اوورکوٹ اور عوام

کروڑوں لوگ غر بت اور افلاس کی آ گ میں جل رہے ہیں اور آہستہ آ ہستہ پگھل رہے ہیں۔

اوورکوٹ کی کہانی کا شمار دنیا کی عظیم ترین کہانیوں میں ہوتا ہے۔ اگر گوگول اس کہانی کے علا وہ کچھ بھی نہ لکھتا تو پھر بھی اس کا شمار دنیا کے عظیم لکھنے والوں میں ہو تا دوستویفسکی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روس کا پورا ادب گو گول کے اوورکوٹ کی دین ہے۔ اوورکوٹ کی کہانی ایک سرکاری کلرک کے ارد گرد گھومتی ہے یہ کہانی ایک غریب آ دمی کی تذلیل کی کہانی ہے جسے ان لوگوں کی نفر ت کا سامنا کر نا پڑتا ہے جو اپنے آپ کو سماج کا اعلیٰ فرد سمجھتے تھے۔ یہ صرف کلرک کی ہتک عزت نہیں بلکہ پو ری انسانیت کی تذلیل ہے۔

اکیکاوچ ایک کلرک ہے۔ جو اپنی شکل و شباہت اور رہن سہن سے ایک معمولی عام انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو مشین کی طرح دفتر میں کام کرتا ہے سارا دفتر اس کا مذاق اڑا تا ہے۔ اسے زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پیٹرز بر گ میں سردیوں میں بہت دھند ہوتی تھی سڑکوں اور گلیوں سے گزرنے وا لے اکثر ہڈیوں کے درد کا شکار رہتے تھے۔ اکیکا وچ نے بھی محسوس کیا کہ اس کے شانوں میں درد رینگنے لگا ہے، چنانچہ اس نے ٹرنک سے اپنا اوورکوٹ نکالا جو اس کے پڑدادا نے اس کے دادا اور دا دا نے اس کے باپ اور باپ نے اسے دیا تھا اوورکو ٹ اپنی طبعی عمر پو ری کر چکا تھا کالر ہر سال گھس گھس کر چھوٹے ہو گئے تھے کوٹ جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اسے ٹیلر ماسٹر کے پا س لے جائے گا تا کہ وہ اسے ٹھیک کر دے۔

وہ اوورکو ٹ کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر شہر کے مشہو ر درزی پیسٹر ووچ کے پاس چلا گیا۔ کو ٹ کی حا لت سے وہ اتنا شرمند ہ تھا، اسے ڈر تھا کہ کہیں کو ٹ دیکھ کر پیسٹرو وچ کا موڈ خراب نہ ہو جا ئے اور وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ پیسٹرو وچ نے کو ٹ کو میز پھر پھیلا کر چند لمحے میز پر پڑ ی چیز کو دیکھا اور پھر پو چھا یہ کیا ہے۔ وہ بو لا اوورکو ٹ۔ درزی نے کہا میرے پاس کیوں لا ئے ہو اکیکا وچ نے ایک پھیکی سی مسکرا ہٹ لبوں پر لا کر کہا اسے رفو کر دو پہننے کے قابل بنا دو۔ پیسٹرو وچ نے سر ہلا کر کہا کہاں Patch لگائوں سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ پیسٹرو وچ اس نے بہت منت کی اپنی عزت کا واسطہ دیا لیکن پیسٹر و وچ نہ ما نا اور اکیکا وچ اوور کو ٹ لے کر گھر آگیا۔

اس نے پیٹ کا ٹ کر بچت کی۔ قہوہ چھو ڑ دیا۔ خو راک کم دی۔ دفتر سے کچھ قرضہ اٹھا یا اور پھر پیسٹرو وچ نے اس کے لیے نیا اوورکو ٹ بنا دیا۔ کو ٹ پہن کر جب وہ سڑک پر آیا تو اسے پہلی بار احسا س ہوا کہ وہ ایک زندہ آ دمی ہے۔ وہ کو ٹ پہن کر سڑک پر نکلا تو اس کی چال بد لی ہوئی تھی۔ وہ دفتر میں داخل ہوا۔ کو ٹ کو اتار کر کو ٹ کو دیکھا اور پھر بڑی احتیا ط سے کھونٹی پر ٹانک دیا۔ چند لحوں میں سب کو پتہ چل گیا کہ اس نے نیا اوورکوٹ خر یدا ہے۔ نئے اوور کو ٹ نے دفتر میں ہنگامہ کر دیا۔ سب کلرک اسے مبارکبا د دینے لگے اور اوورکو ٹ کی خو شی میں اس سے دعوت طلب کی۔ اس نے منہ لٹا کر کہا میں تو سب کچھ کو ٹ پر خر چ کر چکا ہوں۔


میرے پاس کچھ با قی نہیں بچا۔ ایک کلرک نے کہا اوورکوٹ کی خو شی میں دعو ت میں دوں گا۔ شام کو سب لو گ اس کے گھر اکھٹے ہو گئے۔ اوورکوٹ پہن کر اکیکا وچ بھی گھر سے نکلا اسے سڑک پر چلتے ہو ئے ایک عجیب سا فخر محسو س ہو رہا تھا۔ وہ اس گھر میں پہنچ گیا جہاں دفتر کے سارے کلرک جمع تھے۔ اور وہ سب اس کے کو ٹ کی خو شی میں ووڈ کا پی رہے تھے۔ اکیکا وچ نے وہاں جا کر چا ئے پی۔ کچھ گو شت کی بو ٹیاں کھائیں۔ دوستوں کے لطیفے سنے۔ انھوں نے اسے شراب پلا نا چا ہی مگر اس نے انکار کر دیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا آیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ وہ سڑکوں پر گھو مے اور اپنے اوورکو ٹ کی نمائش کر ے۔ وہ گھر سے نکل کر سڑ کیں نا پنے لگا، چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ آ گیا جہاں بالکل اندھیرا تھا اچا نک اندھیر ے میں اسے کچھ آ دمیوں کی آواز سنائی دیں جیسے وہ آ پس میں کسی چیز پر لڑ رہے ہوں۔ نہیں اوورکوٹ میرا ہے۔

نہیں یہ اوور کوٹ میرا ہے تمہارا نہیں میرا ہے۔ وہ ابھی ان آوازوں کو سن ہی رہا تھا کہ تین چار آ دمی اچا نک اس پر حملہ آور ہو ئے اسے زمین پر گرا دیا اور اس کا اوورکو ٹ اتار کر غائب ہو گئے۔ یہ سب کچھ آ ناً فا ناً ہوا۔ اسے کچھ پتہ نہ چلا وہ برف پر پڑا تھا۔ اس نے پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا مگر اس کے سوا وہاں کوئی نہ تھا وہ میرا کوٹ میرا کوٹ کہتا ہوا بھا گا اور چند فر لا نگ کے فاصلے پر اسے ایک سپا ہی ایک بیچ پر بیٹھا ملا جو آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ اکیکا وچ نے اس سے کوٹ چو ری ہو نے کی بات کی اس نے کہا سپر نٹنڈنٹ کے پا س جائو یہ کہہ کر وہ پھر سو گیا۔ اس نے سپر نٹنڈنٹ کو جا کر کہا نی سنائی تو اس نے کہا تمہیں گھر سے اتنی دیر با ہر نہیں رہنا چا ہیے تھا اور پھر اسے ذلیل کر کے دفتر سے نکا ل دیا۔

دفتر گیا تو سب کو بہت افسوس ہوا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ چندہ اکھٹا کر کے اکیکا وچ کے لیے اوورکوٹ خریدا جائے۔ مگر چندہ اتنا اکھٹا نہ ہوا کہ کوٹ کی قیمت پو ری ہو سکے۔ آخر فیصلہ کیا گیا کہ اکیکا وچ پولیس کے اعلیٰ افسر سے جا کر رپورٹ کر ے۔ جب وہ بڑی مشکل سے ملنے گیا تو وہ بہت غلط وقت تھا۔ اعلیٰ افسر نے جو اس سے با تیں کیں وہ بڑی دل تو ڑ نے وا لی تھیں۔ اعلیٰ افسر نے کہا تمہیں براہ راست میرے پا س نہیں آ نا چا ہیے تھا پہلے تم میرے سیکریٹری کو درخواست دو وہ ملاقات کا وقت دے گا۔ اکیکا وچ نے کہا جناب میرا اوورکوٹ چوری ہو گیا ہے۔ صاحب نے میز پر ہا تھ مار کر کہا تم جانتے ہو کہ تم کس سے با ت کر رہے ہو اور پھر اعلیٰ افسر نے اسے ذلیل کر کے باہر نکال دیا۔ سا ری زندگی میں اس کی اتنی تذلیل نہیں ہوئی تھی۔ جب وہ گھر میں داخل ہو ا تو اس کا سا را بدن شل تھا۔ دوسرے دن اسے تیز بخار ہو گیا اور وہ بے ہو ش ہو گیا۔

اس کی لینڈ لیڈی نے ڈاکٹر کو بلا یا ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر کہا اب زیادہ وقت ضایع نہ کرو اس کے کفن دفن کا انتظام شروع کرو۔ اکیکا وچ کی مو ت کے چند دن بعد پیٹرز برگ میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یہ بات سارے شہر میں پھیل گئی کہ ایک بھو ت را ت گئے سڑک پر آ کر لوگوں کے اوور کوٹ چھین لیتا ہے۔ اکیکا وچ کے دفتر کے ایک کلرک کے ساتھ بھی یہ واردات ہوئی اور اس نے کہا کہ وہ بھو ت اکیکا وچ کا تھا۔ آخری بار یہ واقعہ اعلیٰ افسر کو پیش آیا وہ را ت گئے ایک دعوت سے واپس آ رہا تھا کہ سڑک پر بھوت نے اس کی گا ڑی روکی۔ اعلیٰ افسر نے بھوت کو پہچان لیا وہ اکیکا وچ تھا اعلیٰ افسر اسے دیکھ کر ڈر گیا اور ڈرتے ڈرتے پو چھا تم کیا چا ہتے ہو۔ اکیکا وچ کے بھو ت نے جواب دیا کچھ نہیں اور پھر ہاتھ بڑھا کر اس کا اوورکوٹ اتار لیا اور اندھیرے میں غائب ہوگیا۔

پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی کہانی اکیکا وچ کی کہانی سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ کروڑوں لوگ غر بت اور افلاس کی آ گ میں جل رہے ہیں اور آہستہ آ ہستہ پگھل رہے ہیں۔ ان کی تذلیل کرنا ہر امیر و طاقتور شخص اپنا فرض سمجھتا ہے۔
Load Next Story