Say No
عام طور پر اخبارات میں ایسے واقعات پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک کے 89 سال کے بابے یا بابی نے یہ کارنامہ انجام دے دیا
لاہور:
ہم عام طور پر اخبارات میں ایسے واقعات پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک کے 89 سال کے بابے یا بابی نے یہ کارنامہ انجام دے دیا۔ ہوائی جہاز سے چھلانگ لگا دی اور صحیح سلامت زمین پر اتر آئے یا آگئیں یا یخ پانی میں اتر گئے اور اتنے گھنٹوں تک رہے یا کوئی اور کارنامہ۔ شاید دنیا کے گرد ہوائی چکر پورا کرنے والی خاتون بھی معمر ہیں بہرحال یہ کیا ہے؟ اسے کیا کہیں گے جب کہ ہمارے یہاں بھی معمر افراد کی کمی نہیں ہے۔
زندگی بھر وہ چاق و چوبند بھی رہے ہیں مگر یہ کیا کہ 65 یا 70 کے گزرتے ہی وہ ذہنی اور جسمانی طور پر گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور رفتہ رفتہ چارپائی سنبھال لیتے ہیں انھیں کوئی Hay Jhony اور Come on کہنے والا نہیں ہوتا اور لوگ ان کے پاس بیٹھ کر ان کی بیماریوں جو ہوگئیں اور جو ہونے والی ہیں تجزیہ کاروں کے مطابق ان پر گفتگو کرتے ہیں اور اس فرد کو مزید موت کے قریب کرنے میں مددگار ہوتے ہیں یعنی ایک اعتبار سے افرادی قوت کو ختم کرنے میں معاون۔
ہمارے ملک میں دو طرح کی افرادی قوت ہے۔ ایک بے روزگار شرفا اور ایک بے روزگار آگے کچھ لکھنا مناسب نہیں کہ آپ خود سمجھدار ہیں ، موت تو ان دونوں افرادی قوت کا مقدر ہے کیونکہ ہم نے (ہم سے مراد ہمیشہ حکومت ہی ہوتی ہے اور وہ لوگ جو ملک کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں) کوئی ایسا مربوط نظام نہیں بنایا ہے، جس سے اس قوت کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے اور انھیں مایوس اور پریشان ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔ فقط اشرافیہ اور امرا نے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر رکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیر کے بچوں کو صرف دوسرا شیر ہی کھا سکتا ہے، جنگل کے دوسرے رہنے والے اور ان کے بچے ان کا شکار ہیں اور سارا ملک ان کی چراگاہ۔
بات کسی اور طرف نہ چلی جائے لہٰذا ہم واپس آتے ہیں اپنی افرادی قوت کی طرف، یہ دو قوتیں کس حال میں ہیں ان کا حال تو آپ کے سامنے ہے ان دو قوتوں سے آگے چل کر دو اور قوتیں نکلتی ہیں معمر افراد کی تو اشرافیہ اور امرا کے معمر افراد تو کیا کرتے ہوں گے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شاید گولف کھیلتے کھیلتے رخصت ہوجاتے ہوں گے اور پھر مہنگے ڈاکٹروں کے تجربات کی نذر ہوجاتے ہوں گے اور ہوجاتے ہیں ہم اخبارات میں جب ان کی موت کے اشتہارات پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ موصوف عرصہ دراز سے بستر علالت پر جو زیادہ تر آئی سی یو ہوتا ہے دراز تھے اور وہاں سے ہی کوچ فرماگئے، کیونکہ زندگی بھر دولت دولت کھیلتے رہے لہٰذا وہاں طویل قیام کے اخراجات ادا کرنا خاندان کے لیے مشکل نہیں تھا۔
بلکہ خاندان بھر کے وہاں قیام کے اخراجات کا بھی بندوبست کرگئے ہیں اس پر برا ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ایک بزرگ وہ ہیں جن کی وفات کا اعلان مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ہوجاتا ہے اور محلے کے چند شرفا اور دیگر محلے دار تدفین میں شرکت کرلیتے ہیں اور انھیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچادیا جاتا ہے ایسا ہی شاید ایک دن ہمارے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ خیر حقیقت سے آنکھیں کیا چرانا جو ہے سو ہے۔
دراصل بات یہ کرنی ہے اور تھی کہ دنیا کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ انسان کو کس عمر میں کیا کرنا چاہیے، اگر ہم مسلمانوں کی کتابوں کا حوالہ دیں تو کوئی اور ہم پر دہشت گرد کا لیبل لگا دے گا، اور اگر ادھر کی کتابوں کا حوالہ دیں تو اسلام سے خارج ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا حوالوں کے بغیر بات کرتے ہیں۔ تو انسانی جسم کو روح کا لباس قرار دیا جاتا ہے کہ روح نظر نہیں آتی اور جسم نظر آتا ہے اور جسم کی حرکت روح کے ہونے کا ثبوت ہے تو یہ جو دنیا بھر کے معمر افراد کے عمل کا فرق ہے یہ Social Values اور Social Activities کا فرق ہے۔
ہم تو محض انسان کا کام یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے پیدا ہونا ہے، پیدا کرنا ہے اور روزگار بھی پیدا کرنا ہے کہ پیدا ہونے والوں کو پال سکے کہ وہ مزید پیدا ہونے والے پیدا کرسکیں۔ یہ ہمارا Human Cycle ہے اور اس سے باہر ہم نکل نہیں سکے، اس میں ایک خاص جز اور ذمے داری جو تھی وہ نظر انداز کردی گئی کہ ہمیں Responsible لوگ بھی اس معاشرے کو دیتے ہیں اور اس بھول چوک کا ہماری اشرافیہ نام نہاد نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے نااہلوں کو اولادوں کو Responsible بناکر ہمارے سر تھوپ دیا، اور ہم بھگت رہے ہیں۔ تو دوسرے معاشروں میں ایسا نہیں ہے۔ برصغیر کے علاوہ (میں آج تک اس علاقے کو برصغیر کہتا ہوں مجھے یہ اچھا لگتا ہے) دنیا بھر میں معاشروں کو ترتیب دیا گیا۔
ان کے اصول وضع کیے گئے اور ان پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا اور تفریق پیدا کرنے کی اشرافیہ کی کوشش کو بار بار سختی سے کچل کر اس فرق کو ختم کردیا گیا اور اب کوئی اس بنیاد پر نام نہاد اشرف القوم نہیں بن سکتا کہ باپ کی دولت اس کو ملی ہے، عموماً تو باپ اس معاشرے میں خود اپنے نام کی کوششوں میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اولاد کو اپنا نام خود پیدا کرنا پڑتا ہے۔
اور یہ کوشش ضعیف العمری تک چلتی رہتی ہے۔ یہی بات ہے کہ جو ہم نے کہی کہ کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ کس عمر میں کون بوڑھا ہوجائے گا کیونکہ ظاہری طور پر تو 92 سال کی عمر کے مرد نے 32 سال کی عمر کی خاتون یا لڑکی سے بھی شادی کی ہے اور خوش و خرم رہے ہیں۔ عمر کم اور Income کے لطیفے بھی ہوں گے مگر زیادہ تر حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے خدائے کریم کے عطا کیے ہوئے تحفے زندگی کا پورا لطف اٹھایا اور اس سے معاشرے کو بھی فائدہ دیا۔ اور کوشش کی کہ ان کا وجود معاشرے پر بوجھ نہ بنے، اگر مالی استطاعت نہ ہوئی تو وہاں انھوں نے کارخیر میں حصہ لے کر خود کو مطمئن اور دوسروں کو خوش رکھا۔ اور یہ مسلسل کوشش کی کہ ان کا دنیا میں ہونا اور ان کا نہ ہونا دونوںNotice کیے جائیں۔
یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے زندگی کو موت سے بہتر جانا اور اس کو استعمال کیا، محض بستر پر لیٹ کر موت کا انتظار نہیں کیا۔ دولت کو ہی سب کچھ نہیں قرار دیا۔ انسانیت کی قدر کی اور انسانیت سے کام لیا۔ دولت کا عالم تو یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص فیس بک کے بانی نے اپنی آمدنی کا 98 فیصد فلاح و بہبود کے کاموں پر لگا دیا ہے اور محض 2 فیصد بھی ان کے لیے More Than Enough ہے اور اگر ضرورتیں نہ ہوتیں تو شاید وہ یہ 2 فیصد بھی اس پر صرف کردیتے۔ کیوں یہ ہوا ہے؟ وہ حقیقت کو سمجھ گئے ہیں انھیں زندگی نظر آگئی ہے وہی زندگی جس کی طرف ہماری کتاب نے ہمارے دین نے اشارہ کیا ہے، وہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ زندگی نہیں ہے، وہ زندگی ہے، ہمارے یہاں کی یہ قوت یہ لوگ جو تجربے کار ہیں جنھیں حکومت ناکارہ قرار دے کر حکم جاری کرتی رہتی ہے کہ ان کو کوئی کام نہ دیا جائے مرنے دیا جائے یہ ایک ایسی قوت ہیں جو انرجی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کا کام انجام دے سکتے ہیں قوم کے لیے۔ یہ قوم کو ایک شاندار مستقبل دے سکتے ہیں۔
انھیں جمع کرنے اور کام کی آگ لگانے کی ضرورت ہے اس بھٹی سے قوم کے نئے سپوت ڈھل کر نکلیں گے تو وہ تربیت یافتہ ہوں گے، اخلاقی طور پر بھی اور مہارت کے اعتبار سے بھی اور اس قوم کو کام مل جائے گا جو کام آتا ہے، قومیں اپنے مہارت رکھنے والوں اور ہنرمندوں سے تادم آخر کام لیتی ہیں انھیں کھڈے لائن نہیں لگاتیں، خاندان میں بھی ان افراد کی عزت بحال کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ انھیں کام میں لایا جائے۔ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ رضاکارانہ یا آبرومندانہ طریقے سے کہ یہی ہمارے دین نے ہمیں سکھایا ہے کہ ''بزرگوں کی عزت کرو، احترام سے پیش آؤ۔''
بڑھاپے اور موت کا عمر سے کوئی تعلق نہیں، ایک خدا کا حکم ہے اور ایک انسان کے شکست تسلیم کرنے کا اعلان۔ یہ اعلان موت تک نہ ہو، یا کوئی جلد شکست مان لے۔ اپنی اپنی مرضی ہے۔
ہم عام طور پر اخبارات میں ایسے واقعات پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک کے 89 سال کے بابے یا بابی نے یہ کارنامہ انجام دے دیا۔ ہوائی جہاز سے چھلانگ لگا دی اور صحیح سلامت زمین پر اتر آئے یا آگئیں یا یخ پانی میں اتر گئے اور اتنے گھنٹوں تک رہے یا کوئی اور کارنامہ۔ شاید دنیا کے گرد ہوائی چکر پورا کرنے والی خاتون بھی معمر ہیں بہرحال یہ کیا ہے؟ اسے کیا کہیں گے جب کہ ہمارے یہاں بھی معمر افراد کی کمی نہیں ہے۔
زندگی بھر وہ چاق و چوبند بھی رہے ہیں مگر یہ کیا کہ 65 یا 70 کے گزرتے ہی وہ ذہنی اور جسمانی طور پر گراوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اور رفتہ رفتہ چارپائی سنبھال لیتے ہیں انھیں کوئی Hay Jhony اور Come on کہنے والا نہیں ہوتا اور لوگ ان کے پاس بیٹھ کر ان کی بیماریوں جو ہوگئیں اور جو ہونے والی ہیں تجزیہ کاروں کے مطابق ان پر گفتگو کرتے ہیں اور اس فرد کو مزید موت کے قریب کرنے میں مددگار ہوتے ہیں یعنی ایک اعتبار سے افرادی قوت کو ختم کرنے میں معاون۔
ہمارے ملک میں دو طرح کی افرادی قوت ہے۔ ایک بے روزگار شرفا اور ایک بے روزگار آگے کچھ لکھنا مناسب نہیں کہ آپ خود سمجھدار ہیں ، موت تو ان دونوں افرادی قوت کا مقدر ہے کیونکہ ہم نے (ہم سے مراد ہمیشہ حکومت ہی ہوتی ہے اور وہ لوگ جو ملک کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں) کوئی ایسا مربوط نظام نہیں بنایا ہے، جس سے اس قوت کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے اور انھیں مایوس اور پریشان ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔ فقط اشرافیہ اور امرا نے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر رکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیر کے بچوں کو صرف دوسرا شیر ہی کھا سکتا ہے، جنگل کے دوسرے رہنے والے اور ان کے بچے ان کا شکار ہیں اور سارا ملک ان کی چراگاہ۔
بات کسی اور طرف نہ چلی جائے لہٰذا ہم واپس آتے ہیں اپنی افرادی قوت کی طرف، یہ دو قوتیں کس حال میں ہیں ان کا حال تو آپ کے سامنے ہے ان دو قوتوں سے آگے چل کر دو اور قوتیں نکلتی ہیں معمر افراد کی تو اشرافیہ اور امرا کے معمر افراد تو کیا کرتے ہوں گے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ شاید گولف کھیلتے کھیلتے رخصت ہوجاتے ہوں گے اور پھر مہنگے ڈاکٹروں کے تجربات کی نذر ہوجاتے ہوں گے اور ہوجاتے ہیں ہم اخبارات میں جب ان کی موت کے اشتہارات پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ موصوف عرصہ دراز سے بستر علالت پر جو زیادہ تر آئی سی یو ہوتا ہے دراز تھے اور وہاں سے ہی کوچ فرماگئے، کیونکہ زندگی بھر دولت دولت کھیلتے رہے لہٰذا وہاں طویل قیام کے اخراجات ادا کرنا خاندان کے لیے مشکل نہیں تھا۔
بلکہ خاندان بھر کے وہاں قیام کے اخراجات کا بھی بندوبست کرگئے ہیں اس پر برا ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ایک بزرگ وہ ہیں جن کی وفات کا اعلان مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ہوجاتا ہے اور محلے کے چند شرفا اور دیگر محلے دار تدفین میں شرکت کرلیتے ہیں اور انھیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچادیا جاتا ہے ایسا ہی شاید ایک دن ہمارے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ خیر حقیقت سے آنکھیں کیا چرانا جو ہے سو ہے۔
دراصل بات یہ کرنی ہے اور تھی کہ دنیا کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ انسان کو کس عمر میں کیا کرنا چاہیے، اگر ہم مسلمانوں کی کتابوں کا حوالہ دیں تو کوئی اور ہم پر دہشت گرد کا لیبل لگا دے گا، اور اگر ادھر کی کتابوں کا حوالہ دیں تو اسلام سے خارج ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا حوالوں کے بغیر بات کرتے ہیں۔ تو انسانی جسم کو روح کا لباس قرار دیا جاتا ہے کہ روح نظر نہیں آتی اور جسم نظر آتا ہے اور جسم کی حرکت روح کے ہونے کا ثبوت ہے تو یہ جو دنیا بھر کے معمر افراد کے عمل کا فرق ہے یہ Social Values اور Social Activities کا فرق ہے۔
ہم تو محض انسان کا کام یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے پیدا ہونا ہے، پیدا کرنا ہے اور روزگار بھی پیدا کرنا ہے کہ پیدا ہونے والوں کو پال سکے کہ وہ مزید پیدا ہونے والے پیدا کرسکیں۔ یہ ہمارا Human Cycle ہے اور اس سے باہر ہم نکل نہیں سکے، اس میں ایک خاص جز اور ذمے داری جو تھی وہ نظر انداز کردی گئی کہ ہمیں Responsible لوگ بھی اس معاشرے کو دیتے ہیں اور اس بھول چوک کا ہماری اشرافیہ نام نہاد نے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے نااہلوں کو اولادوں کو Responsible بناکر ہمارے سر تھوپ دیا، اور ہم بھگت رہے ہیں۔ تو دوسرے معاشروں میں ایسا نہیں ہے۔ برصغیر کے علاوہ (میں آج تک اس علاقے کو برصغیر کہتا ہوں مجھے یہ اچھا لگتا ہے) دنیا بھر میں معاشروں کو ترتیب دیا گیا۔
ان کے اصول وضع کیے گئے اور ان پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا اور تفریق پیدا کرنے کی اشرافیہ کی کوشش کو بار بار سختی سے کچل کر اس فرق کو ختم کردیا گیا اور اب کوئی اس بنیاد پر نام نہاد اشرف القوم نہیں بن سکتا کہ باپ کی دولت اس کو ملی ہے، عموماً تو باپ اس معاشرے میں خود اپنے نام کی کوششوں میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ اولاد کو اپنا نام خود پیدا کرنا پڑتا ہے۔
اور یہ کوشش ضعیف العمری تک چلتی رہتی ہے۔ یہی بات ہے کہ جو ہم نے کہی کہ کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ کس عمر میں کون بوڑھا ہوجائے گا کیونکہ ظاہری طور پر تو 92 سال کی عمر کے مرد نے 32 سال کی عمر کی خاتون یا لڑکی سے بھی شادی کی ہے اور خوش و خرم رہے ہیں۔ عمر کم اور Income کے لطیفے بھی ہوں گے مگر زیادہ تر حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے خدائے کریم کے عطا کیے ہوئے تحفے زندگی کا پورا لطف اٹھایا اور اس سے معاشرے کو بھی فائدہ دیا۔ اور کوشش کی کہ ان کا وجود معاشرے پر بوجھ نہ بنے، اگر مالی استطاعت نہ ہوئی تو وہاں انھوں نے کارخیر میں حصہ لے کر خود کو مطمئن اور دوسروں کو خوش رکھا۔ اور یہ مسلسل کوشش کی کہ ان کا دنیا میں ہونا اور ان کا نہ ہونا دونوںNotice کیے جائیں۔
یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے زندگی کو موت سے بہتر جانا اور اس کو استعمال کیا، محض بستر پر لیٹ کر موت کا انتظار نہیں کیا۔ دولت کو ہی سب کچھ نہیں قرار دیا۔ انسانیت کی قدر کی اور انسانیت سے کام لیا۔ دولت کا عالم تو یہ ہے کہ دنیا کے امیر ترین شخص فیس بک کے بانی نے اپنی آمدنی کا 98 فیصد فلاح و بہبود کے کاموں پر لگا دیا ہے اور محض 2 فیصد بھی ان کے لیے More Than Enough ہے اور اگر ضرورتیں نہ ہوتیں تو شاید وہ یہ 2 فیصد بھی اس پر صرف کردیتے۔ کیوں یہ ہوا ہے؟ وہ حقیقت کو سمجھ گئے ہیں انھیں زندگی نظر آگئی ہے وہی زندگی جس کی طرف ہماری کتاب نے ہمارے دین نے اشارہ کیا ہے، وہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ زندگی نہیں ہے، وہ زندگی ہے، ہمارے یہاں کی یہ قوت یہ لوگ جو تجربے کار ہیں جنھیں حکومت ناکارہ قرار دے کر حکم جاری کرتی رہتی ہے کہ ان کو کوئی کام نہ دیا جائے مرنے دیا جائے یہ ایک ایسی قوت ہیں جو انرجی پیدا کرنے کے لیے کوئلے کا کام انجام دے سکتے ہیں قوم کے لیے۔ یہ قوم کو ایک شاندار مستقبل دے سکتے ہیں۔
انھیں جمع کرنے اور کام کی آگ لگانے کی ضرورت ہے اس بھٹی سے قوم کے نئے سپوت ڈھل کر نکلیں گے تو وہ تربیت یافتہ ہوں گے، اخلاقی طور پر بھی اور مہارت کے اعتبار سے بھی اور اس قوم کو کام مل جائے گا جو کام آتا ہے، قومیں اپنے مہارت رکھنے والوں اور ہنرمندوں سے تادم آخر کام لیتی ہیں انھیں کھڈے لائن نہیں لگاتیں، خاندان میں بھی ان افراد کی عزت بحال کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ انھیں کام میں لایا جائے۔ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ رضاکارانہ یا آبرومندانہ طریقے سے کہ یہی ہمارے دین نے ہمیں سکھایا ہے کہ ''بزرگوں کی عزت کرو، احترام سے پیش آؤ۔''
بڑھاپے اور موت کا عمر سے کوئی تعلق نہیں، ایک خدا کا حکم ہے اور ایک انسان کے شکست تسلیم کرنے کا اعلان۔ یہ اعلان موت تک نہ ہو، یا کوئی جلد شکست مان لے۔ اپنی اپنی مرضی ہے۔