منجم نے بتایا
صاحب ستارے بولتے ہیں، پانامہ لیکس کا وہی ہو گا جو پہلے میمو گیٹ اسکینڈل کا ہوا۔
نومبر، دسمبر، جنوری... ستارے کیا کہتے ہیں؟ میں نے ایک منجم سے دریافت کیا۔ اس نے مدعا پوچھا۔ میں نے اسے پانامہ لیکس کے کیس کے بارے میں بتایا، PTI کا مستقبل جاننے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے میری بات توجہ سے سنی، پھر ایک کاغذ پر کچھ اعداد تحریر کیے، چند آڑی ترچھی لکیروں سے چوکور Boxes بنائے، جن میں ستاروں کے نام درج کیے۔
کچھ دیر وہ مخمصے میں مبتلا دکھائی دیا، پھر اس نے سب کچھ کاٹ دیا، ایک نیا صفحہ نکال کر سابقہ عمل کو دہرایا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ جیب سے موبائل نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کیا، دوسری جانب غالباً اس کے استاد نما کوئی صاحب تھے، ان سے مشورہ کیا اور کچھ مزید نام دوسرے صفحے پر لکھ کر نئے سرے سے غور و خوض کیا۔ اور یوں گویا ہوا۔ صاحب حساب بن گیا لیکن پہلے ہماری مزدوری ادا کرو۔ میں نے کہا اعتبار نہیں، کیا شکل سے میں ٹھگ نظر آتا ہوں۔
اس نے کہا ایسا نہیں، دراصل لوگ ہم سے بات پوچھ لیتے ہیں اور پھر کچھ دیے بغیر چلتے بنتے ہیں۔ میں اس کی مجبوری سمجھ گیا اور فوراً اس کا مطالبہ پورا کیا۔ چلو اب تو راضی ہو۔ اب بتاؤ تمہیں کیا جواب ملا۔ منجم نے پیسے جیب میں ڈالے اور کسی قدر پرسکون انداز میں بولا۔ صاحب آج آپ میرے پہلے گاہک ہو، یقین کرو صبح سے کچھ نہیں کھایا، اللہ نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا، اس لیے میں جو کہوں اس پر یقین مت کرنا، کیونکہ ستاروں کو اپنا پتہ نہیں، دوسروں کے حالات کیا بتائیں گے، غیب کی خبر صرف اس ذات (اللہ) کو ہے، جو غیب کا مالک ہے، یہ ہم جو بیٹھے ہیں تو آپ نے دیکھا ہم اپنے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے، ستاروں سے کیا بات کریں گے۔ بہرحال دھندا ہے۔
صاحب ستارے بولتے ہیں، پانامہ لیکس کا وہی ہو گا جو پہلے میمو گیٹ اسکینڈل کا ہوا۔ یعنی رات گئی بات گئی۔ دوسرا آپ نے پوچھا عمران خان اور اس کی جماعت کا۔ ہمارے پاس جواب ہے 2018ء کا الیکشن حیران کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ بظاہر PML-N حکومت دوبارہ برسر اقتدار آتی دکھائی دے رہی ہے لیکن 2018ء تک حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہوں گے کہ عمران خان جیت جائیں گے۔ مرکز میں ان کی حکومت ہو گی۔ KPK میں بھی وہی ہوں گے، البتہ سندھ، بلوچستان میں PPP اور سردار حکومت بنائیں گے۔
میں نے سوال کیا اور MQM کا کیا معاملہ رہے گا، مسلم لیگ (ن) کیا اپوزیشن میں بیٹھے گی؟ اس نے کہا صاحب آپ نے دو سوالوں کے پیسے دیے تھے، یہ دو سوال بعد والے اضافی ہیں۔ میں نے جھلا کے جیب میں ہاتھ ڈالا اور 2 سو روپے نکال کر اسے تھمائے۔ اس نے خوش ہو کر رکھ لیے، پھر اسی طرح کا حساب کر کے بولا MQM اب ایک نہیں، جتنی ہیں، کراچی، حیدرآباد کی سیٹیں ان میں تقسیم ہو جائیں گی۔ بعد میں وہ سب اتحاد بنا کر ایک ہو جائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کا اور پی ٹی آئی کا فرق نشستوں کے حساب سے زیادہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا مسلم لیگ بیٹھے گی تو اپوزیشن میں، لیکن عمران خان کے دور حکومت میں وہ بھی اپوزیشن غضب کرے گی۔ بلکہ اس سے زیادہ جو عمران خان کر رہا ہے یہی دھرنے، لانگ مارچ ہوں گے۔ یہ کہہ کر اس نے زور دے کر کہا کہ لیکن میں نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ آپ میری بات کا یقین نہ کرنا۔ یہ سب بس دھندے پانی کی بات ہے، آنے والے وقت کی خبر صرف قدرت والے کو ہے۔ باقی آپ جیسے صاحب لوگ ہمارے کھانے کا انتظام کر دیتے ہیں۔
میں 400 روپے خرچ کر چکا تھا، اب افسوس ہو رہا تھا کہ کیوں کیے۔ مجھے کیا لینا دینا ان خبروں سے۔ کوئی آئے کوئی جائے۔ میرا نفع نقصان کیا۔ میں تو ان 20 کروڑ لوگوں میں سے ایک فرد ہوں جنھیں ستاروں سے زیادہ پتہ ہے کہ ان کے حالات کم ازکم ان کی زندگی میں تو نہیں بدلنے والے۔ وہ مسائل کی جس دلدل میں پھنسے ہیں مہنگائی، بے روزگاری کی جس چکی میں پس رہے ہیں۔ اگر ستاروں کو قوت گویائی مل جائے اور پکار کر ان سے کہیں کہ 2017ء ، 2018ء میں ان کے حالات بہتر ہو جائیں گے تو بھی وہ یقین نہ کریں گے۔ بہرحال میں شکستہ قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ نجومی ایک ہوٹل کی طرف۔
کچھ آگے چل کر میں نے اس کی باتوں پر غور کرنا شروع کیا تو وہ مجھے کچھ ایسی بعیداز قیاس محسوس نہیں ہوئیں کہ انھیں دیوانے کی بڑ قرار دیا جائے، بلکہ مجھے لگا کہ اس کی خبر، جو میرے نزدیک ایک تبصرہ ہی تھی اچھے بھلے میڈیا اینکرز سے بہتر تھی۔ دیکھا جائے تو ابھی 2018ء میں ڈیڑھ برس کا عرصہ موجود ہے۔ سوچا جائے تو عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کی جو بھی وجہ رہی ہو، لیکن عوام کو اس کا فائدہ ہوا۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔
حکومت نے پٹرول مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھیں، بجلی کی قیمت میں دو روپے کچھ پیسے کمی کی، حکومت جسے اونگھنے کی مسلسل شکایت ہے، عمران خان کے موجودہ احتجاج نے اسے پھر سے چاق و چوبند کر دیا۔ اب وہ پھر مستعد ہے۔ وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزرا، پارٹی عہدیدار متحرک۔ تو کیا ہمیں عمران خان کو شکریہ کہنا چاہیے۔
بحیثیت قوم ان کا ممنون و مشکور ہونا چاہیے۔ اب سامنے نجومی ہے نہ ستارے، لیکن ہمارا مشترکہ جواب ہونا چاہیے ''ہاں''۔ کیونکہ آج ملک کی ترقی میں جہاں پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور عسکری قیادت کی بے مثال جرأت، بہادری اور اصول پسندی کا کلیدی کردار ہے۔ وہاں ایک حقیقی اپوزیشن کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جس کے سرخیل عمران خان ہیں۔ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے۔
ہم عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں ان کے لب و لہجے پر نقطہ چینی ہو سکتی ہے، لیکن ان کی ایمانداری، حب الوطنی، راست گوئی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اور جن معاملات پر انھوں نے حکومت کی مخالفت کی، وہ عمل بالکل درست تھا اور ہے۔ اگرچہ بے ایمانوں کا ایک ٹولہ ان کے ہمراہ بھی دائیں بائیں موجود ہے۔ اور ان سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ جب تک آپ ایک صاف ستھری ٹیم میدان میں نہیں اتاریں گے ناقدین، ناظرین کرپشن کے خلاف آپ کی جدوجہد سے مطمئن نہ ہوں گے لیکن وہ اپنی ذات سے بہتر ہیں اس میں شک نہیں۔
مجھے یاد آیا کہ میں منجم سے ایک سوال کرنا بھول گیا کہ نومبر میں ہمارے عزیز از جان اور مقبول ترین آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ریٹائر ہو رہے ہیں اس معاملے میں ستاروں کی رائے کیا ہے؟ بہرحال اب تو دیر ہو چکی البتہ خلق خدا جسے ہم عوام بھی کہتے ہیں وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں یہ میں جانتا ہوں۔ وہ حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملکی حالات، سرحدی حالات، آپریشن ضرب عضب، کراچی، کوئٹہ، چائنا راہداری اور 20 کروڑ عوام کی حالت زار یہ فوری تقاضا کر رہی ہے کہ آپ کسی بھی طرح جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں کم ازکم 3 سال کی توسیع پر انھیں رضامند کریں۔
دیکھیے میں یہ کہہ کر آرمی چیف کے بعد سینئر جنرلز کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر خدانخواستہ کسی تحفظ کا اظہار نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ میری ذاتی خواہش ہے۔ بلکہ پوری قوم کی آواز ہے۔ ملک کے موجودہ حالات متقاضی ہیں، اگر یہ ممکن ہے تو بہت بہتر اور ممکن نہیں تو اسے ممکن بنائیے۔
کچھ دیر وہ مخمصے میں مبتلا دکھائی دیا، پھر اس نے سب کچھ کاٹ دیا، ایک نیا صفحہ نکال کر سابقہ عمل کو دہرایا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ جیب سے موبائل نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کیا، دوسری جانب غالباً اس کے استاد نما کوئی صاحب تھے، ان سے مشورہ کیا اور کچھ مزید نام دوسرے صفحے پر لکھ کر نئے سرے سے غور و خوض کیا۔ اور یوں گویا ہوا۔ صاحب حساب بن گیا لیکن پہلے ہماری مزدوری ادا کرو۔ میں نے کہا اعتبار نہیں، کیا شکل سے میں ٹھگ نظر آتا ہوں۔
اس نے کہا ایسا نہیں، دراصل لوگ ہم سے بات پوچھ لیتے ہیں اور پھر کچھ دیے بغیر چلتے بنتے ہیں۔ میں اس کی مجبوری سمجھ گیا اور فوراً اس کا مطالبہ پورا کیا۔ چلو اب تو راضی ہو۔ اب بتاؤ تمہیں کیا جواب ملا۔ منجم نے پیسے جیب میں ڈالے اور کسی قدر پرسکون انداز میں بولا۔ صاحب آج آپ میرے پہلے گاہک ہو، یقین کرو صبح سے کچھ نہیں کھایا، اللہ نے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا، اس لیے میں جو کہوں اس پر یقین مت کرنا، کیونکہ ستاروں کو اپنا پتہ نہیں، دوسروں کے حالات کیا بتائیں گے، غیب کی خبر صرف اس ذات (اللہ) کو ہے، جو غیب کا مالک ہے، یہ ہم جو بیٹھے ہیں تو آپ نے دیکھا ہم اپنے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے، ستاروں سے کیا بات کریں گے۔ بہرحال دھندا ہے۔
صاحب ستارے بولتے ہیں، پانامہ لیکس کا وہی ہو گا جو پہلے میمو گیٹ اسکینڈل کا ہوا۔ یعنی رات گئی بات گئی۔ دوسرا آپ نے پوچھا عمران خان اور اس کی جماعت کا۔ ہمارے پاس جواب ہے 2018ء کا الیکشن حیران کن نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ بظاہر PML-N حکومت دوبارہ برسر اقتدار آتی دکھائی دے رہی ہے لیکن 2018ء تک حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہوں گے کہ عمران خان جیت جائیں گے۔ مرکز میں ان کی حکومت ہو گی۔ KPK میں بھی وہی ہوں گے، البتہ سندھ، بلوچستان میں PPP اور سردار حکومت بنائیں گے۔
میں نے سوال کیا اور MQM کا کیا معاملہ رہے گا، مسلم لیگ (ن) کیا اپوزیشن میں بیٹھے گی؟ اس نے کہا صاحب آپ نے دو سوالوں کے پیسے دیے تھے، یہ دو سوال بعد والے اضافی ہیں۔ میں نے جھلا کے جیب میں ہاتھ ڈالا اور 2 سو روپے نکال کر اسے تھمائے۔ اس نے خوش ہو کر رکھ لیے، پھر اسی طرح کا حساب کر کے بولا MQM اب ایک نہیں، جتنی ہیں، کراچی، حیدرآباد کی سیٹیں ان میں تقسیم ہو جائیں گی۔ بعد میں وہ سب اتحاد بنا کر ایک ہو جائیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کا اور پی ٹی آئی کا فرق نشستوں کے حساب سے زیادہ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا مسلم لیگ بیٹھے گی تو اپوزیشن میں، لیکن عمران خان کے دور حکومت میں وہ بھی اپوزیشن غضب کرے گی۔ بلکہ اس سے زیادہ جو عمران خان کر رہا ہے یہی دھرنے، لانگ مارچ ہوں گے۔ یہ کہہ کر اس نے زور دے کر کہا کہ لیکن میں نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ آپ میری بات کا یقین نہ کرنا۔ یہ سب بس دھندے پانی کی بات ہے، آنے والے وقت کی خبر صرف قدرت والے کو ہے۔ باقی آپ جیسے صاحب لوگ ہمارے کھانے کا انتظام کر دیتے ہیں۔
میں 400 روپے خرچ کر چکا تھا، اب افسوس ہو رہا تھا کہ کیوں کیے۔ مجھے کیا لینا دینا ان خبروں سے۔ کوئی آئے کوئی جائے۔ میرا نفع نقصان کیا۔ میں تو ان 20 کروڑ لوگوں میں سے ایک فرد ہوں جنھیں ستاروں سے زیادہ پتہ ہے کہ ان کے حالات کم ازکم ان کی زندگی میں تو نہیں بدلنے والے۔ وہ مسائل کی جس دلدل میں پھنسے ہیں مہنگائی، بے روزگاری کی جس چکی میں پس رہے ہیں۔ اگر ستاروں کو قوت گویائی مل جائے اور پکار کر ان سے کہیں کہ 2017ء ، 2018ء میں ان کے حالات بہتر ہو جائیں گے تو بھی وہ یقین نہ کریں گے۔ بہرحال میں شکستہ قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ نجومی ایک ہوٹل کی طرف۔
کچھ آگے چل کر میں نے اس کی باتوں پر غور کرنا شروع کیا تو وہ مجھے کچھ ایسی بعیداز قیاس محسوس نہیں ہوئیں کہ انھیں دیوانے کی بڑ قرار دیا جائے، بلکہ مجھے لگا کہ اس کی خبر، جو میرے نزدیک ایک تبصرہ ہی تھی اچھے بھلے میڈیا اینکرز سے بہتر تھی۔ دیکھا جائے تو ابھی 2018ء میں ڈیڑھ برس کا عرصہ موجود ہے۔ سوچا جائے تو عمران خان کے دھرنا ختم کرنے کی جو بھی وجہ رہی ہو، لیکن عوام کو اس کا فائدہ ہوا۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔
حکومت نے پٹرول مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھیں، بجلی کی قیمت میں دو روپے کچھ پیسے کمی کی، حکومت جسے اونگھنے کی مسلسل شکایت ہے، عمران خان کے موجودہ احتجاج نے اسے پھر سے چاق و چوبند کر دیا۔ اب وہ پھر مستعد ہے۔ وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزرا، پارٹی عہدیدار متحرک۔ تو کیا ہمیں عمران خان کو شکریہ کہنا چاہیے۔
بحیثیت قوم ان کا ممنون و مشکور ہونا چاہیے۔ اب سامنے نجومی ہے نہ ستارے، لیکن ہمارا مشترکہ جواب ہونا چاہیے ''ہاں''۔ کیونکہ آج ملک کی ترقی میں جہاں پاک فوج کا آپریشن ضرب عضب ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور عسکری قیادت کی بے مثال جرأت، بہادری اور اصول پسندی کا کلیدی کردار ہے۔ وہاں ایک حقیقی اپوزیشن کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جس کے سرخیل عمران خان ہیں۔ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے۔
ہم عمران خان کے طرز سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں ان کے لب و لہجے پر نقطہ چینی ہو سکتی ہے، لیکن ان کی ایمانداری، حب الوطنی، راست گوئی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اور جن معاملات پر انھوں نے حکومت کی مخالفت کی، وہ عمل بالکل درست تھا اور ہے۔ اگرچہ بے ایمانوں کا ایک ٹولہ ان کے ہمراہ بھی دائیں بائیں موجود ہے۔ اور ان سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ جب تک آپ ایک صاف ستھری ٹیم میدان میں نہیں اتاریں گے ناقدین، ناظرین کرپشن کے خلاف آپ کی جدوجہد سے مطمئن نہ ہوں گے لیکن وہ اپنی ذات سے بہتر ہیں اس میں شک نہیں۔
مجھے یاد آیا کہ میں منجم سے ایک سوال کرنا بھول گیا کہ نومبر میں ہمارے عزیز از جان اور مقبول ترین آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ریٹائر ہو رہے ہیں اس معاملے میں ستاروں کی رائے کیا ہے؟ بہرحال اب تو دیر ہو چکی البتہ خلق خدا جسے ہم عوام بھی کہتے ہیں وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں یہ میں جانتا ہوں۔ وہ حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ملکی حالات، سرحدی حالات، آپریشن ضرب عضب، کراچی، کوئٹہ، چائنا راہداری اور 20 کروڑ عوام کی حالت زار یہ فوری تقاضا کر رہی ہے کہ آپ کسی بھی طرح جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں کم ازکم 3 سال کی توسیع پر انھیں رضامند کریں۔
دیکھیے میں یہ کہہ کر آرمی چیف کے بعد سینئر جنرلز کی پیشہ ورانہ صلاحیت پر خدانخواستہ کسی تحفظ کا اظہار نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ میری ذاتی خواہش ہے۔ بلکہ پوری قوم کی آواز ہے۔ ملک کے موجودہ حالات متقاضی ہیں، اگر یہ ممکن ہے تو بہت بہتر اور ممکن نہیں تو اسے ممکن بنائیے۔