کرپشن کا سیلاب

ایک سبزی فروش سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں تک سب کرپشن کے مرتکب ہیں۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہمارے ملک میں جس مسئلے پر سب سے زیادہ بات کی جا رہی ہے وہ ہے ''کرپشن'' سیاستدان ایک دوسرے پر جو الزامات لگا رہے ہیں، ان میں سر فہرست الزام بھی کرپشن ہے۔ پنجاب کے میاں برادران پیپلز پارٹی حکومت پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے آصف علی زرداری کو علی بابا اور ان کے ساتھیوں کو چالیس چور کا خطاب دیتے ہیں، چھوٹے میاں کی تقریروں کا مرکزی موضوع بھی زر بابا چالیس چور ہی ہوتا ہے۔

ادھر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے کیے جانے والے جوابی حملوں میں میاں برادران کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت تین ریفرنسوں کو اچھالا جاتا ہے جن میں شریف خاندان پر اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ چونکہ یہ دونوں جماعتیں ملکی سیاست کی سب سے بڑی حریف جماعتیں ہیں اس لیے ان کے درمیان اقتدار کی لڑائی میں ایک دوسرے پر کرپشن کی جس شدت سے دھول اڑائی جاتی ہے، اس دھول میں ملک کے بیشتر سیاستدانوں کی کرپشن چھپ جاتی ہے ورنہ اگر ہمارے محترم سیاستدانوں کے چہروں پر نظر ڈالی جائے تو ہر چہرہ کرپشن کی دھول میں اٹا ہوا نظر آئے گا۔

کرپشن کے اس سیاسی میدان کے علاوہ ادارہ جاتی کرپشن کا حال یہ ہے کہ ملک کا شاید ہی کوئی ادارہ ایسا ہو جو کرپشن میں ملوث نہ ہو، کرپشن بھی کوئی چھوٹی موٹی کرپشن نہیں بلکہ اربوں روپوں کی کرپشن، ابھی پچھلے دنوں جب ہم نے میڈیا میں ایک ادارے پر 47 ارب روپوں کی کرپشن کی خبریں دیکھیں تو ہماری آنکھیں کرپشن سے چکا چوند ہو گئیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی ادارہ ایسا ہو جو کرپشن کے الزامات سے بچا ہوا ہو، ورنہ ہر ادارے کی نیّا کرپشن کی گنگا میں سر تا سر ڈوبی نظر آتی ہے۔ کرپشن کی ناقابل یقین حالت کا اندازہ نیب کے سربراہ ایڈمرل (ر) فصیح بخاری کے اس انکشاف سے ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر روز 6 سے 7 ارب کی کرپشن ہو رہی ہے۔ یہ انکشاف کسی للّو پھتّو کا نہیں بلکہ نیب جیسے محترم ادارے کے واجب الاحترام سربراہ کا ہے، جن پر کرپشن روکنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے اگرچہ ان کے انکشاف پر تنقید ہو رہی ہے۔

اس وقت ملک میں کرپشن کے حوالے سے جن الزامات اور جوابی الزامات کا طوفان اٹھا ہوا ہے اس کا رخ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی قیادت کے علاوہ باقی سارے سیاستدان معصوم ہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن کے اس حمام میں سارے ہی سیاسی اوتار ننگے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں بڑی پارٹیوں کی حریفانہ سیاست کی وجہ سے ان ہی دونوں پارٹیوں کی قیادت نشانے پر ہے، باقی سب نشانے سے محفوظ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب کرپشن اتنی مہارت سے کی جاتی ہے کہ اس کا سراغ لگانا بہت مشکل ہے اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ''اینٹی کرپشن'' کے سارے ادارے سب سے زیادہ کرپٹ ہیں۔ میاں شہباز شریف جب زربابا چالیس چور کہتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگر کوئی ان پر ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت کر دے تو وہ حکومت اور سیاست دونوں چھوڑ دیں گے۔ ''اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا''

سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں میں کرپشن خون بن کر دوڑتی ہے، اگر اس سسٹم میں رہتے ہوئے کوئی اپنے آپ کو کرپشن سے پاک کہتا ہے تو وہ یا تو فرشتہ ہے یا پھر وہ ایسا پاک صاف ایماندار ہے جو کرپشن کے مواقعوں سے محروم ہے۔ ورنہ ایک سبزی فروش سے لے کر ملٹی نیشنل کمپنیوں تک سب کرپشن کے مرتکب ہیں۔ ایک وکیل ضمانت کرانے سے لے کر قتل کے کیسوں تک جو بھاری فیس لیتا ہے، وہ کیا ہے، ایک ڈاکٹر جو ایک مریض کو دیکھنے کے ہزاروں روپے وصول کرتا ہے وہ کرپشن نہیں ہے۔


ایک ہرنیا کے آپریشن سے لے کر دل و دماغ ایک انفلوئنزا سے لے کر کینسر کے علاج تک جو بھاری قیمت وصول کی جاتی ہے وہ بھی کرپشن ہے، ایک مضافاتی بستی کے پرائیویٹ اسکول سے لے کر اے اور او لیول کے انگلش اسکولوں تک جو بھاری فیسیں لی جاتی ہیں وہ کرپشن ہے۔ آپ زندگی کے کسی شعبے میں چلے جائیں وہاں سب سے پہلے آپ کی ملاقات کرپشن ہی سے ہو گی۔ پیدائش سے لے کر موت تک ہر قدم پر آپ کا سامنا کرپشن سے ہو گا اور خود آپ کی ذات اس بیماری میں مبتلا نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی ہے اور ہم آپ اسی نظام کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔

ایک صنعتکار اپنی پیداوار مارکیٹ میں جس قیمت پر فروخت کرتا ہے، وہ قیمت اس کی پیداواری لاگت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ پیداواری لاگت اور منڈی کی قیمت کے درمیان جو بھاری بچت ہوتی ہے، اسے منافعے کا نام دیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ کرپشن ہی ہوتی ہے۔ ایک وڈیرہ یا جاگیردار اپنی پیداوار کو منڈی میں جس دام پر فروخت کرتا ہے وہ دام اس کی پیداواری لاگت سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں یہ بھی کرپشن ہی ہے۔ ایک تاجر قیمت خرید سے جس قدر زیادہ منافعے پر اپنی اشیاء فروخت کرتا ہے یہ منافع بھی کرپشن ہی ہے، غرض اس نظام میں کرپشن اوڑھنا بچھونا بنی ہوئی ہے جس سے نجات ممکن نہیں۔

ہمارے جو سیاستدان آج کل اپنی تقریروں میں کرپشن کے خاتمے کی باتیں کر رہے ہیں وہ سر سے پاؤں تک کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں، بعض ''غیر معمولی سیاستدان '' تو کرپشن کے خاتمے کے لیے دن تاریخ تک بتا رہے ہیں، انھیں یہ احساس ہی نہیں کہ وہ جس 120 کروڑ روپوں کے محل میں رہ رہے ہیں، وہ بھی کرپشن کی کمائی سے بنا ہوا ہے۔ اہل سیاست کے اربوں کی لاگت کے جو غریب خانے ہیں، وہ اعلیٰ ترین کرپشن کے نمونے ہیں، مندر، مسجد، گرجا، گُردوارے، کاشی، ویٹیکن سٹی بلکہ جہاں آپ چلے جائیں وہاں کسی نہ کسی شکل میں محترمہ کرپشن آپ کو گھونگٹ نکالے نظر آئے گی۔ دنیا کا ہر ملک، دنیا کا ہر شہر، دنیا کا ہر گاؤں کرپشن کی ''نعمت'' سے مالا مال ہے۔

چین روس سمیت وہ تمام ممالک جو آج سرمایہ دارانہ نظام کا چولا اوڑھ رہے ہیں کرپشن کے کیچڑ میں لت پت نظر آتے ہیں۔ ہاں دنیا کا وہ 90 فیصد طبقہ مزدور اور کسان اس لعنت سے اس لیے بچا ہوا ہے کہ اسے کرپشن کے مواقعے ہی حاصل نہیں، ورنہ اس آزاد منڈی کی معیشت نے تو ہر انسان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے بس کی کرپشن سے مستفید ہوتا رہے، ہمارے ملک کے جو ایماندار سیاستدان اپنی ایمانداری کا راگ ملہار گا رہے ہیں، ان سب کی کرپشن کا اندازہ لگانا ہو تو ان سے ان کے جملہ اثاثوں کی چھان بین کرائیں، پھر دیکھیں کہ کرپشن کے ڈھیر کس طرح سامنے آتے ہیں۔

غریب کی کرپشن اس کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے تک محدود ہوتی ہے۔ اشرافیہ کی کرپشن اس کی حصول زر کی حیوانی خواہش کی طرح لامحدود ہوتی ہے، اسی لامحدود خواہش اور اس کے قانونی حق نے دنیا کی 80 فیصد دولت کو دو فیصد ہاتھوں میں جمع کر دیا ہے اس سے نجات کا واحد راستہ نجی ملکیت کے حق کو ٖضروریات زندگی تک محدود کرنا ہے اس کے علاوہ ہر کوشش، ہر خواہش، ہر اقدام فریب نظر کے سوا کچھ نہیں۔
Load Next Story