حکومت فن کی سرپرست ہے
آج کل دو بانسری نوازوں کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے ایک جمہوری استحکام اور معاشی ترقی کا نغمہ الاپ رہا ہے
پتہ نہیں کیوں یہ پاکستان والے اتنے ناشکرے کیوں ہیں، حکومت فن کاروں کی سرپرستی کرے، فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے کچھ کرے اور جو کچھ حکومت کر رہی ہے اس کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا ہے، دوسرے فنون لطیفہ کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن جب ایک شعبہ ایسا ہے کہ دوسرے شعبوں میں یقیناً ایسا ہو گا مثلاً طبلہ نوازی، بانسری نوازی، ڈھول نوازی اور ہارمونیم نوازی کو دیکھیے کہ یہ فنون کس درجہ کمال کو پہنچ رہے ہیں۔
ایک طبلہ نوازی کو دیکھیے اس کے لیے باقاعدہ ملکی سطح پر دو بڑے بڑے سینٹر کھولے ہوئے ہیں، پھر ہر صوبے میں بھی ایک بڑا سینٹر ہوتا ہے اس کے بعد بتدریخ اضلاع، تحصیلوں بلکہ ویلج سینٹر ایک جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں جہاں منتخب لوگ بیٹھ کر طبلہ بجانے کا ریاض کرتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ ان سینٹروں میں ''طبلے'' خریدنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ڈسک ہی کو طبلہ سمجھ کر بجایا جاتا ہے
تادھا دیکڑک دیکڑک دھا
دھا دھا دھا دھا دیکڑک تاتاتا
یقین کریں ویسے تو طبلے کا ریاض جن سینٹروں میں کیا جاتا ہے وہاں ہم جیسے ہما شما اور موسیقی سے نابلد لوگوں کا گزر تو ممکن نہیں ہے لیکن کبھی کبھی ٹی وی پر طبلہ نوازی کے یہ مظاہرے دیکھنے سننے کو مل جاتے ہیں واہ جی واہ کیا طبلہ بجاتے ہیں ماہر طبلہ نواز۔ وہ کون تھا جو پڑوسی ملک کا مشہور طبلہ نواز تھا ذاکر حسین یا شاکر حسین ایسا کچھ نام تھا وہ بھی اگر ہمارے منتخب طبلہ نوازوں کا طبلہ سن لے تو فوراً زانوئے تلمند تہہ کرلے، یہ تو ہم نے بڑے بڑے قومی یا صوبائی مراکز طبلہ نوازی کی بات کی جہاں جدی پشتی اور تجربے کار فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور طبلے کا کام ڈسک سے لیتے ہیں لیکن اس سے ذرا کم درجے کے ضلعی تحصیلی اور ویلج اور ٹاؤن سینٹروں تک چونکہ ہماری رسائی ممکن ہے اور اگر جب طبیعت بھاری ہوتی ہے تو کسی قریبی سینٹر میں جا کر لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔
اس سطح کے فن کار تو اور بھی کمال کے ہوتے ہیں جب ڈسک کو بطور طلبہ بجانے سے تسکین نہیں ہوتی تو ایک دوسرے کو طبلہ سمجھ کر وہ بجاتے ہیں، وہ بجاتے ہیں کہ سب کچھ بجنے لگتا ہے، ان ماہرین طبلہ نوازی کو حکومت کی طرف سے کیا کچھ نہیں ملتا ہے، تنخواہیں تو ایک طرف دوسری مراعات بھی بے پناہ ہیں اور ساتھ میں اراضی کے ٹکڑے بھی دیے گئے جہاں یہ جو جی چاہیں بوئیں کاٹیں کھائیں اور کھلائیں، اس کے علاوہ وہ کچھ اور مراعات بھی ہیں جو اتنے خفیہ ہیں کہ ساری دنیا اس سے واقف ہے اس لیے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں صرف اتنا اشارہ کافی کہ حکومت کے سارے محکموں میں نااہلی کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے والے گھسا سکتے ہیں تاکہ جلد سے جلد تمام اداروں کو خسارے کی سعادت حاصل ہو جائے۔
اب بانسری نوازی پر آتے ہیں اس کی سرپرستی اور نوازی کا تو یہ عالم ہے کہ اخباروں اور چینلوں اور ریڈیو کے ذریعے ہر وقت ہر گھڑی بانسریاں ہی بجتی ہیں جسے سرکاری کاغذات میں بیانات مذاکرات اور مباحثات کہتے ہیں، یہ بانسریاں اتنی اثر دار ہوتی ہیں کہ بہت سارے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر کہیں بھی لے جا کر غرق کیا جا سکتا ہے۔
ایک مشہور اور ماہر بلکہ باہر سے تربیت یافتہ بانسری نواز نے تمام بھوکوں کو پیچھے لگا کر اور روٹی کپڑا مکان کا مشہور نغمہ الاپ کر قبرستان پہنچا دیا ایک دوسرے نے مقدس الاپ بجا کر ایک خلق کو بحیرہ عرب پہنچا دیا، اس کے بعد اور بھی بہت سارے بانسری نواز آئے اور کچھ نہ کچھ لے کر ٹلے کیونکہ پاکستانی عوام ''موسیقی'' پر جان دیتے ہیں خاص طور پر وہ موسیقی جو پاگل کر کے غرق کرے کیوں کہ پاکستان کے لوگ اپنے آپ کو غرق کرنے کے حد درجہ شوقین ہوتے ہیں
ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفرؔ ہم نے
غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں
آج کل دو بانسری نوازوں کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے ایک جمہوری استحکام اور معاشی ترقی کا نغمہ الاپ رہا ہے اور دوسرا تبدیلی اور نئے پاکستان کا گیت الاپ رہا ہے ایک اور بھی ہے جو صرف پی پی پی کا پپیہا گا رہا ہے، اب سب سے بڑے آلہ موسیقی ڈھول پر آتے ہیں یہ تو تقریباً ہر کسی کے گلے میں ہے اور حتی المقدور اسے پورے زور کے ساتھ بجا رہا ہے، کڑ کڑا کا کڑ کڑا کاکڑ، کچھ تو پرانے بڑے سے ڈھول سے کام چلا رہے ہیں لیکن کچھ کے پاس نئے جدید ڈھول ہیں جو ہیں تو چھوٹے لیکن ان میں ایسے ڈیوائسز فٹ کیے گئے ہیں جو معمولی آواز کو بھی ہزار گنا کر کے سنواتے ہیں۔
ہار مونیم تو آپ جانتے ہیں کہ ایک عوامی آلہ موسیقی ہے اس لیے اس کا تو کہنا ہی کیا، چنانچہ حکومت نے نہایت خوش تدبیری اور مہارت سے کام لے کر اسے تقریباً ''ہر عوام'' کے گلے میں فٹ کیا ہوا ہے۔اور چھوٹوں نے تو اپنی اپنی ڈفلی شروع کی تھی اور مختلف مضامین باندھ رہے تھے بیوی بھی بینجو پر کچھ سر کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن بچوں کے الگ سازوں سے تنگ آکر سب کا طبلہ بجانا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر میں پورا آرکسٹرا بجنے لگا، یہ تو ملک میں موسیقی کی سرپرستی والی بات تھی جو حکومت نہایت ہی مستعدی سے سرانجام دے رہی ہے۔
رہی فلم انڈسٹری کی بات تو ایسا لگتا ہے یہ فلم انڈسٹری والے بڑے بے خبر لوگ ہیں کہ ان کو آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ حکومت نے فلم انڈسٹری کو کتنی وسعت اور ترقی دی ہوئی ہے بلکہ پورے ملک کو فلم انڈسٹری میں تبدیل کر دیا ہوا ہے۔
ہمارے بس میں ہوتا تو سب کو ایک لائن میں لگوا کر آسکر ایوارڈ دے دیتے لیکن آسکر ان گاجر نما امریکیوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہم پاکستانیوں سے پرخاش رکھتے ہیں ورنہ اگر صلاحیتوں پر ہو تو ہر پارٹی کے پاس مستحق اداکاروں کی لائن لگی ہوتی، کیا ڈائیلاگ بولتے ہیں کیا ایکسپریشن دیتے ہیں کیا ایکشن اور ری ایکشن دیتے ہیں اور اسکرپٹ کا تو کہنا ہی کیا ایک ہی اسکرپٹ ہے جو بابا آدم نے بی بی حوا کو سنایا تو اس نے کہا تھا کہ پھر وہی اسکرپٹ کو نہ جانے کتنی بار نیا کر کے استعمال کر رہے ہیں لیکن کسی کو شک تک نہیں ہوا ہے کہ اسکرپٹ وہی پرانا ہے جو ہر بار نئی ''فلم'' کے نام سے چلایا جاتا ہے، اور اس کمال کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فلم سازوں نے یہ کمال پیدا کیا ہوا ہے کہ اس میں خلاف توقع ٹوئسٹ ڈال دیے جاتے ہیں۔
ان کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ جمہوری قبا میں نیلم پری کے بجائے دیو استبداد چھپا ہوا ہے ہر بار غلط ہوتے ہیں اور پھر غلط ہونے کے لیے بار بار آتے رہتے ہیں
دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذت درد
کام یاروں کا بقدر لب و دندان نکلا
ایک طبلہ نوازی کو دیکھیے اس کے لیے باقاعدہ ملکی سطح پر دو بڑے بڑے سینٹر کھولے ہوئے ہیں، پھر ہر صوبے میں بھی ایک بڑا سینٹر ہوتا ہے اس کے بعد بتدریخ اضلاع، تحصیلوں بلکہ ویلج سینٹر ایک جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں جہاں منتخب لوگ بیٹھ کر طبلہ بجانے کا ریاض کرتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ ان سینٹروں میں ''طبلے'' خریدنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ڈسک ہی کو طبلہ سمجھ کر بجایا جاتا ہے
تادھا دیکڑک دیکڑک دھا
دھا دھا دھا دھا دیکڑک تاتاتا
یقین کریں ویسے تو طبلے کا ریاض جن سینٹروں میں کیا جاتا ہے وہاں ہم جیسے ہما شما اور موسیقی سے نابلد لوگوں کا گزر تو ممکن نہیں ہے لیکن کبھی کبھی ٹی وی پر طبلہ نوازی کے یہ مظاہرے دیکھنے سننے کو مل جاتے ہیں واہ جی واہ کیا طبلہ بجاتے ہیں ماہر طبلہ نواز۔ وہ کون تھا جو پڑوسی ملک کا مشہور طبلہ نواز تھا ذاکر حسین یا شاکر حسین ایسا کچھ نام تھا وہ بھی اگر ہمارے منتخب طبلہ نوازوں کا طبلہ سن لے تو فوراً زانوئے تلمند تہہ کرلے، یہ تو ہم نے بڑے بڑے قومی یا صوبائی مراکز طبلہ نوازی کی بات کی جہاں جدی پشتی اور تجربے کار فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور طبلے کا کام ڈسک سے لیتے ہیں لیکن اس سے ذرا کم درجے کے ضلعی تحصیلی اور ویلج اور ٹاؤن سینٹروں تک چونکہ ہماری رسائی ممکن ہے اور اگر جب طبیعت بھاری ہوتی ہے تو کسی قریبی سینٹر میں جا کر لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔
اس سطح کے فن کار تو اور بھی کمال کے ہوتے ہیں جب ڈسک کو بطور طلبہ بجانے سے تسکین نہیں ہوتی تو ایک دوسرے کو طبلہ سمجھ کر وہ بجاتے ہیں، وہ بجاتے ہیں کہ سب کچھ بجنے لگتا ہے، ان ماہرین طبلہ نوازی کو حکومت کی طرف سے کیا کچھ نہیں ملتا ہے، تنخواہیں تو ایک طرف دوسری مراعات بھی بے پناہ ہیں اور ساتھ میں اراضی کے ٹکڑے بھی دیے گئے جہاں یہ جو جی چاہیں بوئیں کاٹیں کھائیں اور کھلائیں، اس کے علاوہ وہ کچھ اور مراعات بھی ہیں جو اتنے خفیہ ہیں کہ ساری دنیا اس سے واقف ہے اس لیے تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں صرف اتنا اشارہ کافی کہ حکومت کے سارے محکموں میں نااہلی کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے والے گھسا سکتے ہیں تاکہ جلد سے جلد تمام اداروں کو خسارے کی سعادت حاصل ہو جائے۔
اب بانسری نوازی پر آتے ہیں اس کی سرپرستی اور نوازی کا تو یہ عالم ہے کہ اخباروں اور چینلوں اور ریڈیو کے ذریعے ہر وقت ہر گھڑی بانسریاں ہی بجتی ہیں جسے سرکاری کاغذات میں بیانات مذاکرات اور مباحثات کہتے ہیں، یہ بانسریاں اتنی اثر دار ہوتی ہیں کہ بہت سارے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر کہیں بھی لے جا کر غرق کیا جا سکتا ہے۔
ایک مشہور اور ماہر بلکہ باہر سے تربیت یافتہ بانسری نواز نے تمام بھوکوں کو پیچھے لگا کر اور روٹی کپڑا مکان کا مشہور نغمہ الاپ کر قبرستان پہنچا دیا ایک دوسرے نے مقدس الاپ بجا کر ایک خلق کو بحیرہ عرب پہنچا دیا، اس کے بعد اور بھی بہت سارے بانسری نواز آئے اور کچھ نہ کچھ لے کر ٹلے کیونکہ پاکستانی عوام ''موسیقی'' پر جان دیتے ہیں خاص طور پر وہ موسیقی جو پاگل کر کے غرق کرے کیوں کہ پاکستان کے لوگ اپنے آپ کو غرق کرنے کے حد درجہ شوقین ہوتے ہیں
ایسے تیراک بھی دیکھے ہیں مظفرؔ ہم نے
غرق ہونے کے لیے بھی جو سہارا چاہیں
آج کل دو بانسری نوازوں کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے ایک جمہوری استحکام اور معاشی ترقی کا نغمہ الاپ رہا ہے اور دوسرا تبدیلی اور نئے پاکستان کا گیت الاپ رہا ہے ایک اور بھی ہے جو صرف پی پی پی کا پپیہا گا رہا ہے، اب سب سے بڑے آلہ موسیقی ڈھول پر آتے ہیں یہ تو تقریباً ہر کسی کے گلے میں ہے اور حتی المقدور اسے پورے زور کے ساتھ بجا رہا ہے، کڑ کڑا کا کڑ کڑا کاکڑ، کچھ تو پرانے بڑے سے ڈھول سے کام چلا رہے ہیں لیکن کچھ کے پاس نئے جدید ڈھول ہیں جو ہیں تو چھوٹے لیکن ان میں ایسے ڈیوائسز فٹ کیے گئے ہیں جو معمولی آواز کو بھی ہزار گنا کر کے سنواتے ہیں۔
ہار مونیم تو آپ جانتے ہیں کہ ایک عوامی آلہ موسیقی ہے اس لیے اس کا تو کہنا ہی کیا، چنانچہ حکومت نے نہایت خوش تدبیری اور مہارت سے کام لے کر اسے تقریباً ''ہر عوام'' کے گلے میں فٹ کیا ہوا ہے۔اور چھوٹوں نے تو اپنی اپنی ڈفلی شروع کی تھی اور مختلف مضامین باندھ رہے تھے بیوی بھی بینجو پر کچھ سر کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن بچوں کے الگ سازوں سے تنگ آکر سب کا طبلہ بجانا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر میں پورا آرکسٹرا بجنے لگا، یہ تو ملک میں موسیقی کی سرپرستی والی بات تھی جو حکومت نہایت ہی مستعدی سے سرانجام دے رہی ہے۔
رہی فلم انڈسٹری کی بات تو ایسا لگتا ہے یہ فلم انڈسٹری والے بڑے بے خبر لوگ ہیں کہ ان کو آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ حکومت نے فلم انڈسٹری کو کتنی وسعت اور ترقی دی ہوئی ہے بلکہ پورے ملک کو فلم انڈسٹری میں تبدیل کر دیا ہوا ہے۔
ہمارے بس میں ہوتا تو سب کو ایک لائن میں لگوا کر آسکر ایوارڈ دے دیتے لیکن آسکر ان گاجر نما امریکیوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہم پاکستانیوں سے پرخاش رکھتے ہیں ورنہ اگر صلاحیتوں پر ہو تو ہر پارٹی کے پاس مستحق اداکاروں کی لائن لگی ہوتی، کیا ڈائیلاگ بولتے ہیں کیا ایکسپریشن دیتے ہیں کیا ایکشن اور ری ایکشن دیتے ہیں اور اسکرپٹ کا تو کہنا ہی کیا ایک ہی اسکرپٹ ہے جو بابا آدم نے بی بی حوا کو سنایا تو اس نے کہا تھا کہ پھر وہی اسکرپٹ کو نہ جانے کتنی بار نیا کر کے استعمال کر رہے ہیں لیکن کسی کو شک تک نہیں ہوا ہے کہ اسکرپٹ وہی پرانا ہے جو ہر بار نئی ''فلم'' کے نام سے چلایا جاتا ہے، اور اس کمال کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فلم سازوں نے یہ کمال پیدا کیا ہوا ہے کہ اس میں خلاف توقع ٹوئسٹ ڈال دیے جاتے ہیں۔
ان کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ جمہوری قبا میں نیلم پری کے بجائے دیو استبداد چھپا ہوا ہے ہر بار غلط ہوتے ہیں اور پھر غلط ہونے کے لیے بار بار آتے رہتے ہیں
دل حسرت زدہ تھا مائدہ لذت درد
کام یاروں کا بقدر لب و دندان نکلا