دفاع پاکستان
مسجدوں کا نشان محراب والے ماتھوں نے بھارت کے خلاف ایک طویل جلوس نکالا جو ایک مسجد سے نکلا اور واہگہ جا کر ختم ہوا
KARACHI:
شرم تم کو مگر نہیں آتی والی بات ہے، ان پاکستانیوں کے لیے جو بھارت جیسے مصدقہ تاریخی دشمن کو اپنا پسندیدہ ترین ملک کا مقام و مرتبہ دینا چاہتے ہیں اور اس کا بار بار بڑے فخر کے ساتھ اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ دشمنی کا وہ کون سا فعل ہے جو بھارت نے پاکستان کے ساتھ نہیں کیا یہاں تک کہ آزادی کی ابتداء میں ہی بھارت کے ہندوئوں نے پاکستان دشمنی میں اپنے مہاتما کو قربان کر دیا مگر پاکستان کو مشترکہ سرمائے سے اس کا جائزہ حصہ نہیں دیا۔ اس کے بعد تو دشمنی کی ایک ایسی تاریخ ہے اور عداوت کا ایک اپنا سلسلہ ہے جسے فراموش کرنا کسی حلالی پاکستانی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کے ساتھ دشمنی کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا تاآنکہ بھارت کی درپردہ شہ پر جب بددیانت اور احمق دونوں قسم کے پاکستانیوں نے بھارت کی اس سازش میں شرکت کی جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا، کوئی ایک لاکھ کے قریب فوجی اور سویلین دشمن کے قیدی بن گئے۔ یوں ہمارے اپنے ملک کی زمین ہماری رسوائی کی گواہ بن گئی۔ پاکستان کی اس کھلی کمزوری کے بعد بھارت شیر بن گیا۔ صحافت کا روپ بھرنے والے ایک ادارے کے ساتھ جب میں بھارت کے سفر پر گیا تو بھارتی صحافیوں کی باتیں سن کر میرے پاس شدید ندامت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ جس سے بھی بات ہوئی اس نے ایک تاثر ضرور دیا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی کہ اب پاکستان ہمارے لیے ایک بے معنی سا ملک بن چکا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اس پس منظر میں جو عوام اور حکمرانوں پر واضح ہے،گزشتہ دنوں ہمارے وزیر داخلہ کسی بہانے بھارت جا پہنچے اور ایک ضروری پیغام کا جھانسہ دے کر وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملاقات کر لی جو صرف پندرہ منٹ جاری رہی۔ اس ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نے جھاڑ پلائی کہ تم لوگوں نے ابھی تک ہمارے ملزموں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے اور کیوں نہیں کی، اس کے بعد یہ کہ فرصت ملتی ہے تو میں پاکستان آتا ہوں، اچھا گڈ بائی۔ یہ کل کی بات ہے۔ بھارت کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں ہمارے ساتھ بدتمیزی کا برتائو کرتا ہے اور نہ جانے کیا بات ہے کہ ہم بدمزہ نہیں ہوتے اور ایک نعرہ مسلسل چل رہا ہے کہ بھارت کو پاکستان اپنا پسندیدہ ترین ملک قرار دینے والا ہے۔
بھارت کے خلاف احتجاج ظاہر ہے کہ وہ لوگ تو نہیں کر سکتے جن کے ماتھے پر ترنگا بنا ہوا ہے مسجدوں کا نشان محراب والے ماتھوں نے بھارت کے خلاف ایک طویل جلوس نکالا جو ایک مسجد سے نکلا اور واہگہ جا کر ختم ہوا۔ جلوس کے راستے میں ہزاروں قافلے جلوس میں شامل ہو گئے۔ عوام کا ایک سمندر طویل وقت کے بعد واہگہ جا پہنچا۔ جلوس کے چند نعرے ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان کو بھارت کی منڈی نہیں بننے دیں گے۔ کشمیریوں کی آزادی کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
جناب حافظ سعید کا نعرہ تھا، بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا چھوڑ دے ورنہ اس کا انگ انگ ٹوٹ جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ بھارت کو اگر پسندیدہ ملک قرار دیا گیا تو لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کریں گے۔ یہ احتجاج دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے کیا گیا۔ اس میں شاید جنرل حمید گل نے کہا کہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کو آزاد کرانا ہے اور مولانا سمیع الحق کہہ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا عداوت کا رشتہ ہے۔ پرجوش اور جاں فروش حافظ سعید صاحب نے یہ بھی کہا کہ جو بھارت کے ساتھ پیار کرتا ہے وہ وہاں چلا جائے۔
دفاع پاکستان کونسل کا یہ جلوس قوم کو یہ یاد دہانی کے لیے تھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے، اس کے محب وطن رہنما اس کے ساتھ ہیں جو اس کے دوستوں کے دوست ہیں اور دشمنوں کے دشمن اور یہ سب کچھ زبانی کلامی نہیں ہے، دل کی اور سچ کی آواز ہے۔ پاکستان کی حد تک دنیا دو محاذوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں اور کچھ مخالف اور جو ساتھ ہیں وہ بہت ہی کم ہیں اور وہ بھی نیمے دروں نیمے بروں ہیں۔ پاکستان کسی زمانے میں مسلم دنیا کا لیڈر سمجھا جاتا تھا جب تک یہاں بڑی حد تک ہی سہی آزاد ذہن کے لوگوں کی حکومت رہی، پاکستان کی عزت باقی رہی، اسی پاکستان نے جب ایٹم بم بنا لیا تو اس کا جشن پورے عالم اسلام میں منایا گیا۔
مسجد اقصیٰ کے خطیب نے کہا کہ یہ بم ہم سب مسلمانوں کا ہے، اتنے غیر معمولی کارنامے پر عالم اسلام میں ایک نئی زندگی لوٹ آئی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ بھارتی لیڈر اپنے دھماکے کے بعد یکایک جو زبان استعمال کرنے لگے تھے، وہ پاکستان کا دھماکہ سن کر گنگ ہو گئی۔ آج کی دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور بھارت کی دنیا تو طاقت کے سوا اور کوئی زبان جانتی ہی نہیں جب تک اس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ دوسروں کو دھمکاتی ہے اور جب اس سے بڑھ کر دوسرے طاقت ور ہو جاتے ہیں تو وہ ڈر کر اجنتا کے کسی غار میں گھس جاتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں بھارت پسند بلکہ بھارت پرست وظیفہ حلال کرنے کے لیے باہر نکل آئے ہیں لیکن بھارت کو ان کی حقیقت معلوم ہے کہ یہ کس کام کے ہیں اور کس کام کے نہیں ہیں۔ اس لیے جب محب وطن پاکستانی میدان میں آتے ہیں تو بھارت کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بھارت سے بچائو کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دفاع پاکستان کا راستہ اور دفاع کے لیے مکمل تیاری جس کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ قوم ان لوگوں کو حکومت دے جو اس کے اہل ہیں جو پاکستانی ہیں اور اس کے لیے مرنا جینا جانتے ہیں۔
الیکشن آنے والے ہیں اور یہ قوم کی آزمائش ہے کہ وہ زندہ اور عزت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے یا بھارتی حکمرانوں کی جھاڑ کھا کر اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ کے چرکوں کے ساتھ۔ میں گیدڑ اور شیر والی زندگی کی مثال تو نہیں دوں گا لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اور کچھ بنیں یا نہ بنیں گیدڑ نہ رہیں۔ بھارتیوں کی ڈانٹ سن کر مزا کرکرا ہو جاتاہے اور زندگی شرمندگی بن جاتی ہے۔ ہمیں دفاع پاکستان کی ضرورت ہے نہ کہ بھارت کے ساتھ تجارت اور ساڑھی بندیا کی۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی والی بات ہے، ان پاکستانیوں کے لیے جو بھارت جیسے مصدقہ تاریخی دشمن کو اپنا پسندیدہ ترین ملک کا مقام و مرتبہ دینا چاہتے ہیں اور اس کا بار بار بڑے فخر کے ساتھ اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔ دشمنی کا وہ کون سا فعل ہے جو بھارت نے پاکستان کے ساتھ نہیں کیا یہاں تک کہ آزادی کی ابتداء میں ہی بھارت کے ہندوئوں نے پاکستان دشمنی میں اپنے مہاتما کو قربان کر دیا مگر پاکستان کو مشترکہ سرمائے سے اس کا جائزہ حصہ نہیں دیا۔ اس کے بعد تو دشمنی کی ایک ایسی تاریخ ہے اور عداوت کا ایک اپنا سلسلہ ہے جسے فراموش کرنا کسی حلالی پاکستانی کے لیے ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کے ساتھ دشمنی کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا تاآنکہ بھارت کی درپردہ شہ پر جب بددیانت اور احمق دونوں قسم کے پاکستانیوں نے بھارت کی اس سازش میں شرکت کی جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا، کوئی ایک لاکھ کے قریب فوجی اور سویلین دشمن کے قیدی بن گئے۔ یوں ہمارے اپنے ملک کی زمین ہماری رسوائی کی گواہ بن گئی۔ پاکستان کی اس کھلی کمزوری کے بعد بھارت شیر بن گیا۔ صحافت کا روپ بھرنے والے ایک ادارے کے ساتھ جب میں بھارت کے سفر پر گیا تو بھارتی صحافیوں کی باتیں سن کر میرے پاس شدید ندامت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ جس سے بھی بات ہوئی اس نے ایک تاثر ضرور دیا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی کہ اب پاکستان ہمارے لیے ایک بے معنی سا ملک بن چکا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اس پس منظر میں جو عوام اور حکمرانوں پر واضح ہے،گزشتہ دنوں ہمارے وزیر داخلہ کسی بہانے بھارت جا پہنچے اور ایک ضروری پیغام کا جھانسہ دے کر وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملاقات کر لی جو صرف پندرہ منٹ جاری رہی۔ اس ملاقات میں بھارتی وزیراعظم نے جھاڑ پلائی کہ تم لوگوں نے ابھی تک ہمارے ملزموں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے اور کیوں نہیں کی، اس کے بعد یہ کہ فرصت ملتی ہے تو میں پاکستان آتا ہوں، اچھا گڈ بائی۔ یہ کل کی بات ہے۔ بھارت کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں ہمارے ساتھ بدتمیزی کا برتائو کرتا ہے اور نہ جانے کیا بات ہے کہ ہم بدمزہ نہیں ہوتے اور ایک نعرہ مسلسل چل رہا ہے کہ بھارت کو پاکستان اپنا پسندیدہ ترین ملک قرار دینے والا ہے۔
بھارت کے خلاف احتجاج ظاہر ہے کہ وہ لوگ تو نہیں کر سکتے جن کے ماتھے پر ترنگا بنا ہوا ہے مسجدوں کا نشان محراب والے ماتھوں نے بھارت کے خلاف ایک طویل جلوس نکالا جو ایک مسجد سے نکلا اور واہگہ جا کر ختم ہوا۔ جلوس کے راستے میں ہزاروں قافلے جلوس میں شامل ہو گئے۔ عوام کا ایک سمندر طویل وقت کے بعد واہگہ جا پہنچا۔ جلوس کے چند نعرے ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان کو بھارت کی منڈی نہیں بننے دیں گے۔ کشمیریوں کی آزادی کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔
جناب حافظ سعید کا نعرہ تھا، بھارت کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنا چھوڑ دے ورنہ اس کا انگ انگ ٹوٹ جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ بھارت کو اگر پسندیدہ ملک قرار دیا گیا تو لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کریں گے۔ یہ احتجاج دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے کیا گیا۔ اس میں شاید جنرل حمید گل نے کہا کہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کو آزاد کرانا ہے اور مولانا سمیع الحق کہہ رہے تھے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا عداوت کا رشتہ ہے۔ پرجوش اور جاں فروش حافظ سعید صاحب نے یہ بھی کہا کہ جو بھارت کے ساتھ پیار کرتا ہے وہ وہاں چلا جائے۔
دفاع پاکستان کونسل کا یہ جلوس قوم کو یہ یاد دہانی کے لیے تھا کہ وہ اکیلی نہیں ہے، اس کے محب وطن رہنما اس کے ساتھ ہیں جو اس کے دوستوں کے دوست ہیں اور دشمنوں کے دشمن اور یہ سب کچھ زبانی کلامی نہیں ہے، دل کی اور سچ کی آواز ہے۔ پاکستان کی حد تک دنیا دو محاذوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ کچھ لوگ پاکستان کے ساتھ ہیں اور کچھ مخالف اور جو ساتھ ہیں وہ بہت ہی کم ہیں اور وہ بھی نیمے دروں نیمے بروں ہیں۔ پاکستان کسی زمانے میں مسلم دنیا کا لیڈر سمجھا جاتا تھا جب تک یہاں بڑی حد تک ہی سہی آزاد ذہن کے لوگوں کی حکومت رہی، پاکستان کی عزت باقی رہی، اسی پاکستان نے جب ایٹم بم بنا لیا تو اس کا جشن پورے عالم اسلام میں منایا گیا۔
مسجد اقصیٰ کے خطیب نے کہا کہ یہ بم ہم سب مسلمانوں کا ہے، اتنے غیر معمولی کارنامے پر عالم اسلام میں ایک نئی زندگی لوٹ آئی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ بھارتی لیڈر اپنے دھماکے کے بعد یکایک جو زبان استعمال کرنے لگے تھے، وہ پاکستان کا دھماکہ سن کر گنگ ہو گئی۔ آج کی دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور بھارت کی دنیا تو طاقت کے سوا اور کوئی زبان جانتی ہی نہیں جب تک اس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ دوسروں کو دھمکاتی ہے اور جب اس سے بڑھ کر دوسرے طاقت ور ہو جاتے ہیں تو وہ ڈر کر اجنتا کے کسی غار میں گھس جاتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں بھارت پسند بلکہ بھارت پرست وظیفہ حلال کرنے کے لیے باہر نکل آئے ہیں لیکن بھارت کو ان کی حقیقت معلوم ہے کہ یہ کس کام کے ہیں اور کس کام کے نہیں ہیں۔ اس لیے جب محب وطن پاکستانی میدان میں آتے ہیں تو بھارت کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بھارت سے بچائو کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دفاع پاکستان کا راستہ اور دفاع کے لیے مکمل تیاری جس کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ قوم ان لوگوں کو حکومت دے جو اس کے اہل ہیں جو پاکستانی ہیں اور اس کے لیے مرنا جینا جانتے ہیں۔
الیکشن آنے والے ہیں اور یہ قوم کی آزمائش ہے کہ وہ زندہ اور عزت کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے یا بھارتی حکمرانوں کی جھاڑ کھا کر اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ کے چرکوں کے ساتھ۔ میں گیدڑ اور شیر والی زندگی کی مثال تو نہیں دوں گا لیکن اتنا ضرور عرض کروں گا کہ اور کچھ بنیں یا نہ بنیں گیدڑ نہ رہیں۔ بھارتیوں کی ڈانٹ سن کر مزا کرکرا ہو جاتاہے اور زندگی شرمندگی بن جاتی ہے۔ ہمیں دفاع پاکستان کی ضرورت ہے نہ کہ بھارت کے ساتھ تجارت اور ساڑھی بندیا کی۔