کس کا آئیڈیل کون

ایک کامیاب تاجر ہونے کے ناتے کم منافعے پر بھی سودا کر لیتے ہیں۔

s_nayyar55@yahoo.com

لاہور:
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ایک نو عمر بچی کے ذہن میں اُس کا آئیڈل شوہر اُس کا باپ ہوتا ہے؟ یعنی وہ بچی لاشعوری طور پر، اپنے لیے جس قسم کے شوہر کی خواہش مند ہوتی ہے، وہ اُس کے والد سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ اِس کی وجہ سماجیات کے ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ ہر بچی آنکھ کھولتے ہی اپنے گھر میں جو پہلا شوہر دیکھتی ہے، وہ اُس کا باپ ہوتا ہے۔ اگر بچی یتیم ہو تو وہ اپنے آس پاس موجود جو پہلا اچھا شوہر دیکھتی ہے، لاشعوری طور پر اُسے ہی اپنا آئیڈل بنا لیتی ہے۔

یہ اچھا شوہر اُس کا بھائی، چچا، ماموں یا پھر اڑوس پڑوس میں رہنے والا کوئی بھی اچھا شوہر ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس تھیوری کا ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کے اِس نظریے سے کوئی تعلق نہیں، جس کے مطابق ہر بیٹے کا ذہنی میلان اپنی ماں کی طرف اور ہر بیٹی کا اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے۔ فرائیڈ اپنی تھیوری کی بنیاد، جنسِ مخالف کی فطری کششِ اور رجحان کو قرار دیتا ہے۔ اُس کے نزدیک ماں اور بیٹا، اپنے درمیان موجود رشتے کے تقدّس سے قطع نظر، بہرحال متضاد جنس کے مالک ہوتے ہیں اور یہی صورتحال باپ اور بیٹی کے درمیان موجود رشتے میں بھی کار فرما نظر آتی ہے۔ لہذا فرائیڈ اِسی فطری کشش کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ بیٹی کا ذہنی رجحان باپ کی طرف اور بیٹے کا ماں کی طرف ہوتا ہے۔

لیکن ہم یہاں باپ اور بیٹی کے درمیان جس تعلق پر بحث کر رہے ہیں، اُسکا تعلق جنسِ مخالف کے درمیان پائی جانے والی فطری کشش سے نہیں بلکہ، بچی کے اِرد گِرد موجود ماحول، اُس کے والد کے رویّے اور سب سے زیادہ بچی کے والد کا اُس کی ماں کے ساتھ ہونے والا برتاؤ ہے۔ اگر بچی کا والد ایک ذمے دار شوہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شفیق باپ بھی ہے اور اُس کی موجودگی میں، اُس کے اہلِ خانہ کو تحفظ و سلامتی کا احساس ہوتا ہے تو ایسے باپ کو اُس کی بیٹی اپنے آئیڈل شوہر کے روپ میں لا شعوری طور پر دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔ یعنی کسی بھی بچی کا آئیڈل شوہر ایسا باپ ہوتا ہے، جو خود کو ایک اچھا شوہر ثابت کرے۔ اور اِسکا تعلق اُس کے رویّے، اخلاق اور برتاؤ سے ہوتا ہے۔

ناکہ ڈاکٹر فرائیڈ کے مطابق، اِسکی وجہ جنسِ مخالف کے درمیان پائی جانے والی فطری کشش سے ہوتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال اقتدار کے ایوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ہر ولی عہد یا مستقبل کا حکمران، بالکل اپنے باپ جیسی طاقت اور اختیار کا نہ صرف مالک بننا چاہتا ہے، بلکہ وہ اپنے پیشِ رو حکمران سے بھی زیادہ طاقت اپنی ذات میں دیکھنے کا متمنّی ہوتا ہے۔ وہ خود کو بالکل ایسا ہی حکمران دیکھنا چاہتا ہے، جسے ہوش سنبھالتے ہی وہ اپنے قریب محسوس کرتا ہے۔ ایک سماجی رشتے اور اقتدار کی خواہش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اقتدار اور طاقت کا نشہ اور اِس کی خواہش لامحدود ہوتی ہے۔ طاقت، دولت اور اختیار خواہش کے بعد ہوس کی شکل اختیار کر لیتی ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔

سکندر اعظم، چنگیز خان اور امیر تیمور اِسی ہوس کا شکار ہو کر دُنیا فتح کرنے کا خواب دیکھتے ہوئے دُنیا سے گزر گئے۔ اِسی ہوس نے نمرود، شداد اور فرعون کو خدائی کا دعویٰ کرنے پر اُکسایا۔ کرہ ارض کے وسیع خطے پر اِن سب کی عملداری کا پرچم لہراتا رہا، لیکن یہ تمام صاحبان اقتدار، مرتے دم تک اپنی قوت و اقتدار سے مطمئین نہ ہوئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر صاحبِ اقتدار کو اپنے پیش روسے زیادہ ہی اقتدار کی طلب رہی اور حکمرانوں کی اِسی ہوسِ اقتدار نے پاکستان کے عوام کو تادمِ تحریر جمہوریت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ جنھیں ہم جمہوری حکمران آج تک سمجھتے آ رہے ہیں وہ سب دراصل ''سِول ڈکٹیٹر'' تھے اور لمحہ موجود میں ہم جسے جمہوری نظامِ حکومت سمجھ رہے ہیں یہ بھی دراصل سوِل آمریت ہے، جس پر ڈیموکریسی کا لیبل چپکا دیا گیا ہے۔

58 سے پاکستان میں باقاعدہ فوجی آمریت کا سلسلہ شروع ہوا اور اِس کے بانی جنرل ایو ب خان تھے، جو بعد میں خود ساختہ فیلڈ مارشل بھی کہلائے۔ اِس فوجی آمریت کی کیاری میں جو خوشنما ترین پھول کِھلا اِس پھول کا نام بھٹو تھا۔ آمریت کی زمین ، آمریت کی کھاد اور آمریت کے پھوار میں پرورش پانے والے اِس پھول نے ہوش سنبھالتے ہی جس با اختیار ترین حاکم کو دیکھا وہ جنرل ایوب خان تھے۔ فطری طور پر بھٹو صاحب اِنہی جیسے حکمران بننے کے خواہش مند تھے۔ ایک ایسے حاکم جس کے حکم، کے سامنے کوئی بھی شخص یا ادارہ ''NO'' کہنے کی جرات نہ رکھتا ہو۔ لیکن مجبوری یہ تھی کہ اقتدار میں آنے کے لیے بھٹو صاحب کے پاس وہ قوت نہ تھی جس کے بل بوتے پر ایوب خان اقتدار پر قابص ہوئے تھے۔


واحد راستہ عوام کے ووٹوںسے ہی گزر کر ایوانِ اقتدار تک جاتا تھا۔ اپنی ذہانت اور خدا داد صلاحیت کے بل بوتے پر وہ اِسی راستے سے گزرے اور خوب گزرے۔ ملک کے وزیراعظم بنے، قوم کو ایک متفقہ جمہوری آئین دیا۔ لیکن آئیڈل تو ایوب خان ہی تھے۔ لہٰذا اندازِ حکمرانی وہی رہا۔ آزادی اظہار پر قدغن، مخالفین کی زبانیں بند کروانے کے لیے وہی آمرانہ حربے۔ اختلاف رائے گناہ کبیرہ کہلایا۔ خوشامدیوں کی واہ واہ کے شور میں مخلص اور نظریاتی ساتھیوں کو بتدریج کھُڈے لائن لگاتے ہوئے وہ اپنے ہی طبقے کے گھیرے میں آ گئے۔ عدلیہ اور میڈیا کی زبانیں خاموش کروا دی گئیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اپنے اندر کے جاگیردار کو ختم نہ کر سکے اور اِسی جاگیردارانہ سوچ اور اَنّا کے ہاتھوں ایسا شاندار سیاستدان تختہ دار کی بھینٹ چڑھ گیا۔

مقامِ فیضؔ،کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

اُن کا ورثہ اِن کی بیٹی بے نظیر نے سنبھالا، یہ دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ تک پہنچیں، اِن کے آئیڈل اِنکے والد تھے، اختلاف رائے اِنہیں بھی گوارہ نہ تھا۔ یہ بھی تمام تر اختیارات اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہتی تھیں، بدقسمتی سے اِن کا انجام بھی نہایت المناک ہوا۔ نوازشریف، ضیاء آمریت کی کیاری میں تولد ہوئے، اِس پر نام نہاد اسلام کا سائن بورڈ بھی آویزاں تھا۔ اِن کا آئیڈل بھی ایک ڈکٹیٹر تھا۔ یہ اختیارات کے حصول کی جنگ لڑتے لڑتے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسری مرتبہ اقتدار ملا تو دو تہائی اکثریت کی تیز دھار تلوار بھی اِن کی میان میں موجود تھی۔ اُنہوں نے تلوار میان سے نکال کر ہاتھ میں لی۔ پہلے ایوانِ صدر فتح کیا، پھر عدلیہ پر حملہ آور ہوئے۔ پھر پریس کو شکنجے میں کسنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ ایک آرمی چیف کو بھی چلتا کر دیا۔ اسلامی کیاری نے رنگ دکھایا تو امیر المومنین بننے کا شوق چرایا۔

اِسی دوران دوسرے آرمی چیف پر حملہ آور ہوئے لیکن وار اوچھا پڑا۔ پہلے قید تنہائی پھر جِلا وطنی مقدر بنی۔ چونکہ جاگیردار نہیں بلکہ صنعتکار ہیں۔ نفع ، نقصان کو سمجھتے ہیں لہذا اِسی کاروباری سوچ کے باعث اِن کی جان سلامت رہی اور اِس کے عوض جلا وطنی قبول کر کے اُنہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ اب تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے وارث زرداری صاحب اِس وقت اقتدار میں ہیں، اِن کی آئیڈیل بے نظیر ہیں۔ غیر تحریری اختیارات اِن کے پاس بھی بے پناہ ہیں، اِن کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ لیکن اِن کی خوبی یا خامی یہ ہے کہ شدید دباؤ میں آ کر آخر وقت میں سمجھوتہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ایک کامیاب تاجر ہونے کے ناتے کم منافعے پر بھی سودا کر لیتے ہیں۔ اِسی باعث اپنی مدت پوری کرنے والے ہیں۔

اِن کے پانچ سالہ دورِ جمہوریت نے اپنی مدت اور عوام نے اپنی سانسیں تقریباً پوری کر لی ہیں۔ اب آپ خود ہی غور فرمائیں کہ اِن سب جمہوری ادوار میں ہمیں جمہوری حاکم کب ملے؟ کیا اِن میں سے کسی حکمران نے کسی بھی آئینی ادارے کی خود مختاری کو تسلیم کیا؟ اگر نہیں کیا تو پھر اِن میں اور ایک آمر میں کیا فرق رہا؟ یہ تمام جمہوری حکمران اپنے اپنے آئیڈل حکمرانوں کے سحر میں مبتلا رہے اور اب بھی ہیں۔ لیکن پہلی مرتبہ یہ تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ ایک نیا آپشن عمران خان انتخابی اکھاڑے میں ایسا نظر آ رہا ہے جو بجائے کسی آمریت کی کیاری سے، براہ راست سماجی خدمت کے شعبے میں اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ جس کا آئیڈیل کوئی ڈکٹیٹر نہیں بلکہ بقول اُس کے، قائد اعظم ہیں۔
Load Next Story