دیکھا تیرا امریکا پانچویں قسط

امریکا میں حلال گوشت کا مسئلہ ہمیشہ سےہی ہے، لیکن مسلمانوں کی دکانیں کھل جانےسے حلال گوشت کے حوالےسے کچھ سکون ہوگیا ہے

سڑکیں اِس قدر صاف ستھری جیسے دھلی ہوئی ہوں، فضا صاف شفاف، دھول نا مٹی، نا گاڑیوں کا دھواں اور نا ہی ہارن کی بے ربط آوازیں حالانکہ بے شمار گاڑیاں آجارہی تھیں۔

میسی اور دوسرے اسٹورز

ہمیں امریکہ آئے پندرہ دن ہوگئے تھے۔ عدیل آفس چلا جاتا تھا اور ہم اس کی واپسی تک گھر پر ہی ہوتے تھے زیادہ سے زیادہ ڈاؤن ٹاؤن کا چکر لگا آتے تھے۔ عدیل کا آفس چونکہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا اس لئے وہ پیدل چلا جاتا تھا، گاڑی گھر پر ہی ہوتی تھی۔

رات کے کھانے پرعدیل نے رابعہ سے کہا کہ تم امی پاپا کو گھمانے لے جایا کرو۔ رابعہ نے کہا، امی ابو آپ تیار رہیئے گا کل گھومنے چلیں گے۔ صبح میں جلدی اٹھ گیا، دیکھا تو بیگم صاحبہ نماز پڑھنے میں مصروف تھیں۔ باہر کے موسم سے تو کچھ اندازہ نہیں ہورہا تھا، شاید آئی پیڈ پر وہاں کے وقت کے مطابق اذان ہوگئی تھی۔ میں نے بھی نماز پڑھنے کا ارادہ کیا اور وضو کیلئے باتھ روم کا رخ کیا۔ ناشتے کے بعد عدیل تو آفس چلا گیا اور ہمارا آج رابعہ کے ساتھ باہر جانے کا پروگرام بن گیا۔

آج میں آپ کو سپر اسٹورز دکھاؤں گی، رابعہ نے کہا۔ ٹھیک ہے بیٹا! میں نےعنایہ سے کھیلتے ہوئے کہا۔

پھر حلال اسٹور بھی چلیں گے، گوشت اور چکن لانا ہے۔ عدیل واپسی پر روز بھول جاتے ہیں، رابعہ نے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔

یہ حلال اسٹور کیا ہے؟ میں نے پوچھا۔

یکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دوسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

ابو یہ کراچی کے دو بھائیوں کا اسٹور ہے، تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ ایک تو وہاں سے ہمارے دیسی مصالحہ جات مل جاتے ہیں، دوسرے حلال مٹن اور چکن مل جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے انہوں نے اسٹور کا نام حلال اسٹور رکھا ہے۔ یہاں دور دور رہنے والے مسلمان مہینے بھر کی گروسری یہاں سے لے جاتے ہیں۔ میں بھی گوشت، مرغی اسی اسٹور سے لاتی ہوں۔ رابعہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

یہاں امریکہ میں یہودی بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہودی حلال گوشت کھاتے ہیں، جسے کوشر کہتے ہیں۔ مچھلی تو مارکیٹ سے عام مل جاتی ہے۔ اس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

چلو حرام حلال کا مسئلہ تو حل ہوا ورنہ مشکل ہوجاتی۔ میں نے ہنس کر کہا۔

امریکی سور کا گوشت کھاتے ہیں جسے پورک کہتے ہیں۔ وہ بھینس اور بکرے کا گوشت کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں گوشت کی دکانوں پر پورک عام پڑا ہوتا ہے۔ بھینس اور بکرے کا گوشت ہو بھی تو حلال نہیں ہوتا بلکہ جھٹکے کا ہوتا ہے کیونکہ ان میں ہماری طرح حلال حرام کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو محتاط ہونا پڑتا ہے اور اب مسلمانوں کی دکانیں کھل جانے سے لوگوں کو حلال گوشت کے حوالے سے کچھ سکون ہوگیا ہے کہ انہیں حلال گوشت مل جاتا ہے۔

میں نے رابعہ سے کہا کہ حلال اسٹور تو جانا ہی ہے، موٹا کٹا ہوا قیمہ بھی لے لیں گے۔ رابعہ کہنے لگی، ابو یہاں ایسے قیمہ نہیں ملتا، وہ لوگ کہتے ہیں قیمہ کے لئے پوری ران لیں پھر قیمہ بنا کر دیں گے۔

میں نے کہا، تو ٹیلی فون پر کہہ دو، جب دوسرے اسٹور جہاں تم لے جارہی ہو، وہاں گھوم لیں گے تو واپسی پر قیمہ لے لیں گے۔

رابعہ نے ٹیلی فون پر قیمے کا کہہ دیا اور میری فرمائش پر اُسے یہ بھی کہہ دیا کہ موٹے قیمے والے بلیڈ لگا کر قیمہ بنائیے۔ آج نجانے کیوں کھڑے مصالحے کا قیمہ کھانے کا دل کر رہا تھا۔شاید پاکستان یاد آ رہا تھا۔ گاڑی اپارٹمنٹس کے نیچے پارکنگ ایریا میں کھڑی تھی لفٹ نے ہمیں نیچے پارکنگ ایریا میں پہنچا دیا۔ ہم باتیں کرتے ہوئے گاڑی کے پاس آگئے۔ رابعہ نے گاڑی کھولی، پچھلی سیٹ پر نصب بے بی سیٹ پر عنایہ کو بٹھایا۔ اِس کے ساتھ والی سیٹ پر اس کی دادی بیٹھ گئیں۔ پھر رابعہ ڈرائیونگ سیٹ پر آن بیٹھی اور دوسری طرف کا دروازہ میرے لئے کھول دیا۔ رابعہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولی
''ابو سیٹ بیلٹ باندھ لیں''

کیوں؟ تم نے باندھ تو لی ہے، کیا ضروری ہے، میں بھی بیلٹ باندھوں؟ پاکستان میں تو نہیں باندھتے، میں نے کہا۔

ابو! آپ امریکہ میں ہیں، پاکستان میں نہیں۔ یہاں بیلٹ باندھنا قانونی طور پر بہت ضروری ہے۔
رابعہ نے وہی سبق دھرایا جو عدیل نے ائیرپورٹ پر ہمیں ریسیو کرکے گھر لاتے ہوئے پڑھایا تھا۔


یہ ٹوں ٹوں کی آواز کیوں آرہی ہے گاڑی میں سے؟ میں نے رابعہ سے پوچھا۔

اس لئے کہ آپ نے ابھی تک بیلٹ نہیں باندھی، گاڑی میں جو سسٹم نصب ہے، وہ یاد دہانی کراتا ہے کہ بیلٹ باندھ لیں، رابعہ نے ہنس کر کہا۔

میں نے کندھے کے اوپرسے بیلٹ لا کر سینے کے اوپر سے لے جا کر اس کا ہُک لگا دیا اور گاڑی میں سے ابھرنے والی ٹوں ٹوں کی آواز بند ہوگئی اور ڈیش بورڈ پر جلتا روشن سرخ نشان بھی بجھ گیا۔

یاد رکھیں جب بھی گاڑی میں بیٹھیں، یہ بیلٹ لگانا ضروری ہوگا۔ اچھا اچھا ٹھیک ہے، میں نے اقرار میں گردن ہلائی۔

رابعہ نے گاڑی اسٹارٹ کی، پارکنگ لاٹ سے نکالی۔ یہ ٹوئن ٹاور کا پارکنگ ایریا تھا۔ جہاں ہر فلیٹ کے مکینوں کیلئے جگہ مخصوص کردی گئی تھی۔ اس وقت ایک دو گاڑیاں ہی کھڑی تھیں کیونکہ لوگ اپنے اپنے کام اور اپنی اپنی نوکریوں پر جاچکے تھے۔ وقت کی پابندی یہاں لازمی امر ہے اور لوگ اس کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔

عدیل کا فلیٹ چونکہ ڈاؤن ٹاون کی مین سڑک پر واقع ہے اور نزدیک ہی فائر بریگیڈ کا آفس بھی ہے اس لئے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہر وقت شور مچاتی ہوئی گزرتی ہیں۔

ہم مرکزی سڑک پر آگئے، سڑک کے دونوں طرف عمارتیں، کناروں پر چلنے کے لئے اینٹوں کے بنے خاصے چوڑے فٹ پاتھ، ترتیب سے بنے صاف ستھرے اپارٹمنٹس بڑے خوبصورت لگ رہے تھے۔ سڑکیں اِس قدر صاف ستھری جیسے دھلی ہوئی ہوں، فضا صاف شفاف، دھول نا مٹی، نا گاڑیوں کا دھواں اور نا ہی ہارن کی بے ربط آوازیں حالانکہ بے شمار گاڑیاں آجارہی تھیں۔ چھوٹی سڑکیں پار کرکے رابعہ ہائی وے پر آگئی۔ وہ ہمیں امریکہ کے مشہور اسٹور میسی پر لے جا رہی تھی۔ میسی اسٹور، ویٹن مال میں واقع ہے جہاں کئی اور اسٹور بھی ہیں۔

رابعہ نے گاڑی میسی کے سامنے ایک وسیع و عریض پارکنگ لاٹ میں لاکھڑی کی۔ میں نے گاڑی سے باہر نکل کر اس پارکنگ پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔ صاف ستھرا پارکنگ لاٹ جہاں زمین پر سفید رنگ سے لائینیں بنی ہوئی تھیں۔ دو لائینوں کے درمیان گاڑی کھڑی کرنا ہوتی ہے۔ بے ترتیبی سے کوئی گاڑی کھڑی نہیں کرسکتا۔ اسٹوروں کے سامنے معذوروں کی گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ مخصوص ہوتی ہے وہاں صرف معذور لوگ جن کے پاس باقاعدہ سرٹیفیکیٹ ہو گاڑی کھڑی کرسکتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ دور دور تک کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا تک نظر نہیں آرہا تھا، کہیں پاؤں سے مسلی ہوئی کوئی سگریٹ نہیں تھی، کوئی پھل، کوئی چھلکا، کوئی لفافہ، کسی چاکلیٹ کا ریپر، کچھ بھی نا تھا۔ کہیں پھٹے ہوئے اخبار کے ٹکڑے تھے نہ کوئی مومی لفافہ ہوا سے اِدھر سے اُدھر اُڑ رہا تھا۔ کوئی کوک کا ٹن پیروں کی ٹھوکروں میں نہیں آ رہا تھا، کوئی جوس کا خالی ڈبہ پڑا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

معذوروں کی گاڑیوں کے لئے مخصوص جگہیں اکثر خالی نظر آرہی تھیں کیونکہ یہاں کسی بھی حال میں عام آدمی گاڑی کھڑی نہیں کرتا چاہے پارکنگ لاٹ میں کتنا ہی رش کیوں نا ہو۔

میں وہاں کھڑا سوچ رہا تھا کہ ہمارے ملک میں ایسی بات کیوں نہیں ہے؟ ہمارے یہاں جہاں دل کرے وہاں گاڑیاں کیوں کھڑی کردی جاتی ہے؟ بعض اوقات تو گاڑیاں کچھ اِس بے ہنگم طریقے سے کھڑی کی جاتی ہے کہ گاڑی نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان گاڑیوں کے مالکان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ان کی وجہ سے دوسروں کو کتنی تکلیف ہو رہی ہے۔

یہاں امریکہ میں کیا خوبصورت نظام ہے، ناں کسی کو تکلیف ناں پریشانی۔ گاڑی کھڑی کی، کام کیا، شاپنگ کی اور آرام سے بغیر کسی تکلیف کے گاڑی نکال کر لے گئے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان میں قانون کو خاطر میں نہیں لاتے یہاں بلا چوں و چرا وہی کرتے ہیں جو قانون کہتا ہے۔ گاڑی سیٹ بیلٹ باندھے بغیر نہیں چلاتے۔ حدِ رفتار کا خیال رکھتے ہیں۔ اشاروں پر رکتے ہیں چاہے اردگرد دیکھنے والا کوئی نہ ہو۔ گاڑی پارکنگ لاٹ میں دو سفید لائنوں کے درمیان اس طرح کھڑی کرتے ہیں کہ سفید لائن پر گاڑی کا پہیہ نہیں آتا۔ یہ معمولی معمولی سی باتیں ہیں جن پر عمل کرنا مشکل کام بھی نہیں پھر بھی ہمارے یہاں لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے۔ اصولوں کو توڑنا، قانون شکنی ہمارا شیوہ کیوں بن گیا ہے۔ بحیثیت قوم یہ کتنی معیوب بات ہے۔ آخر یہاں بھی تو یہ لوگ ہیں۔ کس قدر شفاف نظام چلا رہے ہیں۔ صفائی اور قانون کے احترام نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔

ابو چلیں؟ رابعہ نے مجھے محو دیکھ کر کہا۔

ہاں ہاں چلو، میں نے محویت سے نکلتے ہوئے کہا۔

ہم میسی اسٹور میں داخل ہوئے۔ اتنا بڑا اسٹور جو کئی ایکڑ پر محیط ہے، میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ یہاں کیا کچھ نہیں تھا۔ مختلف چیزیں بڑے سلیقے سے سجی ہوئی تھیں۔ ایک ایک حصہ ہمارے اسلام آباد کے سینٹورس اسٹور سے بڑا تھا۔ کہیں کراکری تھی، قیمتی کرسٹل کے برتن، ڈیکوریشن کی جگمگاتی چیزیں، چمکتی دمکتی کٹلری، کوئی حصہ زنانہ لباسوں کے لئے مختص تھا، کہیں مردانہ قمیضیں اور سوٹ تھے، کوئی کھلونوں کا حصہ تھا تو کہیں ہر قسم کے جوتے ریک میں سجے تھے، اور بے شمار چیزیں تھیں۔ لوگ شاپنگ میں مصروف تھے، کاؤنٹر پر زیادہ تر لیڈیز کھڑی تھیں، کمپیوٹر سے قیمتوں کا حساب کتاب ہورہا تھا۔ لوگ سامان خرید کر آجا رہے تھے لیکن کیا مجال جو شور شرابہ ہو یا دھکم پیل ہو، کاؤنٹرز پر لوگ اپنا سامان اٹھائے قطاروں میں نظر آ رہے تھے۔ باری آنے پر سیل گرل کے سامنے رکھ رہے تھے، بل ادا کر رہے تھے اور اپنی راہ لے رہے تھے۔

ہم نے میسی کے بیشتر حصے دیکھ لئے۔ اوپری منزل پر فوڈ کورٹ بھی تھا، کھانے پینے کی دکانیں۔ اتنا بڑا میسی دیکھتے دیکھتے بہت وقت لگ گیا۔ رابعہ کہنے لگی فوڈ کورٹ سے کھانا کھا لیتے ہیں لیکن ہم نے کہا کہ عنایہ کو فرائز لے دو۔ کھانا ہم گھر چل کر کھائیں گے۔ اس وقت تک عدیل بھی واپس آگیا ہوگا۔

جیسی آپ کی مرضی، رابعہ نے کہا۔

رابعہ کہنے لگی کیوں ناں اب ساتھ والے مال میں چلیں، لیکن ہم نے کانوں کو ہاتھ لگائے کیونکہ میسی اتنا بڑا مال ہے کہ اس کا ایک چکر لگا کر ہی ہم تھک گئے تھے۔ ہم نے رابعہ سے کہا، آج نہیں پھر کسی دن آئیں گے۔ آج بہت تھک گئے ہیں۔

ہم باتیں کرتے کرتے باہر نکل آئے، چار بج گئے تھے، اسٹور میں گھومتے پھرتے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ وہاں سے ہم حلال اسٹور آئے، قیمے کا پیکٹ پکڑا اور گھر کو چل دئیے۔ گھر پہنچتے پہنچتے پانچ بج گئے۔ میں خاصا تھک گیا تھا۔ گھر پہنچتے ہی صوفے پر دراز ہوگیا اور ہماری بیگم اور رابعہ اپنی شاپنگ دیکھنے لگیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story