری بھی ہوئی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ٹو کے چیئرمین سید عبدالقادر گیلانی باقاعدگی سے اجلاس کی صدارت بھی نہیں کر سکے۔ وہ سکیورٹی مسائل اور دیگر مصروفیات کے باعث زیادہ وقت نہیں دے سکے جس کی وجہ سے دیگر ممبران نے اجلاس کو چلایا۔
سید عبدالقادر گیلانی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں جس کے باعث پچھلے پانچ ماہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ٹو کے نئے چیئرمین کا انتخاب نہیں کیا جاسکا اور ایک رپورٹ بھی ایوان میں پیش نہیں کی جاسکی۔ پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے دوران پیپلزپارٹی کا اپوزیشن کا کردار بہت مثالی نہیں رہا۔ پیپلزپارٹی کے ارکان تین سال تک اتحادی حکومت میں رہنے کے بعد اپوزیشن کیلئے تیار نہیں تھے اور ایوان کی کارروائی میں عدم دلچسپی کا شکاررہے ،اکثر اوقات قانون سازی کے وقت اپوزیشن لیڈر غیر حاضر رہے اور دیگر اپوزیشن اراکین نے بھی پوری تیاری کے ساتھ حصہ نہیں لیا ، اس سے حکومت کو قانون سازی کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ مسلم لیگ ق کے اراکین نے قانون سازی میں زیادہ تیاری سے حصہ لیا اور اسمبلی بزنس میںتحاریک التوائے کار،تحریک استحقاق زیادہ جمع کرائیں۔
موجودہ اسمبلی نے قانون سازی کا نیا ریکارڈ بھی قائم کر دیا ہے اور 119بل منظور کرائے گئے ہیں جبکہ مدت مکمل ہونے تک مزید 22بل منظورکرائے جاسکتے ہیں۔ 2002کی اسمبلی میں چوہدری پرویزالہی کی وزارت اعلیٰ کے دوران پانچ سالہ دور میں83بل منظور کئے گئے تھے ۔ اس سے قبل 1972ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں اس وقت کی پنجاب اسمبلی نے 118بل منظور کروا کر ریکارڈ قائم کیاتھا جسے 40 سال بعد اس اسمبلی نے توڑ دیا ہے۔2012ء میں سب سے زیادہ 48ترمیمی بل منظور کئے گئے۔
ان پونے پانچ سالوں میں حکومت کی طرف سے کل 148مسودات قانون ایوان میں پیش کئے گئے جن میں 118کی ایوان نے منظوری دی۔ 51 پرائیویٹ بل اسمبلی میں پیش کئے گئے جن میں سے مسلم لیگ (ق) کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر عامر سلطان چیمہ اور مسلم لیگ(ن) کے رانا اسد اللہ کا ایک ایک بل منظور ہوا مگر گورنر نے عامر سلطان چیمہ کا بل اعتراض لگا کر واپس بھجوادیا اس طرح صرف ایک پرائیویٹ بل ہی نافذ ہوسکا۔ 20مسودات ابھی تک قائمہ کمیٹیوں میں زیر غور ہیں اور 10مسودات قانون واپس لے لئے گئے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے مطابق 1937 سے لیکر اب تک سب سے زیادہ قانون سازی موجودہ اسمبلی نے کی ہے ۔
گورنر پنجاب کے اعتراضات کے بعد 40بلز کو دو باراسمبلی سے منظور کرانا پڑاہے۔ زیادہ قانون ساز ی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے باعث 18 وفاقی وزارتیں صوبوںکے حوالے کر دی گئی ہیں جس سے صوبائی سطح پر زیادہ قانون سازی کرنا پڑی ہے۔ اسی طرح 1972ء میں بھی نئے محکمے اور ادارے بنے تھے جن کیلئے قانون سازی ہوئی تھی۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے اپنے منصب اور فرائض کی ادائیگی کیلئے اسمبلی کو ریکارڈ وقت دیا۔ پونے پانچ سال میں پنجاب اسمبلی کے کل 43 اجلاسوں کے دوران 290دن کی کارروائی ہوئی ہے۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے 43 اجلاسوں کی کارروائی کے دوران 936گھنٹے صدارت کی۔ وہ ہمیشہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلتے ہیں اور انھیں اکاموڈیٹ بھی کرتے ہیں۔ اسپیکر نے ہر سیشن میں تسلسل سے بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس کئے اور ہمیشہ حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے ایجنڈا طے کیا۔
اپوزیشن کو بھی ان کی ذات کے حوالے سے کوئی بڑی شکایت نہیں ہوئی۔اس طرح پنجاب اسمبلی میں ریکارڈ قانون سازی کا کریڈٹ یقینا اسپیکر رانا محمداقبال اور وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناء اللہ کو جاتا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی 12 قائمہ کمیٹیاں غیر فعال رہیں، ایوان سے ان کمیٹیوں کو کوئی بزنس نہیں بھجوایا گیا اور ان12کمیٹیوں میں سے کسی بھی کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوسکا جبکہ پنجاب اسمبلی کی استحقاق کمیٹی نے باقاعدگی کے ساتھ اجلاس کئے اور کمیٹی کے چئیرمین ملک محمد وارث کلو کی دلچسپی کی وجہ سے زیادہ تر تحاریک استحقاق نمٹا دی گئیں۔
2008ء سے 2012ء کے عرصے کے دوران اراکین اسمبلی نے 489تحاریک استحقاق جمع کروائیں ۔ ان میں 229مسترد اور 260 اراکین کی تحاریک استحقاق منظور کی گئیں، 105کارروائی کیلئے کمیٹی کو بھجوائی گئی ہیں اور 155استحقاق کی تحریکیں زیر غورہیں یا نبٹادی گئیں ہیں۔ اراکین کا سب سے زیادہ استحقاق دوسرے پارلیمانی سال میں ہوا اوراراکین نے استحقاق کی 170 تحریکیں داخل کرائیں جن میں زیادہ تر حکومتی ارکان کی طرف سے تھیں۔
پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی ان کے مقابلے میں سابق دور میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کے سر براہوں چوہدری عظیم نوری گھمن اور آصف سعید منہیس نے بڑی دلچسپی سے کام کیا ، بہتر کارکردگی دکھائی اوراس دوران اربوں روپے کی ریکوری بھی ہوئی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ٹو کے چیئرمین سید عبدالقادر گیلانی باقاعدگی سے اجلاس کی صدارت بھی نہیں کر سکے۔ وہ سکیورٹی مسائل اور دیگر مصروفیات کے باعث زیادہ وقت نہیں دے سکے جس کی وجہ سے دیگر ممبران نے اجلاس کو چلایا۔
سید عبدالقادر گیلانی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں جس کے باعث پچھلے پانچ ماہ سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ٹو کے نئے چیئرمین کا انتخاب نہیں کیا جاسکا اور ایک رپورٹ بھی ایوان میں پیش نہیں کی جاسکی۔ پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے دوران پیپلزپارٹی کا اپوزیشن کا کردار بہت مثالی نہیں رہا۔ پیپلزپارٹی کے ارکان تین سال تک اتحادی حکومت میں رہنے کے بعد اپوزیشن کیلئے تیار نہیں تھے اور ایوان کی کارروائی میں عدم دلچسپی کا شکاررہے ،اکثر اوقات قانون سازی کے وقت اپوزیشن لیڈر غیر حاضر رہے اور دیگر اپوزیشن اراکین نے بھی پوری تیاری کے ساتھ حصہ نہیں لیا ، اس سے حکومت کو قانون سازی کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ مسلم لیگ ق کے اراکین نے قانون سازی میں زیادہ تیاری سے حصہ لیا اور اسمبلی بزنس میںتحاریک التوائے کار،تحریک استحقاق زیادہ جمع کرائیں۔