ساحل پر قبرستان
سانحہ کوئٹہ کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ بلوچستان گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ کے مزدوروں کے خون میں نہاگیا
سانحہ کوئٹہ کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے کہ بلوچستان گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ کے مزدوروں کے خون میں نہاگیا۔ یہ شپ بریکنگ یارڈ جو بحری جہازوں کے قبرستان کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، اب تک کتنے ہی انسانوں کا قبرستان بن چکا ہے۔
ناکارہ جہازوں کو توڑنے والا یہ شپ بریکنگ یارڈ کسی زمانے میں دنیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ شمار کیا جاتا تھا جب کہ رقبے کے لحاظ سے اب بھی یہ دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے والے زر پرستوں کے لیے یہ شپ بریکنگ یارڈ سونے کی کان کی طرح ہے مگر انتہائی نامساعد اور خطرناک حالات میں کام کرنے والے مجبور مزدوروں کے لیے یہ جگہ جہنم سے کم نہیں بقول شاعر: ''ہیں بندۂ مزدور کے اوقات بہت تلخ''یہ بے چارے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں اپنا خون پسینہ بہاتے ہوئے کام کرتے ہیں جب کہ استحصالی ان کی سخت محنت کی کمائی سے اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرتے ہیں۔صرف چند سو روپے کے معاوضے کے بدلے اس شپ بریکنگ یارڈ کے مزدور نہ صرف اپنی جان کی بازی لگاکر یہاں کام کرنے آتے ہیں بلکہ دس سے بارہ گھنٹے کے طویل دورانیے تک ناکارہ جہازوں میں موجود زہریلے کیمیائی مادوں میں سانس بھی لیتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں وہ ایسی ایسی خطرناک اور مہلک بیماریوں میں انجانے طور پر مبتلا ہورہے ہیں جن کا علاج وہ افورڈ بھی نہیں کرسکتے۔ سچ پوچھیے تو ان بیماریوں کا علاج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی آسان نہیں ہے۔اس شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوروں کا کس بری طرح سے استحصال کیا جاتا ہے اس کا اندازہ یہاں کے نظام سے بہ آسانی اور بخوبی کیا جاسکتا ہے یہاں کام کرنے کے لیے آنے والے مزدوروں کے ناموں کا اندراج کام شروع ہونے سے پہلے کرنے کے بجائے کام ختم ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔
مالکان اور ٹھیکیداران نے اس اندراج کے لیے اپنے نمائندے کے طور پر ایک جمعدار مقرر کیا ہوا ہوتا ہے جو سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے چنانچہ کام کے دوران زخمی یا ہلاک ہوجانے والا مزدور مکمل طور پر جمعدار کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ جہاز توڑنے والے مزدوروں کی جسمانی حفاظت کا سرے سے کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور ان بے چاروں کو ذاتی حفاظت کے کوئی آلات مہیا نہیں کیے جاتے۔ خستہ و خراب جہازوں سے خارج ہونے والے بعض کیمیائی مادوں کی زد میں آکر بعض مزدور دمے کی بیماری اور جلدی امراض میں مبتلاہوجاتے ہیں جب کہ ان کے علاج معالجے کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو کوئی یونیفارم بھی فراہم نہیں کی جاتی، انھیں کپڑے اور جوتے اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔ اونچائی پر کام کرنے والے مزدوروں کو اور بھی سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
شپ بریکنگ یارڈ میں تو کجا اس کے آس پاس بھی کوئی شفا خانہ یا اسپتال نہیں ہے، نزدیک ترین اسپتال بھی کراچی میں واقع ہے جس کا فاصلہ بھی 50 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے، ایک مشہور کہاوت کے مصداق ''جتنی دیر میں عراق سے تریاق آئے گا تب تک سانپ کا کاٹا ہوا انسان مر جائے گا'' یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو اگر ماہی بے آب کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کیوںکہ انھیں پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتنے وسیع و عریض شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں اور کارکنوںکے لیے صرف ایک اکلوتی ایمبولینس کا بندوبست موجود ہے جوکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ سراسر بے حسی اور انسانیت سوز زیادتی نہیں تو اور کیا ہے، مرزا غالب نے غالباً اسی طرح کی صورت حال کے بارے میں فرمایا ہے:
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
خستہ و ناکارہ بحری جہازوں پر نصب تیل اور گیس کے پائپوں کو کھولنا جان جوکھوں کا کام ہے جو ایکسپرٹ کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ ذرا سی بھی لاپرواہی یا بے احتیاطی کے نتیجے میں دھماکے کے ساتھ آگ لگنے کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے۔ بقول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
معمولی سی غفلت کے باعث بھیانک حادثات اس یارڈ میں ہوتے رہنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اس قسم کے حادثات کے نتیجے میں اب تک بہت سارے مزدور اپاہج اور معذور جب کہ کئی ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں بلندی پر کام کرنے والے مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ ان کے ایک دم نیچے اترنے کے لیے کسی ہنگامی راستے کا کوئی بندوبست موجود نہیں تھا۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں توڑنے کے لیے لائے جانے والے بحری جہازوں کی غالب اکثریت تیل اور مال بردار جہازوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ قاعدے کے مطابق جہاز میں موجود تیل اور دیگر آتش گیر کیمیکلز کی مکمل صفائی تک کسٹمز اور وزارت ماحولیات کا عملہ جہاز کو توڑنے کا این او سی جاری نہیں کرسکتا۔ چنانچہ مطلوبہ اجازت نامہ حاصل ہونے سے قبل جہاز کو ڈس مینٹل نہیں کرایا جا سکتا لیکن حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے ایگری گیس ویلڈنگ اور تیل کی صفائی کے مختلف کام بہ یک وقت شروع کرادیے گئے جس کے نتیجے میں حادثے کی راہ ہموار ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں جیتے جاگتے انسان گیس ویلڈنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔
گڈانی کا شپ بریکنگ یارڈ کے مزدوروں کے ساتھ حیوانوں سے بھی برا سلوک روا رکھا جارہاہے، ان میں کم عمر اور بوڑھے مزدور بھی شامل ہیں جنھیں ایک ہی چابک سے ہانکا جارہاہے۔ ہر ماہ اوسطاً تین چار مزدور مختلف حادثوں کا شکار ہوکر موت کا نوالہ بن جاتے ہیں جب کہ بعض دیگر بد نصیب شدید بیماری یا لا علاج معذوری کی بھینٹ چڑھ کر اپنے گھروں کو واپس چلے جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر ان سب سے زیادہ بد قسمت وہ ہیں جو یہاں سے لاشوں کی صورت میں تبدیل ہوکر اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر ملک عدم چلے جاتے ہیں۔
اس یارڈ میں 11 سال کے کم سن بچے بھی مزدوری کرتے ہیں حالات کا جبر انھیں اس کے لیے مجبور کردیتا ہے ان میں سے بعض کو اپنے والدین کا لیا ہوا قرض اتارنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور پنجاب کے صوبوں سے ہے جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر نامساعد حالات میں یہاں آکر کام کرتے ہیں ۔
اینٹوں کے بھٹوں اور معدنیاتی کانوں میں کام کرنے والے بے کس مزدوروں کے حالات بھی کچھ کم نامساعد اور انسانیت سوز نہیں ہیں۔ اسلامی تعلیم و ہدایت تو یہ ہے کہ مزدور کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کیا جائے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی اس کی مزدوری ادا کردی جائے مگر افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والے ملک میں نہ تو اسلامی تعلیمات و ہدایات کا کوئی احترام و اہتمام کیا جارہاہے اور نہ ہی جمہوری اقدار و روایات پر کچھ عمل کیا جارہاہے معلوم نہیں کہ ظلم و ستم اور استحصال کی سیاہ رات کب تک طاری رہے گی اور امید و انصاف کی سحر کب طلوع ہوگی؟
ناکارہ جہازوں کو توڑنے والا یہ شپ بریکنگ یارڈ کسی زمانے میں دنیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ شمار کیا جاتا تھا جب کہ رقبے کے لحاظ سے اب بھی یہ دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے والے زر پرستوں کے لیے یہ شپ بریکنگ یارڈ سونے کی کان کی طرح ہے مگر انتہائی نامساعد اور خطرناک حالات میں کام کرنے والے مجبور مزدوروں کے لیے یہ جگہ جہنم سے کم نہیں بقول شاعر: ''ہیں بندۂ مزدور کے اوقات بہت تلخ''یہ بے چارے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہاں اپنا خون پسینہ بہاتے ہوئے کام کرتے ہیں جب کہ استحصالی ان کی سخت محنت کی کمائی سے اپنی جیبیں اور تجوریاں بھرتے ہیں۔صرف چند سو روپے کے معاوضے کے بدلے اس شپ بریکنگ یارڈ کے مزدور نہ صرف اپنی جان کی بازی لگاکر یہاں کام کرنے آتے ہیں بلکہ دس سے بارہ گھنٹے کے طویل دورانیے تک ناکارہ جہازوں میں موجود زہریلے کیمیائی مادوں میں سانس بھی لیتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں وہ ایسی ایسی خطرناک اور مہلک بیماریوں میں انجانے طور پر مبتلا ہورہے ہیں جن کا علاج وہ افورڈ بھی نہیں کرسکتے۔ سچ پوچھیے تو ان بیماریوں کا علاج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی آسان نہیں ہے۔اس شپ بریکنگ یارڈ میں مزدوروں کا کس بری طرح سے استحصال کیا جاتا ہے اس کا اندازہ یہاں کے نظام سے بہ آسانی اور بخوبی کیا جاسکتا ہے یہاں کام کرنے کے لیے آنے والے مزدوروں کے ناموں کا اندراج کام شروع ہونے سے پہلے کرنے کے بجائے کام ختم ہونے کے بعد کیا جاتا ہے۔
مالکان اور ٹھیکیداران نے اس اندراج کے لیے اپنے نمائندے کے طور پر ایک جمعدار مقرر کیا ہوا ہوتا ہے جو سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے چنانچہ کام کے دوران زخمی یا ہلاک ہوجانے والا مزدور مکمل طور پر جمعدار کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ جہاز توڑنے والے مزدوروں کی جسمانی حفاظت کا سرے سے کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور ان بے چاروں کو ذاتی حفاظت کے کوئی آلات مہیا نہیں کیے جاتے۔ خستہ و خراب جہازوں سے خارج ہونے والے بعض کیمیائی مادوں کی زد میں آکر بعض مزدور دمے کی بیماری اور جلدی امراض میں مبتلاہوجاتے ہیں جب کہ ان کے علاج معالجے کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو کوئی یونیفارم بھی فراہم نہیں کی جاتی، انھیں کپڑے اور جوتے اپنی جیب سے خریدنے پڑتے ہیں۔ اونچائی پر کام کرنے والے مزدوروں کو اور بھی سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
شپ بریکنگ یارڈ میں تو کجا اس کے آس پاس بھی کوئی شفا خانہ یا اسپتال نہیں ہے، نزدیک ترین اسپتال بھی کراچی میں واقع ہے جس کا فاصلہ بھی 50 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے، ایک مشہور کہاوت کے مصداق ''جتنی دیر میں عراق سے تریاق آئے گا تب تک سانپ کا کاٹا ہوا انسان مر جائے گا'' یہاں کام کرنے والے مزدوروں کو اگر ماہی بے آب کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کیوںکہ انھیں پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اتنے وسیع و عریض شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں اور کارکنوںکے لیے صرف ایک اکلوتی ایمبولینس کا بندوبست موجود ہے جوکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ سراسر بے حسی اور انسانیت سوز زیادتی نہیں تو اور کیا ہے، مرزا غالب نے غالباً اسی طرح کی صورت حال کے بارے میں فرمایا ہے:
کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
خستہ و ناکارہ بحری جہازوں پر نصب تیل اور گیس کے پائپوں کو کھولنا جان جوکھوں کا کام ہے جو ایکسپرٹ کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ ذرا سی بھی لاپرواہی یا بے احتیاطی کے نتیجے میں دھماکے کے ساتھ آگ لگنے کا خطرہ ہر وقت لاحق رہتا ہے۔ بقول شاعر:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
معمولی سی غفلت کے باعث بھیانک حادثات اس یارڈ میں ہوتے رہنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اس قسم کے حادثات کے نتیجے میں اب تک بہت سارے مزدور اپاہج اور معذور جب کہ کئی ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں بلندی پر کام کرنے والے مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ ان کے ایک دم نیچے اترنے کے لیے کسی ہنگامی راستے کا کوئی بندوبست موجود نہیں تھا۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں توڑنے کے لیے لائے جانے والے بحری جہازوں کی غالب اکثریت تیل اور مال بردار جہازوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ قاعدے کے مطابق جہاز میں موجود تیل اور دیگر آتش گیر کیمیکلز کی مکمل صفائی تک کسٹمز اور وزارت ماحولیات کا عملہ جہاز کو توڑنے کا این او سی جاری نہیں کرسکتا۔ چنانچہ مطلوبہ اجازت نامہ حاصل ہونے سے قبل جہاز کو ڈس مینٹل نہیں کرایا جا سکتا لیکن حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے ایگری گیس ویلڈنگ اور تیل کی صفائی کے مختلف کام بہ یک وقت شروع کرادیے گئے جس کے نتیجے میں حادثے کی راہ ہموار ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں جیتے جاگتے انسان گیس ویلڈنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔
گڈانی کا شپ بریکنگ یارڈ کے مزدوروں کے ساتھ حیوانوں سے بھی برا سلوک روا رکھا جارہاہے، ان میں کم عمر اور بوڑھے مزدور بھی شامل ہیں جنھیں ایک ہی چابک سے ہانکا جارہاہے۔ ہر ماہ اوسطاً تین چار مزدور مختلف حادثوں کا شکار ہوکر موت کا نوالہ بن جاتے ہیں جب کہ بعض دیگر بد نصیب شدید بیماری یا لا علاج معذوری کی بھینٹ چڑھ کر اپنے گھروں کو واپس چلے جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر ان سب سے زیادہ بد قسمت وہ ہیں جو یہاں سے لاشوں کی صورت میں تبدیل ہوکر اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوکر ملک عدم چلے جاتے ہیں۔
اس یارڈ میں 11 سال کے کم سن بچے بھی مزدوری کرتے ہیں حالات کا جبر انھیں اس کے لیے مجبور کردیتا ہے ان میں سے بعض کو اپنے والدین کا لیا ہوا قرض اتارنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔ شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والے مزدوروں کی اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور پنجاب کے صوبوں سے ہے جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر نامساعد حالات میں یہاں آکر کام کرتے ہیں ۔
اینٹوں کے بھٹوں اور معدنیاتی کانوں میں کام کرنے والے بے کس مزدوروں کے حالات بھی کچھ کم نامساعد اور انسانیت سوز نہیں ہیں۔ اسلامی تعلیم و ہدایت تو یہ ہے کہ مزدور کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کیا جائے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی اس کی مزدوری ادا کردی جائے مگر افسوس صد افسوس کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے والے ملک میں نہ تو اسلامی تعلیمات و ہدایات کا کوئی احترام و اہتمام کیا جارہاہے اور نہ ہی جمہوری اقدار و روایات پر کچھ عمل کیا جارہاہے معلوم نہیں کہ ظلم و ستم اور استحصال کی سیاہ رات کب تک طاری رہے گی اور امید و انصاف کی سحر کب طلوع ہوگی؟