اب شاید امریکہ ’یونائیٹڈ‘ امریکہ نہ رہ سکے
اگرٹرمپ حکومتی ذمہ داریاں نبھاتےہوئےاپنابیانیہ تبدیل نہ کرسکےتوشاید ہی امریکہ بطوریونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ قائم رہ سکے
BANNU:
امریکی عام انتخابات کو آج تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی قدرے غیر متوقع کامیابی نے نہ صرف تمام تجزیہ کاروں بلکہ سیاسی پنڈتوں کو بھی حیران کردیا۔ امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت اور خاص کر مسلمانوں کا ابتدائی ردعمل خوف، مایوسی اور بے چارگی کا رہا کہ کس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے امریکہ جیسے ملک جو ساری دنیا کے لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھ کر ہر نئے آنے والے کو نہ صرف خوش آمدید کہتا ہے بلکہ اپنی وسیع القلبی اور بے پناہ وسائل کے ساتھ ایسا سازگار ماحول دینا ہے جو وہ اپنے ممالک میں حاصل نہیں کرسکے، وہ ان تاریک راہوں پر چل پڑا جن پر چل کر کوئی قوم ترقی پاسکی اور نہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھ سکی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے امریکی معاشرے کے بارے میں سفید فام نسل پرست معاشرے کا جو تاثر اُبھرا ہے یقیناً اس میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ جو قوتیں سفید فام لوگوں کی برتری کی قائل تھیں یا ہیں وہ کھل کر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑی تھیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کُھل کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے جس طرح مسلمانوں، ہم جنس پرستوں، ہسپانوی اور سیاہ فام آبادی کے لئے جارحانہ اور تحقیر آمیز رویہ کو اپنایا وہ یقیناً اُن کے نسل پرست ہونے کا بھرپور تاثر دیتا ہے، دیکھنا اب یہ ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں وہ اس تاثر کو ایک حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کریں گے یا "جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے" کے مصداق اس الیکشن کی وجہ سے منقسم امریکی معاشرے کو جوڑنے کے لئے کوشش کریں گے۔ میرا خیال ہے وہ دوسرا راستہ اختیار کریں گے۔
اِس الیکشن کے نتائج کی روشنی میں مسلمان ممالک اور خاص کر پاکستان میں ہر شخص امریکی معاشرے کو مجموعی طور پر مسلمان دشمن، نسل پرست، کمتر اخلاقی حیثیت والا معاشرہ کہہ اور سمجھ رہا ہے جو ساری دنیا میں رواداری، انصاف پسندی اور عدم تشدد پسندی کا درس دیتا ہے لیکن یہاں حکمرانی کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جو کھلے عام جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔
میرے خیال میں یہ تاثر بے بنیاد ہے۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ سے تقریباً دو لاکھ ووٹ زیادہ دیئے، پھر وہ کامیاب کیوں نہ ہوسکیں اس کے سمجھنے کے لئے میرا گزشتہ مضمون جو امریکن انتخابی نظام کے بارے میں ہے دیکھئے کہ کس طرح صدر کا انتخاب Electoral Vote کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (پہلا حصہ)
امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (دوسرا حصہ)
امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (تیسرا حصہ)
دوسری اہم بات یہ کہ 231 ملین ووٹرز میں سے صرف 130 ملین ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً آدھی آبادی نے جو کہ ووٹ ڈالنے کے حقدار تھے اپنا حق استعمال نہیں کیا۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو صرف 27 فیصد ووٹرز نے ٹرمپ کو کامیاب کرایا اور اگر امریکہ کی مجموعی آبادی کے حوالے سے دیکھیں تو صرف 18 فیصد لوگوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو قبول کیا۔
ان 18 فیصد لوگوں میں یقیناً وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ایجنڈا سفید فاموں کی برتری قائم کرنا ہے۔ لیکن ان 27 یا 18 فیصد لوگوں میں ایک بڑی اکثریت ان کی ہے جو امریکہ کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام سےاب تک کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ اُٹھا سکے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک عیار موقع پرست سرمایہ دار اور سیاستدان کے طور پر اس طبقہ کی محرومیوں سے فائدہ اُٹھایا اور خوف اور نفرت کو اپنے ہتھیار کے طور پر بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ مسلمانوں کی بے بنیاد دہشتگردی سے خوف دلایا اور اس سیاسی نظام سے نفرت سکھائی جس نے جان بوجھ کر امریکہ کے نچلے اور متوسط طبقہ کو خوب استعمال کیا لیکن جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام فوائد میں انہیں کوئی حصہ نہ دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے خود ایک بڑے سرمایہ دار ہوتے ہوئے، اپنی گفتگو کی سحر بیانی سے عوام کے مسائل کو دوٹوک الفاظ میں بیان کیا کہ عام ووٹر یہ سوچتے ہوئے،
ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یقیناً ان 20، 25 فیصد لوگوں میں اک چھوٹی سی اقلیت ان لوگوں کی بھی ہے جو گزشتہ ساٹھ، ستر برس سے اندرون خانہ سفید فام برتری کے ایجنڈا پر کام کر رہے تھے اور اب اس بظاہر سازگار ماحول سے فائدہ اُٹھا کر تارکین وطن اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف جارحانہ انداز میں سامنے آئیں گے اور وقتی طور سے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن اس بات کی بھی قوی توقع ہے کہ وہ ستر، پچھتر فیصد آبادی جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دے کر اس کی نفرت بھری پالیسیوں کو مسترد کردیا، بھرپور انداز میں سفید فام برتری کے ایجنڈا والوں کا راستہ روکیں گے۔
توقع تو یہ بھی ہے کہ امریکی ادارے اور سیاسی اشرافیہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شتر بے مہار کو قابو میں رکھیں گے تاکہ اس دو سو سالہ جمے جمائے معاشرے کا شیرازہ نہ بکھرنے پائے، لیکن اگر ٹرمپ حکومتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے بیانیہ کو تبدیل نہ کرسکے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکہ بطور یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ قائم رہ سکے۔
[poll id="1264"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
امریکی عام انتخابات کو آج تقریباً ایک ہفتہ گزر چکا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی قدرے غیر متوقع کامیابی نے نہ صرف تمام تجزیہ کاروں بلکہ سیاسی پنڈتوں کو بھی حیران کردیا۔ امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت اور خاص کر مسلمانوں کا ابتدائی ردعمل خوف، مایوسی اور بے چارگی کا رہا کہ کس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے امریکہ جیسے ملک جو ساری دنیا کے لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھ کر ہر نئے آنے والے کو نہ صرف خوش آمدید کہتا ہے بلکہ اپنی وسیع القلبی اور بے پناہ وسائل کے ساتھ ایسا سازگار ماحول دینا ہے جو وہ اپنے ممالک میں حاصل نہیں کرسکے، وہ ان تاریک راہوں پر چل پڑا جن پر چل کر کوئی قوم ترقی پاسکی اور نہ اپنی حیثیت کو برقرار رکھ سکی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے امریکی معاشرے کے بارے میں سفید فام نسل پرست معاشرے کا جو تاثر اُبھرا ہے یقیناً اس میں کسی حد تک صداقت ہوسکتی ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ جو قوتیں سفید فام لوگوں کی برتری کی قائل تھیں یا ہیں وہ کھل کر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑی تھیں اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کُھل کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پوری انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے جس طرح مسلمانوں، ہم جنس پرستوں، ہسپانوی اور سیاہ فام آبادی کے لئے جارحانہ اور تحقیر آمیز رویہ کو اپنایا وہ یقیناً اُن کے نسل پرست ہونے کا بھرپور تاثر دیتا ہے، دیکھنا اب یہ ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں وہ اس تاثر کو ایک حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کریں گے یا "جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے" کے مصداق اس الیکشن کی وجہ سے منقسم امریکی معاشرے کو جوڑنے کے لئے کوشش کریں گے۔ میرا خیال ہے وہ دوسرا راستہ اختیار کریں گے۔
اِس الیکشن کے نتائج کی روشنی میں مسلمان ممالک اور خاص کر پاکستان میں ہر شخص امریکی معاشرے کو مجموعی طور پر مسلمان دشمن، نسل پرست، کمتر اخلاقی حیثیت والا معاشرہ کہہ اور سمجھ رہا ہے جو ساری دنیا میں رواداری، انصاف پسندی اور عدم تشدد پسندی کا درس دیتا ہے لیکن یہاں حکمرانی کے لئے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا ہے جو کھلے عام جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔
میرے خیال میں یہ تاثر بے بنیاد ہے۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ سے تقریباً دو لاکھ ووٹ زیادہ دیئے، پھر وہ کامیاب کیوں نہ ہوسکیں اس کے سمجھنے کے لئے میرا گزشتہ مضمون جو امریکن انتخابی نظام کے بارے میں ہے دیکھئے کہ کس طرح صدر کا انتخاب Electoral Vote کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (پہلا حصہ)
امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (دوسرا حصہ)
امریکی انتخابات 2016ء، الیکشن ڈائری (تیسرا حصہ)
دوسری اہم بات یہ کہ 231 ملین ووٹرز میں سے صرف 130 ملین ووٹرز نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً آدھی آبادی نے جو کہ ووٹ ڈالنے کے حقدار تھے اپنا حق استعمال نہیں کیا۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو صرف 27 فیصد ووٹرز نے ٹرمپ کو کامیاب کرایا اور اگر امریکہ کی مجموعی آبادی کے حوالے سے دیکھیں تو صرف 18 فیصد لوگوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو قبول کیا۔
ان 18 فیصد لوگوں میں یقیناً وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ایجنڈا سفید فاموں کی برتری قائم کرنا ہے۔ لیکن ان 27 یا 18 فیصد لوگوں میں ایک بڑی اکثریت ان کی ہے جو امریکہ کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور امریکی سرمایہ دارانہ نظام سےاب تک کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ اُٹھا سکے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک عیار موقع پرست سرمایہ دار اور سیاستدان کے طور پر اس طبقہ کی محرومیوں سے فائدہ اُٹھایا اور خوف اور نفرت کو اپنے ہتھیار کے طور پر بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ مسلمانوں کی بے بنیاد دہشتگردی سے خوف دلایا اور اس سیاسی نظام سے نفرت سکھائی جس نے جان بوجھ کر امریکہ کے نچلے اور متوسط طبقہ کو خوب استعمال کیا لیکن جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام فوائد میں انہیں کوئی حصہ نہ دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے خود ایک بڑے سرمایہ دار ہوتے ہوئے، اپنی گفتگو کی سحر بیانی سے عوام کے مسائل کو دوٹوک الفاظ میں بیان کیا کہ عام ووٹر یہ سوچتے ہوئے،
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے
ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یقیناً ان 20، 25 فیصد لوگوں میں اک چھوٹی سی اقلیت ان لوگوں کی بھی ہے جو گزشتہ ساٹھ، ستر برس سے اندرون خانہ سفید فام برتری کے ایجنڈا پر کام کر رہے تھے اور اب اس بظاہر سازگار ماحول سے فائدہ اُٹھا کر تارکین وطن اور خاص کر مسلمانوں کے خلاف جارحانہ انداز میں سامنے آئیں گے اور وقتی طور سے مسلمانوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن اس بات کی بھی قوی توقع ہے کہ وہ ستر، پچھتر فیصد آبادی جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دے کر اس کی نفرت بھری پالیسیوں کو مسترد کردیا، بھرپور انداز میں سفید فام برتری کے ایجنڈا والوں کا راستہ روکیں گے۔
توقع تو یہ بھی ہے کہ امریکی ادارے اور سیاسی اشرافیہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شتر بے مہار کو قابو میں رکھیں گے تاکہ اس دو سو سالہ جمے جمائے معاشرے کا شیرازہ نہ بکھرنے پائے، لیکن اگر ٹرمپ حکومتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے بیانیہ کو تبدیل نہ کرسکے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکہ بطور یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ قائم رہ سکے۔
[poll id="1264"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔