اے نیر اور جہانگیر بدر
وہ ’’یاری‘‘ کو ’’یاڑی‘‘ کہتا تو یہ لفظ اور بھی اچھا لگنے لگتا تھا
اس کار گاہ جہاں میں انسانوں کا آنا جانا تو لگا ہی رہتا ہے مگر کبھی کبھار جب اوپر تلے کئی غیر معمولی لوگ رخصت ہوں تو موت حقیقت ہونے کے باوجود کچھ زیادہ تلخ ہو جاتی ہے۔ ابھی یاور حیات اور اسلم کولسری کے کفن بھی میلے نہیں ہوئے تھے کہ اے نیر اور جہانگیر بدر کی باری بھی آ گئی، یہ دونوں اپنے اپنے میدان کی اہم اور معروف شخصیات ہونے کے ساتھ ساتھ میرے ذاتی احباب میں بھی شامل تھے، احمد مشتاق کا موت کے حوالے سے ایک بہت توجہ طلب اور انوکھا شعر کچھ یوں ہے کہ
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے' قبریں پرائی ہو گئیں
اور افتخار عارف نے کہا تھا کہ ''جس روز ہمارا کوچ ہو گا' پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی'' قبر اور پھولوں کے اس تعلق کے حوالے سے اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے مگر یہ امر واقعہ ہے کہ تقریباً ہر کلچر میں جانے والوں کی یاد گاروں پر پھول چڑھانے کا رواج بہت قدیم زمانوں سے چلا آرہا ہے۔ ہم لکھنے والے بھی لفظوں ہی کو پھولوں کی شکل دے کر ان احباب کو یاد کرتے ہیں جو اپنے ساتھ ہماری زندگی کا وہ حصہ بھی لے جاتے ہیں جو ان کے یا ان کے فن کے ساتھ گزرا ہوتا ہے۔
اے نیر کا اصل نام آرتھر نیر تھا اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کا تعلق کرسچین کمیونٹی سے تھا، اب یہ کریڈٹ پاکستانی معاشرے کو جاتا ہے کہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس میں تمام مذاہب کے لوگ اس طرح گھل مل کر رہتے ہیں کہ مذاہب کا فرق درمیان سے غائب ہی ہو جاتاہے۔ پاکستان میں پس پردہ گلوکاری یعنی Playback Singing کے حوالے سے نسبتاً بہت کم نام سامنے آئے ہیں بالخصوص اسی کی دہائی سے قبل تو شاید احمد رشدی کے علاوہ کوئی بھی گلوکار ایسا نہیں تھا جو جدید آرکسٹرا کے ساتھ اس کے کھلے ڈلے انداز میں گانے میں مہارت رکھتا ہو جسے عرف عام میں پوپ گانا کہتے ہیں۔
فوک' غزل اور کلاسیکی انداز میں البتہ بہت سے اہم نام ہمیشہ موجود رہے ہیں اے نیر کی آواز کسی حد تک کشور کمار سے ملتی تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی نے فن موسیقی کی روایتی تعلیم اور تربیت حاصل نہیں کی تھی، کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں اپنی فطری صلاحیت کی وجہ سے کسی کمپوزیشن اور گانے کے الفاظ کو یاد کر لیتے تھے۔
اے نیرکی آواز میں نغمگی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص قسم کی گہرائی تھی جو بیک کانوں کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو بھی چھوتی تھی، اس کے گائے ہوئے گیت سننے میں بھلے لگتے تھے اور انھیں ہر آدمی نقل کرنے میں آسانی محسوس کرتا تھا۔ وہ میرے عزیز دوست مرحوم دلدار پرویز بھٹی کے ساتھ جب اسٹیج پر گاتا تو ایک سماں بندھ جاتا تھا، اس کے فنی کیرئیر کے ساتھ حادثاتی طور پر میرا ایک عجیب و غریب اور دلچسپ تعلق قائم ہو گیا کہ اس نے ریڈیو اور ٹی وی دونوں میڈیم میں میرے لکھے ہوئے نغمے سے آغاز کیا، یہ ستر کی دہائی کے وسط کی بات ہے اور اس گیت کے بول تھے
کون آیا ہے
آنکھوں میں اک سایا سا لہرایا ہے
کون آیا ہے
اس کے بعد مرحوم خلیل احمد کی موسیقی میں اس نے میرے ڈرامہ سیریل ''رات'' میں نظم ''تم مرے ساتھ ہو ہمراہ نہیں'' کو گیت کی شکل میں گایا جو آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جو آج سے تیس برس قبل تھا۔ آخری عمر میں وہ جگر مراد آبادی کے اس شعر کی زندہ تفسیر بن گیا تھا کہ
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
رب کریم اس کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ایسے باکمال گلوکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
جہانگیر بدر مرحوم اور میں اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کلاس روم اور مضامین مختلف ہونے کے باوجود نہ صرف ایک ساتھ پڑھے بلکہ عملی زندگی میں داخلے کے بعد بھی ہماری ملاقات اور باہمی محبت ہر دور میں قائم اور سلامت رہی۔ وہ یونیورسٹی کے زمانے میں طلبہ سیاست کے پلیٹ فارم سے بھٹو کے شیدائی اور پیپلز پارٹی کے کارکن کے طور پر ابھرا اور پھر ابھرتا ہی چلا گیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت میں اعتزاز احسن اور گنتی کے چند لوگوں کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے اتنی استقامت' بہادری اور تسلسل سے اپنی پارٹی وفاداری کو ہر دور میں قائم رکھا ہے۔
اس کا لاہوری لہجہ جس میں ''ڑ'' کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے' ہنس مکھ چہرہ اور down to earth قسم کا عوامی انداز اور مزاج ایسی خوبیاں تھیں جن کو اس کے مخالفین نے بھی ہمیشہ سراہا۔ وہ صحیح معنوں میں یاروں کا یار تھا محفل کیسی بھی ہو وہ اپنے پرانے دوستوں سے ہمیشہ خود آگے بڑھ کر ملتا تھا ہر کمٹڈ انسان کی طرح وہ بھی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان کی حفاظت کے لیے سینہ تان کرکھڑا ہو جاتا تھا، اس نے جیلیں کاٹیں' ماریں کھائیں سیاسی حوالے سے عروج و زوال کے مختلف مراحل سے گزرا مگر جس بات کو حق سمجھتا تھا اس پر ہمیشہ پامردی سے قائم رہا وہ ہمیشہ پیار سے مجھے ''کیسے ہو ماموں!'' اور میں ''کیسے ہو بھانجے'' کہہ کر بلاتا تھا اور ہر بار ہم اس مکالمے کا بھرپور لطف اٹھاتے اور مل کر خوب ہنسا کرتے تھے ایک بار پیپلز پارٹی کے برے دنوں میں میں نے کسی تقریب کے دوران اسٹیج سے دو تین بار محبت سے اس کا نام لیا، اب یہ ایک عام سی اور بہت چھوٹی سی بات تھی مگر اس واقعے کے بعد آخری ملاقات تک ہر بار اس نے اتنی محبت اور فخر کے ساتھ اس بات کو دہرایا اور لوگوں سے ذکر کیا کہ خود مجھے ندامت سی ہونے لگی۔
وہ ''یاری'' کو ''یاڑی'' کہتا تو یہ لفظ اور بھی اچھا لگنے لگتا تھا اس کی بے تکلف طبیعت اور مخصوص مزاج کی وجہ سے کئی مزاحیہ ٹی وی شوز میں اس کے خاکے بھی بنائے گئے مگر یہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ وہ غالب کے اس شعر کی زندہ تصویر تھا کہ
وفاداری' بشرط استواری' اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ایسے سادہ دل اور زندگی سے بھرپور لوگ کسی بھی معاشرے کی تہذیبی مضبوطی اور خوش دلی کے مظہر ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی رحلت سے پاکستانی معاشرہ اور پیپلز پارٹی دونوں ایک اچھے اور دلچسپ انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔
رہ گیا مشتاق دل میں رنگ یاد رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے' قبریں پرائی ہو گئیں
اور افتخار عارف نے کہا تھا کہ ''جس روز ہمارا کوچ ہو گا' پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی'' قبر اور پھولوں کے اس تعلق کے حوالے سے اور بھی بہت کچھ کہا گیا ہے مگر یہ امر واقعہ ہے کہ تقریباً ہر کلچر میں جانے والوں کی یاد گاروں پر پھول چڑھانے کا رواج بہت قدیم زمانوں سے چلا آرہا ہے۔ ہم لکھنے والے بھی لفظوں ہی کو پھولوں کی شکل دے کر ان احباب کو یاد کرتے ہیں جو اپنے ساتھ ہماری زندگی کا وہ حصہ بھی لے جاتے ہیں جو ان کے یا ان کے فن کے ساتھ گزرا ہوتا ہے۔
اے نیر کا اصل نام آرتھر نیر تھا اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کا تعلق کرسچین کمیونٹی سے تھا، اب یہ کریڈٹ پاکستانی معاشرے کو جاتا ہے کہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس میں تمام مذاہب کے لوگ اس طرح گھل مل کر رہتے ہیں کہ مذاہب کا فرق درمیان سے غائب ہی ہو جاتاہے۔ پاکستان میں پس پردہ گلوکاری یعنی Playback Singing کے حوالے سے نسبتاً بہت کم نام سامنے آئے ہیں بالخصوص اسی کی دہائی سے قبل تو شاید احمد رشدی کے علاوہ کوئی بھی گلوکار ایسا نہیں تھا جو جدید آرکسٹرا کے ساتھ اس کے کھلے ڈلے انداز میں گانے میں مہارت رکھتا ہو جسے عرف عام میں پوپ گانا کہتے ہیں۔
فوک' غزل اور کلاسیکی انداز میں البتہ بہت سے اہم نام ہمیشہ موجود رہے ہیں اے نیر کی آواز کسی حد تک کشور کمار سے ملتی تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی نے فن موسیقی کی روایتی تعلیم اور تربیت حاصل نہیں کی تھی، کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں اپنی فطری صلاحیت کی وجہ سے کسی کمپوزیشن اور گانے کے الفاظ کو یاد کر لیتے تھے۔
اے نیرکی آواز میں نغمگی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص قسم کی گہرائی تھی جو بیک کانوں کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو بھی چھوتی تھی، اس کے گائے ہوئے گیت سننے میں بھلے لگتے تھے اور انھیں ہر آدمی نقل کرنے میں آسانی محسوس کرتا تھا۔ وہ میرے عزیز دوست مرحوم دلدار پرویز بھٹی کے ساتھ جب اسٹیج پر گاتا تو ایک سماں بندھ جاتا تھا، اس کے فنی کیرئیر کے ساتھ حادثاتی طور پر میرا ایک عجیب و غریب اور دلچسپ تعلق قائم ہو گیا کہ اس نے ریڈیو اور ٹی وی دونوں میڈیم میں میرے لکھے ہوئے نغمے سے آغاز کیا، یہ ستر کی دہائی کے وسط کی بات ہے اور اس گیت کے بول تھے
کون آیا ہے
آنکھوں میں اک سایا سا لہرایا ہے
کون آیا ہے
اس کے بعد مرحوم خلیل احمد کی موسیقی میں اس نے میرے ڈرامہ سیریل ''رات'' میں نظم ''تم مرے ساتھ ہو ہمراہ نہیں'' کو گیت کی شکل میں گایا جو آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جو آج سے تیس برس قبل تھا۔ آخری عمر میں وہ جگر مراد آبادی کے اس شعر کی زندہ تفسیر بن گیا تھا کہ
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
رب کریم اس کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ایسے باکمال گلوکار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
جہانگیر بدر مرحوم اور میں اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کلاس روم اور مضامین مختلف ہونے کے باوجود نہ صرف ایک ساتھ پڑھے بلکہ عملی زندگی میں داخلے کے بعد بھی ہماری ملاقات اور باہمی محبت ہر دور میں قائم اور سلامت رہی۔ وہ یونیورسٹی کے زمانے میں طلبہ سیاست کے پلیٹ فارم سے بھٹو کے شیدائی اور پیپلز پارٹی کے کارکن کے طور پر ابھرا اور پھر ابھرتا ہی چلا گیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت میں اعتزاز احسن اور گنتی کے چند لوگوں کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے اتنی استقامت' بہادری اور تسلسل سے اپنی پارٹی وفاداری کو ہر دور میں قائم رکھا ہے۔
اس کا لاہوری لہجہ جس میں ''ڑ'' کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے' ہنس مکھ چہرہ اور down to earth قسم کا عوامی انداز اور مزاج ایسی خوبیاں تھیں جن کو اس کے مخالفین نے بھی ہمیشہ سراہا۔ وہ صحیح معنوں میں یاروں کا یار تھا محفل کیسی بھی ہو وہ اپنے پرانے دوستوں سے ہمیشہ خود آگے بڑھ کر ملتا تھا ہر کمٹڈ انسان کی طرح وہ بھی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان کی حفاظت کے لیے سینہ تان کرکھڑا ہو جاتا تھا، اس نے جیلیں کاٹیں' ماریں کھائیں سیاسی حوالے سے عروج و زوال کے مختلف مراحل سے گزرا مگر جس بات کو حق سمجھتا تھا اس پر ہمیشہ پامردی سے قائم رہا وہ ہمیشہ پیار سے مجھے ''کیسے ہو ماموں!'' اور میں ''کیسے ہو بھانجے'' کہہ کر بلاتا تھا اور ہر بار ہم اس مکالمے کا بھرپور لطف اٹھاتے اور مل کر خوب ہنسا کرتے تھے ایک بار پیپلز پارٹی کے برے دنوں میں میں نے کسی تقریب کے دوران اسٹیج سے دو تین بار محبت سے اس کا نام لیا، اب یہ ایک عام سی اور بہت چھوٹی سی بات تھی مگر اس واقعے کے بعد آخری ملاقات تک ہر بار اس نے اتنی محبت اور فخر کے ساتھ اس بات کو دہرایا اور لوگوں سے ذکر کیا کہ خود مجھے ندامت سی ہونے لگی۔
وہ ''یاری'' کو ''یاڑی'' کہتا تو یہ لفظ اور بھی اچھا لگنے لگتا تھا اس کی بے تکلف طبیعت اور مخصوص مزاج کی وجہ سے کئی مزاحیہ ٹی وی شوز میں اس کے خاکے بھی بنائے گئے مگر یہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ وہ غالب کے اس شعر کی زندہ تصویر تھا کہ
وفاداری' بشرط استواری' اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ایسے سادہ دل اور زندگی سے بھرپور لوگ کسی بھی معاشرے کی تہذیبی مضبوطی اور خوش دلی کے مظہر ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی رحلت سے پاکستانی معاشرہ اور پیپلز پارٹی دونوں ایک اچھے اور دلچسپ انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔